یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

"مفتیٔ اعظم ہند حضرت علامہ محمد مصطفیٰ خاں رضا بریلوی کا تعارف"




"مفتیٔ اعظم ہند حضرت علامہ محمد مصطفیٰ خاں رضا بریلوی کا تعارف"


از : مولانا نفیس احمد مصباحیؔ استاذ الجامعۃ الا شرفیہ مبارکپور اعظم گڈھ یو۔پی ۔

حضور مفتی اعظم ہند مولاناالشاہ مصطفے رضاقادری نوری بریلوی قدس سرہ مجدداعظم اعلی حضرت امام احمد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی قدس سرہ کے خلف اصغر ہیں ،آپ کی ذات والا صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔آپ ایک طرف متبحر عالم،معتبر و مستند فقیہ،ممتاز متکلم،مختلف علوم و فنون کے ماہر اور شعر و ادب کے مزاج آشنا تھے تو دوسری طرف ریاضت و عبادت،مکاشفہ و مجاہدہ،تقویٰ و پرہیزگاری،زہد و ورع اور اسرار باطنی کے بھی محرم تھے،ہر میدان میں ان کے خلوص و للّٰہیت کی جلوہ گری نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے ،وہ ایک ا یسی شمع تھے جس کے گرد لاکھوں پروانے اکتساب نور کی خاطر زندگیوں کو دائوں پر چڑھائے رہتے ہیں۔

ولادت ونسب:آپ کا اصلی نام ’’محمد‘‘ہے،غیبی نام آل الرحمن ہے،پیر ومرشد سید المشائخ حضور سیدنا شاہ ابو الحسین نوری مارہروی قدس سرہ نے آپ کا نام ’’ابو البرکات محی الدین جیلانی‘‘تجویز فرمایا،والد ماجد اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے عرفی نام’’ مصطفے رضا‘‘رکھا،فن شاعری میں آپ اپنا تخلص ’’نوری ‘‘فرماتے ہیں… مگر عرفی نام اس قدر مشہور ہوا کہ خاص و عام میں آپ کو اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

آپ کی ولادت ۲۲؍ذی الحجہ ۱۳۱۰؁ھ،۷؍جولائی ۱۸۹۳؁ء کو( صوبۂ اتر پردیش کے مشہور شہر) بریلی میں ہوئی۔(محدث اعظم پاکستان،مولانا جلال الدین قادری، ج؍۱، ص؍۶۵ )

بیعت وخلافت: حضرت مفتی اعظم ہند کی عمر ابھی چھ ماہ کی تھی کہ مرشد کامل حضور سید المشائخ علامہ شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی رحمۃاللہ علیہ بریلی شریف تشریف لائے تو آ پ کو اپنی آغوش مبارک میں لے کر دعائوں سے نوازا اور منہ میں انگلی ڈال کر اپنا مرید فرما کر جمیع سلاسل کی خلافت سے سرفراز فرمایا۔(ماہنامہ استقامت کان پور ـ، مفتیٔ اعظم ہند نمبر مئی ۱۹۸۳؁ء، ص /۱۱۱)

بیعت کرتے وقت مرشد کامل نے فرمایا :یہ بچہ دین وملت کی بڑی خدمت کرے گا اور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہنچے گا ، یہ بچہ ولی ہے ، اس کی نگاہوں سے لاکھوں گمراہ انسان دین حق پر قائم ہوںگے ،یہ فیض کا دریا بہائے گا ۔(پندرہ روزہ رفاقت ،پٹنہ ،۱۵؍دسمبر ۱۹۸۱ ؁ء ،ص ؍ ۱۳)

امام احمد رضا قدس سرہ نے بھی اپنے خلف اصغر کو جمیع اوراد واشغال ، اوفاق واعمال اور جمیع سلاسل طریقت و شریعت میں ماذون ومجاز بنایا ۔


