یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

" عیادت کی فضائل و آداب"



عیادت کی فضیلت و آداب"

 تحریر: عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057

اسلام میں مریض کی عیادت کو بڑی اہمیت اورفضیلت حاصل ہے، بیمار پرسی کرنا، مریض کو تسلی دینا اورہمدردی ظاہر کرنا اونچے درجے کا نیک عمل اور مقبول ترین عبادت ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ سوسائٹی میں جذبۂ الفت اس وقت پیدا ہوتا ہے جب حاجت مندوں کی معاونت کی جائے اور جو کام شہری زندگی کو سنوارتے ہیں وہ اللہ تعالی کو پسند ہیں اور عیادت رشتہ الفت پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے؛ اس لیے اس میں بڑا اجر و ثواب رکھا گیا ہے۔

چنانچہ ایک حدیث میں ہے:
فرامِین مصطَفٰے:
{1}  عُوْدُواالْمَرِیضَیعنی مریض کی عیادت کرو۔(الادب المفرد، باب عیادۃ المرضی، ص۱۳۷،حدیث۵۱۸)
{2}جو شخص کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتا ہے تواللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُس پر پَچَھتَّر ہزار (75000)  فرشتوں   کا سایہ کرتا ہے اور اُس کے ہر قدم اُٹھانے پر اُس کے لئے ایک نیکی لکھتا ہے اور ہر قدم رکھنے پر اُس کا ایک گناہ مٹاتا ہے اورایک دَرَجہ بلند فرماتا ہے یہاں   تک کہ وہ اپنی جگہ پربیٹھ جائے، جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت اُسے ڈھانپ لیتی ہے اور اپنے گھر واپس آنے تک رحمت اُسے ڈھانپے رہے گی(معجم اوسط،باب العین،۳ / ۲۲۲،حدیث ۴۳۹۶)
{3} جو شخص کسی مریض کی عیادت کو جاتا ہے توآسمان سے ایک مُنادی ندا کرتاہے: تجھے بشارت (یعنی خوشخبری) ہو تیرا چلنا اچھا ہے اورتونے جنت کی ایک منزل کواپنا ٹھکانہ بنا لیا(ابن ماجہ،کتاب الجنائز، باب ماجاء فی ثواب من عاد مریضاً،۲ / ۱۹۲،حدیث۱۴۴۳)
{4} جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لیے صبح کو جائے تو شام تک اُس کے لیے ستّر ہزار فرشتے اِستغفار (یعنی بخشِش کی دعا) کرتے ہیں   اور شام کو جائے تو صبح تک ستّر ہزار فرشتے اِستغفار کرتے ہیں   اور اُس کے لیے جنت میں   ایک باغ ہوگا (ترمذی،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی عیادۃ المریض، ۲ / ۲۹۰، حدیث۹۷۱)

