یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

بدمذھبوں کی صحبت اختیار کرنا، ان کے ساتھ کھانا پینا، شادی بیاہ کرنا وغیرہ کیسا ہے ؟


 

بدمذھبوں کی صحبت اختیار کرنا، ان کے ساتھ کھانا پینا، شادی بیاہ کرنا وغیرہ کیسا ہے ؟



بدمذھبوں کی صحبت اختیار کرنا، ان کے ساتھ اٹھنا، بیھٹنا، کھانا، پینا، ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا، ان کے بیانات سننا، ان کی کتابیں پڑھنا وغیرہ امور شرعاً ناجائز و ممنوع اور ایمان کیلیے زہرِ قاتل ہیں۔
چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :
*"وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖؕ-وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ"*
ترجمہ : اور اے سننے والے جب تو انہیں دیکھے جو ہماری آیتوں میں پڑتے ہیں تو ان سے منہ پھیر لے جب تک اور بات میں پڑیں اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔
*(پارہ 7، سورۃ الانعام آیت 68)*
تفسیر صراط الجنان میں ہے :
*اَلَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا : جو ہماری آیتوں میں بیہودہ گفتگو کرتے ہیں۔*
اِس آیتِ مبارکہ میں کافروں، بے دینوں کی صحبت میں بیٹھنے سے منع کیا گیا اور فرمایا کہ ان کے پاس نہ بیٹھو اور اگر بھول کر بیٹھ جاؤ تو یاد آنے پر اٹھ جاؤ۔
*بد مذہبوں کی محفلوں میں جانے اور ان کی تقاریر سننے کا شرعی حکم :*
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بےدینوں کی جس مجلس میں دین کا احترام نہ کیا جاتا ہو، مسلمان کو وہاں بیٹھنا جائز نہیں۔ 
اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ کفار اور بے دینوں کے جلسے جن میں وہ دین کے خلاف تقریریں کرتے ہیں، ان میں جانا، شرکت کرنا جائز نہیں۔  
حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایاب: 
’’آخری زمانہ میں جھوٹے دجال ہوں گے جو تمہارے پاس وہ احادیث لائیں گے جو نہ تم نے سنیں، نہ تمہارے باپ داداؤں نے، ان کو اپنے اور اپنے کو ان سے دور رکھو، وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں، فتنہ میں نہ ڈال دیں۔
*(مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فی تحمّلہا، صفحہ 9، رقم الحدیث: 7)*

