یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

اعلی حضرت امام احمد رضا خان اور علم حدیث!




اعلی حضرت امام احمد رضا خان  اور علم حدیث!


اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ کی حدیث دانی کے متعلق علماے عرب کی آرا پڑھ کر اہل محبت اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہونچائیں اور اپنے اضطراب کو دور کریں اور لاعلم یا ہٹ دھرم لوگ اپنی آنکھیں چار کرکے امام علم و فن کی مہارت علم حدیث میں بھی تسلیم کریں۔

آپ حضرات پوسٹ کے اہم اقتباسات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

(۱)علم حدیث میں اعلی حضرت کی مہارت اقوال  علماکی روشنی میں:

امام اہل سنت اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان کی شخصیت اہل سنت و جماعت کے نزدیک ایسی شخصیت ہے جو پچاس سے زائد علوم و فنون میں مہارت رکھتی ہے بلکہ غیر بھی علم فقہ وغیرہ میں آپ کی مہارت تامہ کا اعتراف کرتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتے،ہاں علم حدیث کی بات آتی ہے؛ تو غیر اپنی لاعلمی یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ علم حدیث کو ان کے ماہرین کے ساتھ ہی خاص رکھا جائے، میں یہاں پر محض دعوی کے بجائے علماے کرام خاص کر علماے کعبۃ العلم ازہر شریف کی آرا کو اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کے بارے میں پیش کرنے کا شرف حاصل کرتا ہوں تاکہ اپنوں کا اضطراب دور ہو اور غیروں کی آنکھیں کھلیں اور حق قبول کرنے کی سعی مسعود کرنے کی کوشش کرسکیں، توجہ فرمائیں:

استاذی المکرم فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر مصطفی محمد ابوعمارۃ دام ظلہ، استاذ علم حدیث: جامعہ ازہر شریف، مصر، فرماتے ہیں:

