یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

"غسل میت اور کفن پہنانے کا طریقہ"



"غسل میت اور کفن پہنانے  کا طریقہ"

تحریر: عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057

            میت کو غسل دینا جہاں   فرضِ کفایہ ہے وہیں   بہت سی فضیلتوں   اور اَجر و ثواب کے حصول کا ذریعہ بھی ہے اور جو خلوصِ دل سے حصولِ ثواب کے لیے میت کو غسل دے تو اللّٰہ   عَزَّوَجَلَّ  کی رحمت سے گناہوں   کی بخشش کا حق دار بن جاتا ہے۔ چنانچہ

میت نہلانے کی فضیلت
            حضرت سَیِّدُنا جابررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: جس نے کسی میت کو غسل دیا وہ اپنے گناہوں   سے ایسا پاک وصاف ہوجائے گا جیسا اس دن تھا جس دن اس کی ماں   نے اُسے جنا تھا۔        (معجم اوسط للطبرانی،باب الہاء،۶ / ۴۲۹،حدیث۹۲۹۲)
چالیس کبیرہ گناہوں   کی بخشش کا نسخہ
            حدیث پاک میں   ہے: جس نے کسی میت کو غسل دیا اور اس کے عیب کو چھپایا خدائے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ ایسے شخص کے چالیس کبیرہ گناہ بخش دیتا ہے۔ (معجم کبیر للطبرانی، باب الالف،۱ / ۳۱۵،حدیث۹۲۹)

غسل میت کا طریقہ
            اگر بتیاں   یا لوبان جَلاکر تین یا پانچ یا سات بار غسل کے تختے کو دُ ھونی دیں   یعنی اتنی بار تختے کے گرد پھرائیں   ، تختے پر میت کو اِس طرح لٹائیں   جیسے قبر میں   لٹاتے ہیں   ، ناف سے گھٹنوں   سمیت کپڑے سے چھپا دیں   ، (آج کل غسل کے دوران سفید کپڑا اُڑھاتے ہیں   اوراِس پر پانی لگنے سے میت کے سَتْر کی بے پردگی ہوتی ہے لہٰذا کتھئی یاگہرے رنگ کا اِتنا موٹا کپڑاہو کہ پانی پڑنے سے سَتْر نہ چمکے، کپڑے کی دوتہیں   کرلیں   توزیادہ بہتر) پردے کی تمام تر احتیاط اور نرمی سے میت کا لباس اُتار لیں   ۔ اَب نہلانے والا اپنے ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر پہلے دونوں   طرف اِستنجا کروائے (یعنی پانی سے دھوئے) پھر نماز جیسا وضو کروائیں   یعنی منہ پھر کہنیوں   سمیت دونوں   ہاتھ تین تین بار دُھلائیں   ، پھر سر کا مسح کریں   ، پھر تین بار دونوں   پاؤں   دُھلائیں   ، میّت کے وضو میں   پہلے گٹوں   تک ہاتھ دھونا،کلی کرنا اور ناک میں   پانی ڈالنا نہیں   ہے، البتہ کپڑے یارُوئی کی پھریری بھگوکردانتوں   ، مسوڑھوں   ، ہونٹوں   اور نتھنوں   پر پھیر دیں   ۔ پھر سر یا داڑھی کے بال ہوں   تو دھوئیں   ، صابن یا شیمپو استعمال کر سکتے ہیں   ۔ اَب بائیں   (یعنی اُلٹی)کروٹ پر لٹا کربیری کے پتوں   کا جوش دیا ہوا (جو اَب نیم گرم رہ گیاہو) اوریہ نہ ہوتوخالص نیم گرم پانی سر سے پاؤں   تک بہائیں   کہ تختے تک پہنچ جائے پھر سیدھی کروٹ لٹا کر اِسی طرح کریں   پھر ٹیک لگا کر بٹھائیں   اور نرمی کے ساتھ نیچے کو پیٹ کے نچلے حصے پر ہاتھ پھیریں   اور کچھ نکلے تو دھو ڈالیں   ۔ دوبارہ وضو اور غسل کی حاجت نہیں   پھرآخر میں   سر سے پاؤں   تک کافور کا پانی بہائیں   پھر کسی پاک کپڑے سے بدن آہستہ سے پونچھ دیں   ۔ ایک مرتبہ سارے بدن پر پانی بہانا فرض ہے اور تین مرتبہ سنت غسل میت میں   بے تحاشہ پانی نہ بہائیں   آخرت میں   ایک ایک قطرے کا حساب ہے یہ یادرکھیں   ۔([1]) (مَدَنی وصیت نامہ، ص۱۲ماخوذاً)