البتہ علماء جو ان بد مذہبوں کا رد کرنے کیلئے جاتے ہیں، وہ اِس حکم میں داخل نہیں۔
یاد رہے کہ بد مذہبوں کی محفل میں جانا اور ان کی تقریر سننا ناجائز و حرام اور اپنے آپ کو بدمذہبی و گمراہی پر پیش کرنے والا کام ہے۔ 
ان کی تقاریر آیاتِ قرآنیہ پر مشتمل ہوں، خواہ احادیثِ مبارَکہ پر، اچھی باتیں چُننے کا زعم (گمان) رکھ کر بھی انہیں سننا ہر گز جائز نہیں۔ 
عین ممکن بلکہ اکثر طور پر واقع ہے کہ گمراہ شخص اپنی تقریر میں قرآن و حدیث کی شرح و وضاحت کی آڑ میں ضرور کچھ باتیں اپنی بد مذہبی کی بھی ملا دیا کرتے ہیں، اور قوی خدشہ بلکہ وقوع کا مشاہدہ ہے کہ وہ باتیں تقریر سننے والے کے ذہن میں راسخ ہو کر دل میں گھر کر جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ گمراہ و بے دین کی تقریر و گفتگو سننے والا عموماً خود بھی گمراہ ہو جاتا ہے۔ 
ہمارے اسلاف اپنے ایمان کے بارے میں بے حد محتاط ہوا کرتے تھے، لہٰذا باوجود یہ کہ وہ عقیدے میں انتہائی مُتَصَلِّب و پختہ ہوتے پھر بھی وہ کسی بدمذہب کی بات سننا ہر گز گوارا نہ فرماتے تھے اگرچہ وہ سو بار یقین دہانی کراتا کہ میں صرف قرآن و حدیث بیان کروں گا۔ 
چنانچہ اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہِ اس بارے میں اسلاف کا عمل نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : 
’’سیدنا سعید بن جبیر شاگردِ عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو راستہ میں ایک بد مذہب ملا۔ 
کہا : 
کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ 
فرمایا : 
میں سننا نہیں چاہتا۔ 
عرض کی :
ایک کلمہ۔ 
اپنا انگوٹھا چھنگلیا کے سرے پر رکھ کر فرمایا :
*’’وَ لَا نِصْفَ کَلِمَۃٍ‘‘*
یعنی آدھا لفظ بھی نہیں۔ 
لوگوں نے عرض کی :
اس کا کیا سبب ہے ؟ 
فرمایا : 
یہ ان میں سے ہے یعنی گمراہوں میں سے ہے۔
امام محمد بن سیرین شاگردِ انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس دو بد مذہب آئے۔ 
عرض کی : 
کچھ آیاتِ کلام اللہ آپ کو سنائیں ! 
فرمایا :
میں سننا نہیں چاہتا۔ 
عرض کی :
کچھ احادیثِ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سنائیں ! 
فرمایا :
میں سننا نہیں چاہتا۔ 
انہوں نے اصرار کیا۔ 
فرمایا :
تم دونوں اٹھ جاؤ یا میں اٹھا جاتا ہوں۔ 
آخر وہ خائب و خاسر چلے گئے۔ 
لوگوں نے عرض کی: 
اے امام! آپ کا کیا حرج تھا اگر وہ کچھ آیتیں یا حدیثیں سناتے؟ 
فرمایا :
میں نے خوف کیا کہ وہ آیات و احادیث کے ساتھ اپنی کچھ تاویل لگائیں اور وہ میرے دل میں رہ جائے تو ہلاک ہو جاؤں. 
پھر فرمایا :
’’ائمہ کو تو یہ خوف اور اب عوام کو یہ جرأت ہے، 
*وَلَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ۔* 
دیکھو! امان کی راہ وہی ہے جو تمہیں تمہارے پیارے نبی صَلَّی اللہ ُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بتائی:
*’’اِیَّاکُمْ وَ اِیَّا ھُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ‘‘*
ان (بدمذہبوں ) سے دور رہو اور انھیں اپنے سے دور کرو، کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔ دیکھو! نجات کی راہ وہی ہے جو تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے بتائی :
*’’فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ‘‘*
یاد آئے پر پاس نہ بیٹھ ظالموں کے۔
بھولے سے ان میں سے کسی کے پاس بیٹھ گئے ہو تو یاد آنے پر فوراً کھڑے ہو جاؤ۔
*(فتاویٰ رضویہ جلد 15 صفحہ 106، 107 رضا فاونڈیشن لاہور ملخصاً)*
ایک اور مقام پر اللہ پاک ارشاد فرمایا :
*"وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ"*
ترجمہ : اور ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آگ چھوئے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حما یتی نہیں پھر مدد نہ پاؤ گے۔
*(پارہ 12، سورۃ الھود : 113)*
