یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

شمائل ترمذی (بال مبارک مصطفے )




شمائل ترمذی (بال مبارک مصطفے )

🎙: *مفتی محمد حسان عطاری صاحب*

*✍محمد ساجد مدنی*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پہ عموما بال ہوتے تھے سرمنڈانا صرف حج و عمرہ کے موقع پر ثابت ہے 
امام ترمذی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کے بارے میں 8 احادیث لائے

1::  حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک آدھے کان تک ہوا کرتے تھے

2:: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے مروی ہے میں اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام  ایک ہی برتن میں غسل کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کان سے نیچے اور کندھوں سے اوپر ہوا کرتے تھے

بعض علماء کرام نے فرمایا ہے کہ کان کی لو تک گھنے ہوتے اور اس سے آگے کم گھنے ہوتے

3::حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک متوسط تھا دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ تھا اور بال مبارک کانوں کی لو سے ٹکراتے تھے

4:: حضرت سیدنا قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے خادم رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کیسے تھے آپ نے فرمایا آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے بال مبارک نہ بلکل گھنگریالے تھے اور نہ ہی سیدھے بلکہ درمیانے تھے اور کان کی لو تک پہنچتے تھے

5:: حضرت سیدتنا ام ہانی رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مکہ مکرمہ تشریف لائے تو بال مبارک کی سفر کی وجہ سے چار لٹیں بنی ہوئی تھیں

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ 4 دفعہ تشریف لے گئے تھے 
1: عمرة القضاء کے موقع پر 
2: بار حنین سے واپسی پر 
3: بار فتح مکہ کے دن 
4: حجة الوداع کے موقع پر 
عمرة القضاء کے موقع پر حدود حرم میں داخل ہوئے تھے مگر مکہ مکرمہ میں داخل نہ ہوئے تھے کہ کفار آڑے آ ئے اور صلح حدیبیہ والا معاملہ پیش آیا

حضرت ثابت بنانی حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک آدھے کان تک ہوا کرتے تھے

حضرت ثابت بنانی تابعی بزرگ ہیں اپنے وقت کے بہت بڑے عابد تھے اور حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی کافی صحبت حاصل تھی جب حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے آپ ملنے آتے تو حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ہاتھوں پہ خوشبو لگا لیتے حضرت ثابت بنانی تشریف لاتے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ چومتے اور فرماتے میں ان ہاتھوں کو چوم رہا ہوں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک سے مس ہوئے ہیں

6:: مفسر قرآن ماہر علوم قرآن حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے آپ اہل کتاب سے موافقت فرماتے ہوئے اپنے بالوں کو کھلا چھوڑتے تھے اور مشرکین مانگ نکالتے تھے 
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جن  کاموں کا حکم نہیں دیا گیا تھا ان کاموں میں اہل کتاب سے موافقت فرماتے تھے  پھر جب آپ کو اہل کتاب کی مخالفت کا حکم دیا گیا تو پھر آپ مانگ نکالتے تھے کیونکہ اس میں نظافت زیادہ ہے اور بالوں کا اکرام بھی زیادہ ہے

صحابہ کرام علیہم الرضوان ایک حدیث لینے کیلئے مہینوں کا سفر فرماتے 
حافظ ابن حبان رحمة الله عليه فرماتے ہیں محدثین وہ لوگ ہیں اگر کوئی حدیث میں ایک حرف بھی زیادہ یا کم کرے تو یہ بتادیں گے کہ کمی بیشی ہوئی ہے انکو اس قدر حدیث شریف میں شغف تھا

یہ تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کے ظاہری کیفیت 
لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کے باطنی کیفیت ہی الگ ہے 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کسی کیلئے شفاء تو کسی اعتقاد میں عذاب قبر سے حفاظت کا نسخہ 

صحیح بخاری شریف کی حدیث ہے  
ام المؤ منین حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنھا کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بال مبارک تھا جسے آپ چاندی کی نلی میں رکھا ہوا تھا مدینہ منورہ میں جب کوئی بیمار ہو جاتا تو آپ بال مبارک کو پانی میں بھگو دیتیں اور اس مبارک پانی کو مریض کو  پلایا جاتا تو وہ شفاء پاجاتا تھا 
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلق(بال مبارک اترواتے ) کراتے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان بال حاصل کرنے کیلئے دیوانہ وار گھومتے تھے 
صحابہ کرام علیہم الرضوان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک عذاب قبر سے حفاظت کا نسخہ ہیں 
چنانچہ کاتب وحی  جلیل القدر صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بال مبارک تھے 
آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے وصیت فرمائی ان بالوں کو میرے ساتھ میری قبر شریف میں رکھ دیا جائے

حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہما مدینہ سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے ہر اس مقام کو ڈھونڈ کر نماز ادا فرماتے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی

ایک مرتبہ آپ نے جان بوجھ کر اپنا گھٹنا ایک چھوٹے سے ٹیلے سے ٹکرا دیا 
آپ سے پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ  نے فرمایا اور تو کچھ نہیں جانتا مگر ایک مرتبہ نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ علیہ وسلم کا گھٹنا مبارک یہاں ٹکرایا تھا تو میں نے  اس وجہ سے کیا ہے 
سبحان اللہ  میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنانے میں اتنا اہتمام سے ادا فرماتے تھے 
اللہ کریم ہمیں بھی صحابہ کرام علیہم الرضوان کے صدقے اور اہل بیت کرام کے وسیلے سے سنتوں پر پیرا عمل ہونے کی توفیق عطا فرمائے



*نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رنگت*



نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ مبارک کی رنگت سفید تھی، لیکن یہ دودھ اور چونے جیسی سفیدی نہ تھی بلکہ ملاحت آمیز سفیدی تھی جو سُرخی مائل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کی رنگت کو چاندی اور گلاب کے حسین امتزاج سے نسبت دی ہے، کسی نے سفید مائل بہ سُرخی کہا ہے اور کسی نے سفید گندم گوں بیان کیا ہے۔

1۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں :

کان أنورهم لوناً.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رنگ روپ کے لحاظ سے تمام لوگوں سے زیادہ پُرنور تھے۔‘‘

بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 300

2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ جسمِ اطہر کی رنگت کے بارے میں بیان کرتے ہیں :

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن الناس لوناً.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رنگت کے اعتبار سے سب لوگوں سے زیادہ حسین تھے۔‘‘

1. ابن عساکر، السيرة النبويه، 1 : 321

2۔ یہی روایت ابن سعد نے ’الطبقات الکبريٰ (1 : 9415)‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔

3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے :

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أزهر اللون.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ سفید چمکدار تھا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2330
2. دارمي، السنن، 1 : 45، رقم : 61
3. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 228

4۔ حضرت انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے :

و لا بالأبيض الأمهق و ليس بالادم.

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1303، کتاب المناقب، رقم : 3355
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1824، کتاب الفضائل، رقم : 2347
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 592، ابواب المناقب، رقم : 3623
4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 298، رقم : 6387
5. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 409، رقم : 9310
6. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 205، رقم : 328
7. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 148، رقم : 1412
8. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 413، 418
9. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 6 : 569، رقم : 3354
10. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 31، رقم : 17
11. طبري، تاريخ، 2 : 221

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ نہ تو بالکل سفید اور نہ ہی گندمی تھا۔‘‘

5۔ حضرت جریری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ کو جب یہ کہتے سنا :

رأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و ما علي وجه الأرض رجل رأه غيري.

’’میں نے رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہے اور آج میرے سوا پوری دنیا میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف نصیب ہوا ہو۔‘‘

تو میں عرض پرداز ہوا :

فکيف رأيته؟

آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسا دیکھا؟

تو اُنہوں نے میرے سوال کے جواب میں فرمایا :

کان أبيض مليحا مقصَّدًا.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک سفید، جاذبِ نظر اور قد میانہ تھا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 4 : 1820، کتاب الفضائل، رقم : 2340
2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 454
3. بزار، المسند، 7 : 205، رقم : 2775
4. بخاري، الأدب المفرد، 1 : 276، رقم : 790
5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 417، 418
6. فاکهي، اخبار مکه، 1 : 326، رقم : 664

7۔ امام ترمذی حضرت ابو طفیل رحمۃ اﷲ علیہ ہی سے روایت کرتے ہیں :

کان أبيض مليحا مقصداً.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک سفید، جاذب نظر اور قد میانہ تھا۔‘‘

