یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

عورت کیا ہے؟


عورت کیا ہے؟

از قلم ، حضرت علامہ عبد المصطفی اعظمی علیہ الرحمہ۔

عورت ۔    خدا کی بڑی بڑی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔
عورت ۔    دنیا کی آباد کاری اور دینداری میں مردوں کے ساتھ تقریباً برابر کی شریک ہے۔
عورت ۔    مرد کے دل کا سکون' روح کی راحت' ذہن کا اطمینان' بدن کا چین ہے۔
عورت ۔    دنیا کے خوبصورت چہرہ کی ایک آنکھ ہے۔ اگر عورت نہ ہوتی تو دنیا کی صورت کانی ہوتی۔
عورت ۔    آدم علیہ السلام و حضرت حوا کے سوا تمام انسانوں کی ''ماں'' ہے اس لئے وہ سب کے لئے قابل احترام ہے۔
عورت ۔    کا وجود انسانی تمدن کے لئے بے حد ضروری ہے اگر عورت نہ ہوتی تو مردوں کی زندگی جنگلی جانوروں سے بد تر ہوتی۔
عورت ۔    بچپن میں بھائی بہنوں سے محبت کرتی ہے۔ شادی کے بعد شوہر سے محبت کرتی ہے۔ ماں بن کر اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے۔ اس لئے عورت دنیا میں پیار و محبت کاایک ''تاج محل'' ہے۔


بسم اللہ الرحمن الرحيم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

عورت اسلام سے پہلے

اسلام سے پہلے عورتوں کا حال بہت خراب تھا دنیا میں عورتوں کی کوئی عزت و وقعت ہی نہیں تھی مردوں کی نظر میں اس سے زیادہ عورتوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی کہ وہ مردوں کی نفسانی خواہش پوری کرنے کا ایک "کھلونا" تھیں عورتیں دن رات مردوں کی قسم قسم کی خدمت کرتی تھیں اور طرح طرح کے کاموں سے یہاں تک کہ دوسروں کی محنت مزدوری کرکے جو کچھ کماتی تھیں وہ بھی مردوں کو دے دیا کرتی تھیں مگر ظالم مرد پھر بھی ان عورتوں کی کوئی قدر نہیں کرتے تھے بلکہ جانوروں کی طرح ان کو مارتے پیٹتے تھے ذرا ذرا سی بات پر عورتوں کے کان ناک وغیرہ اعضاء کاٹ لیا کرتے تھے اور کبھی قتل بھی کر ڈالتے تھے عرب کے لوگ لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے اور باپ کے مرنے کے بعد اس کے لڑکے جس طرح باپ کی جائیداد اور سامان کے مالک ہو جایا کرتے تھے اسی طرح اپنے باپ کی بیویوں کے مالک بن جایا کرتے تھے اور ان عورتوں کو زبردستی لونڈیاں بنا کر رکھ لیا کرتے تھے عورتوں کو ان کے ماں باپ بھائی بہن یا شوہر کی میراث میں سے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا نہ عورتیں کسی چیز کی مالک ہوا کرتی تھیں عرب کے بعض قبیلوں میں یہ ظالمانہ دستور تھا کہ بیوہ ہو جانے کے بعد عورتوں کو گھر سے باہر نکال کر ایک چھوٹے سے تنگ و تاریک جھونپڑے میں ایک سال تک قید میں رکھا جاتا تھا وہ جھونپڑے سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں نہ غسل کرتی تھیں نہ کپڑے بدل سکتی تھیں کھانا پانی اور اپنی ساری ضرورتیں اسی جھونپڑے میں پوری کرتی تھیں بہت سی عورتیں تو گھٹ گھٹ کر مر جاتی تھیں اور جو زندہ بچ جاتی تھیں تو ایک سال کے بعد ان کے آنچل میں اونٹ کی مینگنیاں ڈال دی جاتی تھیں اور ان کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ کسی جانور کے بدن سے اپنے بدن کو رگڑیں پھر سارے شہر کا اسی گندے لباس میں چکر لگائیں اور ادھر ادھر اونٹ کی مینگنیاں پھینکتی ہوئی چلتی رہیں یہ اس بات کا اعلان ہوتا تھا کہ ان عورتوں کی عدت ختم ہوگئی ہے اسی طرح کی دوسری بھی طرح طرح کی خراب اور تکلیف دہ رسمیں تھیں جو غریب عورتوں کے لئے مصیبتوں اور بلاؤں کا پہاڑ بنی ہوئی تھیں اور بے چاری مصیبت کی ماری عورتیں گھٹ گھٹ کر اور رو رو کر اپنی زندگی کے دن گزارتی تھیں ہندوستان میں تو بیوہ عورتوں کے ساتھ ایسے ایسے دردناک ظالمانہ سلوک کئے جاتے تھے کہ جن کو سوچ سوچ کر کلیجہ منہ کو آجاتا ہے ہندو دھرم میں ہر عورت کے لئے فرض تھا کہ وہ زندگی بھر قسم قسم کی خدمتیں کرکے " پتی پوجا" (شوہر کی پوجا) کرتی رہے اور شوہر کی موت کے بعد اس کی " چتا" کی آگ کے شعلوں پر زندہ لیٹ کرـ" ستی" ہو جائے یعنی شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ عورت بھی جل کر راکھ ہو جائے غرض پوری دنیا میں بے رحم اور ظالم مرد عورتوں پر ایسے ایسے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے تھے کہ ان ظلموں کی داستان سن کر ایک دردمند انسان کے سینے میں رنج وغم سے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے ان مظلوم اور بیکس عورتوں کی مجبوری و لاچاری کا یہ عالم تھا کہ سماج میں نہ عورتوں کے کوئی حقوق تھے نہ ان کی مظلومیت پر دادوفریاد کے لئے کسی قانون کا کوئی سہارا تھا ہزاروں برس تک یہ ظلم و ستم کی ماری دکھیاری عورتیں اپنی اس بے کسی اور لاچاری پر روتی بلبلاتی اور آنسوبہاتی رہیں مگر دنیا میں کوئی بھی ان عورتوں کے زخموں پر مرہم رکھنے والا اور ان کی مظلومیت کے آنسوؤں کو بہن اولاد اور شوہر کی میراثوں کی وارث قرار دی گئیں۔ غرض وہ عورتیں جو مردوں کی جوتیوں سے زیادہ ذلیل و خوار اور انتہائی مجبور و لاچار تھیں وہ مردوں کے دلوں کا سکون اور ان کے گھروں کی ملکہ بن گئیں چنانچہ قرآن مجید نے صاف صاف لفظوں میں اعلان فرمادیا کہ۔

پونچھنے والا دور دور تک نظر نہیں آتا تھا نہ دنیا میں کوئی بھی ان کے دکھ درد کی فریاد سننے والا تھا نہ کسی کے دل میں ان عورتوں کے لئے بال برابر بھی رحم و کرم کا کوئی جذبہ تھا عورتوں کے اس حال زار پر انسانیت رنج و غم سے بے چین اور بے قرار تھی مگر اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ وہ رحمت خداوندی کا انتظار کرے کہ ارحم الراحمین غیب سے کوئی ایسا سامان پیدا فرمادے کہ اچانک ساری دنیا میں ایک انوکھا انقلاب نمودار ہوجائے اور لاچار عورتوں کا سارا دکھ درد دور ہو کر ان کا بیڑاپار ہو جائے چنانچہ رحمت کا آفتاب جب طلوع ہو گیا تو ساری دنیا نے اچانک یہ محسوس کیا کہ ؎

جہاں تاریک تھا' ظلمت کدہ تھا' سخت کالا تھا
کوئی پردے سے کیا نکلا کہ گھرگھرمیں اجالا تھا

عورت اسلام کے بعد

جب ہمارے رسول رحمت حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم خدا کی طرف سے ''دین اسلام'' لے کر تشریف لائے تو دنیا بھر کی ستائی ہوئی عورتوں کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ اور اسلام کی بدولت ظالم مردوں کے ظلم و ستم سے کچلی اور روندی ہوئی عورتوں کادرجہ اس قدر بلند و بالا ہوگیا کہ عبادات و معاملات بلکہ زندگی اور موت کے ہر مرحلہ اور ہر موڑ پر عورتیں مردوں کے دوش بدوش کھڑی ہو گئیں اور مردوں کی برابری کے درجہ پر پہنچ گئیں مردوں کی طرح عورتوں کے بھی حقوق مقرر ہوگئے اور ان کے حقوق کی حفاظت کیلئے خداوندی قانون آسمان سے نازل ہوگئے اوران کے حقوق دلانے کے لئے اسلامی قانون کی ماتحتی میں عدالتیں قائم ہوگئیں عورتوں کو مالکانہ حقوق حاصل ہوگئے چنانچہ عورتیں اپنے مہر کی رقموں' اپنی تجارتوں' اپنی جائدادوں کی مالک بنادی گئیں اور اپنے ماں باپ'بھائی 

خَلَقَ لَکُمۡ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً

    ''اﷲ نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں پیدا کر دیں تاکہ تمہیں ان سے تسکین حاصل ہو اور اس نے تمہارے درمیان محبت و شفقت پیدا کردی۔''(پ21،روم:21)
    اب کوئی مرد بلا وجہ نہ عورتوں کو مار پیٹ سکتا ہے نہ ان کو گھروں سے نکال سکتا ہے اور نہ کوئی ان کے مال و اسباب یا جائدادوں کو چھین سکتا ہے بلکہ ہر مرد مذہبی طور پر عورتوں کے حقوق ادا کرنے پر مجبور ہے چنانچہ خداوند قدوس نے قرآن مجید میں فرمایا کہ۔

وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالْمَعْرُوۡفِ ۪

''عورتوں اور مردوں پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر اچھے سلوک کے ساتھ۔''
اور مرد کے لئے فرمان جاری فرمادیا کہ (پ2،البقرہ:228)

وَعَاشِرُوۡہُنَّ بِالْمَعْرُوۡفِ ۚ

'' اور اچھے سلوک سے عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرو۔'' (پ۴،النساء:۱۹)

