یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

*امام احمد رضا خان سید کیوں نہیں تھے؟*




*امام احمد رضا خان سید کیوں نہیں تھے؟*


 سید العلماء حضرت علامہ مولانا سید آل مصطفی میاں صاحب  سجادہ نشین آستانہ عالیہ برکاتیہ مارہرہ  فرماتے ہیں:
میں نے  بہت  غور و فکر کیا کہ اعلی حضرت ہر فضیلت و  کرامت کے  حامل تھے انکی ذات بابرکات مظہر ذات و صفات سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تھی
لیکن اللہ تعالی نے آپ کو  پٹھان قوم میں  کیوں  پیدا  فرمایا ، سادات میں  کیوں  پیدا نہیں فرمایا؟؟
غور و فکر کیا تو سمجھ آیا کہ اگر آپ سید  ہوتے اور سید ہوکر  سیدوں  کا  احترام  کرتے، انکی تعظیم کے خطبہ پڑھتے ،تو لوگ  کہ سکتے تھے   میاں  اپنی منہ اپنی تعریف  کررہے ہیں اور اپنی توقیر  کرانے  کیلئے  یہ طریقے اپنا  رہے ہیں 
تو  رب تعالی کی  یہ  حکمت  ظاہر ہوئی کہ آپ کو  سادات میں سے  پیدا نہیں  فرمایا کہ قیامت تک  اعداء دین کو انگلی اٹھانے کا  موقع نہ  مل سکے  

*سید امانت رسول قادری* فرماتے ہیں:

جس شان سے اعلی حضرت نے  سیدوں  کا ادب و احترام فرمایا  اور سادات کی تعظیم و تکریم  کرکے امت کو  دیکھایا تاریخ میں  اسکی  مثال نہیں  ملتی 

⭐ : سید اعلی حضرت کی محفل میں کوئی  پھل وغیرہ آتا تو آپ پہل بھی سادات سے  فرماتے اور  بقیہ حاضرین کی بنسبت  دوگنا پیش  فرماتے 

⭐: ایک  غریب سید صاحب جو  چھوٹے  بچے تھے کام کرنے کےسلسلے میں آئے تو آپ نے انکا کا  مشاہرہ بھی  طے  فرمایا اور  اپنے گھر والوں سے فرمایا دیا کہ یہ  مخدوم زادے ہیں انکی  ضرورت کا  خیال  رکھا  جائے اور  کوئی  کام  بھی  نہ  لیا  جائے 

اور آپ کا  پالکی والا واقعہ مشہور ہے کہ وقت کے امام اور عاشق صادق نے خون رسول  کی خوشبو سونگھ لی اوربڑھاپے کے عالم میں  
وقت کا امام  روتے ہوئے  عرض  گزار ہورہا ہے  
سید زادے سے  معافی مانگ رہا ہے
  معافی مل جاتی ہے  مگر  امام جلیل  اصرار  کررہا ہے کہ اب آپ  بیٹھیں گے میں  پالکی کو  اٹھاوں گا  یہی میری معافی کا کفارہ  ہے 
مجبورا  سید زادے  سوار ہوتے ہیں  وقت کا امام اپنے آقا علیہ السلام کے شہزادے کو  کاندھوں پہ  اٹھا رہا ہے  
ہزاروں  مرید  التجائیں  کررہے ہیں کہ ہم آقا زادے کی  خدمت  کرتے ہیں  
مگر  مجدد وقت کے منہ سے الفاظ نکلتے ہیں وہ سونے کے قلم اور چاندی کے ورق پر  لکھنے کے قابل ہیں 

*مجدد وقت فرماتے ہیں کہ اگر روز قیامت میرے آقا نے  پوچھ لیا*
*اے احمد رضا تجھے اٹھانے کیلئے میرے شہزادے کے کندھے ملے تھے تو کیا  جواب دوں گا*

یہ وہ اولاد رسول کے ادب کا  انوکھا انداز  کہ  رہتی دنیا تک  تاریخ میں  سنہری حروف کے ساتھ لکھا  جائے گا 

(فیضان اعلی حضرت ص٣٠١)

*✍محمد ساجد مدنی*