یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

...خود کشی... Suicide



...خود کشی...
Suicide
 

کسی شخص کا اپنے آپ کو قصداً اور غیر قدرتی طریقے سے ہلاک کرنے کا عمل خُودکُشی (Suicide) کہلاتا ہے...
خود کشی لفظ جب بھی بولا جاتا ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی جان کو قتل کر دے....
قوانین قدرت میں سے ہے کہ  کسی جان پر اس کی ہمت سے اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا...
لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا :  اللہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے.. اللہ تعالیٰ کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، لہٰذا غریب پر زکوٰۃ نہیں ، نادار پر حج نہیں ، بیمار پر نماز میں قیام فرض نہیں ، معذور پر جہاد نہیں وغیرہ وغیرہ.... 
بس یہ انسان کی اپنی سوچ کی کوتاہی ہوتی ہے... 
غریب ہونا کوئی جرم نہیں... غربت کا احساس بہت بڑا جرم ہے... 
میں کہا کرتا ہوں... کوئی غریب ہے یہ اس کا قصور نہیں... اس کا کوئی جرم نہیں.... ہاں اگر  اس کی سوچ غریب ہے تو یہ اس کا جرم ہے... چھوٹی سوچ والا کبھی بڑا نہیں بن سکتا... انسان کی سوچ اس کو بڑا انسان بناتی ہے... قدرت  سب کے لیے بہتر فیصلے کرتی ہے... بس انسان خود ان فیصلوں کو نہ مان کر کوتاہی کرتا ہے... 
خود کشی کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے.. یہ ایک ایسا جرم ہے کہ اس کا عذاب بھی بار بار خود کو ہلاک کرنا ہے... 
ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًاo وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّهِ يَسِيرًا ... 
’’اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اﷲ تم پر مہربان ہےo اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اﷲ پر بالکل آسان ہے‘‘  
کیونکہ انسان کی جان رب کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے یہ وہ نعمت ہے جو دیگر کئی نعمتوں کی اساس ہے... 

بندے کی جان خالقِ کائنات کی امانت ہے... اور اس مالک نے جان کو ختم کرنے کا اختیار کسی کو نہیں دیا... 
خود کشی کی سزا... 
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا" صحیح بخاری... 

