*اعتکاف کے ضروری احکام*
*✍🏻غــــلام نبی انجـم رضـــا عطاری*
*_📲03461934584_*
اس تحریر میں آپ پڑھ سکیں گے:👇
*اعتکاف کی تعریف*
*اعتکاف کا حکم شرعی*
*اعتکاف کی نیت کس طرح کریں؟*
*اعتکاف کس مسجد میں کرے؟*
*معتکف اور احترامِ مسجد*
*فنائے مسجد اور معتکف*
*معتکف فنائے مسجد میں جا سکتا ہے*
*مسجد کی چھت پر چڑھنا*
*معتکف کے مسجد سے باہر نکلنے کی صورتیں*
*حاجتِ شرعی کے 3 احکام*
*حاجتِ طبعی کے 3 احکام*
*اعتکاف توڑنے والی چیزوں کے متعلق 12 احکام*
*اعتکاف کی تعریف:*
مسجِد میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا کیلئے بہ نیت اِعتکاف ٹھہرنا اِعتکاف ہے۔ اس کیلئے مسلمان کا عاقل ہونا اور جَنابت اور حیض و نفاس سے پاک ہونا شرط ہے۔بلوغ شرط نہیں ، نابالغ بھی جو تمیز رکھتا ہے اگر بہ نیّتِ اعتکاف مسجِد میں ٹھہرے تو اُس کا اعتکاف صحیح ہے۔
*(عالمگیری ج۱ ص ۲۱۱)*
*اعتکافِ کا حکمِ شرعی:*
رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عشرے کا اعتکاف سنَّتِ مُؤَکَّدَہ عَلَی الْکِفایہ ہے۔
*(دُرِّ مُخْتار ج ۳ ص ۴۹۵)*
اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذِّمَّہ۔
*(بہار شریعت ج۱ص۱۰۲۱)*
اِس اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی بیسویں تاریخ کو غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مسجِد کے اندر بہ نیّتِ اعتکاف موجود ہو اور اُنتیس کے چاند کے بعد یا تیس کے غُروبِ آفتاب کے بعد مسجِد سے باہَر نکلے۔ اگر 20 رَمَضانُ المبارک کو غروبِ آفتاب کے بعد مسجد میں داخل ہوئے تو اِعتکاف کی سنّتِ مُؤَکَّدَہ ادا نہ ہوئی۔
*اعتکاف کی نیت کس طرح کریں؟*
میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا کیلئے رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کے سنّتِ اِعتکاف کی نیَّت کرتا ہوں ۔ *(دل میں نیت ہونا شرط ہے ، دل میں نیت حاضر ہوتے ہوئے زبان سے بھی کہہ لینا بہتر ہے)*
https://chat.whatsapp.com/GlG3WFBIqWm0G27JaaMOzX
*اعتکاف کس مسجد میں کرے؟:*
مسجد جامِع ہونا اعتکاف کے لیے شرط نہیں بلکہ مسجد جماعت میں بھی ہو سکتا ہے۔ مسجد جماعت وہ ہے جس میں امام و مُؤَذِّن مقرر ہوں ، اگرچِہ اس میں پنجگانہ جماعت نہ ہوتی ہو اور آسانی اس میں ہے کہ مُطْلقاً ہر مسجد میں اعتکاف صحیح ہے
اگرچہ وہ مسجد جماعت نہ ہو ، خصوصاً اس زمانہ میں کہ بہتیری مسجدیں ایسی ہیں جن میں نہ امام ہیں نہ مُؤَذِّن۔
*(رَدُّالْمُحتَار ج۳ ص۴۹۳)*
*سب سے افضل مسجد حرم شریف میں اعتکاف ہے پھر مسجِدُ النَّبَوِی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں پھر مسجِد اقصیٰ (یعنی بیتُ الْمَقْدِس) میں پھر اُس میں جہاں بڑی جماعت ہوتی ہو۔* *(بہارِشریعت ج۱ ص۱۰۲۰۔۱۰۲۱)*
*معتکف اور احترامِ مسجد:*
پیارے معتکف عاشقانِ رسول! آپ کو دس روز مسجِد ہی میں گزارنے ہیں اِس لئے چند باتیں اِحترامِ مسجِد سے مُتَعَلِّق سیکھ لیجئے۔ دَورانِ اعتکاف مسجِد کے اندر ضَرورۃً دُنیوی بات کرنے کی اجازت ہے لیکن اس طرح کہ کسی نمازی یا عبادت کرنے والے یا سونے والے کو تشویش نہ ہو۔ یاد رکھئے! مسجِد میں بلا ضرورت دُنیوی بات چیت کی معتکف کو بھی اجازت نہیں۔
*فنائے مسجد اور معتکف:*