آیتِ مبارکہ میں جھکنے کا معنی "قلبی جھکاؤ" ہے اور جب قلبی جھکاؤ پر اتنی سخت وعید ہے تو کافروں کے ساتھ تعلقات کی اُن صورتوں میں کیا حال ہو گا جو قلبی میلان سے بڑھ کر ہیں۔یاد رہے کہ اگر طبعی میلان، غیر اختیاری ہو تو وہ اس آیت مبارکہ کے حکم میں داخل نہیں۔ 
جیساکہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے تحریر فرمایا :
’’مگر طبعی میلان جیسے ماں باپ، اولاد یا خوبصورت بیوی کی طرف ہوتا ہے، اس کی جو صورت غیر اختیاری ہو وہ اس حکم کے تحت داخل نہیں، پھر بھی اس تصور سے کہ یہ اللہ و رسول کے دشمن ہیں، ان سے دوستی حرام ہے اور اپنی قدرت کے مطابق اُسے دبانا یہاں تک کہ بن پڑے تو فنا کر دینا لازم ہے۔ (میلان کا) آنا بے اختیار تھا اور (اس کا) جانا یعنی اسے زائل کرنا قدرت میں ہے تو (اس میلان کو) رکھنا اختیارِ موالات ہوا اور یہ حرامِ قطعی ہے، اسی وجہ سے جس غیر اختیاری (میلان) کے مبادی (یعنی ابتدائی افعال) اس نے باختیار پیدا کئے تو اس میں معذور نہ ہوگا، جیسے شراب کہ اس سے عقل زائل ہوجانا اس کا اختیاری نہیں مگر جبکہ اختیار سے پی تو عقل کا زائل ہو جانا اور اس پر جو کچھ مرتب ہو سب اسی کے اختیار سے ہوا۔
*(فتاویٰ رضویہ جلد 14 صفحہ 465، 466 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے نافرمانوں کے ساتھ یعنی کافروں، بے دینوں، گمراہوں اور ظالموں کے ساتھ بلاضرورت میل جول، رسم و راہ، قلبی میلان اور محبت، ان کی ہاں میں ہاں ملانا اور ان کی خوشامد میں رہنا ممنوع ہے۔
ابن حبان، طبرانی اور عقیلی کی حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ آقا دو عالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
*"لاتؤاکلوھم و لاتشاربوھم و لاتجالسوھم و لاتناکحوھم و اذا مرضوا فلاتعودھم و اذا ماتوا فلاتشھدوھم و لاتصلوا علیھم و لاتصلوا معھم"*
یعنی ان (بدمذھبوں) کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ، ان کے ساتھ پانی نہ پیو، ان کے پاس نہ بیٹھو، ان کے ساتھ رشتہ مت کرو (یعنی ان سے شادی بیاہ مت کرو)، وہ بیمار پڑیں تو عیادت مت کرو، وہ مرجائیں تو جنازہ پر نہ جاؤ، نہ ان کی نماز پڑھو اور نہ ان کے ساتھ نماز پڑھو۔
مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ اللہ پاک اور اس کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر ہماری بھلائی اور خیرخواہی چاہنے والا کوئی نہیں، تو اگر وہ کسی کام کی طرف بلائیں تو اس میں ہمارا بھلا ہی بھلا ہے اور اگر کسی  کام سے منع کریں تو اس کام میں دونوں جہانوں کا خسارہ (نقصان) ہے، تو اللہ پاک  اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدمذھبوں کے پاس بیٹھنے، ان کی صحبت اختیار کرنے ان کے ساتھ کھانے پینے سے منع فرمایا ہے لہذا اس سے نہ بچنے میں ہمارے لیے سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔
*ٹوٹ :*
*بدمذھب و گمراہ کون ؟*
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بدمذھب کسے کہتے ہیں تو :
"جس کے عقائد یا جس کا کوئی عقیدہ اہلِ سنت و جماعت کے عقیدہ کے خلاف ہو تو وہ گمراہ اور بدمذھب ہے۔
چنانچہ تاج العروس اور معجم لغة الفقھاء میں ہے :
*"اھل الاھواء : الذین لا یکون معتقدھم معتقد اھل السنة و الجماعة و ھم الجبریة و القدریة و الروافض و الخوارج و المعطلة و المشبھة"*
یعنی گمراہ و بدمذھب وہ لوگ ہیں جو اہلِ سنت و جماعت کے عقیدے جیسا عقیدہ نہیں رکھتے، ان گمراہ فرقوں میں جبریہ، قدریہ، روافض، خوارج (وہابیہ) معطلہ اور مشبھہ ہیں۔
*(معجم لغة الفقھاء صفحہ 95 دارالنفائس)*
المختصرجو سنی نہیں، وہ بدمذھب و گمراہ ہےـ
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
23/01/2019
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحیح و المجیب نجیح
*ابوالحسنین مفتی محمد عارف محمود قادری مرکزی دارالافتاء اہلسنت محلہ نور پورہ میانوالی سٹی*