تعلیم و تربیت: حضرت مفتی ٔ اعظم ہند قدس سرہ جب سخن آموزی کی منزل عبور کر چکے تو امام احمد رضا قدس سرہ نے اپنے بڑے صاحبزادے حجۃ االاسلام مولانا شاہ محمد حامد رضا قدس سرہ سے فرمایا : میری مصروفیات سے تم با خبر ہو ، تم اپنے بھائی کو پڑھائو وہ بڑی محنت و لگن کے ساتھ حضرت مفتیٔ اعظم کو پڑھا نے لگے ، ٓآپ نے صرف تین سال کی عمر میں ناظرہ ٔقرآ ن کریم ختم کر لیا۔ ناظرۂ قرآ ن کی تکمیل کے بعد امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز کے حکم سے استاذ الاساتذہ حضرت علامہ شاہ رحم الٰہی منگلوری اور مولانا بشیر احمد علی گڑھی نے آپ کو تعلیم دی ۔ (استقامت مفتیٔ اعظم نمبر ص؍۱۹۸ ،ملخصا) اور اصل تعلیم و تربیت تو اپنے والد ماجد امام احمد رضا قدس سرہ سے پائی ۔پھر ۱۳۲۸ ؁ھ مطابق ۱۹۱۰؁ء کو اٹھارہ سال کی عمر میں جملہ علوم وفنون ، منقولات ومعقولات پر عبور حاصل کر کے دارالعلوم حضرت مفتیٔ اعظم ہند نے مدرسہ منظر اسلام بریلی شریف سے فراغت پائی ۔

فتویٰ نویسی: حضورمفتیٔ اعظم قدس سرہ نے جس ماحول میں پرورش پائی وہ علم وفضل میں یکتائے روزگارتھا عالم اسلام کی مایۂ ناز عبقری شخصیت امام احمد رضا قدس سرہ نے تربیت کی اور تعلیم دی ۔ یہ کوئی تھو ڑا کمال نہیں تاہم مفتیٔ اعظم علیہ الرحمۃ کے خمیر و ضمیر اور فطرت وسرشت میں تفقہ فی الدین کا ملکہ و دیعت کیا گیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اٹھارہ برس کی عمر میں ۱۳۲۸؁ ھ/ ۱۹۱۰؁ ء میں آپ نے قلم برداشتہ پہلا فتویٰ تحریر فرمایا ……اس کا واقعہ یوں ہے کے دارالافتاء بریلی میںامام احمد رضاقدس سرہ کی زیر نگرانی ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری اور مولا ناسید عبد الرشید کام کرتے تھے۔ ایک روزاتفاقا حضرت مفتی اعظم قدس سرہ وہا ں تشریف لائے۔ دیکھا کہ مولانا ظفر الدین بہاری کسی مسئلہ کی وضاحت کی لئے فتاویٰ رضویہ الماری س نکال رہے پیں۔آپ نے فرمایا۔آمولانا!کیاآپ فتاویٰ رضویہ دیکھ کر جواب لکھتے ہیں۔اس پرملک العلماء مولانا ظفراالدین نے فرمایا۔اچھا آپ بغیردیکھے جواب لکھ دیں تو جانیں۔مفتی اعظم نے قلم برداشتہ استفتاء کا جواب تحریر فرمایا یہ رضاعت کامسئلہ تھا۔فتویٰ اصلاح کے لئے امام احمد رضا قدس سرہ کی خدمت میں پیش ہوا۔آپ نے صحت جواب پر مسرت واطمینان کا اظہار فرمایااور’’صح الجواب بعون اللہ العزیز الوھاب،،لکھ کر دستخط ثبت فرما دئے۔ یہی نہیں بلکہ بطور انعام’’ابوالبرکات محی الدین جیلانی آ ل رحمٰن محمد عرف مصطفیٰ رضا‘‘ کی مہر بنوا کر دی……آپ نے اپنے والد ماجد امام احمد رضا قدس سرہ کی حیات ظاہری میں ۱۳۲۸؁ھ سے ۱۳۴۰؁ھ تک تیرہ برس تک فتاویٰ لکھے۔والد ماجد کے وصال کے بعد ۱۳۹۵؁ھ تک مسلسل فتوی نویسی فرمائی ۔بعد از آں بوجہ ضعف و علالت فتوی نویسی کا کام نہ ہو سکا۔تاہم آخری لمحات تک مفتیان دین کی علمی مشکلات کو زبانی حل فرماتے رہے۔اس طرح ستّر ؍۷۰ برس کے طویل عرصہ تک بلا معاوضہ فتوی نویسی فرمائی ۔آپ کے پاس بر صغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش کے علاوہ ممالک افریقہ ،امریکہ،سری لنکا ،ملیشیاء،مشرق وسطی اور یورپ تک کے علماء فتوی کے لئے رجوع فرماتے تھے۔(محدث اعظم پاکستان،ج؍۱،ص؍۶۹)

