یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

"عدت و سوگ کے احکام و مسائل"


 


"عدت و سوگ کے احکام و مسائل"

تحریر: عبداللہ ھاشم عطاری مدنی

03313654057


عدت کسے کہتے ہیں۔۔۔؟

عدت کی تعریف

                لُغَت میں   عِدَّت بمعنی ’’شمار و گنتی‘‘ ہے،جبکہ شریعت میں   اُس اِنتظار کو عِدَّت کہتے ہیں   جو (طلاق یا شوہر کی وفات کے سبب)نکاح یا شبہ نکاح کے زائل ہونے کے بعد کیا جائے۔ اس زمانہ میں   دوسرا نکاح کرنا ممنوع ہوتاہے۔ (مراٰۃ المناجیح، عدت کا بیان، ۵ / ۱۴۶)

وَفات کی عِدَّت

            وفات کی عِدَّت چار ماہ دس دن ہے۔ (جوہرۃ نیرۃ،کتاب العدۃ،الجزء الثانی،ص۹۷،

وغیرہاوبہار شریعت، حصہ۸ ، ۲ / ۲۳۷) اورجب عورت امید (یعنی حمل) سے ہوتو عِدَّت کی مدت بچے کی ولادت ہونے تک ہے اگرچہ شوہر کی وفات کے فوراً بعد بچے کی ولادت ہوجائے۔ اگر دو یا تین بچے ایک حمل سے ہوئے تو پہلے کی ولادت ہونے سے عِدَّت پوری ہوگی۔(جوہرۃ نیرۃ،کتاب العدۃ، الجزء الثانی، ص۹۶  و بہار شریعت، حصہ ۸، ۲ / ۲۳۸)

عِدَّت کہاں گزاری جاتی ہے۔۔۔؟

             عدت شوہرکے ہی گھر میں   گزارنی ہوتی ہے۔ اگر مکان ڈِھ رہا ہویا ڈھنے (گرنے) کا خوف ہو یا چوروں   کا یا مال تلَف ہو نے کا خوف ہوتو اِن صورتوں   میں   مکان بدل سکتی ہے۔

(عالمگیری،کتاب الطلاق،الباب الرابع عشر فی الحداد،۱ / ۵۳۵و بہارشریعت، حصہ۸، ۲ / ۲۴۵)

 ضرورت کے وقت دورانِ عِدَّت گھر سے نکلنا کیسا؟

            دورانِ عدت عورت گھر سے باہر نہیں   جاسکتی البتہ ضرورتا ًگھر سے باہر جانے کی اجازت ہے لیکن دن ہی دن میں   جائے اور غروبِ آفتا ب سے پہلے واپس آجائے۔ (مثلاً بیمار ہوگئی اور ڈاکٹر گھر پر نہیں   آسکتی تو جا سکتی ہے لیکن جب بھی کسی حاجت سے نکلنا پڑے ،محرم کے ذریعے دار الافتاء اہلسنت سے شرعی رہنمائی لے کر نکلے۔)


عد ّت کے دوران نکاح اور  پیغامِ نکاح کا  شرعی حکم:


             عدت کے دوران نہ کسی سے نکاح کرسکتی ہے نہ ہی اُسے نکاح کاپیغام دیا جاسکتا ہے، امام اہلسنّت اعلی حضرت شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن لکھتے ہیں   :   

            ’ ’ جب تک عدت نہ گزرے نکاح تونکاح، نکاح کاپیغام دینابھی حرام ِقطعی ہے۔‘‘  (فتاوی رضویہ، ۱۳ / ۳۱۹) ایک اور مقام پر لکھتے ہیں   کہ’’ عدت کے اندر (پڑھایا گیا) نکاح باطل وحرام ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ،  ۱۱ / ۲۶۶)


