یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

سیرتِ اعلٰیحضرت کے چند گوشے




*🌹 تو مجدد بن کے آیا اے امام احمد رضا*🌹

سیرتِ اعلٰیحضرت کے چند گوشے

*✍️غلامِ نبی انجم رضا عطاری*
(جڑانوالہ , پنجاب پاکستان)

*🥀میرے اعلیٰحضرت*

*اعلٰیحضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، عظیمُ البَرَکت، عَظِیمُ المَرْتَبت، پروانۂِ شمعِ رِسالت ، مُجَدِّدِ دِین ومِلَّت، حضرتِ علَّامہ مولٰینا الحاج الحافظ القاری الشّاہ امام احمد رَضا خان  علیہ رحمۃ الرحمٰن* کی ولادت باسعادت بریلی شریف (ہند) کے مَحَلّہ جَسولی میں 10 شَوَّالُ الْمُکَرَّم 1272ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق 14 جون 1856ء کو ہوئی۔ سِنِ پیدائش کے اِعتبار سے آپ کا تاریخی نام *اَلْمُختار* (۱۲۷۲ھ) ہے۔آپ کا نامِ مبارَک *محمد* ہے، اور آپ کے دادا نے *احمد رضا* کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اپنے نام کے ساتھ *عبدالمصطفیٰ* کا اضافہ فرمایا ، جب آپ دستخط کرتے تو *’’ عبدالمصطفیٰ احمدرضا‘‘* لکھا کرتے ۔ایک نعتیہ غزل کے مقطع میں لکھتے ہیں   ؎
*خوف نہ رکھ ذرا رضا تُو تو ہے عبدمصطفیٰ*

*تیرے لئے امان ہے تیرے لئے امان ہے*

  اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے صرف تیرہ سال دس ماہ چار دن کی عمر میں تمام مُروَّجہ عُلُوم کی تکمیل اپنے والدِ ماجد *رئیسُ المُتَکَلِّمِین مولانا نقی علی خان علیہ رحمۃ المنّان* سے کرکے سَنَدِ فراغت حاصل کرلی۔ اُسی دن آپ نے ایک سُوال کے جواب میں پہلا فتویٰ  تحریر فرمایا تھا۔ فتویٰ صحیح پا کر آپ کے والدِ ماجد نے *مَسندِ اِفتاء* آپ کے سپرد کردی اور آخر وقت تک فتاویٰ تحریر فرماتے رہے۔

🍂 *شیخِ اعلیٰ حضرت* 🍂

  اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ۱۲۹۴ھ، 1877ء میں اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ہمراہ *حضرتِ شاہ آلِ رسول رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ* کی خدمت میں مارہرہ مطہرہ میں حاضر ہوئے اور سلسلہ قادریہ میں بیعت سے مشرف ہو کر اجازت و خلافت سے بھی نوازے گئے-اس پر کسی نے حضرت شاہ آل رسول رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت سراپا اقدس میں عرض کی : ’’حضور! آپ کے یہاں تو ایک لمبے عرصے تک مجاہدات و ریاضات کے بعد خلافت واجازت مرحمت کی جاتی ہے ، پھر کیا وجہ ہے کہ ان دونوں (یعنی مولانا نقی علی خان اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِما  )کو بیعت کرتے ہی خلافت عطا فرمادی ؟‘‘اِرشاد فرمایا : *’’اورلوگ زنگ آلود میلا کچیلا دل لے کر آتے ہیں ، اس کی صفائی و پاکیزگی کے لئے مجاہداتِ طویلہ اور ریاضات شاقہ کی ضرورت پڑتی ہے ، یہ دونوں حضرات صاف ستھرا دل لے کر ہمارے پاس آئے ان کو صرف اِتصالِ نسبت کی ضرورت تھی اور وہ مُرید ہوتے ہی حاصل ہوگئی ۔‘‘*


🌻 *وارث علومِ کثیرہ ، صاحب کتب و تصنیف* 🌻

  اللہ تَعَالٰی نے آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ کو بے اندازہ عُلُومِ جَلَیلہ سے نوازا تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کم و بیش *پچاس  عُلُوم میں قلم اُٹھایا اور قابلِ قدر کُتُب تصنیف* فرمائیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو ہر فن میں کافی دسترس حاصل تھی۔ علمِ توقیت، (عِلمِ۔ تَو۔ قِیْ ۔ ت ) میں اِس قَدر کمال حاصل تھا کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی مِلالیتے۔ وَقْت بِالکل صحیح ہوتا اور کبھی ایک مِنَٹ کا بھی فرق نہ ہوا۔