عورتوں کے غسل میت کا طریقہ:
            غسل و کفن کے لیے ان چیزوں   کا انتظام فرمالیں   ۔
{1} غسل کاتختہ{2} اگر بتّی{3} ماچس{4}دو موٹی چادریں   (کتھئی ہوں   تو بہتر ہے) {5}روئی{6}بڑے رومال کی طرح کے دوکپڑوں   کے پیس(استجاء وغیرہ کے لیے) {7}دو بالٹیاں   {8}دو مَگ{9}صابن{10}بیری کے پتے{11} دو تولیے {12}کفن کا بغیر سلا ہوا بڑے عرض کا کپڑا {13}قینچی {14}سوئی دھاگہ {15}کافور {16}خوشبواگر بتیاں   یا لوبان جَلا کر تین یا پانچ یا سات بار غسل کے تختے کو دُ ھونی دیں   یعنی اتنی بار تختے کے گرد پھرائیں   ، تختے پر میت کو اِس طرح لٹائیں   جیسے قبر میں   لٹاتے ہیں   ،  سینے سے گھٹنوں   سمیت کپڑے سے چھپا دیں   (آج کل غسل کے دوران سفید کپڑا اُڑھایا جاتا ہے اور اِس پر پانی لگنے سے میت کے سَتْر کی بے پردگی ہوتی ہے لہٰذا کتھئی یاگہرے رنگ کا اِتنا موٹا کپڑاہو کہ پانی پڑنے سے سَتْر نہ چمکے،کپڑے کی دوتہیں   کرلیں   توزیادہ بہتر)  پردے کی تمام تر احتیاط اور نرمی سے میت کا لباس اتار یں   ۔ اسی طرح کیل، بُندے یا کوئی اور زیور بھی نرمی سے اُتار لیں   ، اَب نہلانے والی اپنے ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر پہلے دونوں   طرف استنجا کروائے (یعنی پانی سے دھوئے)پھر نماز جیسا وضو کروائیں   یعنی منہ پھر کہنیوں   سمیت دونوں   ہاتھ تین تین بار دُھلائیں   ، پھر سر کا مسح کریں   ، پھر تین بار دونوں   پاؤں   دُھلائیں   ، میت کے وضو میں   پہلے گٹوں   تک ہاتھ دھونا، کلی کرنا اورناک میں   پانی ڈالنا نہیں   ہے، البتہ کپڑے یارُوئی کی پھریری بھگوکر دانتوں   ، مسوڑھوں   ، ہونٹوں   اور نتھنوں   پر پھیر دیں   ۔ پھر سر دھوئیں   ، صابن یا شیمپو یا دونوں   استعمال کئے جاسکتے ہیں   (لیکن ان کے زیادہ استعمال سے بالوں   میں   الجھاؤ پیدا ہوتا ہے لہٰذا بیری کے پتوں   کا جوش دیا ہوا پانی کافی ہے) اب بائیں   (یعنی اُلٹی) کروٹ پر لٹا کربیری کے پتوں   کا جوش دیا ہوا (جواَب نیم گرم رہ گیاہو) اوریہ نہ ہوتوخالص نیم گرم پانی سر سے پاؤں   تک بہائیں   کہ تختے تک پہنچ جائے پھر سیدھی کروٹ لٹا کر اِسی طرح کریں   پھر ٹیک لگا کر بٹھائیں   اور نرمی کے ساتھ نیچے کو پیٹ کے نچلے حصے پر ہاتھ پھیریں   اور کچھ نکلے تو دھو ڈالیں   ۔ دوبارہ وضو اور غسل کی حاجت نہیں   پھرآخر میں   سر سے پاؤں   تک کافور کا پانی بہائیں   پھر کسی پاک کپڑے سے بدن آہستہ سے پونچھ دیں   ۔ غسل میت میں   بے تحاشہ پانی نہ بہائیں   آخرت میں   ایک ایک قطرے کا حساب ہے یہ یاد رکھیں   ۔ (مَدَنی وصیت نامہ، ص۱۲ماخوذاً)

