یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

اسلام میں خلافتِ راشدہ کتنا عرصہ قائم رہی/ملوکیّت کا کیا مطلب ہے اور اول ملوکِ اسلام کون ہیں؟ /حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنھما کے بارے میں اہلسنت کے عقیدہ/ یزید بن معاویہ کے بارے میں اہلسنت کے عقیدہ




"اسلام میں خلافتِ راشدہ کتنا عرصہ قائم رہی/ملوکیّت کا کیا مطلب ہے اور اول ملوکِ اسلام کون ہیں؟ /حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنھما کے بارے میں اہلسنت کے عقیدہ  یزید بن معاویہ کے بارے میں اہلسنت کے عقیدہ"

سوالات:
1- *اہل علم سے دریافت کیا جاتا ہے کہ اسلام میں خلافتِ راشدہ کتنا عرصہ قائم رہی ؟*
 
2- ملوکیّت کا کیا مطلب ہے اور اول ملوکِ اسلام کون ہیں؟ 
3- نیز حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنھما کے بارے میں اہلسنت کے عقیدہ کیا ہے ؟
4- اور یزید بن معاویہ کے بارے میں اہلسنت کے عقیدہ کیا ہے ؟ 
بینوا بالکتاب و توجروا عند الحساب
سائل : انجمن نوجوانان اہل سنت میانوالی
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
1- خلافتِ راشدہ تیس (30) سال تک قائم رہی۔
چنانچہ صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"منہاجِ نبوت پر خلافتِ حقہ راشدہ تیس سال رہی، کہ سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے چھ مہینے پر ختم ہوگئی، پھر امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیز رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی خلافتِ راشدہ ہوئی اور آخر زمانہ میں حضرت سیّدنا امام مَہدی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ہوں گے۔
*(بہارشریعت جلد 1 حصہ اول صفحہ 257 مکتبۃ المدینہ کراچی)*

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"یہ حساب تقریبی ہے جس میں سال کی کسریں یعنی مہینے چھوڑ دیئے گئے ہیں حساب تحقیقی یہی ہے کہ خلافت صدیقی دو سال چار ماہ، خلافت فاروقی دس سال چھ مہینے، خلافت عثمانی چند دن کم بارہ سال، خلافت حیدری چار سال نو ماہ، چاروں خلفاء کی خلافت انتیس سال سات مہینے نو دن ہے، پانچ ماہ باقی رہے وہ ہی حضرت امام حسن کی خلافت نے پورے کردیئے۔(اشعہ) ان مدتوں کے بیان میں کچھ اختلاف ہے بہرحال حضرت امام حسن کی چند ماہ خلافت پر تیس سال پورے ہوگئے، چونکہ امام حسن کی خلافت دراصل خلافت حیدری کا تتمہ تھی (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا بقیہ حصہ تھی) اس لیے اس کا ذکر علیحدہ نہ فرمایا۔"
*(مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 7 صفحہ 204 ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)*
2- ملوکیت سے مراد بادشاہت و سلطنت ہے اور اول ملوکِ اسلام یعنی اسلام کے سب سے پہلے بادشاہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں۔
چنانچہ علامہ علی بن سلطان حنفی المعروف ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"و أول ملوک المسلمین معاویۃ رضي اللّٰہ عنہ"*
یعنی اور مسلمانوں کے سب سے پہلے بادشاہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں۔
*(منح الروض الأزہر شرح الفقہ الاکبر للقاریٔ، صفحہ 68، 69 مطبوعہ باب المدینہ کراچی)*
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"امیرِ معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اوّل ملوکِ اسلام ہیں، اسی کی طرف توراتِ مقدّس میں   اشارہ ہے کہ:
*’’مَوْلِدُہٗ بِمَکَّۃَ وَمُھَاجَرُہٗ بِطَیْبَۃَ وَمُلْکُہٗ بِالشَّامِ۔‘‘*
’’وہ نبی آخر الزماں (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و سلم) مکہ میں پیدا ہوگا اور مدینہ کو ہجرت فرمائے گا اور اس کی سلطنت شام میں ہوگی۔‘‘
*(المستدرک، کتاب تواریخ المتقدمین من الأنبیاء و المرسلین، رقم الحدیث: 4300، جلد 3، صفحہ 526، دلائل النبوۃ للبیہقي، جلد 6، صفحہ 281، مشکاۃ المصابیح، کتاب الفضائل، رقم الحدیث : 5771، جلد 3، صفحہ 358)*
تو امیرِ معاویہ کی بادشاہی اگرچہ سلطنت ہے، مگر کس کی! محمد رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سلطنت ہے۔"
*(بہارِ شریعت جلد 1 حصہ اول صفحہ 258 مکتبۃ المدینہ کراچی)*

