یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

عقل و دانائی کی حقیقت و فضیلت




*📝عقل و دانائی کی حقیقت و فضیلت* 


عقل کی ضرورت و فضیلت اور عقل کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے ایک لاجواب مضمون۔۔۔۔

*✒️مضمون نگار*
*🥀غلام نبی انجم رضا عطاری🥀*
📲_03461934584_
 
*🍁عقل کی پیدائش:*

سرکارِ مَکَّہ مُکَّرَمہ، سردارِ مدینہ مُنَوَّرَہ نے ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ نے سب سے پہلے عقل کو پیدا فرمایا۔ اس سے فرمایا: آگے آ تو وہ آگے آگئی۔فرمایا: پیچھے جا تو وہ پیچھے چلی گئی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: مجھےاپنی عزت و جلال کی قسم! میں نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو میرے نزدیک تجھ سے زیادہ عزت والی ہو، میں تیرے ہی سبب پکڑوں گا، تیرے ہی سبب عطا کروں گا، تیری ہی وجہ سےحساب لوں گا اور سزا بھی تیرے سبب ہی دوں گا۔ 
📗(شعب الایمان ، فصل فی فضل العقل، حدیث ٤٦٣٣)

اہْلِ علم ومعرفت کہتے ہیں کہ عقل ایک روشن و چمکدار جوہر ہے جسےاللہ عَزَّوَجَلَّ نے دماغ میں پیدا فرمایا اور اس کا نور دل میں رکھا اور دل اس کے ذریعے واسطوں کے سہارے معلومات اور مشاہدے کی بدولت محسوسات کا علم حاصل کرتا ہے۔

*♻️عقل کی اقسام:*

اس بات کو جان لو کہ عقل کی دو قسمیں ہیں ، ایک قسم وہ ہے جو کمی زیادتی کو قبول نہیں کرتی جبکہ دوسری قسم میں کمی اور زیادتی ہو سکتی ہے۔پہلی قسم فطری عقل کی ہے جو تمام عقل مندوں کے درمیان مشترک ہے جبکہ دوسری قسم تجربے سے حاصل ہونے والی عقل ہے جو کہ کوشش سے حاصل ہوتی ہے،  تجربات اور مشاہدات کی کثرت سے اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ عقل کی اسی دوسری قسم کے اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ بوڑھے شخص کی عقل کامل اور واقفیت زیادہ ہوتی ہے جبکہ تجربہ کار آدمی زیادہ معاملہ فہم اور معرفت والا ہوتا ہے۔

اسی لئے کہا جاتا ہے کہ حوادثِ زمانہ نے جس کے بال سفید کر دیئے ہوں ، مختلف تجربات نے اس کی جوانی کے لباس کو بوسیدہ کر دیا ہواور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کے تجربات کی کثرت کی بدولت اسے اپنی قدرت کے عجائبات دکھائے ہوں وہ عقل کی پختگی اور درست رائے کا زیادہ حق دار ہوتاہے ۔البتہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے لطف و کرم سے جسے چاہتا ہے خاص فرما کر عقل کی ایسی پختگی اور معرفت کی زیادتی عطا فرماتا ہے جو کوشش سے حاصل نہیں ہو پاتی اور اس کی بدولت بندہ تجربہ کار اور سیکھے ہوئے لوگوں سے بھی سبقت لے جاتا ہے۔

حضرت سیِّدُنا یحییٰ بن زکریا عَلَیْہِمَ االسَّلَام کا واقعہ بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے جس کی خبردیتےہوئے اللہعَزَّ  وَجَلَّنے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے:

وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ 
 (پ۱۶، مریم: ۱۲)   
                                                                                  ترجمۂ کنزالایمان:
 اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت دی۔

*🌹عقل مند کی پہچان:*

ایک دانا سے پوچھا گیا:  کسی شخص کی عقل کی پہچان کیسے ہوتی ہے؟ جواب دیا: گفتگو میں غلطی کم اور درستی زیادہ ہونے سے۔دوبارہ سوال ہوا: اگر وہ شخص موجود نہ ہو تو پھر کیسے؟ اس نےکہا: تین میں سے کسی ایک بات سے: یا تو اس کے قاصد کے ذریعے کیونکہ قاصد انسان کا قائم مقام ہوتا ہے، یا اس کےخط کے ذریعے کیونکہ خط انسان کی گفتگو کو بیان کرتا ہے یا پھر اس کے تحفے کےذریعے کیونکہ تحفہ انسان کے حوصلے کا پتا دیتا ہے۔ان تینوں میں جتنا نقص ہوگا وہ ان کے بھیجنے والے میں شمار ہوگا۔