غسل میت کے مسائل
٭ میت کے غسل و کفن اور دفن میں   جلدی چاہئے کہ حدیث میں   اس کی بہت تاکید آئی ہے۔ (جوہرۃ نیرۃ،کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ص۱۳۱)مفسر شہیر،حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْمَنَّان فرماتے ہیں   : حتی الامکان دفن میں   جلدی کی جائے، بلاضرورت دیر لگانا سخت ناجائزہے کہ اس میں   میت کے پھولنے پھٹنے اور اسکی بے حرمتی کا اندیشہ ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،جنازوں   کی کتاب ،۲ / ۴۴۷)
٭ ایک مرتبہ سارے بدن پر پانی بہانا فرض ہے اور تین مرتبہ سنت جہاں   غسل دیں   مستحب یہ ہے کہ پردہ کر لیں   کہ سوا نہلانے والوں   اور مددگاروں   کے دوسرا نہ دیکھے، نہلاتے وقت خواہ اس طرح لٹائیں   جیسے قبر میں   رکھتے ہیں   یا قبلہ کی طرف پاؤں   کرکے یا جو آسان ہو کریں   ۔ (عالمگیری،کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الثانی فی الغسل، ۱ / ۱۵۸)

نہلانے والے کے لیے مسائل
٭  نہلانے والا با طہارَت ہو۔اگر جُنُبی شخص(جس پر غسل فرض ہوچکا ہو)نے غسل دیا تو کراہت ہے مگر غسل ہوجائے گا۔ (عالمگیری،کتاب الصلاۃ ، الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الثانی فی الغسل، ۱ / ۱۵۹)
٭ اگر بے وضو نے نہلایا تو کراہت نہیں   ۔ (عالمگیری،کتاب الصلاۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الثانی فی الغسل،۱ / ۱۵۹)
٭ بہتر یہ ہے کہ نہلانے والا میت کاسب سے زیادہ قریبی رشتے دار ہو ، وہ نہ ہو یا نہلانا نہ جانتا ہو تو کوئی اور شخص جو امانت دار اورپرہیز گار ہو۔ (عالمگیری،کتاب الصلاۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الثانی فی الغسل، ۱ / ۱۵۹)
٭ نہلانے والے کے پاس خوشبو سلگانا مستحب ہے کہ اگر میّت کے بدن سے بو آئے تو اسے پتا نہ چلے ورنہ گھبرائے گا، نیز اُسے چاہیے کہ بقدر ضرورت اعضائے میّت کی طرف نظر کرے بلا ضرورت کسی عضو کی طرف نہ دیکھے کہ ممکن ہے اُس کے بدن میں   کوئی عیب ہو جسے وہ چھپاتا تھا۔  (جوہرۃ نیرۃ، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ص۱۳۱)
٭ مرد کو مرد نہلائے اور عورت کو عورت، میّت چھوٹا لڑکا ہے تو اُسے عورت بھی نہلا سکتی ہے اور چھوٹی لڑکی کو مرد بھی، چھوٹے سے یہ مراد کہ حدِ شہو َت کو نہ پہنچے ہوں   ۔(عالمگیری،
کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الثانی فی الغسل،۱ / ۱۶۰)
٭ غسل میت کے بعد غسال(غسل دینے والے ) کو غسل کرنا مستحب ہے۔ (دارالافتاء اہلسنّت)
مردہ اگر پانی میں   گر جائے
٭ مردہ اگر پانی میں   گر گیا یا اس پر مینھ برسا کہ سارے بدن پر پانی بہہ گیا غسل ہوگیا، مگر زندوں   پر جو غسل میّت واجب ہے یہ اس وقت بری ٔالذمہ ہوں   گے کہ نہلائیں   ، لہٰذا اگر مردہ پانی میں   ملا تو بہ نیت غسل اُسے تین بار پانی میں   حرکت دے دیں   کہ غسل مسنون ادا ہوجائے اور ایک بار حرکت دی تو واجب ادا ہوگیا مگر سنت کا مطالبہ رہا۔ 
(ردالمحتار،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: فی حدیث کل سبب و نسب منقطع الا سببی و نسبی، ۳ / ۱۰۹)
اگر میت کے بدن کی کھال جھڑتی ہو
٭ اگر میت کے جسم کے کسی حصے کی کھال خودبخود جھڑ رہی ہو تو اس پر پانی نہ ڈالا جائے اور اس کھال کو میت کے ساتھ دفنا دیا جائے۔ (دارالافتاء اہلسنّت)
٭ میّت کا بدن اگر ایسا ہوگیا کہ ہاتھ لگانے سے کھال اُدھڑے گی تو ہاتھ نہ لگائیں   صرف پانی بہا دیں   ۔ (عالمگیری،کتاب الصلاۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز،الفصل الثانی فی الغسل،۱ /  ۱۵۸)