            جو عورت عدت میں   ہو اُس کے پاس صراحۃً نکاح کا پیغام دینا حرام ہے ا ور موت کی عدت ہو تو اشارۃً کہہ سکتے ہیں   اور طلاقِ رَجعی یا بائن یا فسخ کی عدت میں   اشارۃً بھی نہیں   کہہ سکتے ۔ اشارۃً کہنے کی صورت یہ ہے کہ کہے میں   نکاح کرنا چاہتاہوں   مگر یہ نہ کہے کہ تجھ سے ورنہ صراحت ہو جائے گی یا کہے میں   ایسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں   جس میں   یہ یہ وصف ہوں   اور وہ اَوصاف بیان کرے جو اس عورت میں   ہیں   یا کہے مجھے تجھ جیسی کہاں   ملے گی۔ (عالمگیری،کتاب الطلاق، الباب الرابع عشر فی الحداد ،۱ / ۵۳۴  وبہار شریعت،حصہ۸ ، ۲ / ۲۴۴)لیکن پردے اور دیگر لوازمات کی پابندی ضروری ہے۔


سوگ کسے کہتے ہیں۔۔۔؟


سوگ کی تعریف

             سوگ کے معنی یہ ہیں   کہ زِینت کو ترک کرے۔ (درالمختار معہ ردالمحتار،کتاب الطلاق، فصل فی الحداد، ۵ / ۲۲۱ وبہار شریعت،حصہ۸ ،۲ / ۲۴۲)

 سوگ کے متعلق دو احادیثِ مبارک

      ﴿ 1﴾            حضرت سیّدتنااُمِّ عطیہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے مروی کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: کوئی عورت کسی میّت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ کرے، مگر شوہر پر چار مہینے دس دن سوگ کرے۔ (مسلم ،کتاب الطلاق، باب وجوب الاحداد فی عدۃ الوفاۃ۔۔۔الخ، ص۷۹۹،حدیث۱۴۹۱)

         ﴿2﴾   نیز اُمِّ المؤ منین حضرت سیدتنا اُمِّ سَلَمہ رَضِیَ اللّٰہُ    تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: جس عورت کا شوہر مر گیا ہے، وہ نہ کُسُم کا رنگا ہوا کپڑا پہنے اور نہ گیرو کا رنگا ہوا اور نہ زیور پہنے اور نہ مہندی لگائے اور نہ سُرمہ۔ (ابوداود، کتاب الطلاق،باب فیما تجتنبہ۔۔۔ الخ،۲ / ۴۲۵، حدیث۲۳۰۴ وبہار شریعت،حصہ ۸، ۲ / ۲۴۱)

سوگ سے متعلق ضروری اَحکام

                سوگ اس پر ہے جوکہ عاقِلہ بالِغہ مسلمان ہواور موت یاطلاقِ بائن کی عدت ہو۔ 

        (درالمختار معہ ردالمحتار،کتاب الطلاق،فصل فی الحداد، ۵ / ۲۲۰ وبہار شریعت، حصہ۸ ، ۲ / ۲۴۳)

                 ایسی اسلامی بہن کواپنی عدت پوری ہونے تک سوگ منانا شرعاً واجب اور اس کا ترک حرام ہے۔ حتی کہ طلاق دینے والا سوگ سے منع کرتا ہے یا شوہر نے مرنے سے پہلے کہہ دیا تھا کہ سوگ نہ کرنا جب بھی سوگ واجب ہے۔

                           (درالمختار معہ ردالمحتار،کتاب الطلاق، فصل فی الحداد، ۵ / ۲۲۱)

سوگ میں   کیا کام ممنوع ہیں   

٭ ہر قسم کازیوریہاں   تک کہ انگوٹھی، چھلّا اور کانچ کی چوڑیاں   و غیرہ نہ پہنے۔

٭ کسی بھی رنگ کا ریشمی کپڑا نہ پہنے۔

 

٭ سرمہ نہ لگائے۔

٭ کنگھی نہ کرے۔ (مجبوری ہوتوموٹے دندانوں   کی طر ف سے کنگھی کرے)