اگر انسان کو یہ معلوم ہو جائے کہ اپنے آپ کو ہلاک کرنا کتنا بڑا جرم ہے.. اس کی سزا کس قدر بھیانک ہے تو وہ کبھی بھی اس بارے میں نہ سوچے... مگر افسوس کہ انسان کی سوچ پہ تالے لگ جاتے ہیں... 
 خود کشی کے اسباب بہت سے ہیں...
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا... کہ انسان کی سوچ سے اچھا یا برا ہوتا ہے... 
اچھا سوچنے والے کے ساتھ اچھا اور برا سوچنے والے کے ساتھ برا ہوتا ہے... 
جب انسان کی سوچ انتہا درجے کی منفی ہو جاتی ہو تو اس کو ہر طرف اپنے ساتھ ظلم نظر آتا ہے... وہ سمجھتا ہے کہ اب اس مسئلے کا کوئی حل نہیں...
اس قدر سوچ منفی  ہو جاتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے خود کشی کرنا ہی اس کا حل ہے.....
 انسان کی سوچ اس کے آس پاس لوگوں کی وجہ سے خراب ہوتی ہے... ہم خود کشی کرنے والے کو تو برا کہتے ہیں مگر کبھی اس پہ مجبور کرنے والے اپنوں اور غیروں کو کچھ نہیں کہتے...  ہم سمجھتے ہیں کہ ہر  خود کشی کرنے والا اپنی وجہ سے ہی خودکشی کرتا ہے... 70 فیصد خود کشی آس پاس منفی، بے حس، لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے... 
اگر خود کشی کرنے والے کے سابقہ حالات پتہ کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ وہی بچہ ہے جس کو بچپن سے اب تک کہیں نہ کہیں... بہت ڈانٹا گیا ہے.. بے روکا ٹوکا گیا ہے... 
پتہ چلے گا کہ یہ وہی بچہ جو احساس کمتری کا شکار ہوا تھا... 
احساس کمتری انسان کو کھوکھلا کر دیتی ہے... 
جو شخص بچوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے وہ بھی اس کی ناکامی کا سبب بنتا ہے.. 
اس کے جرموں میں گویا برابر کا شریک ہوتا ہے.... 
خودکشی کے اسباب میں سے ایک... پچھتاوا بھی ہے... 
 پچھتاوے کے بعد انسان خود کو اس حد تک قصوروار بنا لیتا ہے کہ اس کا مداوا یا سزا بھگتنے کے باوجود وہ خود کو معاف نہیں کر سکتا.. ایک سبب جب بہت ہی صاف گو اور سچا یا حق اور اصولوں پر ڈٹ جانے والا انسان اور اس حد تک کہ اس کے اندر ملاوٹ اور دوغلہ پن جنم ہی نہیں لیتا یا ختم ہو چکا  ہوتا ہے اور معاشرہ جو کہ اکٽر اوقات  تمام ذاتی خصلتوں اور مفادات سے بھرا ہواہے، اور ایسے میں اس طرح  کا انسان اپنے آپ کو معاشرے کا حصہ سمجھنے میں الجھن محسوس کرتا ہے وہ خود کو تنہا جان لیتا ہے۔اور  معاشرہ کے افراد اس طرح کے انسان کا تمسخر اڑانا شروع کر دیتے ہیں، جب کہ وہ ڈٹا رہتا ہے مگر بہت زیادہ ڈٹ جانا... اس کو اس حد تک تنہا کر دیتا ہے کہ اس کا لاشعور اس پر بھاری ہو جاتا ہے اور ا ایسے افراد کا خود پر قابو پانا  مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسے انسان پہ، لاشعور کا قبضہ اور اندر کی مایوسی اور پھر یہی مایوسی اس کو دنیا کے خوف میں مبتلا کر دیتی ہے۔آنکھیں موند لینا اور خود کے وجود کو چھپانے میں ناکام ہونے اور  اس کو  اذیت جانتے ہوئے ، ارد گرد کے ماحول سے اس حدتک نفرت کہ اپنے وجود کو ان افراد کے درمیان رکھنے کو توہین جان کر خودکشی کو ترجیع دیتا ہے... 
معاشرتی تنگی... 
تنگدستی... 
غربت... 
بے روزگاری... وغیرہ وغیرہ 
یہ سب  اس  عمل پر ابھارتی ہیں... 
میں کہتا ہوں... اس کی سب سے بڑی وجہ رب کی ذات پر یقین نہ ہونا ہے... رب کی رحمت سے مایوس ہو جانا..... 
میں کہا کرتا ہوں... کچھ بھی ہو جائے... 
ساری دنیا روٹھ جائے ہر طرف سے مایوسی چھا جائے مگر رب کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے....
جن کو رب کی رحمت سے امید ہوتی ہے وہ کہیں سے نا امید نہیں ہوتے.. 
مسئلہ یہ ہے کہ ہم مخلوق سے تو  امیدیں لگا لیتے ہیں مگر خالق کائنات سے امید نہیں لگاتے.... 
ناشکری انسان کو مایوسی کی طرف لے جاتی ہے... 
شکر کی عادت اپنائیے... 
شکر انسان کو ہر لحاظ سے مالا مال کر دیتا ہے... 
خود کشی صرف یہ نہیں کہ انسان اپنے آپ کو ہلاک کر دے... 
بلکہ اپنے ضمیر کو مار دینا.... بھی خود کشی ہے... اور اس خود کشی کی وجہ سے کئی انسانوں کی خوشیوں کے قاتل بن جاتے ہیں...کتنوں کے خواب صرف آپ کے بے ضمیر ہونے کی وجہ سے چکنا چور ہو جاتے ہیں... 
بے حس انسان کئی انسانوں کا قاتل بن جاتا ہے.... ظالم آدمی کو ظلم اس لیے نظر نہیں آتا کیونکہ اس کے اندر احساس نہیں ہوتا.. جس کی وجہ سے اس کو کسی کی تکلیف نظر نہیں آتی.. کسی کا دکھ، درد محسوس نہیں ہوتا... 
لوگوں کے درد کو سمجھیے... 
احساس کمتری کو کم کیجیے.. 
اچھا سوچیے... اچھے لوگوں کی کہانیاں پڑھیے... 
مایوس کن لوگوں سے بچیے... 
جو امید دلائیں... جو یقین دیں ان سے بات کیجیے... ان سے رشتہ جوڑے... 
مثبت لوگوں کو اپنی زندگی میں شامل کیجیے... 

تحریر.. حسن حاسی 
31.8.2020