میت کے بال وناخن کاٹنا:
٭ میّت کی داڑھی یا سر کے بال میں   کنگھا کرنا یا ناخن تراشنا یا کسی جگہ کے بال مونڈنا یا کترنا یا اُکھاڑنا، ناجائز و مکروہ و تحریمی ہے بلکہ حکم یہ ہے کہ جس حالت پر ہے اُسی حالت میں   دفن کر دیں   ، ہاں   اگر ناخن ٹوٹا ہو تو لے سکتے ہیں   اور اگر ناخن یا بال تراش لیے تو کفن میں   رکھ دیں   ۔ ( ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: فی القراء ۃ عند المیت، ۳ / ۱۰۴)
٭  میت کے جسم کا جو عضو بیماری وغیرہ کی وجہ سے نکالا گیا ہو اُن سب کو دفنانا ہوگا۔  (دارالافتاء اہلسنّت)
متفرق مسائل
٭  اگر میت کے جسم کے زخم پر پٹی لگی ہو، نہ اُکھیڑیں   ۔ (دارالافتاء اہلسنّت)
 ٭  کینولہ لگانے کے بعد جو پٹی لگائی گئی ہے نیم گرم پانی ڈالنے سے اگر باآسانی نکل جائے تو نکال دیں   ورنہ چھوڑ دیں   ۔ (دارالافتاء اہلسنّت)
٭ غسل میت کے بعد اگر خون جاری ہوجائے اور اس سبب سے کفن ناپاک ہو جائے تو نہ غسل (دوبارہ ) دیا جائے گا اور نہ ہی کفن تبدیل کیا جائے۔ بلکہ اس طرح کاکوئی بھی معاملہ ہوجائے تو غسل اور تکفین میں   سے کچھ بھی دوبارہ نہ کیا جائے البتہ بہتر ہے کہ جہاں   سے خون بہہ رہا ہو وہاں   زیادہ روئی رکھ دیں   کہ کفن خراب نہ ہو۔  (دارالافتاء اہلسنّت )
٭ نہلانے کے بعد اگر ناک کان منہ اور دیگر سوراخوں   میں   روئی رکھ دیں   تو حرج نہیں   مگر بہتر یہ ہے کہ نہ رکھیں   ۔ (درالمختار معہ رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ۳ / ۱۰۴)
٭  میت کے اِستنجاء کی جگہ کو ڈھیلوں   سے صاف کرنے میں   حرج نہیں   مگر بہتر ہے کہ ہر اُس چیز کے استعمال سے بچا جائے جس سے میت کو معمولی سی بھی تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
(دارالافتاء اہلسنّت)
٭ بغلیں   اور دیگر اعضاء جہاں   پانی باآسانی نہیں   پہنچتا وہاں   توجہ سے پانی بہایا جائے۔
٭  غسل کے دوران پانی ڈالتے وقت دعائیں   یا کلمہ وغیرہ پڑھنا ضروری نہیں   پانی سے پاکی حاصل ہوجائے گی۔ (دارالافتاء اہلسنّت)
٭  چارپائی پر بھی غسل دیا جاسکتا ہے مگر بہتر ہے کہ اس کے لئے کوئی چارپائی مخصوص کر لی جائے پھر تمام غسل اُسی چارپائی پر دئیے جائیں   لیکن اگر کسی نے ایسا نہیں   کیا اور استعمالی چارپائی پر بھی غسل دیا تو حرج نہیں   لیکن بعد میں   بھی اُس چارپائی کو استعمال کیا جائے یونہی چھوڑ دینا اِسراف ہے۔  (دارالافتاء اہلسنّت)
٭ بعض جگہ دَستور ہے کہ عموماً میّت کے غسل کے لیے کورے گھڑے بدھنے ( مٹی کے نئے مٹکے اورلوٹے) لاتے ہیں   اس کی کچھ ضرورت نہیں   ، گھر کے استعمالی گھڑے لوٹے سے بھی غسل دے سکتے ہیں   اور بعض یہ جَہالت کرتے ہیں   کہ غسل کے بعد توڑ ڈالتے ہیں   ، یہ ناجائز و حرام ہے کہ مال ضائع کرنا ہے اور اگر یہ خیال ہو کہ نجس ہو گئے تو یہ بھی فضول بات ہے کہ اوّلاً تو اُس پر چھینٹیں   نہیں   پڑتیں   اور پڑیں   بھی تو راجح یہ ہے کہ میّت کا غسل نجاست حکمیہ دُور کرنے کے لیے ہے تو مستعمل پانی کی چھینٹیں   پڑیں   اور مستعمل پانی نجس نہیں   ، جس طرح زندوں   کے وضو و غسل کا پانی اور اگر فرض کیا جائے کہ نجس پانی کی چھینٹیں   پڑیں   تو دھو ڈالیں   ، دھونے سے پاک ہو جائیں   گے اور اکثر جگہ وہ گھڑے بدھنے مسجدوں   میں   رکھ دیتے ہیں   اگر نیت یہ ہو کہ نمازیوں   کو آرام پہنچے گا اور اُس کا مردے کو ثواب، تو یہ اچھی نیت ہے اور رکھنا بہتر اور اگر یہ خیال ہو کہ گھر میں   رکھنا نَحوست ہے تو یہ نری حماقت اور بعض لوگ گھڑے کا پانی پھینک دیتے ہیں   یہ بھی حرام ہے۔ (بہار شریعت ،حصہ۴، ۱ / ۸۱۶)
٭ غُسلِ میت کے بعد میت کی آنکھوں   میں   سُرمہ لگانا خلافِ سنت ہے۔ (دارالافتاء اہلسنّت)
٭  میت کے منہ میں   بتیسی لگی ہواوراگر با آسانی نکل سکے کہ مردے کو تکلیف نہ ہو تو نکال دی جائے اور اگر تکلیف کا اندیشہ ہو تو نہ نکالی جائے۔ (دارالافتاء اہلسنّت)
٭ بد مذہب کی میت کو کسی نے غسل دینے کے لیے کہا تو نہ جاناچاہیے کیونکہ بد مذہب کے ساتھ اس طرح کا احسان کرنے کی شرعاً اجازت نہیں   ۔ (دارالافتاء اہلسنّت)
٭   عورت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے۔ (عالمگیری،کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الثانی فی الغسل، ۱ / ۱۶۰)