3- حضرت سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ہیں اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام رضی اللہ عنھم خیر و صلاح والے، متقی و پرہیزگار، عادل اور قطعی جنتی ہیں، ان کا ذکر تعظیم و توقیر، ادب اور خیر کے ساتھ کرنا فرض ہے اور ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی  بدعقیدگی رکھنا یا کسی ایک کی شان میں بدگوئی کرنا انتہائی درجے کی بدنصیبی، بدمذہبی و گمراہی اور جہنم کی حقداری ہے، اور حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض کرنے والے جہنمی کتے ہیں اور ان دونوں حضرات (حضرت سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ) کی گستاخی کرنے والا صحیح العقیدہ سنی مسلمان نہیں بلکہ پکا رافضی مردود ہے۔
حضرت امام مزی رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام نسائی رحمة الله عليه کا قول نقل فرماتے ہیں :
*"سئل أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ النَّسَائي عَنْ معاوية بْن أَبي سفيان صاحب رَسُول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَقَالَ: إنما الإسلام كدار لها باب، فباب الإسلام الصحابة، فمن آذى الصحابة إنما أراد الإسلام، كمن نقر الباب إنما يريد دخول الدار، قال: فمن أراد معاوية فإنما أراد الصحابة"*
یعنی اسلام کی مثال گھر کی ہے جس کا دروازہ ہے، صحابہ کرام اسلام کا دروازہ ہیں جو کوئی صحابہ کو ایذا پہنچاتا ہے اس کا ارادہ اسلام کو ہدف بنانے کا ہے جیسے کوئی گھر کا دراوازہ کھٹکھٹاتا ہے تو وہ گھر میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے اسی طرح جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض کرتا ہے وہ صحابہ کرام پر اعتراض کا ارادہ رکھتا ہے۔
*(تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، جلد 1، صفحہ 339، 340)*
چنانچہ صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم متقی و پرہیزگار ہیں، ان کا ذکر ادب، محبت اور توقیر کے ساتھ لازم ہے، ان میں سے کسی کے ساتھ بدعقیدگی یا کسی کی شان میں بدگوئی کرنا انتہائی درجہ کی بد نصیبی اور گمراہی ہے۔ وہ فرقہ نہایت بدبخت اور بددین ہے جو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم پر لعن طعن کو اپنا مذہب بنائے، ان کی عداوت (دشمنی) کو ثواب کا ذریعہ سمجھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کی بڑی شان ہے، ان کی ایذا (تکلیف) سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا ہوتی ہے۔ کوئی ولی، کوئی غوث، کوئی قطب مرتبہ میں کسی صحابی کے برابر نہیں ہوسکتا۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم جنتی ہیں۔ روزِ محشر فرشتے ان کا استقبال کریں گے۔
*(کتاب العقائد صفحہ 46، 47 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"تمام صحابۂ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔
کسی صحابی کے ساتھ سوئِ عقیدت بدمذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے، کہ وہ حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و سلم کے ساتھ بغض ہے، ایسا شخص رافضی ہے، اگرچہ چاروں خلفا کو مانے اور اپنے آپ کو سُنّی کہے، مثلاً حضرت امیرِ معاویہ اور اُن  کے والدِ ماجد حضرت ابو سفیان اور والدۂ ماجدہ حضرت ہند، اسی طرح حضرت سیّدنا عَمرو بن عاص، و حضرت مغیرہ بن شعبہ، و حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی ﷲ تعالیٰ عنہم، حتیٰ کہ حضرت وحشی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جنہوں نے قبلِ اسلام حضرت سیّدنا سید الشہدا حمزہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا اور بعدِ اسلام اَخبث الناس خبیث مُسَیْلِمَہ کذّاب ملعون کو واصلِ جہنم کیا۔
وہ خود فرمایا کرتے تھے :
کہ میں نے خیرالنّاس و شرالنّاس کو قتل کیا، اِن میں سے کسی کی شان میں گستاخی، تبرّا (نفرت کا اظہار کرنا) ہے اور اِس کا قائل رافضی، اگرچہ حضراتِ شیخین رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کی توہین کے مثل نہیں ہو سکتی، کہ ان کی توہین، بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی فقہائے کرام کے نزدیک کفر ہے۔"
*(بہارشرہعت جلد 1 حصہ اول صفحہ مکتبۃ المدینہ کراچی)*
شارحِ شفا شریف حضرت علامہ امام شہاب الدین خَفَاجی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"من يكن يطعن في معاوية فذالك كلب من كلاب الهاوية"*
یعنی جو حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے (یعنی اعتراض کرے، برا بھلا کہے) تو وہ جہنم کے کتوں میں سے ایک کتا ہے۔
*(نسیم الریاض شرح شفا شریف، جلد 4، صفحہ525، دارالکتب العلمیہ بیروت)*
حضرت ابراہیم بن میسرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
*"ما رایت عمر بن عبدالعزیز ضرب انسانا قط، الا انسانا شتم معاویۃ، فانہ ضربہ اسواطا"*
یعنی میں نے حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کو کبھی کسی شخص کو مارتے ہوئے نہیں دیکھا، انہوں نے صرف اس شخص کو کوڑے مارے جس نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا بھلا کہا۔
*(تاریخ مدینۃ دمشق، جلد 59، صفحہ 211، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان، البدایۃ و النھایۃ، جلد 8 صفحہ 148)*


سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"بالجملہ ہم اہلِ حق كے نزدیک حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے جو نسبت ہے وہی نسبت ہے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنه کو حضور پرنور امیر المومنین مولی المسلمین سیدنا و مولانا علی المرتضی كرم الله تعالى وجهه الکریم سے ہے کہ ان میں فَرْقِ مراتِب بے شمار اور حق بَدَسْتِ حیدرِ کرّار، مگر مُعاوِیہ بھی ہمارے سردار، طَعْن ان پر بھی کارِ فجار.
*(فتاوی رضویہ جلد 10 صفحہ 201 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
4- یزید پلید کے بارے میں اہلسنت کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ یہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا تھا، البتہ یزید پلید کو کافر اور لعنتی کہنے کے متعلق علمائے اہلِ سنت کے تین اقوال ہیں :
1- امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اور ان کے متبعین اسے کافر اور لعنتی کہتے ہیں۔
2- امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اسے مسلمان کہتے ہیں۔
3- امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ اسے کافر اور لعنتی کہتے سے سکوت (خاموشی) اختیار فرماتے ہیں۔
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : 
’’یزید پلید علیہ ما یستحقہ من العزیز المجید قطعا یقینا باجماع اہلسنت فاسق و فاجر و جری علی الکبائر تھا اس قدر پر ائمہ اہل سنت کا اطباق واتفاق ہے، صرف اس کی تکفیر و لعن میں  اختلاف فرمایا۔
امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے اتباع و موافقین اسے کافر کہتے اور بہ تخصیص نام اس پر لعن کرتے ہیں اور اس آیۂ کریمہ سے اس پر سند لاتے ہیں :
*{فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ (22) اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰۤى اَبْصَارَهُمْ(23)}* 
کیا قریب ہے کہ اگر والی مُلک ہو تو زمین میں فساد کرو اور اپنے نسبی رشتہ کاٹ دو، یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت فرمائی تو انہیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔
شک نہیں کہ یزید نے والی مُلک ہو کر زمین میں فساد پھیلایا، حرمین طیبین و خود کعبہ معظمہ و روضہ طیبہ کی سخت بے حرمتیاں کیں، مسجد کریم میں گھوڑے باندھے، ان کی لید اور پیشاب منبر اطہر پر پڑے، تین دن مسجد نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بے اذان و نماز رہی، مکہ و مدینہ وبحجاز میں  ہزاروں صحابہ و تابعین بے گناہ شہید کئے، کعبہ معظمہ پر پتھر پھینکے، غلاف شریف پھاڑا اور جلا دیا، مدینہ طیبہ کی پاکدامن پارسائیں تین شبانہ روز اپنے خبیث لشکر پر حلال کردیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے جگر پارے کو تین دن بے آب و دانہ رکھ کر مع ہمرائیوں کے تیغ ظلم سے پیاسا ذبح کیا، مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے گود کے پالے ہوئے تن نازنین پر بعد شہادت گھوڑے دوڑائے گئے کہ تمام استخوان مبارک چور ہوگئے، سر انور کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا بوسہ گاہ تھا کاٹ کر نیزہ پر چڑھایا اور منزلوں پھرایا، حرم محترم مخدرات مشکوئے رسالت قید کئے گئے اور بے حرمتی کے ساتھ اس خبیث کے دربار میں لائے گئے، اس سے بڑھ کر قطع رحم اور زمین میں فساد کیا ہوگا، ملعون ہے وہ جو ان ملعون حرکات کو فسق و فجور نہ جانے، قرآن عظیم میں صراحۃ اس پر *{لَعَنَهُمُ اللّٰهُ}* (ان پر اللہ کی لعنت ہے۔