*🌻عقل مندوں کے لئے 99 درجات:*

حضور نبی رحمت، شفیْعِ امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: 

جنت کے 100 درجات ہیں جن میں سے 99 عقل مندوں کے لئے جبکہ ایک دیگر لوگوں کے لئے ہے ۔
📗(حلیة الاولیاء، حدیث ٥٠٨٤)

*🔒نفس کی لگام عقل کے ہاتھ:*

منقول ہے کہ نفس کی لگام کو عقل کے ہاتھوں سے قابو کیا جاتا ہے۔ عقل کے علاوہ باقی ہر چیز زیادہ ہونے پر سَستی ہو جاتی ہے لیکن عقل جب زیادہ ہو تو مزید مہنگی ہوتی ہے۔

ایک قول کے مطابق ہر چیز کی ایک انتہا اور حد ہوتی ہے لیکن عقل کی کوئی انتہا اور حد نہیں ہے۔البتہ اس بارے میں لوگوں کی کیفیت مختلف ہے جیسا کہ باغ میں موجود پھول مختلف ہوتے ہیں ۔

*🌼عقل کی حقیقت:*

عقل کی ماہیت کے بارے میں حکما کا اختلاف ہے۔بعض لوگوں کا کہنا ہےکہ آنکھوں کی روشنی کی طرح عقل ایک نور ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ طبعی اور فطری طور پر انسان کےدل میں رکھتا ہے۔ عقل میں کمی زیادتی بھی ہوتی ہے، یہ زائل بھی ہوتی ہے اور واپس بھی آسکتی ہے۔جس طرح آنکھوں کےذریعے مختلف چیزوں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اسی طرح دل کےنور (یعنی عقل) کے ذریعے پوشیدہ چیزوں کا ادراک کیا جاتا ہے۔دل کا اندھا ہونا آنکھوں کے اندھا ہونے کی طرح ہے جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے:

فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ 
   (پ۱۷، الحج: ۴۶)

 ترجمۂ کنز الایمان: تو یہ کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو  سینوں میں ہیں ۔

حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا قول ہے کہ عقل کا مقام دماغ ہے۔ایک جماعت نے اس مَوقِف کو اختیار کیا کہ عقل کا ٹھکانا دل ہے اور حضرت سیِّدُنا امام محمد بن ادریس شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی سے بھی یہی منقول ہے۔ان حضرات نے اس آیتِ قرآنی سے استدلال کیا ہے:

فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَاۤ 
 (پ۱۷، الحج: ۴۶)

ترجمۂ کنز الایمان: کہ ان کے دل ہوں جن سے سمجھیں ۔

یہ آیتِ مقدسہ بھی ان کی دلیل ہے:
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ  
(پ۲۶، قٓ: ۳۷)  

ترجمۂ کنز الایمان: بے شک اس میں نصیحت ہے اس کے لئے جو دل رکھتا ہو۔

ان حضرات کا مَوقِف ہے کہ اس آیت میں دل سے مراد عقل ہے۔

*🌴عاقل اور جاہل کی پہچان:*

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے عرض کی گئی: ہمارے سامنے عاقل کی صفات بیان فرما دیجیے۔
فرمایا: عاقل وہ ہے جو ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھے۔پھر عرض کی گئی: جاہل کی پہچان بھی بتا دیجیے
۔فرمایا: وہ تو میں بتا چکا ہوں ، یعنی جو ہر چیز کو اس کے مقام ومرتبے پر نہ رکھے وہ جاہل ہے۔

منصور نےاپنے بیٹے سے کہا: مجھ سے دو باتیں حاصل کر لو: غور و فکر کے بغیر کوئی بات نہ کرنا اور تدبیر اختیار کئے بغیر کوئی کام مت کرنا۔

*🌷عقل میں اضافے کا نسخہ:*

حضرت سیِّدُنا ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضور پرنور، شافِعِ یومُ النُّشُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے عُوَیْمَر! اپنی عقل میں اضافہ کرو تمہارے قربِ الٰہی میں بھی اضافہ ہوگا۔میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں!میں اپنی عقل میں کیسے اضافہ کرسکتا ہوں ؟ارشاد فرمایا:
 اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حرام کردہ باتوں سے اجتناب کرو اور اس کے فرائض کو ادا کرو تم عقل مند بن جاؤ گے، پھر اعمالِ صالحہ کو اپنا معمول بنالو دنیا میں تمہاری عقل میں زیادتی ہوگی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سے تمہارے قرب میں اور عزت میں اضافہ ہوگا۔ 
📗(بغیة الباحث عن زوائد مسند الحارث ، حدیث ٨٢٩)