عورت کے غسل میت کے مسائل:
٭ حیض یا نفاس والی یا  جُنُبِیَہ کا اِنتقال ہوا تو ایک ہی غسل کافی ہے کہ غسل واجب ہونے کے کتنے ہی اسباب ہوں   سب ایک غسل سے ادا ہوجاتے ہیں   ۔   (درالمختار معہ رد المحتار،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ۳ / ۱۰۲) 
٭  بہتر ہے کہ مرحومہ کے قریبی رشتے دار مثلاًماں   بیٹی بہن بہو وغیرہ اگر ہوں   تو اُنہیں   بھی غسل میں   شامل کرلیا جائے کیونکہ گھر والے نرمی سے غسل دیں   گے۔
(عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الثانی فی الغسل،۱ / ۱۵۹بتغیر)
٭  حامِلہ (Pregnant)بھی غسل دے سکتی ہے۔
٭ نہلانے والی با طہارت ہواور اگر جُنُبِیَہ (جس پر غسل فرض ہو ) نے غسل دیا تو کراہت ہے مگر غسل ہوجائے گا۔
(عالمگیری،کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الثانی فی الغسل،۱ / ۱۵۹)
٭  اگر میت کے ناخنوں   پر نیل پالش لگی ہو اور میت کو تکلیف نہ ہو تو جس قدر ممکن ہوسکے چھڑائیں   ،اس کے لئے ریموور (Remover) استعمال کرسکتے ہیں   ۔ (دارالافتاء اہلسنّت)
٭ غسل دیتے وقت جو چادر وغیرہ میت کو اوڑھائی جاتی ہے جب تک اس کے ناپاک ہونے کا یقین نہ ہواسے ناپاک نہیں   کہیں   گے لہٰذا اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔  (دارالافتاء اہلسنّت) 
٭  مرنے کے بعد زینت کرنا (میک اپ و مہندی لگاناوغیرہ )ناجائز ہے۔ (دارالافتاء اہلسنّت)
٭  عوام میں   یہ مشہورہے کہ غسل میت کے لئے جانے والی اسلامی بہنوں   کے ساتھ روحانی مسائل ہوجاتے ہیں   اس کی کوئی اصل نہیں   یہ محض ایک وہم ہے، اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غیر شادی شدہ کو میت کے قریب نہیں   آنا چاہئے اس کی بھی کوئی اَصْل نہیں   ۔(دارالافتاء اہلسنّت)
٭ شوہر اپنی بیوی کے جنازہ کو کندھا بھی دے سکتا ہے، قبر میں   بھی اُتار سکتا ہے اور منہ بھی دیکھ سکتا ہے صرف غسل دینے اوربلاحائل بدن کوچھونے کی ممانعت ہے۔     (درالمختار معہ رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ۳ / ۱۰۵) 

