یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

تدفین کے بعد قبر کے پاس کتنی دیر ٹھہرنا چاہیےاور قبر پر تلقین کا طریقہ؟




تدفین کے بعد قبر کے پاس کتنی دیر ٹھہرنا چاہیےاور قبر پر تلقین کا طریقہ؟

محرر: عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057

فقہاء نے فرمایا: مستحب یہ ہے کہ تدفین سے فارغ ہوکر قبر کے پاس ( کم از کم) اتنی دیر ٹھہرا جائے کہ ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاسکے اور اس دوران میت کے لیے منکر نکیر کے سوالات کے جواب میں ثبات قدمی اور مغفرت کی دعا کرنی چاہیے اور قرآن پاک پڑھنا چاہیے، جیسے: میت کے سرہانے سور بقرہ کی ابتدائی آیتیں اور پائینتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیتیں پڑھنی چاہیے۔ اور اس کا ثبوت درج ذیل احادیث سے ہے:
(۱): حضرت عثمان روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میت کی تدفین کے بعد کچھ دیر ٹھہرتے اور فرماتے: اپنے بھائی کے لیے دعائے مغفرت کرو اور اللہ تعالی سے اس کے لیے (منکر نکیر کے سوالات کے جواب میں )ثبات قدمی کا سوال کرو؛ کیوں کہ اب اس سے سوال کیا جائے گا (سنن ابو داود بہ حوالہ مشکوة شریف، ص ۲۶، )۔
(۲) :حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو اسے روک کر مت رکھو اور جلد از جلد اسے اس کی قبر تک پہنچاوٴ اور (دفن کے بعد) اس کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیتیں (شروع سے ھم المفلحونتک) اور پائینتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیتیں (آمن الرسول سے آخر تک) پڑھی جائیں اور بیہقی نے فرمایا: صحیح یہ ہے کہ یہ روایت موقوف ہے۔ ( شعب الایمان ، بہ حوالہ: مشکوة شریف، ص ۱۴۹)۔
(۳): حضرت عمرو بن العاص نے سکرات کی حالت میں اپنے بیٹے سے فرمایا: جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی نہ جائے اور نہ آگ، اور جب تم لوگ مجھے دفن کرچکو تو مجھ پر تھوڑی تھوڑی مٹی ڈالنا ، اس کے بعد میری قبر کے ارد گرد اتنی دیر ٹھہرو کہ ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاسکے تاکہ تمہاری وجہ سے مجھے انس رہے اور میں جان سکوں کہ میں اپنے پروردگار کے فرشتوں کو کیا جواب دے رہا ہوں؟ (مسلم شریف، بہ حوالہ مشکوة شریف، ص ۱۴۹)۔
عن عثمان قال: کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال: ”استغفروا لأخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل“، رواہ أبو داود (مشکاة المصابیح، کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر، الفصل الثاني، ص ۲۶)،


 وعن عبد اللہ بن عمر قال: سمعت النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ”إذا مات أحدکم فلا تحبسوہ وأسرعوا بہ إلی قبرہ ولیقرأ عند رأسہ فاتحة البقرة وعند رجلیہ بخاتمة البقرة“، رواہ البیھقي فیٴ شعب الإیمان وقال: والصحیح أنہ موقوف (المصدر السابق، کتاب الجنائز، باب دفن المیت، الفصل الثالث، ص ۱۴۹، وانظر مرقاة المفاتیح أیضاً)
 وعن عمرو بن العاص قال لابنہ وھو في سیاق الموت: إذا أنا مت فلا تصحبني نائحة ولا نار فإذا دفنتموني فشنوا علی التراب شناً ثم أقیموا حول قبري قدر ما ینحر جزور ویقسم لحمھا حتی أستأنس بکم وأعلم ماذا أراجع بہ رسل ربي؟ رواہ مسلم (المصدر السابق)
، ویستحب ……بعد دفنہ لدعاء وقراء ة بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ۳: ۱۴۳)

بعد ِتدفین تلقین میت:



 ٭ حد یث پاک میں   ہے: جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی مرے اوراس کو مٹی دے چکو تو تم میں   ایک شخص قبر کے سرہانے کھڑا ہوکر کہے: یا فلاں   بن فلانہ!  وہ سُنے گا اور جواب نہ دے گا۔ پھر کہے: یا فلاں   بن فلانہ! وہ سیدھا ہوکر بیٹھ جائے گا۔ پھر کہے: یا فلاں   بن فلانہ ! وہ کہے گا: ہمیں   ارشاد کر، اللّٰہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے مگر تمہیں   اس کے کہنے کی خبر نہیں   ہوتی۔ پھر کہے:

 اُذْکُرْمَاخَرَجْتَ عَلَیْہِ مِنَ الدُّنْیَا شَھَادَۃَ اَنْ لَّآاِلٰـہَ اِلَّااللّٰہُوَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمْ)وَاَنَّکَ رَضِیْتَ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَّبِمُحَمَّدٍ(صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)  نَبِیًّا وَّ بِالْقُرْاٰنِ اِمَامًا ۔

ترجمہ: تو اُسے یاد کر، جس پر تو دنیا سے نکلا یعنی یہ گواہی کہ اللّٰہ  کے سوا کوئی معبود نہیں   

اور محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماس کے بندہ اور رسول ہیں   اور یہ کہ تو  اللّٰہ

کے رب اور اسلام کے دین اور محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے نبی اور

قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔

                منکر نکیر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہیں   گے چلو ہم اس کے پاس کیابیٹھیں   جسے لوگ اس کی حجت سکھا چکے۔ اس پر کسی نے عرض کی: یَارَسُوْلَ اللّٰہ(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)! اگر اس کی ماں   کا نام معلوم نہ ہو؟ فرمایا: توحوا کی طرف نسبت کرے۔ (معجم کبیرللطبرانی، ۸ / ۲۵۰، حدیث۷۹۷۹)