             تمام دنیا دیکھ لے کہ دین اسلام نے میاں بیوی کی اجتماعی زندگی کی صدارت اگرچہ مرد کو عطا فرمائی ہے اور مردوں کو عورتوں پر حاکم بنادیا ہے تاکہ نظام خانہ داری میں اگر کوئی بڑی مشکل آن پڑے تو مرد اپنی خداداد طاقت و صلاحیت سے اس مشکل کو حل کردے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جہاں مردوں کے کچھ حقوق عورتوں پر واجب کر دیئے ہیں۔ وہاں عورتوں کے بھی کچھ حقوق مردوں پر لازم ٹھہرا دیئے گئے ہیں۔ اس لئے عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے حقوق میں جکڑے ہوئے ہیں تاکہ دونوں ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کر کے اپنی اجتماعی زندگی کو شادمانی و مسرت کی جنت بنادیں۔ اور نفاق و شقاق اور لڑائی جھگڑوں کے جہنم سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہو جائیں۔
    عورتوں کو درجات و مراتب کی اتنی بلند منزلوں پر پہنچا دینا یہ حضور نبی رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا وہ احسان عظیم ہے کہ تمام دنیا کی عورتیں اگر اپنی زندگی کی آخری سانس تک اس احسان کا شکریہ ادا کرتی رہیں پھر بھی وہ اس عظیم ا لشان احسان کی شکر گزاری کے فرض سے سبکدوش نہیں ہو سکتیں۔ سبحان اﷲ!تمام دنیا کے محسن ا عظم حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی شان رحمت کا کیا کہنا؟

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ماویٰ ضعیفوں کا ملجیٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ

عورت کی زندگی کے چا ر د ور

    عورت کی زندگی کے راستہ میں یوں تو بہت سے موڑ آتے ہیں مگر اس کی زندگی کے چار دور خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ 

     (۱)عورت کا بچپن(۲)عورت بالغ ہونے کے بعد(۳) عورت بیوی بن جانے کے بعد(۴)عورت ماں بن جانے کے بعد
اب ہم عورت کے ان چاروں زمانوں کا اور ان وقتوں میں عورت کے فرائض اور ان کے حقوق کا مختصر تذکرہ صاف صاف لفظوں میں تحریر کرتے ہیں۔ تاکہ ہر عورت ان حقوق و فرائض کو ادا کرکے اپنی زندگی کو دنیا میں بھی خوشحال بنائے اور آخرت میں بھی جنت کی لازوال نعمتوں اوردولتوں سے سر فراز ہو کر مالا مال ہو جائے۔

(۱) عورت کا بچپن

    عورت بچپن میں اپنے ماں باپ کی پیاری بیٹی کہلاتی ہے اس زمانے میں جب تک وہ نا بالغ بچی رہتی ہے شریعت کی طرف سے نہ اس پر کوئی چیز فرض ہوتی ہے نہ اس پر کسی قسم کی ذمہ داریوں کا کوئی بوجھ ہوتا ہے وہ شریعت کی پابندیوں سے بالکل آزاد رہتی ہے اور اپنے ماں باپ کی پیاری اور لاڈلی بیٹی بنی ہوئی کھاتی پیتی' پہنتی اوڑھتی اور ہنستی کھیلتی رہتی ہے اور وہ اس بات کی حقدار ہوتی ہے کہ ماں باپ' بھائی بہن اور سب رشتہ ناتا والے اس سے پیارو محبت کرتے رہیں اور اس کی دل بستگی اور دل جوئی میں لگے رہیں اور اس کی صحت و صفائی اور اس کی عافیت اور بھلائی میں ہر قسم کی انتہائی کوشش کرتے رہیں تاکہ وہ ہر قسم کی فکروں اور رنجوں سے فارغ البال اور ہر وقت خوش و خرم اورخوشحال رہے جب وہ کچھ بولنے لگے تو ماں باپ پر لازم ہے کہ اس کو اﷲ و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا نام سنائیں پھر اس کو کلمہ وغیرہ پڑھائیں جب وہ کچھ اور زیادہ سمجھدار ہو جائے تو اس کو صفائی ستھرائی کے ڈھنگ اور سلیقے سکھائیں اس کو نہایت پیار ومحبت اور نرمی کے ساتھ انسانی شرافتوں کی باتیں بتائیں اور اچھی اچھی باتوں کا شوق اور بری باتوں سے نفرت دلائیں جب پڑھنے کے قابل ہو جائے تو سب سے پہلے اس کو قرآن شریف پڑھائیں۔ جب کچھ اور زیادہ ہوشیار ہوجائے تو اس کو پاکی و ناپاکی وضووغسل وغیرہ کا اسلامی طریقہ بتائیں اور ہر بات اور ہر کام میں اس کو اسلامی آداب سے آگاہ کرتے رہیں۔ جب وہ سات برس کی ہو جائے تو اس کو نماز وغیرہ ضروریات دین کی باتیں تعلیم کریں اور پردہ میں رہنے کی عادت سکھائیں اور برتن دھونے' کھانے پینے' سینے پرونے اور چھوٹے موٹے گھریلو کاموں کا ہنر بتائیں اور عملی طور پر اس سے یہ سب کام لیتے رہیں اور اس کی کاہلی اور بے پروائی اور شرارتوں پرروک ٹوک کرتے رہیں اور خراب عورتوں اور بد چلن گھرانوں کے لوگوں سے میل جول پر پابندی لگادیں اور ان لوگوں کی صحبت سے بچاتے رہیں۔ عاشقانہ اشعار اور گیتوں اورعاشقی معشوقی کے مضامین کی کتابوں سے،گانے بجانے اور کھیل تماشوں سے دور رکھیں تاکہ بچیوں کے اخلاق و عادات اور چال چلن خراب نہ ہو جائیں۔ جب تک بچی بالغ نہ ہو جائے ان باتوں کا دھیان رکھنا ہر ماں باپ کا اسلامی فرض ہے۔ اگر ماں باپ اپنے ان فرائض کو پورا نہ کریں گے تو وہ سخت گناہ گار ہوں گے۔

(۲) عورت جب بالغ ہو جائے

    جب عورت بالغ ہو گئی تو اﷲ و رسول (جل جلالہ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ) کی طرف سے شریعت کے تمام احکام کی پابند ہو گئی۔ اب اس پر نماز' روزہ اور حج و زکوٰۃ کے تمام مسائل پر عمل کرنا فرض ہو گیا اور اﷲ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کو ادا کرنے کی وہ ذمہ دار ہو گئی اب اس پر لازم ہے کہ وہ خدا کے تمام فرضوں کو ادا کرے اور چھوٹے بڑے تمام گناہوں سے بچتی رہے۔اور یہ بھی اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ماں باپ اور بڑوں کی تعظیم و خدمت بجا لائے اور اپنے چھوٹے بھائیوں بہنوں اور دوسرے عزیزواقارب سے پیارو محبت کرے۔ پڑوسیوں اور رشتے ناتے کے تمام چھوٹوں' بڑوں کے ساتھ ان کے مراتب و درجات کے لحاظ سے نیک سلوک اور اچھا برتاؤ کرے۔ اچھی اچھی عادتیں سیکھے اور تمام خراب عادتوں کو چھوڑ دے اور اپنی زندگی کو پورے طور پر اسلامی ڈھانچے میں ڈھال کر سچی پکی پابند شریعت اور ایمان والی عورت بن جائے اور اس کے ساتھ ساتھ محنت و مشقت اور صبر و رضا کی عادت ڈالے مختصریہ کہ شادی کے بعد اپنے اوپر آنے والی تمام گھریلو ذمہ داریوں کی معلومات حاصل کرتی رہے کہ شوہر والی عورت کو کس طرح اپنے شوہر کے ساتھ نباہ کرنا اور اپنا گھر سنبھالنا چاہے وہ اپنی ماں اور بڑی بوڑھی عورتوں سے پوچھ پوچھ کر اس کا ڈھنگ اور سلیقہ سیکھے اور اپنے رہن سہن اور چال چلن کو اس طرح سدھارے اور سنوارے کہ نہ شریعت میں گناہ گار ٹھہرے نہ برادری و سماج میں کوئی اس کو طعنہ مارسکے۔

    کھانے پینے' پہننے اوڑھنے' سونے جاگنے' بات چیت غرض ہر کام ہر بات میں جہاں تک ہو سکے خود تکلیف اٹھائے مگر گھر والوں کو آرام و راحت پہنچائے۔ بغیر ماں باپ کی اجازت کے نہ کو ئی سامان اپنے استعمال میں لائے نہ کسی دوسرے کو دے۔ نہ گھر کا ایک پیسہ یا ایک دانہ ماں باپ کی اجازت کے بغیر خرچ کرے۔ نہ بغیر ماں باپ سے پوچھے کسی کے گھر یا ادھر ادھر جائے۔ غرض ہر کام' ہر بات میں ماں کی اجازت اور رضامندی کو اپنے لئے ضروری سمجھے۔ کھانے' پینے' سینے پرونے' اپنے بدن' اپنے کپڑے اور مکان و سامان کی صفائی غرض سب گھریلو کام دھندوں کا ڈھنگ سیکھ لے اور اس کی عملی عادت ڈال لے تاکہ شادی کے بعد اپنے سسرال میں نیک نامی کے ساتھ زندگی بسر کر سکے اور میکے والوں اور سسرال والوں کے دونوں گھر کی چہیتی اور پیاری بنی رہے۔ پردہ کا خاص طور پر خیال اور دھیان رکھے۔ غیر محرم مردوں اور لڑکوں کے سامنے آنے جانے' تاک جھانک اور ہنسی مذاق سے انتہائی پرہیز رکھے۔ عاشقانہ اشعار' اخلاق کو خراب کر نے والی کتابوں اور رسائل و اخبارات کو ہر گز نہ دیکھے بد کردار اور بے حیاء عورتوں سے بھی پردہ کرے اور ہر گز کبھی ان سے میل جول نہ رکھے کھیل تماشوں سے دور رہے اور مذہبی کتابیں خصوصاََ سیرت المصطفیٰ و سیرت رسول عربی' تمہید ایمان اور میلاد شریف کی کتابیں مثلاََ ''زینۃ المیلاد ''وغیرہ علمائے اہلسنّت کی تصنیفات پڑھتی رہے۔
    فرض عبادتوں کے ساتھ نفلی عبادتیں بھی کرتی رہے۔ مثلاََ تلاوت قرآن و تسبیح فاطمہ میلاد شریف پڑھتی پڑھاتی رہے اور گیارھویں شریف و بارھویں شریف و محرم شریف وغیرہ کی نیاز و فاتحہ بھی کر تی رہے کہ ان اعمال سے دنیا و آ خرت کی بے شمار برکتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ ہر گز ہر گز ان کی بات نہ سنے اور اہل سنت و جماعت کے عقائد و اعمال پر نہایت مضبوطی کے ساتھ قائم رہے۔