1. ترمذي، الشمائل المحمديه : 26
2. خطيب بغدادي، الکفايه في علم الروايه، 1 : 137

8۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أبيض مُشرباً بِحُمْرة.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ سفیدی اور سُرخی کا حسین امتزاج تھا۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 116، رقم : 944
2. ابن عبدالبر، التمهيد، 3 : 8
3. ابن حبان، الثقات، 7 : 448، رقم : 10865
4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 419
5. مناوي، فيض القدير، 5 : 70
6. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 23
7. امام صالحي، سُبل الهدي والرشاد، 2 : 10

9۔ حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

کان أبيض تعلوه حمرة.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ سفیدی اور سُرخی کا حسین مرقع تھا۔‘‘

1. روياني، مسند الروياني، 2 : 318، رقم : 1280
2. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 183، رقم : 10397
3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 416
4. ابن عساکر، السيرة النبويه، 1 : 323

10۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

کان لونُ رسولِ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أسمر.

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رنگت (کی سفیدی) گندم گوں تھی۔‘‘

1. ابن حبان، الصحيح، 14 : 197، رقم : 2686
2. مقدسي، الأحاديث المختاره، 5 : 309، رقم : 1955
3. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 521، رقم : 2115
4. ابن جوزي، الوفا : 410

11۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

أبيض کأنّما صيغ مِن فضّة.

1. ترمذي، الشمائل المحمديه : 25، رقم : 11
2. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 22

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفید رنگت والے تھے گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم مبارک چاندی سے ڈھالا گیا ہو۔‘‘

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :

اما لونِ آنحضرت روشن و تاباں بود و اتفاق دارند جمہور اصحاب بربیاض لونِ آں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، و وصف کردند او را بابیض و بعضے گفتند کان ابیض ملیحا و در روایتے ابیض ملیح الوجہ و ایں احتمال داردکہ مراد وصف کہ بیاض و ملاحت و صفت زائدہ برائے بیان حسن و جمال و لذت بخشی و دلربائی دیدار جان افزای ویا باشد.

عبدالحق محدث دهلوي، مدارج النبوه، 1 : 26

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک رنگ خوب روشن اور چمکدار تھا۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اس پر متفق ہیں کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ سفید تھا، اسی چیز کو احادیثِ نبوی میں لفظ ’’ابیض‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور بعض روایات میں ’’کان ابیض ملیحا‘‘ اور بعض روایات میں ’’ابیض ملیح الوجہ‘‘جیسے الفاظ بھی ملتے ہیں۔ ان سے مراد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رنگ کی سفیدی بیان کرنا مقصود ہے، باقی ملاحت کا ذکر بطور صفتِ زائدہ ہے اور اس لئے اس کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے جو لذت اور تسکینِ روح و جاں حاصل ہوتی ہے، اس پر دلالت کرے۔‘‘

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حُسن و جمال بے مثال تھا۔ جسمِ اطہر کی رنگت، نور کی کرنوں کی رِم جھم اور شفق کی جاذبِ نظر سُرخی کا حسین امتزاج تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حُسن و جمال کو کائنات کی کسی مخلوق سے بھی تشبیہ نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی الفاظ میں جلوہ ہائے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نقشہ کھینچا جا سکتا ہے، اس لئے کہ ہر لفظ اور ہر حرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس سے فروتر ہے۔ یہاں جذبات واحساسات کی بیساکھیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔

روایات میں تطبیق
امام عبدالروف مناوی رحمۃ اﷲ علیہ ان تمام روایات کو بیان فرمانے کے بعد رقمطراز ہیں :

فثبت بمجموع هذه الروايات أن المراد بالسمرة حمرة تخالط البياض، و بالبياض المثبت ما يخالط الحمرة، و أما وصف لونه في أخبار بشدة البياض فمحمول علي البريق و اللمعان کما يشير إليه حديث کأن الشمس تحرک في وجهه.

’’ان تمام روایات سے ثابت ہوا کہ جن میں لفظ سمرہ کا ذکر ہے، وہاں اس سے مراد وہ سُرخ رنگ ہے جس کے ساتھ سفیدی کی آمیزش ہو، اور جن میں سفیدی کا ذکر ہے اس سے مُراد وہ سفید رنگ ہے جس میں سُرخی ہو اور بعض روایات میں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک رنگ کو بہت زیادہ سفید بیان کیا گیا ہے، اس سے مراد اس کی چمک دمک ہے، جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور میں آفتاب محوِ خرام رہتا ہے۔‘‘

مناوي، حاشيه برجمع الوسائل، 1 : 13

ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ ’جمع الوسائل‘ میں امام عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں :

قال العسقلاني : تبين من مجموع الروايات أنّ المراد بالبياض المنفي ما لا يخالطه الحمرة، و المراد بالسمرة الحمرة التي يخالطها البياض.