’’ کتاب ’الھاد الکاف فی حکم الضعاف‘ ایسی عبارتوں کے متعلق گفتگو پر مشتمل ہے جن کو محدثین کرام حدیث ضعیف کے بارے میں استعمال کرتے ہیں، صاحب کتاب ان عبارات کی عمدہ طریقہ سے تحلیل اور ان کی مراد بیان کرتے ہیں، مثلا آپ کلمہ ’لایصح‘ کی توضیح و تحلیل دیکھ سکتے ہیں جسے محدثین کرام عموما استعمال کرتے ہیں، جس سے عادتا پڑھنے والے کو یہ گمان ہوسکتا ہے کہ جب یہ عبارت محدثین کے کلام پایا جائے؛ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث ضعیف ہے حالاں کہ یقینی طور پر محدثین کی یہ مراد نہیں؛ کیوں کہ یہ عبارت صحیح کے علاوہ حسن لذاتہ، حسن لغیرہ اور ضعیف کی دونوں قسموں کو شامل ہے؛ لہذا حدیث کے متعلق صحت کی نفی سے حدیث کے حسن یا خفیف ضعیف کی نفی کو مستلزم نہیں۔
اسی طرح  مصنف علیہ الرحمۃ مصطلح کے قضایا کے متعلق شرح و بسط کے ساتھ کلام کرتے ہیں اور اپنے کلام کی تائید ائمہ علم حدیث کے کلام سے پیش کرتے ہیں، جیسے امام نواوی، عراقی، ابن صلاح اور ابن حجر رحمہم اللہ وغیرہ۔۔۔الخ، اور مصنف علیہ الرحمۃ ناقل محض نہیں بلکہ آپ آرا کے درمیان موازنہ کرتے ہیں، یہ ایسا موازنہ ہے جس کے ذریعہ قاری کو پتہ چلے گا کہ آپ قواعد محدثین کو سمجھنے میں دقت نظر رکھتے ہیں اور قواعد کی حرفیت ہی ٹھہرے نہیں رہتے بلکہ قواعد کے مضمون اور اس کے سیاق و سباق کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اور اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ اپنی اس سمجھ کو سابقین اہل فن کی سمجھ و فہم سے توثیق بھی کرتے ہیں۔
آپ کے فقہ علم حدیث کا انوکھا پن ہی ہے  کہ آپ فرماتے ہیں: حدیث کے ذریعہ جن قضایا کے متعلق استدلال کیا جاتا ہے، ان کی تین اقسام ہیں:
عقائد: عقائد میں خبر آحاد کافی نہیں، احکام: ان میں حدیث صحیح لذاتہ، صحیح لغیرہ، حسن لذاتہ اور حسن لغیرہ کافی ہیں، فضائل: ان میں ضعیف احادیث بھی مقبول ہیں۔۔۔ آپ ان تمام اقسام اور ان کے علاوہ دیگر مباحث رصینہ اور فوائد قیمہ کے متعلق شرح و بسط کے ساتھ کلام کرتے ہیں، یہ ایسی گفتگو ہے جو آپ کو صرف اسی کتاب میں ملے گی بلکہ یہ کتاب اس لائق ہے کہ اسے ’توضیح الأفکار للصغانی، کی صف میں رکھا جائے؛ کیوں کہ اس کتاب میں علمی مناقشات اور دلائل سے پر گفتگو موجود ہے۔
بہر حال عام طور سے کتاب اپنے باب میں منفرد اور مواد کے اعتبار بے مثال ہے، علم حدیث کا طالب علم اس کتاب سے بے نیاز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی علما اس سے اپنا دامن جھاڑ سکتے ہیں (الھاد الکاف فی حکم الضعاف، محدث بریلوی رحمہ اللہ، صKJ، ط: مرکز أھل السنۃ برکات رضا، فوربندر، گجرات، الھند)
فضیلۃ الاستاذ ڈاکٹر محمد فواد شاکر رحمہ اللہ، استاذ: جامعہ عین شمس، قاہرہ مصر، لکھتے ہیں:
’’قاری محترم جو چیز آپ کے ہاتھ میں ہے وہ موہوب ربانی کی بڑی کتاب میں سے ایک کتاب ہےجس سے اللہ تعالی نے شریعت اسلامیہ کے اعلام میں سے ایک علم اور منہج محمدی کا دفاع کرنے والے ایک عظیم فارس کو مختص کیا، وہ ہمارے شیخ امام محدث احمد رضا خاں اپنے زمانہ کے حنفی اعلام میں سے ایک اور سیدی عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے سلسلہ سے منسلک ہیں، ہمارے مبارک و محترم شیخ نے سیدنا و مولانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام سننے کے وقت ’تقبیل الإبھامین‘ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے، اس کو حدیث ضعیف کے دراسہ اور اس کے متعلق موقف شریعت کو جاننے کا اہم ذریعہ بنایا؛ اسی وجہ سے آپ نے محدثین کے نزدیک حدیثی الفاظ کے مدلولات کا ذکر کیا، اور کبھی کسی محدث کے نزدیک لفظ حدیثی کوئی مراد ہوگی جو دوسرے کے نزدیک مقصود نہیں ہوگی، نیز اس بات کی تاکید فرمائی کہ کسی راوی کے متہم یا کسی ضعیف طریق یا کسی محدث کا اسے ضعیف قرار دینے کی وجہ سے حدیث پر وضع کا حکم لگانے میں جلدی سخت اٹکل پچھو مارنا ہے، ہاں اگر اس طرح کا حکم لگانا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ خوب تفتیش و تدقیق سے کام لیا جائے اور قرائن کا لحاظ کرتے ہوئے اس حدیث پر وضع کا حکم لگایا جائے؛ لہذا اگر یہ چیزیں خبر میں موجود نہ ہوں تو اس پر وضع کا حکم لگانے پر ہمیں جلدی نہیں کرنی چاہیے؛ کیوں کہ کتنی ایسی احادیث ہیں جو کتب موضوعات میں ذکر کی گئیں اور انہیں موضوع قرار دیا گیا پھر علماے حدیث نے ان پر تعقب کیا اور ان کے دوسرے طرق پائے گیے جس نے ان احادیث کو قوی کرکے ان کے مرتبہ کو بلند کردیا یہاں تک کہ وہ احادیث قابل احتجاج ہوگئیں اور علامہ طیب اللہ ثراہ و جزاہ اللہ عن الإسلام خیرا نے ثابت کیا کہ اہل علم کا کسی حدیث پر عمل کرنا اس کو تقویت بخشتا ہے، آپ نے بہت ساری دلائل پیش کی ہیں جو اس خبر کے مطابق اہل علم کے عمل کرنے کو ثابت کرتی ہیں جس کی وجہ سے آپ نے حدیث ضعیف کا حکم اور حدیث ضعیف و حدیث موضوع کے درمیان فرق بیان کرنے میں تفصیل کی ہے، علامہ محدث رحمہ اللہ نے علوم حدیث کے غایت درجہ دقیق مباحث میں لکھا اور اس کی مزید توضیح تفصیل کی اور بہت سارے مفاہیم سے پردہ اٹھایا جن سے علوم حدیث میں بحث کرنے والوں کا فکر متعلق ہوتی ہے‘‘(الھاد الکاف فی حکم الضعاف، محدث بریلوی رحمہ اللہ، صML، ط: مرکز أھل السنۃ برکات رضا، فوربندر، گجرات، الھند)

ترجمہ: أزھار أحمد أمجدی أزھری

طالب دعا:
أزھار أحمد أمجدی أزھری
فاضل جامعہ ازھر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم، اے۔
خادم: مرکز تربیت افتا، أوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
موبائل نمبر: 9936691051

#محمد_ساجد_مدنی