(۳) عورت شادی کے بعد

نکاح :۔جب لڑکی بالغ ہو جائے تو ماں باپ پر لازم ہے کہ جلد ازجلد مناسب رشتہ تلاش کر کے اس کی شادی کردیں۔ رشتہ کی تلاش میں خاص طور سے اس بات کا دھیان رکھنا بے حد ضروری ہے کہ ہر گز ہر گز کسی بد مذہب کے ساتھ رشتہ نہ ہونے پائے بلکہ دیندار اور پابند شریعت اور مذہب اہلسنّت کے پابند کو اپنی رشتہ داری کے لئے منتخب کریں بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ عورت سے شادی کرنے میں چار چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔

(۱) دولتمندی (۲) خاندانی شرافت(۳)خوبصورتی(۴) دینداری

   ''لیکن تم دینداری کو ان سب چیزوں پر مقدم سمجھو۔''

(صحیح البخاری، کتاب النکاح ۔۶۷۔باب الاکفاء فی الدین (۱۶)رقم الحدیث ۵۰۹۰، ج۳،ص۴۲۹)

    اولاد کی تمنا اور اپنی ذات کو بدکاری سے بچانے کی نیت کے لئے نکاح کر نا سنت ہے اور بہت بڑے اجر و ثواب کا کام ہے اﷲتعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ۔

وَ اَنۡکِحُوا الْاَیَامٰی مِنۡكُمْ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآئِكُمْ ؕ

''یعنی تم لوگ بے شوہر والی عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے نیک چلن غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کر دو۔''   (پ18،النور:32)
    حدیث شریف میں ہے کہ توراۃ شریف میں لکھا ہے کہ ----- ''جس شخص کی لڑکی بارہ برس کی عمر کو پہنچ گئی اور اس نے اس لڑکی کا نکاح نہیں کیا اور وہ لڑکی بدکاری کے گناہ میں پڑگئی تو اس کا گناہ لڑکی والے کے سرپر بھی ہوگا۔''

(مشکوۃ المصابیح ، کتاب النکاح، باب الولیّ فی النکاح الخ ، رقم ۳۱۳۹،ج۲، ص۲۱۲)

    دوسری حدیث میں ہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ۔
    ''اﷲ تعالیٰ نے تین شخصوں کی امداد اپنے ذمہ کرم پر لی ہے۔ (۱)وہ غلام جو اپنے آقا سے آزاد ہونے کے لئے کسی قدر رقم ادا کرنے کا عہد کرے اور اپنے عہد کو پورا کرنے کی نیت رکھتا ہو۔ (۲) خدا کی راہ میں جہاد کرنے والا (۳) وہ نکاح کرنے والا یا نکاح کرنے والی جو نکاح کے ذریعہ حرام کاری سے بچنا چاہتا ہو۔''

( الجامع الترمذی، کتاب فضائل الجہاد ، باب ماجاء فی المجاہد والناکح الخ، رقم ۱۶۶۱، ج۳،ص۲۴۷)

    عورت' جب تک اس کی شادی نہیں ہوتی وہ اپنے ماں باپ کی بیٹی کہلاتی ہے مگر شادی ہو جانے کے بعد عورت اپنے شوہر کی بیوی بن جاتی ہے اور اب اس کے فرائض اوراس کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں وہ تمام حقوق و فرائض جو بالغ ہونے کے بعد عورت پر لازم ہو گئے تھے اب ان کے علاوہ شوہر کے حقوق کا بھی بہت بڑا بوجھ عورت کے سر پر آجاتا ہے جس کا اداکرنا ہر عورت کے لئے بہت ہی بڑا فریضہ ہے یاد رکھو کہ شوہر کے حقوق کو اگر عورت نہ ادا کرے گی تو اس کی دنیاوی زندگی تباہ و برباد ہوجائے گی اور آخرت میں وہ دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جلتی رہے گی اور اس کی قبر میں سانپ بچھو اس کو ڈستے رہیں گے اور دونوں جہاں میں ذلیل و خوار اور طرح طرح کے عذابوں میں گرفتار رہے گی۔ اس لئے شریعت کے حکم کے مطابق ہر عورت پر فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق کو ادا کرتی رہے اور عمر بھر اپنے شوہر کی فرماں برداری و خدمت گزاری کرتی رہے۔

بہترین بیوی کی پہچان :۔

اوپر لکھی ہوئی ہدایتوں کے مطابق سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہترین بیوی کون ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ۔

بہترین بیوی وہ ہے!

(۱)جو اپنے شوہر کی فرماں برداری اور خدمت گزاری کو اپنا فرض منصبی سمجھے۔
(۲)جو اپنے شوہر کے تمام حقوق ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے!
(۳)جو اپنے شوہر کی خوبیوں پر نظر رکھے اور اس کے عیوب اور خامیوں کو نظرانداز کرتی رہے۔
(۴)جو خود تکلیف اٹھا کر اپنے شوہر کو آرام پہنچانے کی کوشش کرتی رہے۔
(۵)جو اپنے شوہر سے اس کی آمدنی سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے اور جو مل جائے اس پر صبرو شکر کے ساتھ زندگی بسر کرے۔
(۶)جو اپنے شوہر کے سوا کسی اجنبی مرد پر نگاہ نہ ڈالے اورنہ کسی کی نگاہ اپنے اوپر پڑنے دے۔
(۷)جو پردے میں رہے اور اپنے شوہر کی عزت و ناموس کی حفاظت کرے۔
(۸)جو شوہر کے مال اور مکان و سامان اور خود اپنی ذات کو شوہر کی امانت سمجھ کر ہر چیز کی حفاظت و نگہبانی کرتی رہے۔
(۹)جو اپنے شوہر کی مصیبت میں اپنی جانی و مالی قربانی کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت دے۔
(۱۰)جو اپنے شوہر کی زیادتی اور ظلم پر ہمیشہ صبر کرتی رہے۔
(۱۱)جو مَیکا اور سسرال دونوں گھروں میں ہر دلعزیز اور باعزت ہو!
(۱۲)جو پڑوسیوں اور ملنے جلنے والی عورتوں کے ساتھ خوش اخلاقی اور شرافت ومروت کا برتاؤ کرے اور سب اس کی خوبیوں کے مداح ہوں!
(۱۳)جو مذہب کی پابند اور دیندار ہو اور حقوق اﷲوحقوق العباد کو ادا کرتی رہے۔
(۱۴)جوسسرال والوں کی کڑوی کڑوی باتوں کو برداشت کرتی رہے۔
(۱۵)جو سب گھروالوں کو کھلا پلا کر سب سے آخر میں خود کھائے پئے۔
ساس بہو کا جھگڑا:۔ہمارے سماج کا یہ ایک بہت قابل افسوس اور درد ناک سانحہ ہے کہ تقریباً ہر گھر میں صدیوں سے ساس بہو کی لڑائی کا معرکہ جاری ہے۔ دنیا کی بڑی سے

بڑی لڑائیوں یہاں تک کہ عالمی جنگوں کا خاتمہ ہو گیا مگر ساس بہو کی جنگ عظیم یہ ایک ایسی منحوس لڑائی ہے کہ تقریباً ہر گھر اس لڑائی کا میدان جنگ بنا ہواہے!
    کس قدر تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ ماں کتنے لاڈ پیار سے اپنے بیٹوں کو پالتی ہے اور جب لڑکے جوان ہو جاتے ہیں تو لڑکوں کی ماں اپنے بیٹوں کی شادی اور ان کا سہرا دیکھنے کے لئے سب سے زیادہ بے چین اور بے قرار رہتی ہے اور گھر گھر کا چکر لگا کر اپنے بیٹے کی دلہن تلاش کرتی پھرتی ہے۔ یہاں تک کہ بڑے پیار اور چاہ سے بیٹے کی شادی رچاتی ہے اور اپنے بیٹے کی شادی کا سہرا دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتی مگر جب غریب دلہن اپنا مَیکا چھوڑ کر اور اپنے ماں باپ' بھائی بہن اور رشتہ ناتا والوں سے جدا ہو کر اپنے سسرال میں قدم رکھتی ہے تو ایک دم ساس بہو کی حریف بن کر اپنی بہو سے لڑنے لگتی ہے اور ساس بہو کی جنگ ہوجاتی ہے اور بے چارہ شوہر ماں اور بیوی کی لڑائی کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان کچلنے اور پسنے لگتا ہے۔ غریب شوہر ایک طرف ماں کے احسانوں کے بوجھ سے دبا ہوا اور دوسری طرف بیوی کی محبت میں جکڑا ہوا ماں اور بیوی کی لڑائی کا منظر دیکھ دیکھ کر کوفت کی آگ میں جلتا رہتا ہے اور اس کے لئے بڑی مشکل یہ آن پڑتی ہے کہ اگر وہ اس لڑائی میں اپنی ماں کی حمایت کرتا ہے تو بیوی کے رونے دھونے اور اس کے طعنوں اور مَیکا چلی جانے کی دھمکیوں سے اس کا بھیجا کھولنے لگتا ہے۔ اور اگر بیوی کی پاسداری میں ایک لفظ بول دیتا ہے تو ماں اپنی چیخ و پکار اور کوسنوں سے سارا گھر سر پر اٹھالیتی ہے اور ساری برادری میں ''عورت کا مرید'' ''زن پرست'' ''بیوی کا غلمٹا'' کہلانے لگتا ہے اور ایسے گرم گرم اور دل خراش طعنے سنتا ہے کہ رنج و غم سے اس کے سینے میں دل پھٹنے لگتاہے۔

