یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

"تعزیت اور اس کا ثواب"



"تعزیت اور اس کا ثواب"

مرتب: عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057

تعزیت کسے کہتے ہیں اور اس کا ثواب:
             تعزیت کا لغوی معنی ہے صبر دلانا،دِلاسادینا اور اس سے مراد مصیبت زدہ آدمی کو صبر کی تلقین کرنا ہے نیز میت کے لواحقین سے اظہارِ افسوس و اظہارِہمدردی کرتے ہوئے، دعائیہ الفاظ اور تسلی آموز کلمات کہنے کو بھی تعزیت کہتے ہیں۔ ( اردو لغت،۵ /  ۲۹۳)
            جب کسی کا انتقال ہو جائے تو اس کے قریبی رشتہ داروں   کے پاس تعزیت کے لیے جانا سنت ہے یہ کارِ ثواب ہے اور اس کے بھی فضائل ہیں   چنانچہ حدیثِ مبارک میں ہے
            حضرت سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ رحمت عالم، نور مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمفرماتے ہیں   : جسے کسی جنازہ کی خبر ملے اور وہ اہل میت کے پاس جا کر ان کی تعزیت کرے اللّٰہ تعالیٰ اس کے لیے ایک قیراط ثواب لکھے گا۔ (عمدۃ القاری،کتاب الایمان،باب اتباع الجنائز من الایمان،۱ / ۴۰۰،تحت الحدیث۴۷)
ایک اور حدیث میں ہے
            حضرت سیدنا داؤد عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک مرتبہ بارگاہِ الٰہی میں   عرض کی: یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! جو تیری رضا کا طالب ہوکر کسی غم زدہ کی تعزیت کرے تو تیری طرف سے اس کی جزا کیا ہے؟ ارشادِ باری ہوا: میں   اُسے لباسِ تقویٰ پہناؤں   گا اور اُسے جہنم سے بچا کر جنت میں   داخل کروں   گا۔  (جامع الاحادیث ، حرف القاف، ۵ / ۳۳۵ ، حدیث۱۵۱۸۷)
تعزیت کے بارے میں مزید 16 احکام:
3فرامین مصطفیٰ : {1}جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اُس کے لئے اُس مصیبت زدہ جیسا ثواب ہے (ترمذی،کتاب الجنائز،باب: ماجاء فی أجر من عزی مصابا،۲ /  ۳۳۸،  حدیث۱۰۷۵)