بعض اہْلِ معرفت سے منقول ہے کہ نفس کی زندگی روح سے، روح کی زندگی ذکر سے، دل کی زندگی عقل سے جبکہ عقل کی زندگی علم سے ہے۔

*🥀عقل مند اور جاہل:*

ايك دانا كا قول ہے کہ عقل مند اپنی عقل کی وجہ سے ہدایت پر رہتا ہے اور اسے اپنی رائے کی وجہ سے مدد حاصل ہوتی ہے۔چنانچہ اس کا قول درست اور فعل قابلِ تعریف ہوتا ہے جبکہ جاہل اپنی جہالت کی وجہ سے دھوکے میں ہوتا ہے اس لئے اس کی بات کمزور اور فعل قابلِ مذمت ہوتا ہے۔کسی شخص کی عقل مندی کے حوالے سے اس کے اچھے لباس اور چہرے کی خوبصورتی وغیرہ ظاہری حلیے سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے  کیونکہ بسا اوقات بیْتُ الخلا کا ظاہری رنگ سفید ہوتا ہے نیز چمڑے پر چاندی کی پالش کی گئی ہوتی ہے۔

حکایت: 
*📖مسلمان آپس کی دشمنی بھول جاتے ہیں*۔۔۔

مسلمانوں کے ایک خلیفہ کے انتقال کے بعد مسلمانوں سے جنگ کے بارے میں رومیوں میں اختلاف ہوگیا اور ان کے بادشاہوں نے جمع ہو کر کہا: مسلمان اب آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے میں مشغول ہو جائیں گے اور ہم ان کی بے خبری کے عالَم میں ان پر حملہ کردیں گے۔اس مقصد کے لئے انہوں نے آپس میں خوب مشورے کئے، بحث و تکرار ہوئی اور سب اس بات پر متفق ہوگئے کہ یہ ایک بہترین موقع ہے۔ان میں ایک شخص عقل و معرفت او رعمدہ رائے کے حوالے سے مشہور تھا لیکن مشورے کے وقت موجود نہ تھا۔انہوں نےکہا: بہتر ہے کہ اس سے بھی مشورہ کر لیا جائے۔ جب انہوں نے اس شخص کو اپنے متفقہ فیصلے کی خبر دی تو اس نےکہا کہ میرے خیال سے یہ فیصلہ درست نہیں ہے۔جب اس سے وجہ پوچھی گئی تو اس نےکہا: اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ میں کل تمہیں اس کی وجہ بتاؤں گا۔اگلی صبح سب لوگ اس کے پاس گئے اور کہا کہ تم نے آج کے دن ہمیں جواب دینے کا وعدہ کیا تھا۔اس نے کہا: ضرور، پھر وہ دو کتوں کو لایا جنہیں لڑنے کےلئے تیار کیا گیا تھا اور انہیں آپس میں لڑنے کے لئے برانگیختہ کیا تو وہ دونوں ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے اور لڑنے لگے یہاں تک کہ دونوں لہو لہان ہوگئے۔جب دونوں کتوں کی لڑائی انتہا کو پہنچ گئی تو اس شخص نے گھر کا ایک دروازہ کھولا اور ان دونوں کتوں پر حملہ کرنے کے لئے ایک بھیڑیے کو چھوڑ دیا جسے اس مقصد کےلئے پہلے سے تیار کیا گیا تھا۔ جب دونوں کتوں نےاس بھیڑیے کو دیکھا تو آپس کی لڑائی کو ترک کردیا اور متحد ہو کر دونوں اس بھیڑیے پر جھپٹ پڑے یہاں تک کہ اسے مار دیا۔اس کے بعد اس شخص نے حاضرین کی طرف متوجہ ہو کر کہا: تمہاری اور مسلمانوں کی مثال اس بھیڑیے اور کتوں کی سی ہے۔مسلمانوں میں آپس میں قتل و غارتگری کا سلسلہ رہتا ہے جب تک کہ کوئی بیرونی دشمن ان کے مقابل نہ آجائے، جب باہر سے کوئی دشمن ان پر حملہ آور ہو تو پھر یہ آپس کی دشمنی کو ترک کرکے بیرونی دشمن کے مقابلے میں متحد ہوجاتے ہیں ۔تمام حاضرین نے اس رائے کو پسند کیا اور اس کے مشورے پر متفق ہوگئے۔

*اللہ تعالیٰ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ھمیں کثیر عقل و دانائی عطا فرمائے آمین۔۔۔۔*