    اس میں شک نہیں کہ ساس بہو کی لڑائی میں ساس بہو اور شوہر تینوں کا کچھ نہ کچھ قصور ضرور ہوتا ہے لیکن میرا برسوں کا تجربہ یہ ہے کہ اس لڑائی میں سب سے بڑا ہاتھ ساس کا ہوا کرتا ہے حالانکہ ہر ساس پہلے خود بھی بہو رہ چکی ہوتی ہے۔ مگر وہ اپنے بہو بن کر رہنے کا زمانہ بالکل بھول جاتی ہے اور اپنی بہو سے ضرور لڑائی کرتی ہے اور اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ جب تک لڑکے کی شادی نہیں ہوتی۔ سو فیصدی بیٹے کا تعلق ماں ہی سے ہوا کرتا ہے۔ بیٹا اپنی ساری کمائی اور جو سامان بھی لاتا ہے وہ اپنی ماں ہی کے ہاتھ میں دیتا ہے اور ہر چیز ماں ہی سے طلب کرکے استعمال کرتا ہے اور دن رات سینکڑوں مرتبہ اماں۔ اماں کہہ کر بات بات میں ماں کو پکارتا ہے۔ اس سے ماں کا کلیجہ خوشی سے پھول کر سیر بھر کا ہو جایا کرتا ہے اور ماں اس خیال میں مگن رہتی ہے کہ میں گھر کی مالکن ہوں۔ اور میرا بیٹا میرا فرماں بردار ہے لیکن شادی کے بعد بیٹے کی محبت بیوی کی طرف رخ کر لیتی ہے۔ اور بیٹا کچھ نہ کچھ اپنی بیوی کو دینے اور کچھ نہ کچھ اس سے مانگ کر لینے لگتا ہے تو ماں کو فطری طور پر بڑا جھٹکا لگتا ہے کہ میرا بیٹا کہ میں نے اس کو پال پوس کربڑاکیا۔اب یہ مجھ کو نظر انداز کر کے اپنی بیوی کے قبضہ میں چلا گیا۔ اب اماں ۔ اماں پکارنے کی بجائے بیگم بیگم پکارا کرتا ہے۔ پہلے اپنی کمائی مجھے دیتا تھا ۔ اب بیوی کے ہاتھ سے ہر چیز لیادیا کرتا ہے۔ اب گھر کی مالکن میں نہیں رہی اس خیال سے ماں پر ایک جھلاہٹ سوارہوجاتی ہے اور وہ بہو کو جذبہ حسد میں اپنی حریف اور مد مقابل بنا کر اس سے لڑائی جھگڑا کرنے لگتی ہے اور بہو میں طرح طرح کے عیب نکالنے لگتی ہے اور قسم قسم کے طعنے اور کوسنے دینا شروع کر دیتی ہے بہو شروع شروع میں تو یہ خیال کرکے کہ یہ میرے شوہر کی ماں ہے کچھ دنوں تک چپ رہتی ہے مگرجب ساس حد سے زیادہ بہو کے حلق میں انگلی ڈالنے لگتی ہے تو بہو کو بھی پہلے تو نفرت کی متلی آنے لگتی ہے پھر وہ بھی ایک دم سینہ تان کر ساس کے آگے طعنوں اور کوسنوں کی قے کرنے لگتی ہے اور پھر معاملہ بڑھتے بڑھتے دونوں طرف سے ترکی بہ ترکی سوال و جواب کا تبادلہ ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ گالیوں کی بمباری شروع ہو جاتی ہے۔ پھر بڑھتے بڑھتے اس جنگ کے شعلے ساس اور بہو کے خاندانوں کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ اور دونوں خاندانوں میں بھی جنگ عظیم شروع ہوجاتی ہے۔
    میرے خیال میں اس لڑائی کے خاتمہ کی بہترین صورت یہی ہے کہ اس جنگ کے تینوں فریق یعنی ساس' بہو اور بیٹا تینوں اپنے اپنے حقوق و فرائض ادا کرنے لگیں تو ان شاء اﷲتعالیٰ ہمیشہ کے لئے اس جنگ کا خاتمہ یقینی ہے ان تینوں کے حقوق و فرائض کیا ہیں ؟ان کو بغور پڑھو۔
ساس کے فرائض:۔ہر ساس کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھے اور ہر معاملہ میں اس کے ساتھ شفقت و محبت کا برتا ؤ کرے اگر بہو سے اس کی کمسنی یا نا تجربہ کاری کی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے تو طعنے مارنے اور کوسنے دینے کے بجائے اخلاق و محبت کے ساتھ اس کو کام کا صحیح طریقہ اور ڈھنگ سکھائے اور ہمیشہ اس کا خیال رکھے کہ یہ کم عمر اور نا تجربہ کار لڑکی اپنے ماں باپ سے جداہو کر ہمارے گھر میں آئی ہے اس کے لئے یہ گھر نیا اور اس کا ماحول نیا ہے اس کا یہاں ہمارے سوا کون ہے؟اگر ہم نے اس کا دل دکھایا تو اس کو تسلی دینے والا اوراس کے آنسو پونچھنے والا یہاں دوسرا کون ہے ؟ بس ہر ساس یہ سمجھ لے اور ٹھان لے کہ مجھے اپنی بہو سے ہر حال میں شفقت و محبت کرنی ہے بہو مجھے خواہ کچھ نہیں سمجھے مگر میں تو اس کو اپنی بیٹی ہی سمجھوں گی تو پھر سمجھ لو کہ ساس بہو کا جھگڑا آدھے سے زیادہ ختم ہو گیا۔ 
بَہو کے فرائض:۔ہر بہو کو لازم ہے کہ اپنی ساس کو اپنی ماں کی جگہ سمجھے اورہمیشہ ساس کی تعظیم اور اس کی فرماں برداری و خدمت گزاری کو اپنا فرض سمجھے۔ ساس اگر کسی معاملہ میں ڈانٹ ڈپٹ کرے تو خاموشی سے سن لے۔ اور ہر گز ہرگز' خبردار خبردارکبھی ساس کو پلٹ کر الٹا سیدھا جواب نہ دے بلکہ صبر کرے اسی طرح اپنے خسر کو بھی اپنے باپ کی جگہ جان کر اس کی تعظیم وخدمت کو اپنے لئے لازم سمجھے۔ اور ساس خسر کی زندگی میں ان سے الگ رہنے کی خواہش نہ ظاہر کرے اور اپنی دیورانیوں اور جیٹھانیوں اور نندوں سے بھی حسب مراتب اچھا برتاؤ رکھے اور یہ ٹھان لے کہ مجھے ہر حال میں انہی لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے۔
بیٹے کے فرائض:۔ہر بیٹے کو لازم ہے کہ جب اس کی دلہن گھر آجائے تو حسب دستور اپنی دلہن سے خوب خوب پیار و محبت کرے لیکن ماں باپ کے ادب و احترام اور ان کی خدمت و اطاعت میں ہر گز ہر گز بال برابر بھی فرق نہ آنے دے۔ اب بھی ہر چیز کا لین دین ماں ہی کے ہاتھ سے کرتا رہے اور اپنی دلہن کو بھی یہی تاکید کرتا رہے کہ بغیر میری ماں اور میرے باپ کی رائے کے ہرگز ہر گز نہ کوئی کام کرے نہ بغیر ان دونوں سے اجازت لئے گھر کی کوئی چیز استعمال کرے۔ اس طرز عمل سے ساس کے دل کو سکون و اطمینان رہے گا کہ اب بھی گھر کی مالکہ میں ہی ہوں اور بیٹا بہو دونوں میرے فرماں بردار ہیں۔ پھر ہرگزہرگز کبھی بھی وہ اپنے بیٹے اور بہو سے نہیں لڑے گی جو لڑکے شادی کے بعد اپنی ماں سے لاپروائی برتنے لگتے ہیں اور اپنی دلہن کو گھر کی مالکہ بنا لیا کرتے ہیں۔ عموماً اسی گھر میں ساس بہو کی لڑائیاں ہوا کرتی ہیں لیکن جن گھروں میں ساس بہو اور بیٹے اپنی مذکورہ بالا فرائض کا خیال رکھتے ہیں۔ ان گھروں میں ساس بہو کی لڑائیوں کی نوبت ہی نہیں آتی۔ 
اس لئے بے حد ضروری ہے کہ سب اپنے اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کا خیال و لحاظ رکھیں خداوند کریم سب کو توفیق دے اور ہر مسلمان کے گھر کو امن و سکون کی بہشت بنادے۔(آمین)
بیوی کے حقوق :۔اﷲتعالیٰ نے جس طرح مردوں کے کچھ حقوق عورتوں پر لازم فرمائے ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی کچھ حقوق مردوں پر لازم ٹھہرادیئے ہیں۔ جن کا ادا کرنا مردوں پر فرض ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے۔

وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالْمَعْرُوۡفِ  ۪

یعنی عورتوں کے مردوں کے اوپر اسی طرح کچھ حقوق ہیں جس طرح مردوں کے عورتوں پر' اچھے برتاؤ کے ساتھ(پ2،البقرہ:228) '
اسی طرح رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ ''تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آئیں۔''

 (مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب النکاح ، باب عشرۃ النساء وما لکل واحدۃ من الحقوق ، رقم ۳۲۶۴، ج۲،ص۲۴۰)

    اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ بھی فرمان ہے کہ ''میں تم لوگوں کو عورتوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں لہٰذا تم لوگ میری وصیت کو قبول کرو۔''

 (صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیاء ، باب خلق آدم صلوات اللہ علیہ الخ ، رقم ۳۳۳۱، ج۲،ص۴۱۲)

    اور ایک حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت سے بغض و نفرت نہ رکھے کیونکہ اگر عورت کی کوئی عادت بری معلوم ہوتی ہو تو اسکی کوئی دوسری عادت پسندیدہ بھی ہوگی۔

