یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

میت کے ایصال ثواب کے لئے قربانی کرنا کیسا۔۔۔۔؟



تحریر: عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057

میت کے ایصال ثواب کے لئے قربانی کرنا کیسا۔۔۔۔؟

 میت کی طرف سے قربانی کر نا جائز ہے ،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کی ہے،”عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ يَطَأُ فِى سَوَادٍ وَيَبْرُكُ فِى سَوَادٍ وَيَنْظُرُ فِى سَوَادٍ فَأُتِىَ بِهِ لِيُضَحِّىَ بِهِ فَقَالَ لَهَا : يَا عَائِشَةُ هَلُمِّى الْمُدْيَةَ ِ، ثُمَّ قَالَ : اشْحَذِيهَا بِحَجَرٍ ، فَفَعَلَتْ ، ثُمَّ أَخَذَهَا وَأَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ ثُمَّ ذَبَحَهُ ثُمَّ قَالَ : بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ، ثُمَّ ضَحَّى بِهِ “ (رواہ مسلم)
 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ایک سینگ والا مینڈھا لایا جائے جس کے پاؤں ،سینہ ، منہ اور آنکھوں کے ارد گرد کا حصہ کالا ہو ، چنانچہ وہ لا یا گیا توآپ نے فر مایا: اے عائشہ ! چھری لاؤ اور اس کو پتھر سے تیز کر و،چنانچہ میں نے چھری لا کر تیز کیا، پھر آپ نے چھری لی اور دنبہ کو لٹایا اور ذبح کیا اور کہا :بسم اللہ، اے اللہ تو محمد اور امت محمد کی جانب سے قبول فر ما، پھر آپ نے اس کی قربانی کی ۔ 
 اس حدیث کے بموجب آپ نے ایک مینڈھے کی قربانی اپنی اور اپنی امت کی جانب سے کی ۔ظاہر ہے کہ لفظ” امت“امت سابقہ اور موجودہ (احیاء اور اموات ) سب کو شامل ہے ۔
 بعض روایتوں میں: ”هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي “ کے الفاظ ہیں، یعنی میری جانب سے اور میری امت کے ان لوگوں کی جانب سے جنھوں نے قربانی نہیں کی، اس میں آپ نے”لَمْ يُضَحِّ “ کاصیغہ استعمال کیا ہے،جس سے امت محمد یہ میں سے ان لوگوں کی طرف اشارہ ملتا ہے جو قربانی کر نے سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔
 نیز میت کی جانب سے قربانی کر نا ایک مالی عبادت ہے ،اور مالی عبادت کے سلسلے میں اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ اس کا ثواب میت تک پہونچتا ہے، مالی عبادت کے ذریعہ ایصال ثواب کے سلسلے میں صحیح بخاری وغیرہ کی ایک روایت ہے :

 ”عَنْ عَائِشَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ “ (رواہ البخاری: کتاب الجنائز، باب موت الفجأة: 3/254 )
 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺسے کہا: میری ماں اچانک انتقال کر گئی،اور میرا خیال ہے کہ اگروہ گفتگو کرتی تو کچھ صدقہ وخیرات کرتی ،توکیا اس کے لئے اجر وثواب ہوگا اگر میں اس کی جانب سے صدقہ کرو ں؟ آپ ﷺ  نے فرمایا : ہاں ۔
 اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ مالی عبادت کا ثواب میت تک پہنچے گا،اگرچہ اس نے وصیت نہ کی ہو ۔
 اسی طرح میت کی جانب سے حج بدل کرنا اور قرض ادا کرنا وغیرہ جائز ہے، تو اس کی جانب سے قربانی کر نا بھی جائز ہو نا چاہئے ۔

رسول اللہ ﷺ کی جانب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قربانی کی:
 رسول اللہ ﷺ کی جانب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قربانی کر نی والی روایت سے بھی اس کے لئے استیناس کیا جا سکتا ہے : عَنْ حَنَشٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ “ (سنن ابو داؤد:3/50 ]2792[ كتاب الضحايا باب الأضحية عن الميت)
 حنش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبہ قربانی کرتے ہو ئے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺنے مجھے وصیت کی ہے کہ آپ کی جانب سے قربانی کرتا رہو ں ،چنانچہ آپ کی جانب سے قربانی کررہا ہوں۔ 
 حنش کی روایت کے بارے میں اختلاف ہے ،علامہ مبارکپوری ، منذری اور ابن حبان وغیرہ نے اس کی تضعیف کی ہے، جبکہ حاکم، ذہبی، احمد شاکر اور شیخ صفی الرحمن مبارکپوری نے اس کی تصحیح وتحسین کی ہے ۔
 حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے :”عَنْ عَاصِمِ بْنِ شُرَيْبٍ قَالَ : أُتِىَ عَلِىُّ بْنُ أَبِى طَالِبٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ النَّحْرِ بِكَبْشٍ فَذَبَحَهُ وَقَالَ : بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَمِنْ مُحَمَّدٍ لَك ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَتُصُدِّقَ بِهِ ثُمَّ أُتِىَ بِكَبْشٍ آخَرَ فَذَبَحَهُ فَقَالَ : بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَمِنْ عَلِىٍّ لَكَ ، قَالَ ثُمَّ قَالَ : ائْتِنِى بِطَابِقٍ مِنْهُ وَتَصَدَّقْ بِسَائِرِهِ “ (میزان الاعتدال للذھبی: 2/352  ، وعاصم  بن شریک عن علی مجھول ،لسان المیزان لابن حجر : 3/219 ،عاصم بن شریک عن علی مجھول ،وذکرہ ابن حبان فی الثقات وقال: انہ الزبیدی من اھل الکوفة)
 حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس قربانی کے دن ایک دنبہ لایا گیا توآپ نے اس کو ذبح کیا اور کہا : ”بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَمِنْ مُحَمَّدٍ لَك “پھر اس کو صدقہ کر نے کا حکم دیا ، اس کے بعد ایک دوسرا دنبہ لایا گیا ،اس کو بھی ذبح کیا اور کہا:”بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَمِنْ عَلِىٍّ لَكَ “،راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس میں سے ایک کڑا ہی لاؤ اور باقی صدقہ کر دو ۔