معتکف بلا ضرورت بھی فنائے مسجِد میں جائے تو اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔ فنائے مسجد سے مراد وہ جگہیں ہیں جو مسجِد کی مصالح یعنی ضروریاتِ مسجد کے لئے احاطۂ مسجد کے اندر ہوں ، جیسے منارہ ، وُضو خانہ ، اِستنجا خانہ ، غسل خانہ ، مسجِد سے متصل مَدْرَسہ ، مسجِد سے ملحق اِمام و مُؤَذِّن وغیرہ کے حجرے ، جوتے اُتارنے کی جگہ وغیرہ یہ مقامات بعض معاملات میں حکمِ مسجِد میں ہیں اور بعض معاملات میں خارِج مسجد ۔ مثلاً یہاں پر جنبی *(یعنی جس پر غسل فرض ہو)* جا سکتا ہے۔ اِسی طرح اقتدا اور اعتکاف کے معاملے میں یہ مقامات حکمِ مسجِد میں ہیں ۔ معتکف بلا ضرورت بھی یہاں جا سکتا ہے گویا وہ مسجد ہی کے کسی ایک حصے میں گیا۔
*معتکف فنائے مسجد میں جا سکتا ہے:*
حضرتِ صدرُ الشَّریعہ ، صاحب بہارِ شریعت حضرت مولانا امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : فنائے مسجِد جو جگہ مسجد سے باہر اس سے ملحق ضروریاتِ مسجد کیلئے ہے ، مَثَلًا جوتا اُتارنے کی جگہ اور غسل خانہ وغیرہ اِن میں جانے سے اِعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔
مزید آگے فرماتے ہیں : فنائے مسجِد اس معاملے میں حکمِ مسجد میں ہے۔
*(فتاویٰ امجدیہ ج۱ص۳۹۹)*
اِسی طرح منارہ بھی فنائے مسجد ہے ، اگر اس کا راستہ مسجد کی چار دیواری کے اندر ہو تو معتکف بلا تکلُّف اِس پر جا سکتا ہے اور اگر مسجد کے باہر سے راستہ ہو تو صرف اذان دینے کے لئے جا سکتا ہے کہ اذان دینا حاجت شرعی ہے۔
*اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا فتویٰ:*
میرے آقا اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بلکہ جب وہ مدارِس متعلق مسجِد حدودِ مسجِد کے اندر ہیں ، ان میں راستہ فاصل نہیں صرف ایک فصیل *(یعنی دیوار)* سے صحنوں کا امتیاز کر دیا ہے تو ان میں جانا مسجد سے باہر جانا ہی نہیں ، یہاں تک کہ ایسی جگہ معتکف کا جانا جائز کہ وہ گویا مسجد ہی کا ایک قطعہ *(یعنی حصہ)* ہے۔
*{وضاحت:* اس عبارت کا صاف مفہوم یہ ہے کہ مدارس متعلق مسجد تھے یعنی جس طرح مساجد میں ضمنی مدارس لگائے جاتے ہیں جبکہ وہ جگہ جہاں مدرسہ لگتا ہے ضروریات و مصالحِ مسجد کے لئے وقف ہوتی ہے تو درحقیقت ان مدارس میں جانا فنائے مسجد ہی میں جانا ہوا ، اس لئے امامِ ا ہل سنت مولانا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے فرمایا کہ وہاں معتکف جا سکتا ہے ۔یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ مساجد کے ساتھ متصل جدا گانہ مدارِس میں جانا بھی معتکف کا جائز ہے اس لئے کہ جداگانہ مستقل مدارس پر فنائے مسجد کا ہر گز اطلاق نہیں ہوتا ان کی مستقل وقف کی حیثیت ہوتی ہے اس لئے ایسے مدارس اگرچہ مسجد کے ساتھ متصل احاطہ میں بنے ہوئے ہوں وہاں جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا}
*رَدُّالْمُحتار(جلد3صفحہ436)* میں بَدائِعُ الصَّنائع کے حوالے سے ہے: اگر معتکف منارہ پر چڑھا تو بالاتفاق اس کا اعتکاف فاسد نہ ہوگا کیوں کہ منارے مسجد ہی *(کے حکم )* میں ہیں ۔
*(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۷ ص۴۵۳)*
*مسجد کی چھت پر چڑھنا:*