📖 *چودہ سو سال کی کتب کے حافظہ* 📖

حضرت ابو حامِد سیِّد محمد محدِّث کچھوچھوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ تکمیلِ جواب کے لیے جُزئِیّاتِ فِقْہ کی تلاشی میں جو لوگ تھک جاتے وہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں عَرض کرتے اور حوالہ جات طلب کرتے تو اُسی وقت آپ فرما دیتے کہ رَدُّالمُحْتَار جلد فُلاں کے فُلاں صَفَحہ پر فُلاں سَطر میں اِن الفاظ کے ساتھ جُزئِیّہ موجود ہے۔دُرِّ مُخْتَار کے فُلاں صَفَحے پر فُلاں سَطر میں عبارت یہ ہے۔ عالمگیری میں بقید جلد و صَفَحہ وَسَطر یہ الفاظ موجود ہیں ۔ ہِندیہ میں خَیریہ میں مَبْسُوط میں ایک ایک کتاب فِقہ کی اصل عبارت مع صَفَحہ وسَطر بتا دیتے اور جب کتابوں میں دیکھا جاتا تو وُہی صَفَحہ وسَطر و عبارت پاتے جو زَبانِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا تھا۔ اِس کو ہم زِیادہ سے زِیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ *خُداداد قوّتِ حافِظہ* سے چودہ سو سال کی کتابیں حِفظ تھیں ۔

🌴 *سراپا عشقِ رسول میرے امام احمد رضا* 🌴

 آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ سراپا عشقِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نُمُونہ تھے، آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا نعتیہ کلام *(حدائقِ بخشش شریف )* اس اَمر کا شاہد ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ کی نوکِ قلم بلکہ گہرائیٔ قَلب سے نِکلا ہوا ہر مِصْرَعَہ آپ کی *سروَرِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ* سے بے پایاں عقیدت و مَحَبَّت کی شہادت دیتا ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کبھی کسی *دُنیوی تاجدار کی خوشامد* کے لیے قصیدہ نہیں لکھا، اس لیے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ نے *حضور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ* کی اِطاعت و غلامی کو دل وجان سے قبول کرلیا تھا۔ اس کا اظہار آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنے ایک شعر میں اس طرح فرمایا۔

*انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام*
*لِلّٰہِ الْحَمْد  میں دنیا سے مسلمان گیا*

📗 *ایک عظیم مؤلف* 📗

  آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مختلف عُنوانات پر کم و بیش ایک ہزار کتابیں لکھی ہیں ۔یوں تو آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے 1286ھ سے 1340ھ تک لاکھوں فتوے لکھے، لیکن افسوس! کہ سب کو نَقل نہ کیا جاسکا، جو نَقل کر لیے گئے تھے ان کا نام’’  *العطایا النبّویہ فی الفتاوی الرضویہ‘‘* رکھا گیا ۔ فتاویٰ رضویہ (جدید) کی 30 جلدیں ہیں جن کے کُل صفحات : 21656، کل سُوالات وجوابات : 6847اور کل رسائل :  206ہیں ۔(فتاویٰ رضویہ (جدید) ، ج ۳۰، ص ۱۰، رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور)

 ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجزن ہے۔ قرآن و حدیث ، فِقْہْ ، مَنْطِق اور کلام وغیرہ میں آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ کی وُسْعَتِ نظری کا اندازہ آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ کے فتاوٰی کے مُطالَعے سے ہی ہوسکتا ہے۔

💫 *صاحبِ کنزالایمان* 💫

  آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قرآنِ مجید کا ترجَمہ کیا جو اُردو کے موجودہ تراجم میں سب پر فائِق ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ترجَمہ کا نام *کنزُالایمان‘‘* ہے ۔جس پر آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے *خلیفہ صدر الافاضل مولانا سَیِّد نعیم الدین مُراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ* نے حاشیہ لکھا ہے۔

🌙 *وصال شریف* 🌙

    اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی وفات سے چار ماہ بائیس دن پہلے خود اپنے وِصال کی خبر دے کر ایک آیتِ قرآنی سے سالِ وفات کا اِستخراج فرمایا تھا۔وہ آیتِ مبارکہ یہ ہے : ۔ 
*وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ (پ ۲۹، الدھر : ۱۵)*