 (صحیح مسلم ، کتاب الرضاع ۔۱۸۔باب الوصیۃ بالنساء ، رقم ۱۴۶۹،ص۷۷۵)

    حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا کہ کسی عورت کی تمام عادتیں خراب ہی ہوں بلکہ اس میں کچھ اچھی کچھ بری ہر قسم کی عادتیں ہوں گی تو مرد کو چاہے کہ عورت کیصرف خراب عادتوں ہی کو نہ دیکھتا رہے بلکہ خراب عادتوں سے نظر پھر اکر اس کی اچھی عادتوں کو بھی دیکھا کرے۔ بہر حال اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے عورتوں کے کچھ حقوق مردوں کے اوپر لازم قرار دے دیئے ہیں۔ لہٰذا ہر مرد پر ضروری ہے کہ نیچے لکھی ہوئی ہدایتوں پر عمل کرتا رہے ورنہ خدا کے دربار میں بہت بڑا گنہگار اور برادری اور سماج کی نظروں میں ذلیل وخوار ہوگا۔
(۱)ہر شوہر کے اوپر اس کی بیوی کا یہ حق فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کے کھانے' پہننے اور رہنے اور دوسری ضروریات زندگی کا اپنی حیثیت کے مطابق اور اپنی طاقت بھر انتظام کرے اور ہر وقت اس کا خیال رکھے کہ یہ اﷲکی بندی میرے نکاح کے بندھن میں بندھی ہوئی ہے اور یہ اپنے ماں' باپ' بھائی بہن اور تمام عزیزواقارب سے جدا ہو کر صرف میری ہو کررہ گئی ہے اور میری زندگی کے دکھ سکھ میں برابر کی شریک بن گئی ہے اس لئے اس کی زندگی کی تمام ضروریات کا انتظام کرنا میرا فرض ہے۔یاد رکھو! جو مرد اپنی لاپروائی سے اپنی بیویوں کے نان و نفقہ اور اخراجات زندگی کا انتظام نہیں کرتے وہ بہت بڑے گنہگار' حقوق العباد میں گرفتار اور قہر قہار و عذاب نار کے سزاوار ہیں۔
(۲)عورت کا یہ بھی حق ہے کہ شوہر اس کے بستر کا حق ادا کرتا رہے۔ شریعت میں اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے مگر کم سے کم اس قدر تو ہونا چاہے کہ عورت کی خواہش پوری ہو جایا کرے اور وہ ادھر ادھر تاک جھانک نہ کرے جو مرد شادی کرکے بیویوں سے الگ تھلگ رہتے ہیں اور عورت کے ساتھ اس کے بستر کا حق نہیں ادا کرتے وہ حق العباد یعنی بیوی کے حق میں گرفتار اور بہت بڑے گنہگار ہیں۔ اگر خدا نہ کرے شوہر کسی مجبوری سے اپنی عورت کے اس حق کو نہ ادا کر سکے تو شوہر پر لازم ہے کہ عورت سے اس کے اس حق کو معاف کرالے بیوی کے اس حق کی کتنی اہمیت ہے اس بارے میں حضرت امیر المومنین فاروق اعظم رضی اﷲتعالی عنہ کا ایک واقعہ بہت زیادہ عبرت خیزونصیحت آمیز ہے۔ منقول ہے کہ امیرالمومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رات کو رعایا کی خبر گیری کے لئے شہر مدینہ میں گشت کر رہے تھے اچانک ایک مکان سے دردناک اشعار پڑھنے کی آواز سنی۔ آپ اسی جگہ کھڑے ہوگئے اور غور سے سننے لگے تو ایک عورت یہ شعر بڑے ہی دردناک لہجہ میں پڑھ رہی تھی کہ ؎

فَوَ اللہِ لَوْلاَ اللہُ تُخْشٰی عَوَاقِبُہٗ
لَزُحْزِحَ مِنْ ھٰذَا السَّرِیْرِ جَوَانِبُہٗ

''یعنی خدا کی قسم اگر خدا کے عذابوں کا خوف نہ ہوتا تو بلاشبہ اس چارپائی کے کنارے جنبش میں ہو جاتے۔''
    امیر المومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صبح کو تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ عورت کا شوہر جہاد کے سلسلہ میں عرصہ دراز سے باہر گیا ہوا ہے اور یہ عورت اس کو یاد کرکے رنج و غم میں یہ شعر پڑھتی رہتی ہے امیرالمومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دل پر اس کا اتنا گہرا اثر پڑا کہ فوراً  ہی آپ نے تمام سپہ سالاروں کو یہ فرمان لکھ بھیجا کہ کوئی شادی شدہ فوجی چار ماہ سے زیادہ اپنی بیوی سے جدا نہ رہے۔

 (تاریخ ا لخلفاء للسیوطی ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ ،فصل فی نبذ من اخبارہ وقضایاہ،، ص۱۱۰)

 (۳)عورت کو بلا کسی بڑے قصور کے کبھی ہر گز ہر گز نہ مارے۔ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ کوئی شخص عورت کو اس طرح نہ مارے جس طرح اپنے غلام کومارا کرتا ہے پھر دوسرے وقت اس سے صحبت بھی کرے۔

 (صحیح البخاری ، کتاب النکاح ۔ ۹۴۔باب مایکرہ من ضرب النساء ، رقم ۵۲۰۴، ج۳، ص۴۶۵)

    ہاں البتہ اگر عورت کوئی بڑا قصور کر بیٹھے تو بدلہ لینے یا دکھ دینے کے لئے نہیں بلکہ عورت کی اصلاح اور تنبیہ کی نیت سے شوہر اس کو مارسکتا ہے مگر مارنے میں اس کا پوری طرح دھیان رہے کہ اس کو شدید چوٹ یا زخم نہ پہنچے۔
    فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو چار باتوں پر سزادے سکتا ہے اور وہ چار باتیں یہ ہیں۔
(۱)شوہر اپنی بیوی کو بناؤ سنگھار اور صفائی ستھرائی کا حکم دے لیکن پھر بھی وہ پھوہڑ اور میلی کچیلی بنی رہے۔
(۲)شوہر صحبت کرنے کی خواہش کرے اور بیوی بلاکسی عذر شرعی منع کرے۔
(۳)عورت حیض اور جنابت سے غسل نہ کرتی ہو۔
(۴) بلاوجہ نماز ترک کرتی ہو۔

 (الفتاوی القاضی خان،کتاب النکاح،فصل فی حقوق الزوجیۃ،ج۱،ص۲۰۳)

ان چاروں صورتوں میں شوہر کو چاہے کہ پہلے بیوی کو سمجھائے اگر مان جائے تو بہتر ہے ورنہ ڈرائے دھمکائے۔اگر اس پر بھی نہ مانے تو اس شرط کے ساتھ مارنے کی اجازت ہے کہ منہ پر نہ مارے۔ اور ایسی سخت مار نہ مارے کہ ہڈی ٹوٹ جائے یا بدن پر زخم ہوجائے۔
(۴)میاں بیوی کی خوشگوار زندگی بسر ہونے کے لئے جس طرح عورتوں کو مردوں کے جذبات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اسی طرح مردوں کو بھی لازم ہے کہ عورتوں کے جذبات کا خیال رکھیں ورنہ جس طرح مرد کی ناراضگی سے عورت کی زندگی جہنم بن جاتی ہے اس طرح عورت کی ناراضگی بھی مردوں کے لئے وبال جان بن جاتی ہے۔ اس لئے مرد کو لازم ہے کہ عورت کی سیرت و صورت پر طعنہ نہ مارے اور عورت کے میکا والوں پر بھی طعنہ زنی اورنکتہ چینی نہ کرے۔ نہ عورت کے ماں باپ اور عزیز و اقارب کو عورت کے سامنے برابھلا کہے کیونکہ ان باتوں سے عورت کے دل میں مرد کی طرف سے نفرت کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان ناچاقی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر دونوں کی زندگی دن رات کی جلن اور گھٹن سے تلخ بلکہ عذاب جان بن جاتی ہے۔
(۵)مرد کو چاہے کہ خبردار خبردار کبھی بھی اپنی عورت کے سامنے کسی دوسری عورت کے حسن و جمال یا اس کی خوبیوں کا ذکر نہ کرے ورنہ بیوی کو فوراً  ہی بدگمانی اور یہ شبہ ہو جائے گا کہ شاید میرے شوہر کا اس عورت سے کوئی سانٹھ گانٹھ ہے یا کم سے کم قلبی لگاؤ ہے اور یہ خیال عورت کے دل کا ایک ایسا کانٹا ہے کہ عورت کو ایک لمحہ کے لئے بھی صبر و قرار نصیب نہیں ہو سکتا۔ یاد رکھو! کہ جس طرح کوئی شوہر اس کو برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی بیوی کا کسی دوسرے مرد سے ساز باز ہو اسی طرح کوئی عورت بھی ہرگز ہرگز کبھی اس بات کی تاب نہیں لا سکتی کہ اس کے شو ہرکاکسی دوسری عورت سے تعلق ہو بلکہ تجربہ شاہد ہے کہ اس معاملہ میں عورت کے جذبات مرد کے جذبات سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر ہوا کرتے ہیں لہٰذا اس معاملہ میں شوہر کو لازم ہے کہ بہت احتیاط رکھے ورنہ بد گمانیوں کا طوفان میاں بیوی کی خوشگوار زندگی کو تباہ و برباد کردے گا۔
(۶)مرد بلا شبہ عورت پر حاکم ہے۔ لہٰذا مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ بیوی پر اپنا حکم چلائے مگر پھر مرد کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنی بیوی سے کسی ایسے کام کی فرمائش نہ کرے جو اس کی طاقت سے باہر ہو یا وہ کام اس کو انتہائی ناپسند ہو۔ کیونکہ اگر چہ عورت جبراً قہراً وہ کام کردے گی۔ مگر اس کے دل میں ناگواری ضرور پیدا ہو جائے گی جس سے میاں بیوی کی خوش مزاجی کی زندگی میں کچھ نہ کچھ تلخی ضرور پیدا ہو جائے گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ رفتہ رفتہ میاں بیوی میں اختلاف پیدا ہوجائے گا۔
(۷)مرد کو چاہے کہ عورت کی غلطیوں پر اصلاح کے لئے روک ٹوک کرتا رہے۔ کبھی سختی اور غصہ کے انداز میں اور کبھی محبت اور پیار اور ہنسی خوشی کے ساتھ بھی بات چیت کرے جو مرد ہر وقت اپنی مونچھ میں ڈنڈا باندھے پھرتے ہیں۔ ماسوائے ڈانٹ پھٹکار اور مار پیٹ کے اپنی بیوی سے کبھی کوئی بات ہی نہیں کرتے۔ تو ان کی بیویاں شوہروں کی محبت سے مایوس ہو کر ان سے نفرت کرنے لگتی ہیں۔ اور جو لوگ ہر وقت بیویوں کا ناز اٹھاتے رہتے ہیں اور بیوی لاکھ غلطیاں کرے مگر پھر بھی بھیگی بلی کی طرح اس کے سامنے میاؤں میاؤں کرتے رہتے ہیں ان لوگوں کی بیویاں گستاخ اور شوخ ہو کر شوہروں کو اپنی انگلیوں پر نچاتی رہتی ہیں۔ اس لئے شوہروں کو چاہے کہ حضرت شیخ سعدی علیہ ا لرحمۃ کے اس قول پر عمل کریں کہ