تدریس:  حضرت مفتیٔ اعظم ہند نے مدرسہ منظر اسلام یا مظہر اسلام میں کبھی درس نہیں دیا لیکن دولت خانہ پر تشریف رکھتے ہوئے اگر کسی نے پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تو اسے پڑھا دیا۔ حضرت محدث اعظم کو بھی پڑھایا ہے ۔ کچھ لوگوں نے لکھ دیا ہے کہ مفتیٔ اعظم ہند نے منظر اسلام و مظہر اسلام دونوں میں درس دیا ہے یہ صحیح نہیں ہے۔ شارح بخاری فرماتے تھے کہ میں نے خود مفتیٔ اعظم ہند سے دریافت کیا تو فرمایا نہیں اور اس کے اسباب بھی بیان فرمائے ۔ اور جب مظہر اسلام قائم فرمایا تو اس وقت حضرت کی طرف عوام کا اتنا رجوع ہو چکا تھا کہ پڑھا نے کا وقت ملنے کا سوال ہی نہیں تھا ۔

تلامذہ و مستفیدین:  آپ کی ذات بابرکت سے مستفید ہونے والوں کی ایک لمبی قطار ہے جن میں سے بعض کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں……خیال رہے کہ ان میں بعض تو وہ ہیں جنہوں نے باضابطہ آپ سے درسی کتابیں پڑھیں اور بعض وہ ہیں جنہوں نے فتوی نویسی یا کسی اور طریقہ سے آپ کے خرمن علم سے خوشہ چینی کی۔

٭محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمدگورداس پوری ثم لائل پوری٭فقیہ عصر مولانا اعجاز ولی خان رضوی بریلوی ٭ رئیس الاتقیاء مولانا مبین الدین امروہی٭فقیہ الہند شارح بخاری مولانا مفتی شریف الحق امجدی ٭مولانا محمد ریحان رضا خان رضوی بریلوی ٭فقیہ اسلام مولانا مفتی محمد اختر رضا خان ازہری ٭مفتی افضل حسین مونگیری ٭مولانا قاضی عبد الرحیم بستوی ٭مولانا مفتی برہان الحق جبل پوری علیہ الرحمہ وغیرہ مذکورہ بالا ہستیوں میں سے ہر ایک اپنے وقت کا آفتاب وماہتاب ہے جو پوری فیاضی کے ساتھ مفتی اعظم علیہ الرحمۃ والرضوان کے فیضان علمی کا باڑا بانٹ رہا ہے اور عوام و خواص اس سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔

مفتی ہند: حضور مفتی اعظم ہندقدس سرہ کی نوجوانی کا زمانہ تھا …اعلی حضرت امام احمدرضا قدس سرہ العزیز نے تقاضائے وقت کے پیش نظر بریلی شریف میں دار القضاء شرعی کا قیام فرمایا۔چونکی قاضی کے لئے کافی تربیت،تفقہ،اور تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس اعتبار سے حاضرینِ دربار ِرضوی میں سب سے زیادہ فائق حضرتِ صدر الشریعہ تھے اس لئے انہیں قاضی بنایا اور حضرت مفتی اعظم ہند اور حضرت برہان ملت مولانا مفتی برہان الحق جبلپوری علیہماالرحمہ کو ان کی اعانت کے لئے مفتی دار القضاء کے منصب پر فائز فرمایا … اس دارالقضاء میں اگر چہ حضرت مفتی اعظم ہند،حضرت صدر الشریعہ کے ما تحت تھے مگر غور کر لیجئے کہ یہ دار القضاء کوئی معمولی دار القضاء نہ تھا،پورے ہندوستان کا سب سے بڑا مرکزی دار القضاء تھا جسے سپریم کورٹ کہہ لیجئے اور اس دار القضاء میں مفتی کی وہی حیثیت تھی جو کسی بنچ کے چند ججوں کی ہوتی ہے۔ایک نوعمر نوجوان کو سپریم کورٹ کی بنچ کے ججوں میں شامل کرنا کتنا بڑا اِعزاز ہے کہ کہنہ مشقوں کو بھی شاید باید نصیب ہوتا ہے اس نو عمری میں سب سے بڑے دار القضاء کا رکن بنانا ہی اس کی دلیل ہے کہ ایک دن آئیگا کہ یہ نوعمر پوری دنیا کے علماء میں وہ حیثیت حاصل کریگا کہ اس کی حیثیت عالمی سپریم کورٹ کے اعلیٰ جج کی ہو جائے گی……اور دنیا نے اپنے چشم سر سے دیکھ لیا کہ حضرت مفتی اعظم ہند اپنے عہد میں پوری دنیائے سنیت کے صرف قاضی القضاۃ ہی نہ تھے بلکہ روحانی شہنشاہ تھے۔(مفتی اعظم اپنے فضل و کمال کے آئینے میں۔ص؍۷۔از فقیہ عصر مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ)

تبحر علمی: آپ علوم و فنون کے بحر ذخارتھے۔ تفسیر،حدیث،اصول حدیث،فقہ،اصول فقہ،منطق،فلسفہ، معانی بیان،بدیع،نحوو صرف،وغیرہ علوم مروّجہ کے علاوہ بہت سے غیر مروجہ علوم مثلاََعلم توقیت،تکسیر،جفر،وغیرہ پر بھی آپ کو دسترس تھی… آپ کے تبحر علمی کا اندازہ اس سے لگایئے کہ آپ کی عمر مبارک کے نوجوانی کے ایام تھے کہ علمائے رام پور سے مسئلہ’’اذان ثانی‘‘پر بحث چھڑ گئی۔علمائے رام پور معمولی علماء نہ تھے ۔یہ وہ اکابر ملت تھے کہ جن کے علم و فضل کا رعب پورے ہندوستان پر چھایا ہوا تھا……یہ شمس العلماء مولانا عبد الحق بن علامہ فضل حق خیرآبادی جیسے بطلِ جلیل کے وارث تھے ۔جب بانیٔ دیوبندیت قاسم نانوتوی رام پور آئے تو ان کی ہیبت سے اپنے کو ظاہر نہ کر سکے ،سرائے میں ایک خفیہ کوٹھری میں قیام رہااور اپنا نام تبدیل کر کے لکھوایا۔

علمائے رام پور نے اس مسئلہ پر اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ بحث شروع کر دی۔مجدد اعظم اعلیحضرت قدس سرہ نے ان کے افہام و تفہیم کے لئے اپنے اس نوجوان فرزند کو حکم دیا حضرت مفتی اعظم ہند نے ان حضرات کے ابحاث علمیہ کے ایسے مدلل مسکت اور فصیح جواب دیئے کہ وہ دم بخود رہ گئے ،ان پر وہ گرفتیں کی کہ وہ حضرات انگشت بدنداں رہ گئے ،جس کا جی چاہے اس وقت کے رسائل وقایہ اہل السنۃ نفی العاری وغیرہ مطالعہ کرلے۔(ایضا،ص؍۵،)