ت) فرمایا، لہذا امام احمد اور ان کے موافقین ان پر لعنت فرماتے ہیں اور ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے لعن وتکفیر سے احتیاطا سکوت فرمایا کہ اس سے فسق و فجور متواتر ہیں، کفر متواتر نہیں اور بحال احتمال نسبت ِکبیرہ بھی جائز نہیں نہ کہ تکفیر، اور امثال وعیدات مشروط بعدم ِتوبہ ہیں لقولہ تعالی *{فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّاۙ۰۰۵۹ اِلَّا مَنْ تَابَ}* (تو عنقریب دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے مگر جو تائب ہوئے۔ت) اور توبہ تادم ِ غرغرہ مقبول ہے اور اس کے عدم پر جزم نہیں اور یہی احوط و اسلم ہے، مگر اس کے فسق و فجور سے انکار کرنا اور امام مظلوم پر الزام رکھنا ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنت کے خلاف ہے اور ضلالت و بدمذہبی صاف ہے، بلکہ انصافاً یہ اس قلب سے متصور نہیں جس میں  محبتِ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کا شمّہ ہو، *{وَسَيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْۤا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَؒ}* (اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔ت)، شک نہیں  کہ اس کا قائل ناصبی مردود اور اہل سنت کا عدو و عنود ہے‘‘۔
*(فتاوی رضویہ، کتاب السیر، جلد 14 صفحہ 591، 592، 593 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
احکام شریعت میں  ہے :
’’یزید پلید کے بارے میں ائمہ اہل سنت کے تین قول ہیں امام احمد وغیرہ اکابر اسے کافر جانتے ہیں  تو ہرگز بخشش نہ ہوگی اور امام غزالی وغیرہ مسلمان کہتے ہیں تو اس پر کتنا ہی عذاب ہو بالآخر بخشش ضرور ہے اور ہمارے امام سکوت فرماتے ہیں  کہ ہم نہ مسلمان کہیں نہ کافر لہذا یہاں بھی سکوت کریں گے."
*(احکام شریعت، صفحہ 165 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"یزید پلید فاسق فاجر مرتکبِ کبائر تھا، معاذﷲ اس سے اور ریحانۂ رسول اللہ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و سلم سیّدنا امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے کیا نسبت۔۔۔؟! آج کل جو بعض گمراہ کہتے ہیں کہ:
’’ہمیں ان کے معاملہ میں کیا دخل؟ 
ہمارے وہ بھی شہزادے، وہ بھی شہزادے‘‘۔
ایسا بکنے والا مردود، خارجی، ناصبی، مستحقِ جہنم ہے۔
ہاں! یزید کو کافر کہنے اور اس پر لعنت کرنے میں علمائے اہلِ سنّت کے تین قول ہیں اور ہمارے امامِ اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا مسلک سُکُوت، یعنی ہم اسے فاسق فاجر کہنے کے سوا، نہ کافر کہیں، نہ مسلمان۔"
*(بہارشریعت جلد 1 حصہ اول صفحہ 261 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
22/09/2020
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحیح والمجیب مصیب،
*ابوالحسنین محمد عارف محمود خان معطر قادری،مرکزی دارالافتاء اہلسنت محلہ نورپورہ میانوالی۔ 03480006363*