یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

" نماز جنازہ کا طریقہ احکام و مسائل"


مرتب: عبداللہ ھاشم عطاری مدنی

03313654057

" نماز جنازہ کا طریقہ احکام و مسائل"


             نمازِ جنازہ فرضِ کفایہ ہے یعنی کوئی ایک بھی ادا کر لے تو سب بَرِیُّ ا لذِّمَّہ ہو گئے ورنہ جن جن کو خبر پہنچی تھی اور نہیں   آئے وہ سب گنہگار ہوں   گے۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ، کتاب الصلوۃ، الفصل الثانی والثلا ثون فی الجنائز،۲ / ۱۵۳) اِس کے لئے جماعت شرط نہیں   ، ایک شخص بھی پڑھ لے تو فرض ادا ہو گیا۔ (عالمگیری،کتاب الصلوۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الخا    مس فی الصلاۃ علی المیت،۱ / ۱۶۲) اس کی فرضیت کا انکار کفر ہے۔ (درالمختار معہ رد المحتار،کتاب الصلوۃ ، باب صلوۃ الجنازۃ ،۳  / ۱۲۰)
میت کے تعلق سے نمازِ جنازہ کی 7 شرطیں   
            نماز جنازہ میں   میّت سے تعلق رکھنے والی یہ سات شرطیں   ہیں   :
{1} میّت کا مسلمان ہونا 
 {2} میّت کے بدن و کفن کا پاک ہونا 
{3}جنازہ کا وہاں   موجود ہونا یعنی کل یا اکثر یا نصف مع سر کے موجود ہونا، لہٰذا غائب کی نماز نہیں   ہوسکتی 
 {4}جنازہ زمین پر رکھا ہونا یا ہاتھ پر ہو مگر قریب ہو، اگر جانور وغیرہ پر لَدا ہو نماز نہ ہوگی
 {5}جنازہ مُصَلِّی (نمازی) کے آگے قبلہ کو ہونا، اگر مُصَلِّی کے پیچھے ہوگا نماز صحیح نہ ہوگی
 {6}میّت کا وہ حصہ بدن جس کا چھپانا فرض ہے چُھپا ہونا 
{7}میّت امام کے محاذی (سامنے) ہو یعنی اگر ایک میّت ہے تو اُس کا کوئی حصہ بدن امام کے مَحاذی ہو اور چند ہوں   تو کسی ایک کا حصہ بدن امام کے مَحاذی ہونا کافی ہے۔ (ردالمحتار،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: ھل یسقط فرض۔۔۔الخ،۳ / ۱۲۱-۱۲۳)
خود کشی کرنے والے کی نماز کا حکم
٭ جس نے خودکشی کی حالانکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے، مگر اُس کے جنازہ کی نماز پڑھی جائے گی اگرچہ قصداً خودکشی کی ہو، جو شخص رَجم کیا گیا (سزا کے طور پر پتھر مار مار کرہلاک کیا گیا) یا قصاص (قتل کے بدلے) میں   مارا گیا، اُسے غسل دیں   گے اور نماز پڑھیں   گے۔
(ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: ھل یسقط فرض۔۔۔الخ،۳ / ۱۲۷وعالمگیری، کتاب الصلاۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الخامس فی الصلاۃ علی المیت،۱ / ۱۶۳)
نمازِ جنازہ کون پڑھائے؟
                نمازِ جنازہ میں   امامت کا حق بادشاہِ اِسلام کو ہے، پھر قاضی، پھر امام جمعہ، پھر امام محلہ، پھر ولی کو، امام محلہ کا ولی پر تقدم بطورِ اِستحباب ہے اور یہ بھی اُس وقت کہ ولی سے افضل ہو ورنہ ولی بہترہے۔ (غنیۃ المتملی، فصل فی الجنائز،ص۵۸۴ودرالمختار معہ رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ،۳ /  ۱۳۹-۱۴۱)
نمازِ جنازہ کے اَرکان اور سنتیں   
            نماز جنازہ میں   دو رکن ہیں   :
       {1}  چار بار اللّٰہُ اَکْبَر  کہنا              
       {2}قیام
            نماز جنازہ میں   تین سنت مُوئَ   کد ہ ہیں   :
    {1}  ثنا    
    {2}دُرودشر یف          
    {3} میّت کے لیے دعا (درالمختار معہ ردالمحتار، کتاب الصلوۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ۳ / ۱۲۴)

