یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

من گھڑت واقعہ | امام_حسین_کا_گھوڑا_ذوالجناح





من گھڑت واقعہ 
#امام_حسین_کا_گھوڑا_ذوالجناح


ملا حسین کاشفی لکھتا ہے کہ امام حسین کی شہادت کے بعد آپ کا گھوڑا ذوالجناح بے قرار ہو کر چاروں طرف بھاگنے لگا پھر کچھ دیر بعد واپس آ کر اس نے اپنی پیشانی کے بال خون سے تر کیے اور اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتا ہوا خیمے کی طرف لوٹ آیا۔
جب اہل بیت نے دیکھا تو انھوں نے فریاد کرتے ہوئے گھوڑے سے فرمایا کہ اے ذوالجناح تو نے امام کے ساتھ کیا کیا؟ تو انھیں ساتھ لے کر گیا تھا واپس کیوں نہیں لایا؟ آخر تو کس دل کے ساتھ انھیں دشمنوں کے بیچ چھوڑ آیا ہے؟
اہل بیت نوحہ کر رہے تھے اور ذوالجناح گردن جھکائے رو رہا تھا اور اپنے چہرے کو امام زین العابدین کے پاؤں پر مل رہا تھا۔ پھر اس گھوڑے نے زمین پر سر مارا اور اپنی جان دے دی اور ایک روایت یہ ہے کہ وہ گھوڑا صحرا کی طرف نکل گیا اور کسی شخص کو اس کا نشان نہ مل سکا۔
(روضۃ الشھداء، ج2، ص361) 
یہ فرضی اور من گھڑت قصہ ملا حسین کاشفی نے شیعوں کی کتاب سے نقل کیا ہے۔ کسی معتبر کتاب میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ ایسے واقعات گھڑنے کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے نوحہ خوانی کو فروغ دینا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ امام حسین نے کربلا تک اونٹنی پر سفر کیا تو پھر یہ گھوڑا کہاں سے آ گیا؟ 
امام سیوطی اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمھما اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک مقام پر فرمایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ان (شہیدان کربلا) کے اونٹ بیٹھیں گے اور ان کے کجاووں کی جگہ یہ ہے اور اس جگہ ان کا خون گرایا جائے گا۔
(ملخصاً: خصائص کبری، سر الشھادتین، دلائل النبوۃ)


حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک جگہ کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں ان کے اونٹ بیٹھیں گے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کربلا میں امام حسین کے پاس گھوڑے نہیں تھے۔ 
کچھ شیعوں نے لکھا ہے کہ جب امام حسین روانہ ہونے لگے تو آپ کے بھائی محمد بن حنفیہ نے آپ کو روکنے کے لیے آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ لی۔ (یعنی آپ اونٹنی پر سوار تھے)
(ذبح عظیم، ص165 بہ حوالہ مقتل ابی مخنف) 
تاریخ طبری میں ہے کہ راستے میں امام حسین نے فرزدق شاعر سے باتیں کی اور پھر اپنی سواری (اونٹنی) کو حرکت دی اور چل پڑے۔
(تاریخ طبری، ج6، ص218) 
کچھ کتابوں میں امام حسین کا یہ قول موجود ہے کہ آپ نے فرمایا: یہ کربلا مصائب کی جگہ ہے، یہ ہماری اونٹنیوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے، یہ ہمارے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ہمارے مردوں کی شہادت گاہ ہے۔
(کشف الغمه، ج2، ص347۔ مناقب ابن شھر آشوب، ج4، ص97۔ الاخبار الطوال، ص353) 
ایک شیعہ لکھتا ہے کہ امام حسین نے خطاب فرمایا پھر اپنی اونٹنی بٹھائی۔
(مقتل ابی مخنف، ص55) 
شیعوں کی ایک بڑی کتاب "بحار الانوار" میں بھی یہ موجود ہے۔
(بحار الانوار، ج44، ص383) 
بحار الانوار میں یہ بھی ہے کہ محمد بن حنفیہ نے امام حسین کو روکنے کے لیے اونٹنی کی نکیل پکڑ لی۔
(ایضاً، ص364) 
ان کے علاوہ اور بھی کچھ کتب میں اونٹنیوں کا ہی ذکر ہے۔
(تاریخ روضۃ الصفاء، ج3، ص579۔ 
تفسیر لوامع التنزيل، ج13، ص91) 
الکامل میں ہے کہ امام حسین اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بلند آواز سے آواز دی جسے سب لوگوں نے سنا۔
(الکامل فی التاریخ، ج4، ص61) 
ایک شیعہ لکھتا ہے کہ میں نے یہ ذوالجناح کا نام حدیث، اخبار اور تاریخ کی کسی معتبر کتاب میں نہیں دیکھا۔
(ناسخ التواریخ، ج6، ص344) 
ان تمام حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ امام حسین کے پاس گھوڑے نہیں تھے لیکن کچھ لوگ نہ جانے کہاں سے گھوڑے لے آتے ہیں۔ ویسے جو لوگ امام زین العابدین کی ملاقات حضرت عبداللہ بن مبارک سے کروا سکتے ہیں، میدان کربلا میں شادی کروا سکتے ہیں، ان کے لیے اونٹوں کو بھگا کر گھوڑے لانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
عبد مصطفی