 {5}جس نے اچھے طریقے سے وضو کیا پھر اپنے مسلمان بھائی کی ثواب کی نیت سے عیادت کی تواسے جہنم سے70سال کے فاصلے تک دور کردیا جائے گا  (ابوداود،کتاب الجنائز،باب فی فضل العیادۃ (علی الوضوئ)،۳ / ۲۴۸،حدیث۳۰۹۷)
 {6}جب تو مریض کے پاس جائے تو اس سے کہہ کہ تیرے لیے دُعاکرے کہ اس کی دُعافرشتوں   کی دُعا کی مانند ہے        ( ابن ماجہ،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی عیادۃ المریض، ۲ / ۱۹۱، حدیث۱۴۴۱)
{7}مریض جب تک تندرُست نہ ہوجائے اس کی کوئی دُعا رَد نہیں   ہوتی (الترغیب والتر ھیب،کتاب الجنائز ومایتقد مہا، الترغیب فی عیادۃ المرضی و تاکید ھا والترغیب فی دعاء المریض، ۴ / ۱۶۵،حدیث۵۳۴۴)
{8}جب کوئی مسلمان کسی  مسلمان کی عیادت کو جائے تو 7 بار یہ دُعا پڑھے: اَسْأَلُ اللّٰہَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ اَنْ یَّشْفِیْکَ(میں   عظمت والے، عرشِ عظیم کے مالک اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے تیرے لیے شفا کا سوال کرتا ہوں   )اگر موت نہیں   آئی ہے تو اُسے شفا ہو جائے گی (ابوداود،کتاب الجنائز، باب الدعاء للمریض عند العیادۃ،۳ / ۲۵۱،حدیث۳۱۰۶)٭ 
﴿9﴾ نبی رحمت، شفیع اُمت     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی  عادت کریمہ یہ تھی کہ جب کسی مریض کی عیادت کو تشریف لے جاتے تو یہ فرماتے: لَا بَأْسَ طُہُوْرٌ اِنْ شَآءَاللہ تَعَالٰی(کوئی حرج کی بات نہیں   اللّٰہ تعالیٰ نے  چاہا تو یہ مرض (گناہوں   سے) پاک کرنے والا ہے) (بخاري، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام ،۲ / ۵۰۵،حدیث ۳۶۱۶)
﴿10﴾رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی قیامت کے دن (بیمار پرسی میں کوتاہی کرنے والوں سے) فرمائے گا کہ: اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار پڑا تھا، مگر تونے مجھے نہ پوچھا! بندہ عرض کرے گا اے میرے رب میں آپ کو کیسے پوچھتا؟ آپ تو جہانوں کے پالنہار ہیں؛ یعنی بیماری سے پاک ہیں ،اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تو نہیں جانتا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار پڑا ؛لیکن تونے اسے نہ پوچھا، کیا تو نہیں جانتا تھا کہ اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تو تومجھے اس کے پاس پاتا۔ مسلم،باب فض عیادۃ المر یض،حدیث نمبر:۴۶۶۱۔
﴿11﴾حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مومن بندہ جب اپنے صاحب ایمان بندے کی عیادت کرتا ہے تو واپس آنے تک وہ گویا جنت کے باغ میں ہوتا ہے ۔ مسلم، باب فضل عیادۃ المریض، حدیث نمبر:۴۶۵۸۔
ترمذی میں اس طرح ہے:
﴿12﴾حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس بندے نے کسی مریض کی عیادت کی تو اللہ کا منادی آسمان سے پکارتا ہے کہ :تو مبارک اورعبادت کے لیے تیرا چلنا مبارک اور تونے یہ عمل کرکے جنت میں اپنا گھر بنالیا۔ ترمذی، باب ماجاء فی زیارۃ الاخوان، حدیث نمبر:۱۹۳۱

بہرحال ہر مسلمان کا حق ہے کہ وہ اپنے بیمار بھائی کی عیادت کرے اوراسے لازم سمجھے   بخاری، باب الامر باتباع الجنائز، حدیث نمبر:۱۱۶۴۔

عیادت کے آداب

(۱)مریض کے پاس مناسب وقت میں جائیں اورمریض کے گھر میں نظروں کی حفاظت کریں۔

 (۲) زیادہ دیر نہ بیٹھیں، جس سے اسے گرانی ہو ؛اگر کوئی  مریض کسی سے بے تکلفی رکھتا ہے اور وہ اس کا خاص دوست و ہمدرد ہے تو وہ زیادہ دیر بیٹھ کر اسے تسلی پہنچانا چاہے تو پہنچا سکتا ہے  (۳)اس سے تسلی اور ہمدردی کی باتیں کریں۔