صحن ، مسجد کا حصہ ہے لہٰذا معتکف کو صحنِ مسجد میں آنا جانا بیٹھے رہنا مطلقاً جائز ہے۔ مسجد کی چھت پر بھی آجا سکتا ہے لیکن یہ اُس وَقت ہے کہ چھت پر جانے کا راستہ مسجِد کے اندر سے ہو۔ اگر اوپر جانے کیلئے سیڑھیاں اِحاطۂ مسجد سے باہر ہوں تو معتکف نہیں جا سکتا ، اگر جائے گا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔یہ بھی یاد رہے کہ معتکف و غیر معتکف دونوں کو مسجد کی چھت پر بلا ضرورت چڑھنا مکروہ ہے کہ یہ بے ادَبی ہے ۔
*معتکف کے مسجد سے باہر نکلنے کی صورتیں :*
اعتکاف کے دَوران دو وجوہات کی بنا پر *(احاطۂ)* مسجِد سے باہر نکلنے کی اجازت ہے:
*{۱} حاجت شرعی {۲} حاجت طبعی*
(۱) حاجت شرعی:
حاجتِ شرعی مَثَلًا نمازِ جمعہ ادا کرنے کیلئے جانا یا اذان کہنے کیلئے جانا وغیرہ۔
*حاجت شرعی کے متعلق 3 احکام*
{۱} اگر منارے کا راستہ خارِجِ مسجِد *(یعنی اِحاطۂ مسجِد سے باہر)* ہو تو بھی اذان کیلئے معتکف جا سکتا ہے کیونکہ اب یہ مسجد سے نکلنا حاجتِ شرعی کی وجہ سے ہے۔
*(رَدُّالْمُحْتار ج۳ ص۵۰۲ مُلَخَّصاً)*
{۲} اگر وہاں جمعہ نہ ہوتا ہو تو معتکف جمعہ کی نماز کیلئے دوسری مسجد میں جا سکتا ہے۔ اور اپنی اعتکاف گاہ سے اندازاً ایسے وَقْت میں نکلے کہ خطبہ شروع ہونے سے پہلے وہاں پہنچ کر چار رَکعت سنت پڑھ سکے اور نمازِ جمعہ کے بعد اتنی دیر مزید ٹھہر سکتا ہے کہ چار یا چھ رکعت پڑھ لے۔ اور اگر اس سے زیادہ ٹھہرا رہا بلکہ باقی اِعتکاف اگر وَہیں پورا کر لیا تب بھی اِعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ لیکن نَمازِ جمعہ کے بعد چھ رکعت سے زیادہ ٹھہرنا مکروہ ہے۔
*(دُرِّمُخْتَار ، رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۵۰۲)*
{۳} اگر اپنے محلے کی ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جس میں جماعت نہ ہوتی ہو تو اب جماعت کیلئے نکلنے کی اجازت نہیں کیونکہ اب افضل یہی ہے کہ بغیر جماعت ہی اِس مسجِد میں نماز ادا کی جائے۔
*(جَدُّالمُمتار ج۴ ص۲۸۸)*
(۲) حاجت طبعی
*حاجت طبعی کے متعلق 4 احکام:*
{۱} حاجتِ طبعی کہ مسجد میں پوری نہ ہو سکے جیسے پاخانہ ، پیشاب ، وضو اور غسل کی ضرورت ہو تو غسل ، مگر غسل و وضو میں یہ شرط ہے کہ مسجد میں نہ ہو سکیں یعنی کوئی ایسی چیز نہ ہو جس میں وضو و غسل کا پانی لے سکے اس طرح کہ مسجد میں پانی کی کوئی بوند نہ گرے کہ وضو و غسل کا پانی مسجد میں گرانا ناجائز ہے اور لگن وغیرہ موجود ہو کہ اس میں وضو اس طرح کر سکتا ہے کہ کوئی چھینٹ مسجد میں نہ گرے تو وضو کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں ، نکلے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا۔ یوہیں اگر مسجد میں وضو و غسل کے لیے جگہ بنی ہو یا حوض ہو تو باہر جانے کی اب اجازت نہیں ۔
*(دُرِّمُختار ، رَدُّالْمُحتارج۳ص۵۰۱*)
{۲} قضائے حاجت کو گیا تو طہارت کر کے فوراً چلا آئے ٹھہرنے کی اجازت نہیں اور اگر معتکف کا مکان مسجد سے دُور ہے اور اس کے دوست کا مکان قریب تو یہ ضرور نہیں کہ دوست کے یہاں قضائے حاجت کو جائے بلکہ اپنے مکان پر بھی جا سکتا ہے اور اگر اس کے خود دو مکان ہیں ایک نزدیک دوسرا دُور تو نزدیک والے مکان میں جائے کہ بعض مشایخ فرماتے ہیں دُور والے میں جائے گا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔ *(رَدُّالْمُحتار ج۳ص۵۰۱ ، عالمگیری ج۱ص۲۱۲)*
{۳} عام طور پر نمازیوں کی سہولت کیلئے مسجد کے اِحاطے میں بیت الخلا ، غسل خانہ ، اِستنجا خانہ اور وُضو خانہ ہوتا ہے۔ لہٰذا معتکف ان ہی کو استعمال کرے ۔