٭ ہر طرح کی زیب وزینت ہار، پھول، مہندی، خوشبو وغیرہ کااستعمال ترک کردے۔ 

٭ ضروری نہیں   کہ بحالت سوگ سفید لباس ہی کو پہنے بلکہ سادہ اور ممکن ہوتو پرانا لباس اپنائے اُنہیں   استعمال میں   لائے۔

٭ گھر سے شدید مجبوری کے بغیر نہ نکلے حتی کہ اجتماع، ذِکرو میلاد کی محافل، قرآن خوانی وغیرہ میں   نہیں   جاسکتی۔

٭ کسی عزیزکاانتقال ہوجائے تودورانِ عدت اس کے گھر بھی نہیں   جاسکتی۔

٭ الغرض ہر قسم کاسنگھارختم عِدَّت تک منع ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، ۱۳ / ۳۳۱ملخصاً)

٭ دورانِ عدت جشن ولادت کے موقع پر دلی طور پر خوش ہونے میں   حرج نہیں   ۔ البتہ اس خوشی کے موقع پر بھی عمدہ لباس و زیورات وغیرہ نہیں   پہن سکتی ہاں   گھر میں   جھنڈے اور لائٹیں   وغیرہ لگانے اور نیاز کرنے میں   ممانعت نہیں   ۔

سوگ میں   ان کاموں   کی اجازت ہے

٭ چارپائی پر سونا، بچھونابچھانا، سونے کے لئے ہویابیٹھنے کے لئے منع نہیں   ۔ (فتاویٰ رضویہ، ۱۳ / ۳۳۱ملخصاً)

٭ غسل کرنا، صاف ستھرااور سادہ لباس پہننا۔

٭ سردَرْد کی وجہ سے سرمیں   تیل کااستعمال کرنا۔ تیل کااستعمال کوشش کرے رات میں   کرے اور یہ زینت کی نیت سے نہ کرے۔

٭ آنکھوں   میں   دردکے سبب سرمہ لگاسکتی ہے ممکن ہوتوسفید سرمہ لگائے۔ (یہ بھی رات میں   لگائے اور زینت کی نیت سے نہ لگائے۔)

٭ بال اُلجھ جائیں   یاسردرد کے سبب کنگھا کرسکتی ہے مگر کنگھے کے موٹے دندانوں   والی طرف سے کنگھاکرے جس سے فقط بال سلجھالے زینت کی نیت نہ ہو۔ (فتاویٰ رضویہ، ۱۳ / ۳۳۱ ملخصاً)

٭ جس مر ض کاعلاج گھر میں   نہیں   ہوسکتااس کے لئے باہر جاسکتی ہے لیکن رات کا اکثر حصہ شوہر کے مکان میں   ہی گزارے اور اگر اِسی مکان میں   علاج ممکن ہوتو اَب باہر  نکلناحرام ہے۔

٭ ضرورتاً فون پر گفتگو کرسکتی ہے۔

٭ عِدَّت کے دن ختم ہونے پر عورت کومسجد میں   جانایامسجد کو دیکھنا، کسی رشتے دار وغیرہ کے بلانے پر نکلنا، نفل اداکرنا، صبح یاشام کسی مخصوص وقت عدت کوختم کرنایااُس دن گھر سے ضرور نکلناان تمام باتوں   کی شرعاً کوئی اصل نہیں   ہاں   ختم عدت پراُسی دن گھر سے رشتے دار وغیرہ کے گھر جانے کے لئے نکلنے میں   کوئی حر َج بھی نہیں   اور نہ ہی شکرانے کے نفل پڑھنے میں   کوئی حرج ہے۔ البتہ عدت کو ختم کرنے کے لئے یہ سب کام ضروری نہیں   ۔ (دارالافتاء اہلسنّت)

٭ شوہر کی قبر پر نہ جائے بلکہ گھر سے اس کے لئے فاتحہ پڑھ کر دعائے مغفرت کرے۔