  (۴)اگراسے تکلیف نہ ہوتواس کے پیشانی پر ہاتھ پھیریں
 (۵)پہلے اس کا حال دریافت کریں جب وہ اپنے تکلیف بیان کردے تو اس کے سامنے "لَابَأسَ  طُھُوْر إِنْ شَاءَ اللہ" کہیں،یعنی اس تکلیف سے آپ کا کوئی نقصان نہ ہوگا اورآپ کے لیے تکلیف انشاء اللہ آپ سے گناہوں سے پاک ہونے کا ذریعہ بنے گی
 (۶)اس پر دعائے صحت پڑھ کر دم کرے
 (۷)اس کے پاس ایسی کھانے کی چیز لے جائے جس کو وہ پسند کرتا ہو
 (۸)مریض سے دعا کی درخواست کرے اس لیے کہ اس کی دعافرشتوں کی دعا کی طرح ہے ,

(۹)مریض کی عیادت کرنا سنت ہے ا گر معلوم ہے کہ عیادت کے لیے جانے سے اُس بیمار پر گراں   (یعنی ناگوار) گزرے گا، ایسی حالت میں   عیادت کے لیے مت جایئے (بہار شریعت، حصہ ۱۶،۳ / ۵۰۵)

 بیماری  سے مسلمان کے گناہ معاف ہوتے ہیں:

            حضرت سیدتنا اُمِّ علاء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاجوکہ حضرت سیدنا حکیم بن حزام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی پھوپھی اور دو جہاں   کے تاجور، سلطانِ بحرو بَرصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بیعت کرنے والی عورتوں   میں   سے ہیں   ، فرماتی ہیں   کہ جب میں   بیمار ہوئی تو مکی   مَدَنی   سلطان، رحمت عالمیان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے میری عیادت فرمائی اور مجھ سے فرمایاکہ اے اُمِّ علائ! خوشخبری سن لو کہ مسلمان کی بیماری اُس سے گناہوں   کو اِس طرح دور کردیتی ہے جیسے آگ لوہے اور چاندی کے میل کو دور کردیتی ہے   (ابوداود،کتاب الجنائز، باب عیادۃ النساء ، ۳ / ۲۴۶،حدیث۳۰۹۲)

حدیث میں آیا ہے:
حضرت ابو سعید خدریؓ رسول اللہﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مؤمن کو جو بھی دکھ، بیماری، پریشانی، رنج وغم یااذیت پہنچتی ہے ؛یہاں تک کہ کانٹا بھی اگر اس کو چبھتا ہے تو اللہ تعالی ان چیزوں کے ذریعہ اس کے گناہوں کی صفائی کردیتا ہے۔
(بخاری، باب جاء فی کفارۃ المرض، حدیث نمبر:۵۲۱۰)

اس کے علاوہ بہت ساری احادیث ہیں جن سے اللہ کے رسول کا مقصد اورپیغام ہی ہے کہ بیماریوں اور دوسری تکلیفوں اورپریشانیوں کو (جو اس دنیوی زندگی کا گویا لازمہ ہیں) صرف مصیبت اور اللہ تعالی کے غضب اورقہر کا ظہور ہی نہ سمجھنا چاہیے، اللہ سے صحیح تعلق رکھنے والے بندوں کے لیے ان میں بھی بڑا خیر اوررحمت کا بڑا سامان ہے،ان کے ذریعہ گناہوں کی صفائی اور تطہیر ہوتی ہے، اللہ تعالی کی خاص عنایات اور بلند درجات کا استحقاق حاصل ہوتا ہے، اعمال کی کمی کی کسرپوری ہوتی ہے اور ان کے ذریعہ سعادت مندوں کی تربیت ہوتی ہے۔

بخار کو برا نہ کہو!
            حضرت سیدنا جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے حضورِ اَقدس    صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت سیدتنا اُمُّ السائب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس تشریف لے گئے، فرمایا: تمہیں   کیا ہوا ہے جو کانپ رہی ہو؟ عرض کی: بخار ہے، خدا اس میں   برکت نہ کرے، فرمایا: بخار کو برا نہ کہو کہ وہ آدمی کی خطاؤں   کو اس طرح دور کرتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے مَیل کو۔
            (مسلم،کتاب البر۔۔۔الخ،باب ثواب المؤمن۔۔۔الخ،ص۱۳۹۲،حدیث۲۵۷۵)