’’امام عسقلانی نے فرمایا : ان تمام روایات سے واضح ہوتا ہے کہ صرف سفیدی سے مراد وہ سفید رنگت ہے جس میں سرخی کی آمیزش نہ ہو اور ’’سمرہ‘‘ سے مراد وہ سرخ رنگ ہے جس کے ساتھ سفیدی کی آمیزش ہو۔‘‘

ملا علي قاري، جمع الوسائل، 1 : 13




باب: حضور اقدس ﷺ کے حلیہ کا بیان


حدیث :
 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ وَلاَ بِالْقَصِيرِ وَلاَ بِالأَبْيَضِ الأَمْهَقِ وَلاَ بِالآدَمِ وَلاَ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلاَ بِالسَّبْطِ بَعَثَهُ اللَّهُ تَعَالَی عَلَی رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً فَأَقَامَ بِمَکَّةَ عَشْرَ سِنِينَ وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ تَعَالَی عَلَی رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعَرَةً بَيْضَائَ

ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نہ بہت لمبے قد کے تھے نہ پستہ قد  بلکہ آپ کا قد مبارک درمیانہ تھا اور  رنگ کے اعتبار سے نہ بالکل سفید تھے چونا کی طرح، نہ بالکل گندم گوں کہ سانولا بن جائے (بلکہ چودھویں رات کے چاند سے زیادہ روشن پرنور اور کچھ ملاحت لئے ہوئے تھے) حضور اقدس ﷺ کے بال نہ بالکل سیدھے تھے نہ بالکل پیچدار (بلکہ ہلکی سی پیچیدگی اور گھونگریالہ پن تھا) چالیس برس کی عمر ہوجانے پر حق تعالیٰ جل شانہ نے آپ ﷺ کو مبعوث فرمایا  پھر آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں دس سال قیام فرمایا اور دس سال مدینہ منورہ میں رہے اور ساٹھ سے کچھ اوپر تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وفات دے دی اور آپ ﷺ کے سر مبارک اور داڑھی مبارک میں بیس بال بھی سفید نہیں تھے۔


حدیث :
 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم رَبْعَةً لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلا بِالْقَصِيرِ حَسَنَ الْجِسْمِ وَکَانَ شَعَرُهُ لَيْسَ بِجَعْدٍ وَلا سَبْطٍ أَسْمَرَ اللَّوْنِ إِذَا مَشَی يَتَکَفَّأُ

ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے 
 حضور اقدس ﷺ درمیانہ قد تھے، نہ زیادہ طویل نہ کچھ چھوٹے قد کے، نہایت خوبصورت معتدل بدن والے، حضور ﷺ کے بال نہ بالکل پیچیدہ تھے نہ بالکل سیدھے (بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی اور گھونگریالہ پن تھا) 
 آپ گندمی رنگ کے تھے۔ جب حضور ﷺ راستہ چلتے تو آگے کو جھکے ہوئے چلتے۔ (شمائل ترمذی ص 2)