 نمازِ جنازہ کا طریقہ  (حنفی)
            

             مقتدی اس طرح نیت کرے: ’’ میں   نیت کرتا ہوں   اِس جنازہ کی نماز کی واسطے اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے، دعا اِس میّت کے لیے، پیچھے اِس امام کے۔‘‘ (فتاویٰ تاتارخانیہ، کتاب الصلوۃ،الفصل الثانی والثلا   ثون فی الجنائز،۲ / ۱۵۳) اب امام و مقتدی پہلے کانوں   تک ہاتھ اٹھائیں   اور ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئے فوراً حسب ِمعمول ناف کے نیچے باندھ لیں   اور ثناء پڑھیں   ۔ اس میں   ’’وَتَعَالٰی جَدُّکَ ‘‘کے بعد ’’وَجَلَّ ثَنَاءُ کَ وَلَآ اِلٰـہَ غَیْرُکَ‘‘ پڑھیں   پھر بغیر ہاتھ اٹھائے ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہیں   پھر دُرودِ ابراہیم پڑھیں   پھربغیر ہاتھ اُٹھائے ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہیں   اور دعا پڑھیں   (امام تکبیریں   بلند آواز سے کہے اورمقتدی آہستہ، باقی تمام اَذکار اما م ومقتدی سب آہستہ پڑھیں   ) دُعا کے بعد پھر ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہیں   اور ہاتھ لٹکا دیں   پھر دونوں   طرف سلام پھیر دیں   ۔
 (بہارِ شریعت، حصہ ۴،۱ / ۸۳۶ماخوذاً )

 ثناء
سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ  وَجَلَّ ثَنَا ءُ کَ وَلَآ اِلٰـہَ غَیْرُک۔
پاک ہے تو ا ے اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ)! اور میں   تیری حمدکرتا ہوں   ، تیرا نام برکت والا ہے اور تیری
 عظمت بلند ہے اور تیری تعریف برتر ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں   ۔
درود ابراہیم
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰیٓ اِبْرَاھِیمْ وَعَلٰیٓ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌط اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰیٓ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰیٓ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰیٓ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌط
  ا ے اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ)! دُرود بھیج(ہمارے سردار)محمد پر اوران کی آل پرجس طرح تونے درود بھیجا (سیّدنا)ابراہیم پر اوران کی آل پر بیشک تو ہی ہے سب خوبیوں   والا عزت والا۔ ا ے اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ)! برکت نازِل کر(ہمارے سردار)محمدپر اوران کی آل پر جس طرح تونے برکت نازِل کی(سیّدنا) ابراہیم اوران کی آل پر بیشک تو ہی ہے سب خوبیوں   والا عزت والا۔
با لِغ مرد و عورت کے جنازے کی دعا
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَآئِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثٰناَ ط اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَان۔
           (مستدرک حاکم،کتاب الجنائز، ادعیۃ صلاۃ الجنازۃ،۱ / ۶۸۴،حدیث۱۳۶۶)  
الٰہی بخش دے ہمارے ہر زندہ کو اور ہمارے ہر فوت شدہ کو اور ہمارے ہر حاضر کو اور
ہمارے ہر غائب کو اور ہمارے ہر چھوٹے کو اور ہمارے ہر بڑے کو اور ہمارے ہر مرد
 کو اورہماری ہر عورت کو۔ الٰہی تو ہم میں   سے جس کو زندہ رکھے تو اس کو اسلام پر زندہ
رکھ اور ہم میں   سے جس کو موت دے تو اس کو ایمان پر موت دے۔
نا با لغ لڑ کے کے جنازے کی د عا
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْہُ لَنَآ اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَّمُشَفَّعًا۔
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                         (کنز الد قائق،کتاب الصلوۃ، باب الجنائز، ص۵۲)
الٰہی! اِس ( لڑکے ) کو ہمارے لئے آگے پہنچ کر سامان کرنے والا بنادے اور اس کو
 ہمارے لئے اَجر (کا موجب ) اور وقت پر کام آنے والا بنا دے اور اس کو ہماری
سفارش کر نے والا بنا دے اور وہ جس کی سفارش منظور ہو جائے۔
نا بالغہ لڑ کی کے جنازے کی د عا
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْھَا لَنَآ اَجْرًاوَّذُخْرًا وَّاجْعَلْھَا لَنَا شَافِعَۃً وَّمُشَفَّعَۃً۔
                                                                 (کنزالدقائق،کتاب الصلوۃ،باب الجنائز،ص۵۲وجوہرۃ نیرۃ،کتاب الصلوۃ،باب الجنائز، ص۱۳۸)
 الٰہی! اِس (لڑکی ) کو ہمارے لئے آگے پہنچ کر سامان کرنے والی بنا دے اور اس کو
ہمارے لئے اَجر (کا موجب ) اور وقت پر کام آنے والی بنا دے اور اس کو ہمارے
 لئے سفارش کرنے والی بنا دے اور وہ جس کی سفارش منظور ہو جائے۔
٭ جوپیدائشی پاگل ہو یا بالغ ہونے سے پہلے پاگل ہو گیا ہو اور اسی پاگل پن میں   موت واقِع ہوئی تو اُس کی نمازِ جنازہ میں   نابالغ کی دعا پڑھیں   گے۔ (جوہرۃ نیرۃ،کتاب الصلوۃ، باب الجنائز، ص۱۳۸و غنیۃ المتملی، فصل فی الجنائز، ص۵۸۷)
جنازہ پڑھ کر دعا کیجئے
            نماز جنازہ کے بعد صفیں   توڑ کر میت کے لیے مختصراً دعا کیجئے، حدیث پاک میں   بھی جنازہ پڑھ کر دعا کی ترغیب دلائی گئی ہے چنانچہ حضرت سیدنا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مَدینہ ،راحت قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:جب تم میت پر نماز پڑھ لو تو اس کے لیے خلوصِ دل سے دعا کرو ۔
                                         (ابوداود،کتاب الجنائز،باب الدعاء للمیت،۳ / ۲۸۲،حدیث۳۱۹۹)
             مُفَسّرِشہیر حکیم الامت حضر ت مفتی احمد یار خان  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں   : دعا بعد نمازجنازہ سنت رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھی ہے اور سنت صحابی بھی،چنانچہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے شاہِ حبشہ نجاشی کی نمازِ جنازہ پڑھی اور بعد میں   دعا مانگی۔حضرت عبداللّٰہبن سلام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ایک جنازہ پر پہنچے نماز ہوچکی تھی تو آپ نے حاضرین سے فرمایا کہ نماز تو پڑھ چکے میرے ساتھ مل کر دعا تو مانگ لو۔ جن فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلامنے اس دعا سے منع کیا اس کی صورت یہ ہے کہ سلام کے بعد یونہی کھڑے کھڑے دعا مانگی جائے جس سے آنے والے کو نماز کا دھوکا ہو یا بہت لمبی دعائیں   مانگی جائیں   جس سے بلاو جہ دفن میں   بہت دیر ہوجائے۔
                          (مرآۃ المناجیح،جنازے کے ساتھ چلنے اور اس پر نماز پڑھنے کا بیان،۲ / ۴۷۹)
جنازے کی پوری جماعت نہ ملے تو؟
٭ مسبوق ( یعنی جس کی بعض تکبیریں   فوت ہو گئیں   وہ ) اپنی باقی تکبیریں   امام کے سلام پھیرنے کے بعد کہے اور اگر یہ اَندیشہ ہو کہ دُعا وغیرہ پڑھے گا تو پوری کرنے سے قبل لوگ جنازے کو کندھے تک اُٹھالیں   گے توصرف تکبیریں   کہہ لے دُعاوغیرہ چھوڑ دے۔
(درالمختار معہ رد المحتار ،کتاب الصلوۃ، باب صلاۃ الجنازۃ،۳ / ۱۳۶)
٭ چوتھی تکبیر کے بعد جو شخص آیا وہ ( جب تک امام نے سلام نہیں   پھیرا) شامل ہوجائے اور امام کے سلام کے بعد تین بار ’’ اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہے ، (درالمختار معہ رد المحتار،کتاب الصلوۃ،باب صلاۃ الجنازۃ،۳ / ۱۳۶) پھر سلام پھیردے۔
جوتے پر کھڑے ہو کر جنازہ پڑھنا

٭ جوتا پہن کر اگر نمازِ جنازہ پڑھیں   تو جوتے اور زمین دونوں   کا پاک ہونا ضروری ہے اورجوتا اُتار کراُس پر کھڑے ہو کر پڑھیں   تو جوتے کے تَلے اور زمین کا پاک ہونا ضروری نہیں   ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت مولاناشاہ امام احمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ایک سوال کے جواب میں   اِرشاد فرما تے ہیں   :
            ’’ اگر وہ جگہ پیشاب وغیرہ سے ناپاک تھی یا جن کے جوتوں   کے تَلے ناپاک تھے اور اس حالت میں   جوتا پہنے ہوئے نماز پڑھی ان کی نماز نہ ہوئی، احتیاط یہی ہے کہ جوتا اُتار کر اُس پر پاؤں   رکھ کر نماز پڑھی جائے کہ زمین یا تلا اگر ناپاک ہو تو نماز میں   خلل نہ آئے ۔‘‘  (فتاویٰ رضویہ،۹ / ۱۸۸)
جنازے میں   کتنی صفیں   ہوں   
٭  بہتر یہ ہے کہ جنازے میں   تین صفیں   ہوں   کہ حدیث پاک میں   ہے: ’’ جس کی نماز (جنازہ) تین صفوں   نے پڑھی اس کی مغفرت ہو جائے گی۔‘‘ اگر کل سات ہی آدمی ہوں   تو ایک امام بن جائے اب پہلی صف میں   تین کھڑے ہو جائیں   دوسری میں   دو اور تیسری میں   ایک۔ (غنیۃ المتملی، فصل فی الجنائز، ص۵۸۸)٭   جنازے میں   پچھلی صف تمام صفوں   سے افضل ہے۔(درالمختارمعہ ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجنازۃ،۳ / ۱۳۱)
جنازہ سے متعلق متفرق  مسائل 
٭ امام نے پانچ تکبیریں   کہیں   تو پانچویں   تکبیر میں   مقتدی امام کی متابعت نہ کرے بلکہ چپ کھڑا رہے جب امام سلام پھیرے تو اُس کے ساتھ سلام پھیر دے۔  ٭  جو شخص جنازے کے ساتھ ہو اُسے بغیر نماز پڑھے واپس نہ ہونا چاہئے اورنماز کے بعد اولیائے میّت سے اجازت لے کر واپس ہو سکتا ہے اور دفن کے بعد اجازت کی حاجت نہیں   ۔ (عالمگیری،کتاب الصلاۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز،الفصل الخامس فی الصلاۃ علی المیت،۱ / ۱۶۵) ٭  اگر کوئی کنویں   میں   گرکر مر گیا یا اس کے اوپر مکان گر پڑا اور مردہ نکالا نہ جا سکا تو اُسی جگہ اُس کی نماز پڑھیں   ۔ (ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب:فی تعظیم اولی الامر واجب، ۳ / ۱۴۷)٭ جنازہ کے ساتھ پیدل چلنا افضل ہے اور سواری پر ہو تو آگے چلنا مکروہ اور آگے ہو تو جنازہ سے دور ہو۔(عالمگیری،کتاب الصلاۃ،الباب الحادی والعشرون فیالجنائز،الفصل الرابع فی حمل الجنازۃ،۱ / ۱۶۲وصغیری شرح منیۃ المصلی، فصل فی الجنائز، ص۲۹۲)٭  اگر لوگ بیٹھے ہوں   اور نماز کے لیے وہاں   جنازہ لایا گیا تو جب تک رکھا نہ جائے کھڑے نہ ہوں   ۔ (درالمختارمعہ رد المحتار، کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجنازۃ،۳ / ۱۶۰)٭ اگر کسی جگہ بیٹھے ہوں   اور وہاں   سے جنازہ گزرا تو کھڑا ہونا ضروری نہیں   ، ہاں   جو شخص ساتھ جانا چاہتا ہے وہ اُٹھے اور جائے۔ (عالمگیری،کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون فی الجنا   ئز،الفصل الرابع فی حمل الجنازۃ ، ۱ / ۱۶۲)٭ جب جنازہ رکھا جائے تو یوں   نہ رکھیں   کہ قبلہ کو پاؤں   ہوں   یا سر بلکہ آڑا رکھیں   کہ دا ہنی کروٹ قبلہ کو ہو۔(عالمگیری،کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الرابع فی حمل الجنازۃ،۱ / ۱۶۲)٭ جنازے پر جو چادر ڈالی جائے وہ قرآنی آیتوں   والی نہ ہو تو بہتر ہے کیونکہ بعض اوقات یہ چادر پیروں   تک چلی جاتی ہے۔ ٭ جنازے کے جلوس میں   سب اسلامی بھائی مل کر امام اہل سنت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا قصیدہ ٔدُرود ’’کعبے کے بدرُالدجٰے تم پہ کروروں   دُرود‘‘ پڑھیں   ۔ (اِس کے علاوہ بھی نعتیں   وغیرہ پڑھیں   مگر صرف اورصرف اکابر عُلَمائے اہلسنّت )ہی کا کلام پڑھاجائے)(مَدَنی وصیت نامہ، ص ۵)
            
٭ 4 فرامین مصطفیٰ: {1} جسے کسی جنازہ کی خبرملے و ہ اہل میّت کے پاس جاکر ان کی تعزیت کرے اللّٰہ تعالیٰ اس کے لئے ایک قیراط ثواب لکھے، پھر اگر جنازے کے ساتھ جائے تو اللّٰہ تعالیٰ دو قیراط اَجر لکھے، پھر اُس پر نماز پڑھے تو تین قیراط، پھر دفن میں   حاضر ہو تو چار اور ہر قیراط کوہ ِاُحُد (یعنی اُحُدپہاڑ)کے برابر ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ۹ / ۴۰۱ وعمدۃ القاری،کتاب الایمان،باب اتباع الجنائز من الایمان،۱ / ۴۰۰،تحت الحدیث۴۷)
{2}مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں   ، (ان میں   سے ایک یہ ہے کہ) جب فوت ہو جائے تو اُسکے جنازے میں   شریک ہو(مسلم،کتاب السلام،     باب من حق المسلم              للمسلم رد السلام، ص۱۱۹۲،حدیث۲۱۶۲ملخصًا)  {3}جب کوئی جنّتی شخص فوت ہو جاتا ہے، تو اللّٰہ تعالیٰ حیا فرماتا ہے کہ اُن لوگوں   کو عذاب دے جو اِس کاجنازہ لے کر چلے اور جو اِس کے پیچھے چلے اور جنہوں   نے اِس کی نمازِ جنازہ ادا کی۔ (فردوس بمأثور الخطاب، ۱ / ۲۸۲، حدیث ۱۱۰۸){4}بندۂ مؤمن کو مرنے کے بعدسب سے پہلی جزا یہ دی جائے گی کہ اس کے تمام شرکائے جنازہ کی بخشش کر دی جا ئے گی۔ (مسند البزار،۱۱ / ۸۶، حدیث۴۷۹۶)
جنازے کا ساتھ دینے کا ثواب
٭ حضرت سَیِّدُنا داؤد عَلٰی نَبِیِّنَا وَ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہِ خداوَندی میں   عرض کی: یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! جس نے محض تیری رِضا کے لئے جنازے کا ساتھ دیا، اُس کی جزا کیا ہے؟ اللّٰہتعالیٰ نے فرمایا: جس دن وہ مرے گا، فرشتے اُس کے جنازے کے ہمراہ چلیں   گے اور میں   اس کی مغفرت کروں   گا۔(شرح الصدور،        باب  مشی الملئکۃ۔۔۔الخ ،ص۹۷)
جنازہ دیکھ کر پڑھنے کا وِرد
٭ حضرت سَیِّدُنا مَالک بن اَنس رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکو بعد وفات کسی نے خواب میں   دیکھ کر پوچھا: مَا فَعَلَ اللّٰہُ بِکَ؟ یعنی:اللّٰہعَزَّوَجَلَّ  نے آپ کے ساتھ کیا سلوک فرمایا؟ کہا: ایک کلمے کی وجہ سے بخش دیاجو حضرت سَیِّدُنا عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ جنازہ دیکھ کر کہا کرتے تھے۔ (وہ کلمہ یہ ہے)        سُبْحٰنَ الْحَیِّ الَّذِیْ لَایَمُوْت(یعنی وہ ذات پاک ہے جو زندہ ہے اُسے کبھی موت نہیں   آئے گی) لہٰذا میں   بھی جنازہ دیکھ کر یہی کہا کرتا تھا، یہ کلمہ (کہنے ) کے سبب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  نے  مجھے بخش دیا۔(احیاء العلوم،کتاب ذکرالموت ومابعدہ، باب منامات المشائخ،۵ / ۲۶۶ملخصًا)
٭  جنازے میں   رضائے الٰہی، فرض کی ادائیگی، میّت اور اس کے عزیزوں   کی دِلجوئی وغیرہ اچھی اچھی نیتوں   سے شرکت کرنی چاہیے ۔
٭ جنازے کے ساتھ جاتے ہوئے اپنے انجام کے بارے میں   سوچتے رہیے کہ جس طرح آج اِسے لے چلے ہیں   ، اسی طرح ایک دن مجھے بھی لے جایا جائے گا، جس طرح اِسے منوں   مِٹی تلے دفن کیاجانے والا ہے،اسی طرح میری بھی تدفین عمل میں   لائی جائی گی۔ اِس طرح غوروفکر کرنا عبادت اور کارِ ثواب ہے ۔
٭  جنازے کو کندھا دینا کارِ ثوا ب ہے، سَیِّدُ المر سلین، جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعالَمِین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت سَیِّدُنا سعد بن مُعاذرَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کاجنازہ اٹھایاتھا۔ (طبقات کبریٰ لابن سعد،۳ / ۳۲۹ و بنایۃ،کتاب الصلوۃ،باب الجنائز، فصل فی حمل الجنازۃ،۳  / ۲۴۲ملخصًا)
جنازے کو کندھا دینے کا ثواب
٭ حدیث پاک میں   ہے:’’جو جنازہ لے کر چالیس قدم چلے اُس کے چالیس کبیرہ گناہ مٹا دیئے جائیں   گے۔ ‘‘ نیز حدیث شریف میں   ہے: ’’جو جنازے کے چاروں   پایوں   کو کندھا دے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُس کی حتمی(یعنی مستقل ) مغفرت فر ما دے گا‘‘
(جوہرۃ نیرۃ ، کتاب الصلوۃ، باب الجنائز،ص۱۳۹ودرمختارمعہ رد المحتار، کتاب الصلوۃ،باب صلاۃ الجنائز، مطلب: فی حمل المیت، ۳ / ۱۵۸وبہارِ شریعت، حصہ۴، ۱ / ۸۲۳)
جنازے کو کندھا دینے کا طریقہ
٭  سنت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے چاروں   پایوں   کو کندھا دے اور ہر بار دس دس قدم چلے۔ پوری سنت یہ ہے کہ پہلے سیدھے سِرہانے کندھا دے پھر سیدھی پائنتی (یعنی سیدھے پاؤں   کی طرف ) پھر اُلٹے سِرہا نے پھر اُلٹی پائِنتی اور دس دس قدم چلے تو کل چالیس قدم ہوئے۔ (عالمگیری،کتاب الصلوۃ،باب الحادی والعشرون فی الجنائز،  الفصل الرابع فی حمل الجنازۃ، ۱ / ۱۶۲وبہارِ شریعت، حصہ۴ ، ۱ / ۸۲۲) بعض لوگ جنازے کے جلوس میں   اِعلان کرتے رہتے ہیں   ، دو دو قدم چلو! ان کو چاہئے کہ اس طرح اعلان کیا کریں   : ’’ دس دس قدم چلو‘‘

بچے کا جنازہ اُٹھانے کا طریقہ
٭ چھوٹے بچے کا جنازہ اگر ایک شخص ہاتھ پر اُٹھا کر لے چلے تو حر َج نہیں   اور یکے بعد دِیگرے لوگ ہاتھوں   میں   لیتے رہیں   ۔ (عالمگیری،کتاب الصلوۃ،باب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الرابع فی حمل الجنازۃ،۱ / ۱۶۲)عورتوں   کو ( بچہ ہو یا بڑا کسی کے بھی) جنازے کے ساتھ جانا نا جائز و ممنوع ہے۔
 (بہارِ شریعت، حصہ۴، ۱ / ۸۲۳ و درالمختارمعہ رد المحتار، کتاب الصلوۃ، باب صلاۃ الجنائز، مطلب: فی حمل المیت، ۳ / ۱۶۲)
کیاشوہر بیوی کے جنازے کو کندھا دے سکتا ہے
٭ شوہر اپنی بیوی کے جنازے کو کندھا بھی دے سکتا ہے، قبر میں   بھی اُتار سکتا ہے اورمنہ بھی دیکھ سکتا ہے صرف غسل دینے اوربلا حائل بدن کو چھونے کی ممانعت ہے۔
 (بہارِ شریعت، حصہ ۴، ۱ / ۸۱۳)
٭ جنازے کے ساتھ بلند آواز سے کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادت یا حمد ونعت وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔ (دیکھئے: فتاویٰ رضویہ ، ۹ / ۱۳۹ تا ۱۵۸)