{۴} بعض مساجد میں استنجا خانوں ، غسل خانوں وغیرہ کیلئے راستہ اِحاطۂ مسجد *(یعنی فنائے مسجد)* کے بھی باہر سے ہوتا ہے لہٰذا اِن استنجا خانوں اور غسل خانوں وغیرہ میں حاجت طبعی کے علاوہ نہیں جا سکتے۔
*اعتکاف توڑنے والی چیزوں کا بیان:*
اب ان چیزوں کا بیان کیا جاتا ہے جن سے اِعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ جہاں جہاں مسجِد سے نکلنے پر اعتکاف ٹوٹنے کا حکم ہے وہاں اِحاطۂ مسجِد *(یعنی عمارتِ مسجد کی باؤنڈری وال)* سے نکلنا مراد ہے۔
*اعتکاف توڑنے والی چیزوں کے متعلق 12 احکام*
{۱} اعتکاف واجب میں معتکف کو مسجد سے بغیر عذر نکلنا حرام ہے ، اگر نکلا تو اعتکاف جاتا رہا اگرچہ بھول کر نکلا ہو۔ یوہیں *(رَمضانُ المبارَک کے آخری عشرے کا)* اعتکافِ سنت بھی بغیر عذر نکلنے سے جاتا رہتا ہے۔
*(بہارِ شریعت ج۱ ص ۱۰۲۳)*
{۲} مسجد سے نکلنا اُس وقت کہا جائے گا جب کہ پاؤں مسجد سے اس طرح باہر ہو جائیں کہ اسے عرفاً مسجد سے نکلنا کہا جا سکے ۔ اگر صرف سر مسجد سے نکالا تو اس سے اِعتکاف فاسد نہیں ہوگا۔
*(اَلْبَحرُالرَّائِق ج۲ ص۵۳۰)*
{۳} شرعی اجازت سے باہر نکلے ، لیکن فراغت کے بعد ایک لمحے کیلئے بھی باہر ٹھہر گئے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
{۴} چونکہ اس میں روزہ شرط ہے ، اِس لئے روزہ توڑ دینے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ خواہ یہ روزہ کسی عذر سے توڑا ہو یا بلا عذر ، جان بوجھ کر توڑا ہو یا غلطی سے ٹوٹا ہو ، ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ۔ اگر بھول کر کچھ کھا پی لیا ، تو نہ روزہ ٹوٹا نہ اِعتکاف۔
{۵} یہ ضابطہ یاد رکھئے کہ وہ تمام اُمور جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔
{۶} پاخانہ پیشاب کیلئے *(احاطۂ مسجِد سے باہر)* گیا تھا۔ قرض خواہ نے روک لیا ، اعتکاف فاسد ہو گیا۔
*(عالمگیری ج۱ص۲۱۲)*
{۷} بے ہوشی اور جنون اگر طویل ہوں کہ روزہ نہ ہو سکے تو اعتکاف جاتا رہا اور قضا واجب ہے ، اگرچہ کئی سال کے بعد صحت ہو۔
*(اَیضاًص۲۱۳)*
{۸} معتکف مسجِد ہی میں کھائے پئے سوئے ، ان اُمور کیلئے مسجِد سے باہر ہو جائے گا تو اِعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ *(اَلْبَحْرُالرَّائِق ج۲ ص۵۳۰)*
مگریہ خیال رہے کہ مسجِد آلودہ نہ ہو۔
{۹} کھانا لانے والا کوئی نہیں تو پھر اپنا کھانا لانے کیلئے آپ باہر جا سکتے ہیں ، لیکن مسجِد میں لاکر کھائیے۔
{۱۰} مرض کے علاج کیلئے مسجد سے نکلے تو اِعتکاف فاسد ہو گیا۔ نیند کی حالت میں چلنے کی بیماری ہو اور نیند میں چلتے چلتے مسجِد سے نکل جائے تو اِعتکاف فاسد ہو جائے گا۔
{۱۱} اگر ڈوبنے یا جلنے والے کے بچانے کے لیے مسجد سے باہر گیا یا گواہی دینے کے لیے گیا یا جہاد میں سب لوگوں کا بلاوا ہوا اور یہ بھی نکلا یا مریض کی عیادت یا نمازِ جنازہ کے لیے گیا ، اگرچہ کوئی دوسرا پڑھنے والا نہ ہو تو ان سب صورتوں میں اعتکاف فاسِد ہوگیا۔
*(بہارِ شریعت ج۱ ص۱۰۲۵)*
{۱۲} کوئی بدنصیب دَورانِ اعتکاف مرتَد ہوگیا *(نَعُوذُ بِاللہ عَزَّوَجَلَّ)* تو اِعتکاف فاسد ہو گیا اور پھر اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ مرتد کو ایمان کی توفیق عنایت فرمائے تو فاسد شدہ اعتکاف کی قضا نہیں ۔
*(ماخوذ از دُرِّمُخْتَار ج۳ ص۵۰۴ )*