حدیث نمبر:4

⭐حلیہ مصطفی بزبان علی المرتضی ⭐

 عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللهِ مَوْلَی غُفْرَةَ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ وَلَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ کَانَ عَلِيٌّ إِذَا وَصَفَ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وسلم قَالَ لَمْ يَکُنْ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم بِالطَّوِيلِ الْمُمَّغِطِ وَلا بِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ وَکَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ لَمْ يَکُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلا بِالسَّبْطِ کَانَ جَعْدًا رَجِلا وَلَمْ يَکُنْ بِالْمُطَهَّمِ وَلا بِالْمُکَلْثَمِ وَکَانَ فِي وَجْهِهِ تَدْوِيرٌ أَبْيَضُ مُشَرَبٌ أَدْعَجُ الْعَيْنَيْنِ أَهْدَبُ الأَشْفَارِ جَلِيلُ الْمُشَاشِ وَالْکَتَدِ أَجْرَدُ ذُو مَسْرُبَةٍ شَثْنُ الْکَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ إِذَا مَشَی کَأَنَّمَا يَنْحَطُّ فِي صَبَبٍ وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ مَعًا بَيْنَ کَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ أَجْوَدُ النَّاسِ صَدْرًا وَأَصْدَقُ النَّاسِ لَهْجَةً وَأَلْيَنُهُمْ عَرِيکَةً وَأَکْرَمُهُمْ عِشْرَةً مَنْ رَآهُ بَدِيهَةً هَابَهُ وَمَنْ خَالَطَهُ مَعْرِفَةً أَحَبَّهُ يَقُولُ نَاعِتُهُ لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلا بَعْدَهُ مِثْلَهُ صلی الله عليه وسلم قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ الْحُسَيْنِ يَقُولُ سَمِعْتُ الأَصْمَعِيَّ يَقُولُ فِي تَفْسِيرِ صِفَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وسلم الْمُمَّغِطُ الذَّاهِبُ طُولا وَقَالَ سَمِعْتُ أَعْرَابِيًّا يَقُولُ فِي کَلامِهِ ممَغَّطَ فِي نَشَّابَتِهِ أَيْ مَدَّهَا مَدًّا شَدِيدًا وَالْمُتَرَدِّدُ الدَّاخِلُ بَعْضُهُ فِي بَعْضٍ قِصَرًا وَأَمَّا الْقَطَطُ فَالشَّدِيدُ الْجُعُودَةِ وَالترَّجُلُ الَّذِي فِي شَعَرِهِ حُجُونَةٌ أَيْ تَثَنٍّ قَلِيلٌ وَأَمَّا الْمُطَهَّمُ فَالْبَادِنُ الْکَثِيرُ اللَّحْمِ وَالْمُکَلْثَمُ الْمُدَوَّرُ الْوَجْهِ وَالْمُشَرَبُ الَّذِي فِي بَيَاضِهِ حُمْرَةٌ وَالأَدْعَجُ الشَّدِيدُ سَوَادِ الْعَيْنِ وَالأَهْدَبُ الطَّوِيلُ الأَشْفَارِ

ترجمہ:
ابراہیم بن محمد جو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ  کی اولاد میں سے ہیں (یعنی پوتے ہیں) وہ فرماتے ہیں کہ
 حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ  جب حضور ﷺ کے حلیہ مبارک کا بیان فرماتے تو کہا کرتے تھے،
 کہ حضور ﷺ نہ زیادہ لمبے تھے، نہ زیادہ پستہ قد بلکہ میانہ قد لوگوں میں تھے۔ حضور ﷺ کے بال مبارک نہ بالکل پیچدار تھے نہ بالکل سیدھے۔ بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی لئے ہوئے تھے، 
نہ آپ ﷺ موٹے بدن کے تھے نہ گول چہرہ کے البتہ تھوڑی سی گولائی آپ کے چہرہ مبارک میں تھی (یعنی چہرہ انور نہ بالکل گول تھا نہ بالکل لمبا بلکہ دونوں کے درمیان تھا)
 حضور ﷺ کا رنگ سفید سرخی مائل تھا۔ حضور ﷺ کی مبارک آنکھیں نہایت سیاہ تھیں اور پلکیں دراز، بدن کے جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں (مثلا کہنیاں اور گھٹنے) اور ایسے ہی دونوں مونڈھوں کے درمیان کی جگہ بھی موٹی اور پُر گوشت تھی، 
آپ ﷺ کے بدن مبارک پر (معمولی طور سے زائد) بال نہیں تھے (یعنی بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بدن پر بال زیادہ ہوجاتے ہیں حضور اقدس ﷺ کے بدن مبارک پر خاص خاص حصوں کے علاوہ جیسے بازو پنڈلیاں وغیرہ ان کے علاوہ اور کہیں بال نہ تھے)
 آپ ﷺ کے سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی لکیر تھی آپ ﷺ کے ہاتھ اور قدم مبارک پُر گوشت تھے۔ جب آپ ﷺ تشریف لے چلتے تو قدموں کو قوت سے اٹھاتے گویا کہ پستی کی طرف چل رہے ہیں،
 جب آپ کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پورے بدن مبارک کے ساتھ توجہ فرماتے تھے (یعنی یہ کہ صرف گردن پھیر کر کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے کہ اس طرح دوسروں کے ساتھ لاپرواہی ظاہر ہوتی ہے اور بعض اوقات متکبرانہ حالت ہوجاتی ہے، بلکہ سینہ مبارک سمیت اس طرف رخ فرماتے ) ۔ 
بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بھی فرمایا ہے کہ جب آپ ﷺ توجہ فرماتے تو تمام چہرہ مبارک سے فرماتے، کن اکھیوں سے نہیں ملاحظہ فرماتے تھے۔ 
 آپ ﷺ کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ آپ ﷺ ختم کرنے والے تھے نبیوں کے،
 آپ ﷺ سب سے زیادہ سخی دل والے تھے۔ اور سب سے زیادہ سچی زبان والے تھے۔ سب سے زیادہ نرم طبیعت والے تھے۔ اور سب سے زیادہ شریف گھرانے والے تھے۔ (غرض آپ ﷺ دل و زبان، طبیعت، خاندان اوصاف ذاتی اور نسبتی ہر چیز میں سب سے زیادہ افضل تھے) 
آپ ﷺ کو جو شخص یکایک دیکھتا مرعوب ہوجاتا تھا۔ (یعنی آپ ﷺ کا وقار اس قدر زیادہ تھا کہ اول  میں دیکھنے والا رعب کی وجہ سے ہیبت میں آجاتا تھا) اول تو جمال و خوبصورتی کے لئے بھی رعب ہوتا ہے شوق افزوں مانع عرض تمنا آداب حسن بارہا دل نے اٹھائے ایسی لذت کے مزے اس کے ساتھ جب کمالات کا اضافہ ہو تو پھر رعب کا کیا پوچھنا۔
 اس کے علاوہ حضور اقدس ﷺ کو جو مخصوص چیزیں عطا ہوئیں، ان میں رعب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا۔ اور جو شخص پہچان کر میل جول کرتا تھا وہ (آپ ﷺ کے اخلاق کریمہ و اوصاف جمیلہ کا گھائل ہو کر) آپ ﷺ کو محبوب بنا لیتا تھا
۔ آپ ﷺ کا حلیہ بیان کرنے والا صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے حضور اکرم ﷺ جیسا باجمال وباکمال نہ حضور ﷺ سے پہلے دیکھا نہ بعد میں دیکھا۔ ﷺ