تصنیف وتالیف:اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ قلمی قوت سے نوازا تھا آپ کی تحریروں میں آپ کے والد ماجد مجدد اعظم امام احمد رضا قد سرہ کے اسلوب کی جھلک اور ژرف نگاہی نظر آتی ہے تحقیق کا کمال بھی نظر آتا ہے اور تدقیق کا جمال بھی ۔فقہی جزئیات پر عبور کا جلوہ بھی نظر آتا ہے اور علامہ شامی کے تفقہ کا انداز بھی۔امام غزالی کی نکتہ سنجی ،امام رازی کی دقت نظر اور امام سیوطی کی وسعت مطالعہ کی جلوہ گری بھی ہوتی ہے آپ نے اپنی گونا گوں مصروفیات اور ہمہ جہت مشاغل کے باوجود مختلف موضوعات پر تصنیفات و تالیفات کا ایک گراں قدر ذخیرہ چھوڑا۔ ان میں سے بعض کے اسماء یہ ہیں۔

(۱)فتاویٰ مصطفویہ اول ودوم(۲)وقعات السنان (۳)ادخال السنان (۴)الموت الاحمر(۵)ملفوظات اعلیٰحضرت (۶)الطاری الداری لھفوات عبد الباری (۷)القول العجیب فی جواب التثویب(۸)سامان بخشش(۹)تنویر الحجۃ بالتواء الحجۃ (۱۰)ہشتاد بید وبند(۱۱)طرق الھدیٰ والارشاد (۱۲)وقایہ اہل السنۃ وغیرہ

اوصاف حمیدہ:آپ کے اعمال واوصاف ِسنت نبوی کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ آپ اخلاص ووفا کی ایک شمع ،عزیمت واستقلال کا کوہ وقار،زہد وتقویٰ، ایمان و ایقان ،صداقت و دیانت کے پیکر جمیل تھے۔عشق مصطفیٰ اور حب اولیاء کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے ،سنت کی نصرت وحمایت اور بدعت کے استیصال اور مخالفت میں ہمیشہ مصروف رہتے تھے ،احقاق حق اور ابطال باطل اپنے والد ماجد مجدد اعظم امام احمد رضا قدس سرہٗ سے ورثہ میں پایا تھا ،ذہانت وذکاوت،علمی تعمق اور بصیرت ایسی کہ جہاں بھی ارباب علم و دانش اور اصحاب فکر وبصیرت کی محفلوں میں پہنچتے ،میرِ مجلس آپ ہی ہوتے بے کسوں اور بے نوائوں کے حامی دنیا دار اور اقتدار سے دور اور نفور تھے ،اخلاقی وروحانی اقتدار کے محافظ وامین اور گم گشتگان راہ کیلئے منارئہ نور تھے ،آپ کا ہر ہر قدم سنت مصطفیٰ کا آئینہ دار تھا ۔تقویٰ وپرہیز گاری کا یہ عالم کہ جس چیز کو شریعت مصطفویہ کی روشنی میں نا جائز سمجھا اس سے زندگی بھر اجتناب فرمایا۔ فوٹو آپ کے نزدیک حرام ہے ،ساری عمر فوٹو نہ بنوایا۔اسی لئے باوجود بڑی خواہش کے بغداد شریف اور دیگر مقامات قدسیہ پر حاضری نہ دے سکے غیرت دینی کا یہ حال کہ بانوے(۹۲) برس کی طویل عمر پانے کے باوجود کبھی بھی کسی سربراہ مملکت کے یہاں نہ گئے بلکہ کتنے سربراہوں اور صاحبان اقتدار نے خود ان کی مجلس میں باریاب ہونے کی اجازت چاہی مگر اپنے فقر غیور کے باعث یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ایک درویش کا بادشاہوں اور ارباب حکومت سے سروکار ہی کیا ہے ۔