            یادرہے! یافُلاں   بن فُلانہ کی جگہ میت اور اِس کی ماں   کانام لے، مثلاً یامحمد الیاس بن اَمِینہ اور (اگرمیت اسلامی بہن کی ہو تو مثلاً ) یا فاطمہ بنت حَلیمہ وغیرہ نیز تلقین صرف عربی میں   کی جائے۔ 

            بعض اَجلہ اَئمہ تابعین فرماتے ہیں   : جب قبرپر مٹی برابر کر چکیں   اور لوگ واپس جائیں   تو مستحب سمجھا جاتا تھا کہ میّت سے اس کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر کہا جائے: 

یا فُلان! قُلْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ (تین بار)

ترجمہ:اے فلاں   !  تو کہہ کہ اللّٰہ کے سوا کوئی معبود نہیں   ۔

(نوٹ: یہاں   یا فلان! کی جگہ میت کا نام لیں   مثلاً یاالیاس! اور یافاطمہ ! وغیرہ)

                پھر کہا جائے:  قُلْ رَّبِّیَ اللّٰہُ وَدِیْنِیَ الْاِسْلَامُ وَنَبِیِّ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم۔(شرح الصدور، باب: مایقال عند الد فن والتلقین،ص۱۰۶)

                ترجمہ:تو کہہ! میرا رب اللّٰہہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہیں   ۔

                اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس پر اتنا اور اضافہ کیا:

وَاعْلَمْ اَنَّ ھٰذَیْنِ الَّذِیْنَ اَتَیَاکَ اَوْیَاْتِیَانِکَ اِنَّمَا ھُوَعَبْدَانِ

 لِلّٰہِ لَایَضُرَّانِ وَلَایَنْفَعَانِ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ فَلا تَخَفْ  وَلَاتَحْزَنْ وَاشْھَدْ اَنَّ رَبَّکَ اللّٰہُ وَدِیْنَکَ الْاِسْلَامُ وَنَبِیَّکَ مُحَمَّدٌ

صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ثَبَّتَنَا اللّٰہُ وَاِیَّاکَ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِفِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّہٗ ھُوَالْغَفُوْرُالرَّحِیْمُ۔

ترجمہ: اور جان لے کہ یہ دو شخص جو تیرے پاس آئے یا آئیں   گے یہ اللّٰہ کے بندے ہیں   

بغیر خدا کے حکم کے نہ ضرر پہنچائیں   ، نہ نفع پس نہ خوف کر اور نہ غم کر اور تو گواہی دے کہ تیرا

رب اللّٰہ ہے اور تیرا دین اسلام ہے اور تیرے نبی محمدصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

ہیں   اللّٰہ  ہم کو اور تجھ کو قولِ ثابت پر ثابت رکھے، دنیا کی زندگی میں   اور آخرت میں   

بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (بہارِ شریعت،حصہ ۴،۱ / ۸۵۱وفتاویٰ رضویہ، ۹ / ۲۲۳)

 

 عورت کی قبر پر کھڑے ہوکر یوں تلقین کی جائے :

   یَا فُلَانَۃَبِنْتَ فُلَانَۃَ !(تین بار کہے) اُذْکُرِیْ مَا خَرَجْتِ مِنَ الدُّنْیَا شَھَادَۃَ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُـہٗ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَنَّکِ رَضِیْتِ بِاللہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَاِم دِیْنًا وَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَبِیًّا وَّ بِالْقُرْاٰنِ اِمَامًا .

ترجمہ: تو اُسے یاد کر، جس پر تُو دنیا سے نکلی یعنی یہ گواہی کہ اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اس کے بندہ اور رسول ہیں اور یہ کہ تُو اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کے رب اور اسلام کے دین اور محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نبی اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھی۔

  پھر کہا جائے:يَا فُلَانَۃُ قُوْلِیْ "لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ" .

اے فلانی ! تو کہہ کہ اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کے سوا کوئی معبود نہیں۔

    وَقُوْلِیْ رَّبِّیَ اللہُ وَدِیْنِیَ الْاِسْلَامُ وَنَبِیِّ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .

تو کہہ میرا رب اللہ (عَزَّوَجَلَّ) ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہیں۔

    اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس پر اتنا اور اضافہ کیا:

    وَاعْلَمِیْ اَنَّ ھٰذَیْنِ الَّذیْنِ اَتَیَاکِ اَوْیَأْ تِیَانِکِ اِنَّمَا ھُوَ عَبْدَانِ لِلّٰہِ لَا یَضُرَّانِ وَلَا یَنْفَعَانِ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ فَـلَا تَخَفِیْ وَلَا تَحْزَنِیْ وَاَشْھَدِیْ اَنَّ رَبَّکِ اللہُ وَدِیْنَکِ الْاِسْلَامُ وَنَبِیَّکِ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَـبَّتَنَا اللہُ وَاِیَّاکِ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰـوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّـہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ .

اور جان لے کہ یہ دو شخص جو تیرے پاس آئے یا آئیں گے یہ اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کے بندے ہیں بغیر خدا کے حکم کے نہ ضرر پہنچائیں، نہ نفع پس نہ خوف کر اور نہ غم کر اور تو گواہی دے کہ تیرا رب اللہ (عَزَّوَجَلَّ) ہے اور تیرا دین اسلام ہے اور تیرے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہیں اللہ (عَزَّوَجَلَّ) ہم کو اور تجھ کو قول ثابت پر ثابت رکھے، دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (بہارِ شریعت،حصہ ۴،۱ / ۸۵۱وفتاویٰ رضویہ، ۹ / ۲۲۳)