درشتی و نرمی بہم در بہ است
چو فاصد کہ جراح و مرہم نہ است

  یعنی سختی اور نرمی دونوں اپنے اپنے موقعے پر بہت اچھی چیز ہیں جیسے فصد کھولنے والا زخم بھی لگاتا ہے اور مرہم بھی رکھ دیتا ہے مطلب یہ ہے کہ شوہر کو چاہے کہ نہ بہت ہی کڑوا بنے نہ بہت ہی میٹھا۔ بلکہ سختی اور نرمی موقع موقع سے دونوں پر عمل کرتا رہے۔
(۸)شوہر کو یہ بھی چاہے کہ سفر میں جاتے وقت اپنی بیوی سے انتہائی پیار و محبت کے ساتھ ہنسی خوشی سے ملاقات کرکے مکان سے نکلے اور سفر سے واپس ہو کر کچھ نہ کچھ سامان بیوی کے لئے ضرور لائے کچھ نہ ہوتوکچھ کھٹا میٹھا ہی لیتا آئے اور بیوی سے کہے کہ یہ خاص تمہارے لئے ہی لایا ہوں۔ شوہر کی اس ادا سے عورت کا دل بڑھ جائے گا اور وہ اس خیال سے بہت ہی خوش اور مگن رہے گی کہ میرے شوہر کو مجھ سے ایسی محبت ہے کہ وہ میری نظروں سے غائب رہنے کے بعد بھی مجھے یاد رکھتا ہے اور اس کو میرا خیال لگا رہتا ہے ظاہر ہے کہ اس سے بیوی اپنے شوہر کے ساتھ کس قدر زیادہ محبت کرنے لگے گی۔
(۹)عورت اگر اپنے مَیکا سے کوئی چیز لا کریا خود بناکر پیش کرے۔ تو مرد کو چاہے کہ اگرچہ وہ چیز بالکل ہی گھٹیا درجے کی ہو۔ مگر اس پر خوشی کا اظہار کرے اور نہایت ہی پرتپاک اور انتہائی چاہ کے ساتھ اس کو قبول کرے اور چند الفاظ تعریف کے بھی عورت کے سامنے کہہ دے تاکہ عورت کا دل بڑھ جائے اور اس کا حوصلہ بلند ہو جائے۔ خبردار خبردار عورت کے پیش کئے ہوئے تحفوں کو کبھی ہر گز ہرگز نہ ٹھکرائے نہ ان کو حقیر بتائے نہ ان میں عیب نکالے۔ ورنہ عورت کا دل ٹوٹ جائے گا اور اس کا حوصلہ پست ہو جائے گا۔ یادرکھو کہ ٹوٹا ہوا شیشہ تو جوڑا جا سکتا ہے مگر ٹوٹا ہوا دل بڑی مشکل سے جڑتا ہے اور جس طرح شیشہ جڑ جانے کے بعد بھی اس کا داغ نہیں مٹتا اسی طرح ٹوٹا ہوا دل جڑ جائے پھر بھی دل میں داغ دھبہ باقی ہی رہ جاتا ہے۔
(۱۰)عورت اگر بیمار ہو جائے تو شوہر کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ عورت کی غم خواری اور تیمارداری میں ہر گز ہر گز کوئی کوتاہی نہ کرے بلکہ اپنی دلداری و دلجوئی اور بھاگ دوڑ سے عورت کے دل پر نقش بٹھا دے کہ میرے شوہر کو مجھ سے بے حد محبت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عورت شوہر کے اس احسان کو یاد رکھے گی۔ اور وہ بھی شوہر کی خدمت گزاری میں اپنی جان لڑادے گی۔
(۱۱)شوہر کو چاہے کہ اپنی بیوی پر اعتماد اور بھروسا کرے اور گھریلو معاملات اس کے سپرد کرے تاکہ بیوی اپنی حیثیت کو پہچانے اور اس کا وقار اس میں خود اعتمادی پیدا کرے اور وہ نہایت ہی دلچسپی اور کوشش کے ساتھ گھریلو معاملات کے انتظام کو سنبھالے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران اور محافظ ہے اور اس معاملہ میں عورت سے قیامت میں خداوند قدوس پوچھ گچھ فرمائے گا۔
    بیوی پر اعتماد کرنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو گھر کے انتظامی معاملات میں ایک شعبہ کی ذمہ دار خیال کرے گی اور شوہر کوبڑی حد تک گھریلو بکھیڑوں سے نجات مل جائے گی اورسکون و اطمینان کی زندگی نصیب ہوگی!
(۱۲)عورت کا اس کے شوہر پر ایک حق یہ بھی ہے کہ شوہر عورت کے بستر کی راز والی باتوں کو دوسروں کے سامنے نہ بیان کرے بلکہ اس کو راز بنا کر اپنے دل ہی میں رکھے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ خدا کے نزدیک بد ترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے پاس جائے۔ پھر اس کے پردہ کی باتوں کو لوگوں پر ظاہر کرے اور اپنی بیوی کو دوسروں کی نگاہوں میں رسوا کرے۔

 (صحیح مسلم ، کتاب النکاح۔۲۱۔باب تحریم افشاء سرالمرأۃ ،رقم ۱۴۳۷،ص۷۵۳)

 (۱۳)شوہر کو چاہے کہ بیوی کے سامنے آئے تو میلے کچیلے گندے کپڑوں میں نہ آئے بلکہ بدن اور لباس و بستر وغیرہ کی صفائی ستھرائی کا خاص طور پر خیال رکھے کیونکہ شوہر جس طرح یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی بناؤ سنگھار کے ساتھ رہے اسی طرح عورت بھی یہ چاہتی ہے کہ میرا شوہر میلا کچیلا نہ رہے۔ لہٰذا میاں بیوی دونوں کو ہمیشہ ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو اس بات سے سخت نفرت تھی کہ آدمی میلا کچیلا بنا رہے اور اس کے بال الجھے رہیں۔ اس حدیث پر میاں بیوی دونوں کو عمل کرنا چاہے۔ 
(۱۴)عورت کا اس کے شوہر پر یہ بھی حق ہے کہ شوہر عورت کی نفاست اور بناؤ سنگھار کا سامان یعنی صابن'تیل کنگھی' مہندی' خوشبو وغیرہ فراہم کرتا رہے۔ تاکہ عورت اپنے آپ کو صاف ستھری رکھ سکے۔ اور بناؤ سنگھار کے ساتھ رہے۔
(۱۵)شوہر کو چاہے کہ معمولی معمولی بے بنیاد باتوں پر اپنی بیوی کی طرف سے بدگمانی نہ کرے بلکہ اس معاملہ میں ہمیشہ احتیاط اور سمجھداری سے کام لے یاد رکھو کہ معمولی شبہات کی بنا پر بیوی کے اوپر الزام لگانا یا بدگمانی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
    حدیث شریف میں ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے دربار میں حاضر ہو کر کہا کہ میری بیوی کے شکم سے ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو کالا ہے اور میرا ہم شکل نہیں ہے۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے۔ دیہاتی کی بات سن کر حضور علیہ ا لصلوۃو السلام نے فرمایا کہ کیا تیرے پاس کچھ اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ میرے پاس بہت زیادہ اونٹ ہیں۔آپ نے فرمایا کہ تمہارے اونٹ کس رنگ کے ہیں؟ اس نے کہا سرخ رنگ کے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا ان میں کچھ خاکی رنگ کے بھی ہیں یا نہیں؟ اس نے کہا جی ہاں کچھ اونٹ خاکی رنگ کے بھی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم بتاؤ کہ سرخ اونٹوں کی نسل میں خاکی رنگ کے اونٹ کیسے اور کہاں سے پیدا ہو گئے؟ دیہاتی نے جواب دیا کہ میرے سرخ رنگ کے اونٹوں کے باپ داداؤں میں کوئی خاکی رنگ کا اونٹ رہا ہوگا۔ اس کی رگ نے اس کو اپنے رنگ میں کھینچ لیا ہوگا۔ اس لئے سرخ اونٹوں کا بچہ خاکی رنگ کا ہو گیا۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ ممکن ہے تمہارے باپ داداؤں میں بھی کوئی کالے رنگ کا ہوا ہو۔ اور اس کی رگ نے تمہارے بچے کو کھینچ کر اپنے رنگ کا بنالیا ہو۔ اور یہ بچہ اس کا ہم شکل ہو گیا۔

 (صحیح البخاری، کتاب الطلاق ، باب اذا عرض بنفی الولد ، رقم ۵۳۰۵،ج۳،ص۴۹۷)

    اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ محض اتنی سی بات پرکہ بچہ اپنے باپ کا ہم شکل نہیں ہے حضور علیہ ا لصلوہ و السلام نے اس دیہاتی کو اس کی اجازت نہیں دی کہ وہ اپنے اس بچے کے بارے میں یہ کہہ سکے کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث سے ثابت ہوا کہ محض شبہ کی بنا پر اپنی بیوی کے اوپر الزام لگا دینا جائز نہیں ہے بلکہ بہت بڑا گناہ ہے۔
(۱۶)اگر میاں بیوی میں کوئی اختلاف یا کشیدگی پیدا ہو جائے تو شوہر پر لازم ہے کہ طلاق دینے میں ہر گز ہر گز جلدی نہ کرے۔ بلکہ اپنے غصہ کو ضبط کرے اور غصہ اتر جانے کے بعد ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر اور لوگوں سے مشورہ لے کر یہ غور کرے کیا میاں بیوی میں نباہ کی کوئی صورت ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اگر بناؤ اور نباہ کی کوئی شکل نکل آئے تو ہر گز ہر گز طلاق نہ دے۔ کیونکہ طلاق کوئی اچھی چیز نہیں ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ حلال چیزوں میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔

 (سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق ، باب کراہیۃ الطلاق ، رقم ۲۱۷۸،ج۲،ص۳۷۰)

    اگر خدانخواستہ ایسی سخت ضرورت پیش آجائے کہ طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے تو ایسی صورت میں طلاق دینے کی اجازت ہے۔ ورنہ طلاق کوئی اچھی چیز نہیں ہے!
    بعض جاہل ذرا ذرا سی باتوں پر اپنی بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں اور پھر پچھتاتے ہیں اور عالموں کے پاس جھوٹ بول بول کر مسئلہ پوچھتے پھرتے ہیں' کبھی کہتے ہیں کہ غصہ میں طلاق دی تھی' کبھی کہتے ہیں کہ طلاق دینے کی نیت نہیں تھی' غصہ میں بلا اختیار طلاق کا لفظ منہ سے نکل گیا' کبھی کہتے ہیں کہ عورت ماہواری کی حالت میں تھی' کبھی کہتے ہیں کہ میں نے طلاق دی مگر بیوی نے طلاق لی نہیں۔ حالانکہ ان گنواروں کو معلوم ہونا چاہے کہ ان سب صورت میں طلاق پڑ جاتی ہے اور بعض تو ایسے بد نصیب ہیں کہ تین طلاق دے کر جھوٹ بولتے ہیں کہ میں نے ایک ہی بار کہا تھا اور یہ کہہ کر بیوی کو رکھ لیتے ہیں اور عمر بھر زناکاری کے گناہ میں پڑے رہتے ہیں۔ ان ظالموں کو اس کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ تین طلاق کے بعد عورت بیوی نہیں رہ جاتی۔ بلکہ وہ ایک ایسی اجنبی عورت ہو جاتی ہے کہ بغیر حلالہ کرائے اس سے دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا۔ خداوند کریم ان لوگوں کو ہدایت دے۔ (آمین)
(۱۷)اگر کسی کے پاس دو بیویاں یا اس سے زیادہ ہوں تو اس پر فرض ہے کہ تمام بیویوں کے درمیان عدل اور برابری کا سلوک اور برتاؤ کرے کھانے'پینے' مکان'سامان' روشنی' بناؤ سنگھارکی چیزوں غرض تمام معاملات میں برابری برتے۔ اسی طرح ہر بیوی کے پاس رات گزارنے کی باری مقرر کرنے میں بھی برابری کا خیال ملحوظ رکھے۔ یاد رکھو! کہ اگر کسی نے اپنی تمام بیویوں کے ساتھ یکساں اور برابر سلوک نہیں کیا تو وہ حق العباد میں گرفتار اور عذاب جہنم کا حق دار ہوگا۔
    حدیث شریف میں ہے کہ ''جس شخص کے پاس دو بیویاں ہوں اور اس نے ان کے درمیان عدل اور برابری کا برتاؤ نہیں کیا تو وہ قیامت کے دن میدان محشر میں اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ اس کا آدھا بدن مفلوج (فالج لگا ہوا) ہوگا۔''

 (جامع الترمذی، کتاب النکاح ، باب ماجاء فی التسویۃ بین الضرائر ،رقم ۱۱۴۴،ج۲،ص۳۷۵)

 (۱۸)اگر بیوی کے کسی قول و فعل 'بدخوئی'بداخلاقی' سخت مزاجی' زبان درازی وغیرہ سے شوہر کو کبھی کبھی کچھ اذیت اورتکلیف پہنچ جائے تو شوہر کو چاہے کہ صبر و تحمل اور برداشت سے کام لے۔ کیونکہ عورتوں کا ٹیڑھاپن ایک فطری چیز ہے۔
    رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ عورت حضرت آدم علیہ السلام کی سب سے ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی اگر کوئی شخص ٹیڑھی پسلی کو سیدھی کرنے کی کوشش کریگا تو پسلی کی ہڈی ٹوٹ جائے گی مگر وہ کبھی سیدھی نہیں ہو سکے گی۔ ٹھیک اسی طرح اگرکوئی شخص اپنی بیوی کو بالکل ہی سیدھی کرنے کی کوشش کریگا تو یہ ٹوٹ جائے گی یعنی طلاق کی نوبت آجائے گی۔ لہٰذا اگر عورت سے فائدہ اٹھانا ہے تو اس کے ٹیڑھے پن کے باوجود اس سے فائدہ اٹھالو یہ بالکل سیدھی کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔جس طرح ٹیڑھی پسلی کی ہڈی کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔''

 (صحیح البخاری، کتاب النکاح ، باب الوصاۃ بالنساء ، رقم ۵۱۸۵،ج۳،ص۴۵۷)

 (۱۹)شوہر کو چاہے کہ عورت کے اخراجات کے بارے میں بہت زیادہ بخیلی اور کنجوسی نہ کرے نہ حد سے زیادہ فضول خرچی کرے۔ اپنی آمدنی کو دیکھ کر بیوی کے اخراجات مقرر کرے۔ نہ اپنی طاقت سے بہت کم' نہ اپنی طاقت سے بہت زیادہ۔
(۲۰) شوہر کو چاہے کہ اپنی بیوی کو گھر کی چہاردیواری کے اندر قید کر کے نہ رکھے بلکہ کبھی کبھی والدین اور رشتہ داروں کے یہاں آنے جانے کی اجازت دیتا رہے اور اس کی سہیلیوں اور رشتہ داری والی عورتوں اور پڑوسنوں سے بھی ملنے جلنے پر پابندی نہ لگائے۔ بشرطیکہ ان عورتوں کے میل جول سے کسی فتنہ وفساد کا اندیشہ نہ ہو اور اگر ان عورتوں کے میل ملاپ سے بیوی کے بدچلن یا بد اخلاق ہوجانے کا خطرہ ہو تو ان عورتوں سے میل جول پر پابندی لگادیناضروری ہے اور یہ شوہر کا حق ہے۔
مسلمان عورتوں کا پردہ :۔اﷲ و رسول (جل جلالہ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم) نے انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق بدکاری کے دروازوں کو بند کرنے کے لئے عورتوں کو پردے میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ پردے کی فرضیت اور اس کی اہمیت قرآن مجید اور حدیثوں سے ثابت ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے عورتوں پر پردہ فرض فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ۔

وَقَرْنَ فِیۡ بُیُوۡتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ  الْاُوۡلٰی

''تم اپنے گھروں کے اندر رہو اور بے پردہ ہو کر باہر نہ نکلو جس طرح پہلے زمانے کے دور جاہلیت میں عورتیں بے پردہ باہر نکل کر گھومتی پھرتی تھیں۔'' (پ22،الاحزاب:33)
    اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے صاف صاف عورتوں پر پردہ فرض کرکے یہ حکم دیا ہے کہ وہ گھروں کے اندر رہا کریں اور زمانہ جاہلیت کی بے حیائی و بے پردگی کی رسم کو چھوڑ دیں۔ زمانہ جاہلیت میں کفار عرب کا یہ دستور تھا کہ ان کی عورتیں خوب بن سنور کر بے پردہ نکلتی تھیں ۔ اور بازاروں اور میلوں میں مردوں کے دوش بدوش گھومتی پھرتی تھیں۔اسلام نے اس بے پردگی کی بے حیائی سے روکااور حکم دیا کہ عورتیں گھروں کے اندر رہیں اور بلا ضرورت باہر نہ نکلیں اور اگر کسی ضرورت سے انہیں گھر سے باہر نکلنا ہی پڑے تو زمانہ جاہلیت کے مطابق بناؤ سنگار کرکے بے پردہ نہ نکلیں۔ بلکہ پردہ کے ساتھ باہر نکلیں۔ حدیث شریف میں ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ ''عورت پردے میں رہنے کی چیز ہے جس وقت وہ بے پردہ ہو کر باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانک جھانک کر دیکھتا ہے۔''

    (الجامع الترمذی، کتاب الرضاع ، باب۱۸،رقم ۱۱۷۶،ج۲،ص۳۹۲)

    اور ایک حدیث میں ہے کہ ''بناؤ سنگھار کر کے اترااترا کر چلنے والی عورت کی مثال اس تاریکی کی ہے جس میں بالکل روشنی ہی نہ ہو۔''

(جامع الترمذی ، کتاب الرضاع ، باب ماجاء فی کراہیۃ خروج النساء فی الزینۃ ، رقم ۱۱۷۰، ج۲،ص۳۸۹)

    اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲتعالی عنہ سے روایت ہے کہ ''حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا جو عورت خوشبولگا کر مردوں کے پاس سے گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سونگھیں وہ عورت بدچلن ہے۔''

             (سنن النسائی،کتاب الزینۃ،باب مایکرہ للنساء من الطیب،ج۸،ص۱۵۳)

    پیاری بہنو! آج کل جو عورتیں بناؤ سنگھار اور عریاں لباس پہن کر خوشبو لگائے بلا پردہ بازاروں میں گھومتی ہیں اور سینما' تھیٹروں میں جاتی ہیں وہ ان حدیثوں کی روشنی میں اپنے بارے میں خود ہی فیصلہ کرلیں کہ وہ کون ہیں؟ اور کتنی بڑی گناہگار ہیں؟