ترجمۂ کنزالایمان : اور ان پر چاندی کے برتنوں اور کُوزوں کا دَور ہوگا۔(سوانح امام احمد رضا ، ص ۳۸۴، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر )

25 صفَر الْمُظَفَّر 1340ھ مطابق 1921ء کو *جُمُعَۃُ الْمبارَک* کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق ۲ بج کر ۳۸ منٹ پر، عین اذان کے وقت اِدھر مُؤَذِّن نے *حَیَّ عَلَی الفَلاح* کہا اور اُدھر *اِمامِ اَہلسُنَّت ، مُجَدِّدِ دین ومِلّت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِطریقت،  حضرتِ علّامہ مولٰینا الحاج الحافِظ القاری الشاہ امام اَحمد رَضا خان علیہ رحمۃ الرحمن*  نے داعئی اَجل کو لبیک کہا۔اِنّا لِلّٰہِ وَانَّآ اِلَیہِ رَاجِعُون۔

 آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ کا مزارِ پُراَنوار بریلی شریف (ہند)میں آج بھی زیارت گاہِ خاص و عام بنا ہوا ہے۔

🍃 *دربارِ رسالت میں انتظار* 🍃

 ۲۵ صفَر المُظَفَّر کو بیت المقدَّس میں ایک *شامی بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ* نے خواب میں اپنے آپ کو *دربارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں پایا ۔تمام صحابۂ کرام علیہم الرضوان اور اولیائے عِظام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالٰی* دربار میں حاضِر تھے ، لیکن مجلس میں سُکوت طاری تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی آنے والے کا اِنتظار ہے ۔ *شامی بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ* میں عرض کی ، حُضور! ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کس کا انتظار ہے ؟ سیِّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا، *ہمیں احمد رضا کا اِنتظار ہے*

 بزرگ نے عرض کی، حُضُور ! احمد رضا کون ہیں ؟ ارشاد ہوا، ہندوستان میں بریلی کے باشِندے ہیں ۔بیداری کے بعد وہ شامی بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ مولانا احمد رضا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تلاش میں ہندوستان کی طرف چل پڑے اور جب وہ بریلی شریف آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ اس عاشقِ رسول کا اسی روز (یعنی ۲۵ صفرالمُظفَّر ۱۳۴۰ھ) کو وصال ہوچکا ہے جس روز انہوں نے خواب میں *سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ* کو یہ کہتے سنا تھا کہ۔’’ہمیں احمد رضا کا انتظار ہے‘‘۔

آپ کی کرامت 

🍁 *ٹرین رُکی رہی* 🍁

 اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک بار پِیلی بِھیت سے بریلی شریف بذرِیعہ رَیل جارہے تھے۔ راستے میں نواب گنج کے اسٹیشن پر ایک دو مِنَٹ کے لیے ریل رُکی، مغرِب کا وَقت ہوچکا تھا ۔آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نَماز کے لیے پلیٹ فارم پر اُترے ۔ ساتھی پریشان تھے کہ َریل چلی جائے گی تو کیا ہوگا لیکن آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اطمینان سے اذان دِلوا کر جماعت سے نَماز شُروع کردی۔ اُدھر ڈرائیور انجن چلاتا ہے لیکن رَیل نہیں چلتی، اِنجن اُچھلتا اورپھر پٹری پر گرتا ہے۔
ٹی ٹی، اسٹیشن ماسٹر وغیرہ سب لوگ جمع ہوگئے، ڈرائیور نے بتایا کہ انجن میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اچانک ایک پنڈِت جی چیخ اُٹھا کہ وہ دیکھو کوئی دَرویش نماز پڑھ رہا ہے ، شاید رَیل اسی وجہ سے نہیں چلتی؟ پھر کیا تھا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ کے گرد لوگوں کا ہُجُوم ہوگیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اطمینان سے نَماز سے فارِغ ہو کر جیسے ہی رُفَقا کے ساتھ ریل میں سُوار ہوئے تو ریل چل پڑی ۔ سچ ہے جو ﷲ کا ہو جاتا ہے کائنات اسی کی ہوجاتی ہے۔

*تو نے باطل کو مٹایا اے امام احمد رضا*
*دین کا ڈنکا بجایا اے امام احمد رضا*
*دَورِ باطل اور ضَلالت ہند میں تھا جس گھڑی*
*تُو مجدِّد بن کے آیا اے امام احمد رضا*

از : امیراہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ


      🌴والسّلام بالخیر 🌴
_اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو_