یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

"عَلَم کی شرعی حیثیت"




"عَلَم کی شرعی حیثیت"

*سوال نمبر 204:*
غازی عباس علمدار رضی اللہ عنہ کے نام کا تین کونوں والا عَلَم یعنی کالا جھنڈا لگانا کیسا ہے اور اس علم کی منت ماننا کیسا ہے ؟
سائل : تنویر عطاری
*جواب :*
غازی عباس علمدار رضی اللہ عنہ کے نام کا مُرَوَّجَہ، تین کونوں والا عَلَم یعنی کالا جھنڈا لگانا اور اس علم کے لگانے کی منت ماننا جائز نہیں ہے کیونکہ پہلی بات یہ کہ غازی عباس علمدار رضی اللہ عنہ کے جھنڈے کا تین کونوں والا اور کالا ہونا ثابت ہی نہیں ہے اور اگر بالفرض ان کے جھنڈے کا ایسا ہونا ثابت ہو بھی جائے تو فی زمانہ چونکہ یہ بدمذھبوں کا شِعَار (یعنی ان کی علامت اور نشانی) ہے اور وہ بدمذھب اس علم سے پہچانے جاتے ہیں لہذا اس کو گھر پر نہیں لگایا جائے گا کیونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ :
*"من تشبہ بقوم فھو منھم"*
یعنی جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے تو وہ اسی قوم میں سے ہے۔
*(سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب لبس الشہرۃ، جلد دوم صفحہ 203 آفتاب عالم پریس لاہور، مسند احمد بن حنبل، از مسند عبد ﷲ ابن عمر، جلد دوم صفحہ 50، 92 مطبوعہ دارالفکر بیروت، مجمع الزوائد بحوالہ معجم اوسط، کتاب الزہد جلد 10 صفحہ 271 مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت، منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر، فصل فی الکفر صریحاً و کنایۃً صفحہ 185 مصطفی البابی مصر وغیرہ)*

دوسری بات یہ ہے کہ گھر پر ایسا علم لگانا اپنے آپ کو تہمت کی جگہ پر پیش کرنا ہے کیونکہ جو اپنے گھروں پر ایسا عَلَم لگائیں گے تو دیکھنے والے انہیں بدمذھب سمجھیں گے اور حدیثِ مبارکہ میں تہمت کی جگہوں پر کھڑا ہونے سے منع کیا گیا ہے۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
*"من کان یؤمن باللہ و الیوم الاخر فلایقف مواقف التھم"*
یعنی جو شخص اللہ پاک اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ تہمت کی جگہ پر نہ ٹھہرے۔
*(کشف الخفا جلد اول صفحہ 37 رقم الحدیث : 88 دارالکتب العلمیہ بیروت، مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی، کتاب الصلوٰۃ، باب ادراک الفریضۃ صفحہ 249 نور محمد کارخانہ تجارت کراچی، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، باب ما یفسد الصوم و یوجب القضاء صفحہ 371 نور محمد کتب خانہ کراچی)*
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
*"اتقوا مواضع التھم"*
یعنی تم تہمت کی جگہوں سے بچو۔
*(کشف الخفاء جلد اول صفحہ 45 رقم الحدیث 88 مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)*
تیسری بات یہ ہے کہ اس میں بدمذھبوں کی رونق اور تعداد کو بڑھانا بھی ہے کیونکہ جب گھر پر علم لگائیں گے تو بدمذھب اسے دیکھ کر خوش ہوں گے کہ ہماری تعداد زیادہ ہے، اس طرح ان کی رونق و شان بڑھے گی اور دیکھنے والوں کی نظر میں ان کی تعداد زیادہ معلوم ہو گی اور حدیثِ مبارکہ میں ایسا کرنے والوں کے لئے یہ فرمایا کہ :
*"من کثر سواد قوم فھو منھم"*
یعنی جو کسی قوم کی تعداد بڑھائے وہ انہیں میں سے ہے۔
*(تاریخ بغداد، ترجمہ عبداللہ بن عتاب 5147، جلد 10 صفحہ  40 دارالکتاب العربی بیروت، المقاصد الحسنۃ، صفحہ 426، رقم الحدیث : 1170 دارالکتب العلمیۃ بیروت، الفردوس بماثور الخطاب، جلس 3 صفحہ 519 رقم الحدیث : 5621 دارالکتب العلمیہ بیروت، کنزالعمال جلد 9 صفحہ 22  رقم الحدیث : 24735 مؤسسۃ الرسالہ بیروت، کنزالعمال وغیرہ)*
اب علم کے متعلق علمائے متاخرین کے کچھ فتاوٰی بھی ملاحظہ فرمائیں :
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"علم، تعزیے، مہندی، ان کی منت، گشت، چڑھاوا، ڈھول، تاشے، مجیرے، مرثیے، ماتم، مصنوعی کربلا کو جانا، عورتوں کا تعزیے دیکھنے کو نکلنا، یہ سب باتیں حرام و گناہ و ناجائز و منع ہیں۔"
*(فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ 498 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں :
"عَلَم، تعزیہ، بیرق، مہندی جس طرح رائج ہیں، بدعت ہیں اور بدعت سے شوکتِ اسلام نہیں ہوتی۔"
*(فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 499 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"تعزیہ داری کہ ہمچو مبتدعاں می کنند بدعت ست و ہمچنیں ساختن ضرائح و صورت قبور و علم وغیرہ ایں ہم بدعت ست و ظاہر ست کہ بدعت سیئہ است"*
یعنی تعزیہ داری جیسا کہ بدمذھب کرتے ہیں، بدعتِ سیئہ ہے اور ایسے ہی تابوت، قبروں کی صورت اور عَلَم وغیرہ یہ بھی بدعت ہے اور ظاہر ہے کہ بدعتِ سیئہ ہے۔
*(خطباتِ محرم بحوالہ فتاویٰ عزیزیہ جلد اول صفحہ 75)*
خطباتِ محرم میں ہے :
"نظرِ غائر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علم اور شدے جو نیزوں اور جھنڈوں کی شکل میں ہوتے ہیں غالباََ یزیدی فوج کے اس فعل کی نقل ہے جو انہوں نے کربلا میں ظلم و جفا کے پہاڑ توڑنے کے بعد امامِ عالی مقام کا سر مبارک نیزوں پر کوفہ کی گلیوں میں بطورِ شادیانہ و مبارک بادی گھمایا تھا۔"
*(خطباتِ محرم صفحہ 394، 395 والضحیٰ پبلی کیشنز)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
01/06/2020
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحيح والمجيب نجيح 
*فقط محمد عطاء الله النعيمي غفرله خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (باكستان) كراتشي*