    اے اﷲعزوجل کی بندیو! تم خدا کے فضل سے مسلمان ہو۔ اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے تمہیں ایمان کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے احکام کو سنو اور ان پر عمل کرو۔ اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے تمہیں پردے میں رہنے کا حکم دیا ہے۔ اس لئے تم کو لازم ہے کہ تم پردہ میں رہا کرو اور اپنے شوہر اور اپنے باپ داداؤں کی عزت و عظمت اور ان کے ناموس کو برباد نہ کرو۔ یہ دنیا کی چند روزہ زندگی آنی فانی ہے۔ یاد رکھو! ایک دن مرنا ہے اور پھر قیامت کے دن اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو منہ دکھانا ہے۔ قبر اور جہنم کے عذابوں کو یاد کرو حضرت خاتون جنت بی بی فاطمہ زہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور امت کی ماؤں یعنی رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی مقدس بیویوں کے نقش قدم پرچل کر اپنی دنیا و آخرت کو سنوارو۔ اور خدا کے لئے یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی عورتوں کے طریقوں پر چلنا چھوڑ دو۔
پردہ عزت ہے بے عزتی نہیں:۔آج کل بعض ملحد قسم کے دشمنان اسلام مسلمان عورتوں کو یہ کہہ کر بہکایا کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو پردہ میں رکھ کر عورتوں کی بے عزتی کی ہے اس لئے عورتوں کو پردوں سے نکل کر ہر میدان میں مردوں کے دوش بدوش کھڑی ہو جانا چاہے۔ مگر پیاری بہنو! خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ ان مردوں کا یہ پروپیگنڈہ اتنا گندا اور گھناؤنا فریب اور دھوکہ ہے کہ شاید شیطان کو بھی نہ سوجھا ہوگا۔
    اے اﷲعزوجل کی بندیو! تمہیں انصاف کرو کہ تمام کتابیں کھلی پڑی رہتی ہیں اور بے پردہ رہتی ہیں مگر قرآن شریف پر ہمیشہ غلاف چڑھا کر اس کو پردے میں رکھا جاتا ہے تو بتاؤ کیا قرآن مجید پر غلاف چڑھانا یہ قرآن کی عزت ہے یا بے عزتی؟ اسی طرح تمام دنیا کی مسجدیں ننگی اور بے پردہ رکھی گئی ہیں مگر خانہ کعبہ پر غلاف چڑھاکر اس کو پردہ میں رکھا گیا ہے تو بتاؤ کیا کعبہ مقدسہ پر غلاف چڑھانا اس کی عزت ہے یا بے عزتی؟ تمام دنیا کو معلوم ہے کہ قرآن مجید اور کعبہ معظمہ پر غلاف چڑھا کر ان دونوں کی عزت و عظمت کا اعلان کیا گیا ہے کہ تمام کتابوں میں سب سے افضل و اعلیٰ قرآن ہے۔ اور تمام مسجدوں میں افضل و اعلیٰ کعبہ معظمہ ہے اسی طرح مسلمان عورتوں کو پر دہ کا حکم دے کر اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی طرف سے اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ اقوام عالم کی تمام عورتوں میں مسلمان عورت تمام عورتوں سے افضل و اعلیٰ ہے۔
    پیاری بہنو! اب تمہیں کو اس کا فیصلہ کرنا ہے کہ اسلام نے مسلمان عورتوں کو پردوں میں رکھ کر ان کی عزت بڑھائی ہے یا ان کی بے عزتی کی ہے؟ کن لوگوں سے پردہ فرض ہے؟:۔ہر غیر محرم مرد خواہ اجنبی ہو خواہ رشتہ دار باہر رہتا ہو یا گھر کے اندر ہر ایک سے پردہ کرنا عورت پر فرض ہے۔ ہاں ان مردوں سے جو عورت کے محرم ہیں پردہ کرنا عورت پر فرض نہیں۔ محرم وہ مرد ہیں جن سے عورت کا نکاح کبھی بھی اور کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتا۔ مثلاً باپ' دادا' چچا' ماموں' نانا'بھائی' بھتیجا' بھانجا' پوتا' نواسہ' خسر ان لوگوں سے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ غیر محرم وہ مرد ہیں جن سے عورت کا نکاح ہو سکتا ہے جیسے چچا زاد بھائی' ماموں زاد بھائی' پھوپھی زاد بھائی' خالہ زاد بھائی' جیٹھ اور دیور وغیرہ یہ سب عورت کے غیر محرم ہیں۔اور ان سب لوگوں سے پردہ کرنا عورت پر فرض ہے۔ ہمارے یہاں یہ بہت ہی غلط خلاف شریعت رواج ہے کہ عورتیں اپنے دیوروں سے بالکل پردہ نہیں کرتیں۔ بلکہ دیوروں سے ہنسی مذاق' اور ان کے ساتھ ہاتھا پائی تک کرنے کو برانہیں سمجھتیں۔ حالانکہ دیور عورت کا محرم نہیں ہے۔ اس لئے دوسرے تمام غیر محرم مردوں کی طرح عورتوں کو دیوروں سے پردہ کرنا فرض ہے۔ بلکہ حدیث شریف میں تو یہاں تک دیوروں سے پردہ کی تاکید ہے کہ ''اَلْحَمْوُالْمَوْتُ''  یعنی دیور عورت کے حق میں ایسا ہی خطرناک ہے جیسے موت۔ اور عورت کو دیور سے اسی طرح دور بھاگنا چاہے جس طرح لوگ موت سے بھاگتے ہیں۔

(صحیح البخاری ، کتاب النکاح ۔۱۱۲۔باب لایخلون رجل بامرأۃ الخ،رقم ۵۲۳۲، ج۳، ص۴۷۲)

   بہر حال خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ غیر محرم سے پردہ فرض ہے' چاہے وہ اجنبی مرد ہو یا رشتہ دار' دیور' جیٹھ بھی غیر محرم ہیں اس لئے ان لوگوں سے بھی پردہ کرنا ضروری ہے اسی طرح کفار و مشرکین کی عورتوں سے بھی مسلمان عورتوں کو پردہ کرنا لازم ہے۔ اور ان کو گھروں میں آنے جانے سے روک دینا چاہے۔

مسئلہ:۔عورت کا پیر بھی عورت کا غیر محرم ہے اس لئے مریدہ کو اپنے پیر سے بھی پردہ کرنا فرض ہے۔اور پیر کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ اپنی مریدہ کو بے پردہ دیکھے یا تنہائی میں اس کے پاس بیٹھے۔ بلکہ پیر کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ عورت کا ہاتھ پکڑ کر اس کو بیعت کرے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالی عنہا نے عورتوں کی بیعت کے متعلق فرمایا کہ حضور علیہ ا لصلوۃ و السلام یٰاَۤ یُّھَا ا لنَّبِیُّ اِذَا جَآءَ کَ الْمُؤمِنَاتُ سے عورتوں کاامتحان فرماتے تھے جو عورت اس آیت کا اقرار کرلیتی تھی تو  آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اس سے فرماتے تھے کہ میں نے تجھ سے یہ بیعت لے لی۔ یہ بیعت بذریعہ کلام ہوتی تھی۔ خدا کی قسم کبھی بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے بیعت کے وقت نہیں لگا۔

(صحیح البخاری ، کتاب المغازی، باب غزوۃ الحدیبیۃ،رقم ۴۱۸۲،ج۳،ص۷۵)

بہترین شوہر کی شان:۔شوہروں کے بارے میں اوپر لکھی ہوئی ہدایات کی روشنی میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہترین شوہر کون ہے؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ۔

بہترین شوہر وہ ہے!

(۱)جو اپنی بیوی کے ساتھ نرمی' خوش خلقی اور حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے! 
(۲)جو اپنی بیوی کے حقوق کو ادا کرنے میں کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی نہ کرے!
(۳)جو اپنی بیوی کا اس طرح ہوکر رہے کہ کسی اجنبی عورت پر نگاہ نہ ڈالے۔
(۴)جو اپنی بیوی کو اپنے عیش و آرام میں برابر کا شریک سمجھے۔
(۵)جو اپنی بیوی پر کبھی ظلم اور کسی قسم کی بے جا زیادتی نہ کرے۔
(۶)جو اپنی بیوی کے تند مزاجی اور بد اخلاقی پر صبر کرے۔
(۷)جو اپنی بیوی کی خوبیوں پر نظر رکھے اور معمولی غلطیوں کو نظر انداز کرے۔
(۸)جو اپنی بیوی کی مصیبتوں، بیماریوں اور رنج و غم میں دل جوئی، تیمارداری اور وفاداری کا ثبوت دے۔
(۹) جو اپنی بیوی کو پردہ میں رکھ کر عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔
(۱۰)جو اپنی بیوی کو دینداری کی تاکید کرتا رہے اور شریعت کی راہ پر چلائے۔
(۱۱)جو اپنی بیوی اور اہل و عیال کو کما کما کر رزق حلال کھلائے۔
(۱۲)جو اپنی بیوی کے مَیْکا والوں اور اسکی سہیلیوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے۔
(۱۳)جو اپنی بیوی کو ذلت و رسوائی سے بچائے رکھے۔
(۱۴)جو اپنی بیوی کے اخراجات میں بخیلی اورکنجوسی نہ کرے ۔
(۱۵)جو اپنی بیوی پر اسطرح کنٹرول رکھے کہ وہ کسی برائی کی طرف رخ بھی نہ کر سکے۔

(۴) عورت ماں بن جانے کے بعد

    عورت جب صاحب اولاد اور بچوں کی ماں بن جائے تو اس پر مزید ذمہ داریوں کابوجھ بڑھ جاتا ہے کیونکہ شوہر اور والدین وغیرہ کے حقوق کے علاوہ بچوں کے حقوق بھی عورت کے سر پر سوار ہو جاتے ہیں جن کو ادا کرنا ہر ماں کا فرض منصبی ہے۔ جو ماں اپنے بچوں کا حق ادا نہ کرے گی یقیناً وہ شریعت کے نزدیک بہت بڑی گناہگار' اور سماج کی نظروں میں ذلیل و خوار ٹھہرے گی۔