مرد کوکفن پہنانے کاطریقہ
            کفن کو تین یا پانچ یا سات بار دُھونی دے دیں   ۔ پھر اِس طرح بچھائیں   کہ پہلے لفافہ یعنی بڑی چادر اُس پر تہبند اوراُس کے اُوپر کفنی رکھیں   ۔ اَب میت کو اِ س پر لٹائیں   اورکفنی پہنائیں   ، اب داڑھی پر (نہ ہوتوٹھوڑی پر) اورتمام جسم پر خوشبو ملیں   ، وہ اَعضاء جن پر سجدہ کیا جاتاہے یعنی پیشانی، ناک، ہاتھوں   ، گھٹنوں   اورقدموں   پر کافور لگائیں   ۔
پھر تہبنداُلٹی جانب سے پھر سیدھی جانب سے لپٹیں   ۔ اب آخر میں   لفافہ بھی اِسی طرح پہلے اُلٹی جانب سے پھر سیدھی جانب سے لپٹیں   تاکہ سیدھا اُوپر رہے۔ سر اورپاؤں   کی طرف باندھ دیں   ۔ (مَدَنی وصیت نامہ، ص۱۳)
عورت کوکفن پہنانے کاطریقہ
            کفن کو تین یا پانچ یا سات بار دُھونی دے دیں   ۔ پھر اِس طرح بچھائیں   کہ پہلے لفافہ یعنی بڑی چادر اُس پر تہبند اوراُس کے اُوپر کفنی رکھیں   ۔ اَب میت کو اِ س پر لٹائیں   اورکفنی پہنائیں   اب اُس کے بالوں   کے دوحصے کرکے کفنی کے اُوپر سینے پر ڈال دیں   اوراوڑھنی کو آدھی پیٹھ کے نیچے بچھا کر سر پر لاکر منہ پر نقاب کی طرح ڈال دیں   کہ سینے پررہے۔ اِس کا طول آدھی پشت سے نیچے تک اورعرض ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لوتک ہو۔ بعض لوگ اوڑھنی اس طرح اُڑھاتے ہیں   جس طرح عورتیں   زندگی میں   سر پر اوڑھتی ہیں   یہ خلافِ سنت ہے۔ اب تمام جسم پر خوشبو ملیں   ، وہ اَعضاء جن پر سجدہ کیا جاتاہے یعنی پیشانی، ناک، ہاتھوں   ، گھٹنوں   اورقدموں   پر کافور لگائیں   ۔پھر تہبنداُلٹی جانب سے پھر سیدھی جانب سے لپٹیں   ۔ اب آخر میں   لفافہ بھی اِسی طرح پہلے اُلٹی جانب سے پھر سیدھی جانب سے لپٹیں   تاکہ سیدھا اُوپر رہے ۔سر اورپاؤں   کی طرف باندھ دیں   ۔ پھر آخر میں   سینہ بند پستان کے اوپر والے حصے سے ران تک لاکر کسی ڈوری سے باندھیں   ۔ (آجکل عورتوں   کے کفن میں   بھی لفافہ ہی آخر میں   رکھا جاتاہے تواگر کفنی کے بعد سینہ بند رکھا جائے توبھی کوئی مضائقہ نہیں   مگر افضل ہے کہ سینہ بند سب سے آخر میں   ہو) (مَدَنی وصیت نامہ، ص۱۳)

نوٹ : یہ تحریر مکتبۃ المدینہ دعوتِ اسلامی کی کتاب تجہیز و تکفین سے ماخوذ کی گئی ہیں