شمائل ترمذی

باب: حضور اقدس ﷺ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مشابہ تھے:


عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وسلم قَالَ عُرِضَ عَلَيَّ الأَنْبِيَائُ فَإِذَا مُوسَی عَلَيْهِ السَّلامُ ضَرْبٌ مِنَ الرِّجَالِ کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوئَةَ وَرَأَيْتُ عِيسَی بْنَ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلامُ فَإِذَا أَقْرَبُ مَنْ رَأَيْتُ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلامُ فَإِذَا أَقْرَبُ مَنْ رَأَيْتُ بِهِ شَبَهًا صَاحِبُکُمْ يَعْنِي نَفْسَهُ وَرَأَيْتُ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلامُ فَإِذَا أَقْرَبُ مَنْ رَأَيْتُ بِهِ شَبَهًا دِحْيَةُ

ترجمہ:

جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ  حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں،
 کہ مجھ پر سب انبیاء علیہم الصلوہ والسلام پیش کئے گئے یعنی مجھے دکھائے گئے۔ پس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو میں نے دیکھا تو وہ ذرا پتلے دبلے بدن کے آدمی تھے گویا کہ قبیلہ شنوئیہ کے لوگوں میں سے ہیں
 اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا تو ان سب لوگوں میں سے جو میری نظر میں ہیں عروہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ  ان سے زیادہ ملتے جلتے معلوم ہوئے۔
اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا تو میرے دیکھے ہوئے لوگوں میں سے میں خود ہی ان کے ساتھ مشابہ ہوں، 
ایسے ہی جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا تو ان کے ساتھ زیاہ مشابہ ان لوگوں میں سے جو میری نظر میں ہیں وہ دحیہ کلبی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم أَبْيَضَ کَأَنَّمَا صِيغَ مِنْ فِضَّةٍ رَجِلَ الشَّعْرِ

ترجمہ:
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  فرماتے ہیں، کہ
 حضور اقدس ﷺ اس قدر صاف شفاف حسین و خوبصورت تھے کہ گویا کہ چاندی سے آپ ﷺ کا بدن مبارک ڈھالا گیا ہے۔ آپ ﷺ کے بال مبارک قدرے خمدار گھونگریالے تھے۔

(شمائل ترمذی ص 73)

✍ #محمد_ساجد_مدنی