{2}جو بندۂ مومن اپنے کسی مصیبت زدہ بھائی کی تعزیت کر ے گا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّقیامت کے دن اُسے کرامت کا جوڑا پہنائے گا  (ابن ماجہ ،کتاب الجنائز، باب ماجاء فی ثواب من عزی مصابا، ۲ / ۲۶۸، حدیث۱۶۰۱) {3}جو کسی غمزدہ شخص سے تعزیت کر ے گا  اللّٰہعَزَّوَجَلَّاُسے تقوی کا لباس پہنائے گا اور رُوحو ں   کے درمیان اس کی رُوح پررَحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللّٰہ      عَزَّوَجَلَّ اسے جنت کے جوڑوں   میں   سے دوایسے جوڑے پہنائے گاجن کی قیمت (ساری )دنیا بھی نہیں   ہوسکتی (معجم اوسط، باب الہائ، من اسمہ ہاشم، ۶  /  ۴۲۹، حدیث ۹۲۹۲)٭ حضرت سیّدناموسیٰ کَلِیْمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے بارگاہِ ربُّ العزت عَزَّوَجَلَّ میں   عرض کی: اے میرے ربعَزَّوَجَلَّ! وہ کون ہے جو تیرے عرش کے سائے میں   ہوگا جس دن اُس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا؟ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: ’’اے موسیٰ ! وہ لوگ جو مریضوں   کی عیادت کرتے ہیں   ، جنازے کے ساتھ جاتے ہیں   اور کسی فوت شدہ بچے کی ماں   سے تعزیت کرتے ہیں   ‘‘   (تمہید الفرش للسیوطی، ص۶۲)٭  تعزیت کا معنی ہے: مصیبت زدہ آدمی کو صبر کی تلقین کرنا ۔ ’’تعزیت مسنون (یعنی سنت) ہے‘‘ (بہار ِشریعت ، حصہ ۴، ۱ / ۸۵۲)٭  دفن سے پہلے بھی تعزیت جائز ہے مگر افضل یہ ہے کہ دفن کے بعد ہو یہ اُس وقت ہے کہ اولیائے میّت (میّت کے اہل خانہ ) جز َع وفز َع (یعنی رونا پیٹنا)نہ کرتے ہوں   ، ورنہ اُن کی تسلی کے لیے دفن سے پہلے ہی کرے (جوہرۃ نیرۃ، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ص۱۴۱) ٭  تعزیت کا وقت موت سے تین دن تک ہے، اِس کے بعد مکروہ ہے کہ غم تازہ ہوگا مگر جب تعزیت کرنے والا یا جس کی تعزیت کی جائے وہاں   موجود نہ ہو یا موجود ہے مگر اُسے علم نہیں   تو بعد میں   حر َج نہیں   (جوہرۃ نیرۃ، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز،ص۱۴۱ورد المحتار،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجنائز،    مطلب فی کراہیۃ الضیافۃ من اھل المیت، ۳ / ۱۷۷)٭  (تعزیت کرنے والا) عاجزی واِنکساری اور رنج وغم کا اظہار کرے، گفتگو کم کرے اور مسکرانے سے بچے کہ (ایسے موقع پر) مسکرانا(دلوں   میں   ) بغض وکینہ پیدا کرتا ہے (آدابِ دین( مترجم)، ص۳۵)٭  مستحب یہ ہے کہ میت کے تمام اَقارِب کو تعزیت کریں   ، چھوٹے بڑے مرد و عورت سب کو مگر عورت کو اُس کے مَحارِم ہی تعزیت کریں   ۔ (بہار ِشریعت ، حصہ ۴، ۱ / ۸۵۲) تعزیت میں   یہ کہے: اللّٰہعَزَّوَجَلَّآپ کو صبرجمیل عطا فرمائے اور اس مصیبت پر اَجر عظیم عطا فرمائے اوراللّٰہ    عَزَّوَجَلَّ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان لفظوں   سے تعزیت فرمائی: اِنَّ لِلّٰہِ مَااَخَذَ وَلَہُ مَااَعْطٰی وَکُلٌّ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ۔ ترجمہ: خدا ہی کا ہے جو اُس نے لیا اور جو دیا اور اُس کے نزدیک ہر چیز ایک مقررہ وقت تک ہے، لہٰذا صبر کرو اور ثواب کی اُمید رکھو(بخاری،کتاب الجنائز، باب قول النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم یعذب المیت ببعض بکائ۔۔۔الخ،۱ / ۴۳۴،حدیث۱۲۸۴)  ٭  میّت کے اَعِزّہ (یعنی عزیزوں   )کا گھر میں   بیٹھنا کہ لوگ اُن کی تعزیت کیلئے آئیں   اس میں   حر َج نہیں   اور مکان کے درواز ے پر یا شارِع عام (یعنی عام راستے )پر بچھونے(یا دری وغیرہ) بچھا کر بیٹھنا بُری بات ہے (عالمگیری،کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل السادس فی القبر و الدفن۔۔۔الخ  و مما یتصل بذلک مسائل،۱ / ۱۶۷ورد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنائز، مطلب: فی کراھۃ  الضیافۃ من اھل المیت ، ۳  /  ۱۷۶)
٭  قبر کے قریب تعزیت کرنا مکروہ(تنزیہی ) ہے (درالمختار معہ رد المحتار،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنائز،۳ / ۱۷۷) ٭ بعض قوموں   میں   وفات کے بعد آنے والی پہلی شب برأت یا پہلی عید کے موقع پر عزیز واَقربا اہل میّت کے گھرتعزیت کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں   یہ رسم غلط ہے،ہاں   جو کسی وجہ سے تعزیت نہ کر سکا تھا وہ عید کے دن تعزیت کرے تو حر َج نہیں   اِسی طرح پہلی بقر عید پر جن اہل میّت پر قربانی واجب ہو اُنہیں   قربانی کرنی ہو گی ورنہ گنہگار ہوں   گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سوگ کے ایام گزر جانے کے باوجود عید آنے پر میّت کا سوگ (غم) کرنا یا سوگ کے سبب عمدہ لباس وغیرہ نہ پہنناناجائز و گناہ ہے۔البتہ ویسے ہی کوئی عمدہ لباس نہ پہنے تو گناہ نہیں   ٭  جو ایک بار تعزیت کر آیا اُسے دوبارہ تعزیت کے لیے جانا مکروہ ہے(در المختار معہ رد المحتار، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ الجنائز،  ۳ / ۱۷۷) ٭  اگر تعزیت کے لئے عورَتیں   جمع ہوں   کہ نوحہ کریں   تو اُنہیں   کھانا نہ دیا جائے کہ گناہ پر مدد دینا ہے (بہارشریعت، حصہ۴، ۱ / ۸۵۳) ٭ نوحہ یعنی میّت کے اَوصاف مبالغہ کے ساتھ(یعنی بڑھا چڑھا کرخوبیاں   ) بیان کر کے آواز سے رونا جس کو  ’’بین‘‘ کہتے ہیں   بالاجماع حرام ہے۔ یوہیں   واوَیلا        وا مُصیبتا(یعنی ہائے مصیبت) کہہ کے چلانا  (جوہرۃ نیرۃ،کتاب الصلاۃ،باب الجنائز،ص۱۳۹وبہار ِشریعت، حصہ۴، ۱ / ۸۵۴)   ٭  اَطِبّاء (یعنی طبیب) کہتے ہیں   کہ(جو اپنے عزیز کی موت پر سخت صدمے سے دو چار ہواُس کے) میّت پر بالکل نہ رونے سے سخت بیماری پیدا ہوجاتی ہے، آنسو بہنے سے دل کی گرمی نکل جاتی ہے، اِس لیے اِس(بغیر نوحہ )   رونے سے ہر گز منع نہ کیا جائے  (مراٰۃ المناجیح، میت پر رونے کا بیان، ۲  / ۵۰۱) ٭  مفسرشہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں   : تعزیت کے ایسے پیارے الفاظ ہونے چاہئیں   جس سے اُس غمزدہ کی تسلی ہوجائے، فقیر کا تجربہ ہے کہ اگر اس موقع پر غمزدوں   کو واقعاتِ کربلاسنائے جائیں   توبہت تسلی ہوتی ہے۔ تمام تعزیتیں   ہی بہتر ہیں   مگر بچے کی وفات پر(مَحارِم کا اُس کی) ماں   کو تسلی دینا بہت ثواب ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، میت پر رونے کا بیان، ۲  /  ۵۰۷ ملخصاً)٭ میّت کے پڑوسی یا دور کے رشتہ دار اگر میّت کے گھر والوں   کے لیے اُس دن اور رات کے لیے کھانا لائیں   تو بہتر ہے اور انہیں   اِصرار کرکے کھلائیں   ۔  (ردالمحتار، کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجنائز، مطلب:  فی الثواب علی المصیبۃ، ۳ / ۱۷۵)