شعر وشاعری:حضرت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کو شاعری ورثہ میں ملی تھی آپ کی شاعری قرآن وحدیث اور اقوال صالحین و بزرگان دین سے مزین ہے ،آپ نے حمد نعت اور منقبت سب کچھ لکھا ہے ،ہر ایک میں زبان و بیان کی بھر پور چاشنی ملتی ہے اور رنگ تغزل جھلملاتا ہے ،لطافت ،صداقت ،تعمق معنوی ،نکتہ سنجی ،فصاحت کلمات، اور بلاغت اشعار کی جان ہیں ۔آپ کا تخلص نوری ہے مجموعۂ کلام بنام ’’سامان بخشش‘‘طبع ہوکر ارباب علم و ادب سے خراج تحسین حاصل کرچکا ہے۔ تفصیل کے لئے مجموعۂ کلام کا مطالعہ مفید ہوگا ۔

حلقۂ ارادت:آپ کا حلقۂ ارادت اتنا وسیع ہے کہ بر صغیر ہند وپاک کے علاوہ دنیا کے بیش تر ملکوں میں آپ کے مریدین موجود ہیں یہاں تک کہ حرمین شریفین کے کچھ افراد بھی آپ کے مریدین میں شامل ہیںجن میں سے بعض صف علماء سے بھی تعلق رکھتے ہیں مریدین کی تعداد تو بے شمار ہے ان میں بڑے بڑے علماء ،صلحاء ،مشائخ،ادبا ،شعرا،دانشور اور پروفیسر بھی شامل ہیں ۔آپ کے خلفاء کی تعداد اتنی ہے جتنی بڑے بڑے پیروں کے مریدوں کی یہ تعداد بھی سیکڑوں میں ہے وہ بھی معمولی نہیں ایسے جلیل و عظیم جو اپنے وقت میں اہل سنت کے صف اول کے معتمد مستند تھے۔

وصال پر ملال:آپ شب پنجشنبہ ۱۴؍محرم الحرام ۱۴۰۲ھ؁ مطابق ۱۲؍نومبر ۱۹۸۱ء؁ ایک بجکر چالیس منٹ پر مسلمانان عالم اور کروروں عقیدت مندوں کو اچانک داغ مفارقت دے گئے ،بی بی سی لنڈن،آل انڈیا ریڈیو،پاکستان ریڈیو،اور اخبارات و رسائل نے اس المناک و وحشتناک حادثہ کی خبر ساری دنیا میں پھیلادی جس سے مسلمانوں پر ایک بجلی سی گر پڑی اور سو گواروں کے قافلے بریلی کی جانب چل پڑے ،کاروں،بسوں ،ٹرینوں،اور ہوائی جہازوں سے علماء و فضلاء ،مختلف ممالک کے اسلامیہ انٹر کالجبریلی شریف کے وسیع وعریض میدان میں نماز جنازہ ادا کی گئی ۔رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃًََواسعۃًََ۔ (استقامت کانپور،مفتی اعظم ہند نمبر،ص؍۳۱۶)

قطعۂ تاریخ یہ ہے : ہجری ست سال ’’سوئے بہشت بزرگ قصر‘‘ (۰۲ ۱۴ھ) ’’پرواز کرد مفتی اعظم‘‘ بہ عیسوی ست۱۹۸۱ء (قتیل دانا پوری)اور آیت کریمہ ’’ان المتقین فی جنّٰتٍ وَّ نعیمٍ‘‘تاریخ وصال ہے۔ ٭٭٭


نوٹ: تحریر کو محفوظ رکھنے کے لیے آخر میں اپنا نام اور نمبر لکھ رہا ہوں


عبداللہ ھاشم عطاری مدنی

03313654057