یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

بر_صغیر_کے_محدثین_کی_حیات_و_خدمات شیخ_عبد_الحق_محدث_دہلوی_علیہ_الرحمه




بر_صغیر_کے_محدثین_کی_حیات_و_خدمات 

از :  محمد سلیم انصاری ادروی


      #شیخ_عبد_الحق_محدث_دہلوی_علیہ_الرحمه


ولادت: امام اہلسنت شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے آبا و اجداد کا تعلق بخارا سے تھا جو دہلی میں آکر سکونت پزید ہو گئے تھے۔ آپ کے والد شیخ سیف الدین دہلوی شعر و سخن کا ذوق رکھنے والے عالم و صاحب حال بزرگ تھے، شیخ سیف الدین کو شیخ امان الله پانی پتی سے سلسلہ قادریہ کی بیعت و خلافت حاصل تھی۔ محدث دہلوی  سنہ ٩۵٨ھ/ ١۵۵١ء کو دہلی میں پیدا ہوئے، آپ اپنے وقت کے عظیم محدث، مفسر، فقیہ، محقق اور مصنف تھے۔ آپ کا شمار ہندوستان میں علم حدیث لانے والے اولین محدثین میں ہوتا ہے۔ رئیس المحدثین امام محمد بن طاہر پٹنی اور مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی علیہما الرحمه آپ کے ہم عصر ہیں۔ 


تحصیل علم: محدث دہلوی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد شیخ سیف الدین سے حاصل کی، اپنے والد سے ہی تین سال میں قرآن شریف کا ناظرہ کر لیا۔ پھر فارسی ادبیات اور عربی کتابیں پڑھنی شروع کیں۔ فارسی میں گلستاں، بوستاں، دیوان حافظ، ابتدائی عربی، میزان، مصباح اور کافیہ کا درس اپنے والد سے لیا۔ منطق و کلام کی کتابوں پر مکمل عبور حاصل ہو جانے کے بعد آپ نے ماوراء النہری (ماوراء النہری سے مراد وہ شہر ہیں جو اس شہر کے شمال میں واقع ہیں، مثلا بخارا، سمرقند، خوارزم اور کاشغر وغیرہ۔) کے علماء و دانشورں سے تقریبا آٹھ سال تک دن رات محنت کرکے علوم دینیہ حاصل کئے اور ١٧، ١٨ یا ٢٢ سال کی عمر میں اس وقت کے مروجہ علوم سے فارغ التحصیل ہونے، فراغت کے بعد کچھ عرصہ تک درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ سنہ ٩٩٦ھ میں حجاز مقدس پہنچے اور سنہ ٩٩٩ھ تک وہاں قیام کیا، اس دوران حج و زیارت کے علاوہ مکہ مکرمہ میں شیخ عبد الوہاب متقی کی خدمت میں حاضر ہو کر علمی و روحانی استفادہ کیا، مشکوة شریف کے علاوہ تصوف کی کچھ کتابیں پڑھیں، اور شیخ سے اجازت لے کر مدینه منورہ روانہ ہو گئے، آپ نے حبیب خدا کے شہر مدینه منورہ میں قیام کے دوران امام مالک رحمه الله کی طرح کبھی بھی جوتياں نہیں پہنیں، آپ کو خواب میں چار بار زیارت رسول ﷺ کی سعادت نصیب ہوئی۔


بیعت و خلافت: محدث دہلوی علیہ الرحمه ابتداءً والد ماجد کے دست مبارک پر بیعت ہوئے، پھر ان کے ایماء پر سلسلہ قادریہ میں حضرت موسیٰ پاک شہید ملتان علیہ الرحمه (م ١٠٠١ھ) کے دست اقدس پر بیعت ہوئے، مکہ مکرمہ میں شیخ عبد الوہاب متقی علیہ الرحمه نے آپ کو چار سلسلوں (قادریہ، چشتیہ، شاذلیہ اور مدنیہ) کی اجازت عطا فرمائی۔ محدث دہلوی جب ہندوستان آئے تو سلسلہ نقشبنديه میں شیخ باقی باللہ علیہ الرحمه کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔


دینی خدمات: جب سنہ ١٠٠٠ھ میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی ہندوستان تشریف لائے تو اس وقت اکبر نے ایک مشرکانہ مذہب دین الہی قائم کر لیا تھا، بانی فرقہ مہدیویہ محمد جونپوری کا دعویٰ تھا کہ جو کمالات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو حاصل تھے وہ مجھے بھی حاصل ہو گئے ہیں، فرق بس اتنا ہے کہ وہاں اصالتہ تھے اور یہاں تبعاً ہیں (اَسْتَغْفِرُ اللّه‎‎)۔ اسی طرح نظریہ الفی (اسلام کی عمر صرف ایک ہزار سال ہے۔) وغیرہ تحریکیں کسی نہ کسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ کے مخصوص مقام پر کہیں نہ کہیں ضرب لگاتی تھیں۔ محدث دہلوی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے پیغمبر اسلام ﷺ کے اعلی و ارفع مقام کی پوری طور پر وضاحت کر دی اور اس سلسلے کی ہر ہر گمراہی پر شدت سے تنقید کی۔


تدریسی خدمات: اکبر کے زیر اثر علماء سوء اور مفاد پرست صوفیوں کا ایسا گروہ قائم ہو چکا تھا جو دین کے حقیقی روح کو ختم کر دینے کے لیے آمادہ تھا، ایسے نازک و پر آشوب ماحول میں محدث دہلوی نے ایک مدرسہ قائم کیا، اس مدرسے میں قرآن و حدیث کو تمام علوم و فنون کا مرکزی نقطۂ نظر قرار دے کر تعلیم دی جاتی تھی۔ اس طرح محدث دہلوی کے ہزاروں تلامذہ پیدا ہو گئے جنہوں نے آپ کی تحریک احیاء شریعت و سنت کو آگے بڑھایا۔ محدث دہلوی کے چند تلامذہ کے نام درج ذیل ہیں:


شیخ نور الحق محدث دہلوی ، رضی الدین ابوالمناقب، شیخ علی محمد، شیخ ابو البرکات، مولانا عبد الحکیم، خواجہ حیدر بن خواجہ فیروز کشمیری، شاہ طیب ظفر آبادی، دیوان محمد رشید بن مصطفیٰ جونپوری، مولانا شاہ عبد الجلیل الہ آبادی، شیخ عبد القادر مفتی، شیخ شاکر محمد بن وجیہہ الدین حنفی دہلوی۔


کتب خانہ: جس طرح آپ کا مدرسہ اور آپ کی خانقاہ قادریہ شان و شوکت کی حامل تھی اسی طرح آپ کا کتب خانہ بھی ہندوستان کا نہایت اہم کتب خانہ تھا، جس میں اسلامی علوم و فنون، ادب و لغت، سیرت و تاریخ، معقولات کے علاوہ حدیث اور علوم حدیث سے متعلق کتابیں بڑی تعداد میں موجود تھیں، یہ کتب خانہ آپ کے بعد کئی صدیوں تک محفوظ رہا مگر دہلی کی تباہی کے دوران اس کتب خانہ کے نوارد ضائع ہو گئے۔


خدمت علم حدیث: محدث دہلوی اپنے وقت کے بے مثال محدث و مفسر تھے، فن حدیث میں محدث دہلوی کی کمالات و خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے، اس موضوع پر آپ نے ایک درجن سے زائد کتابیں یادگار چھوڑیں، جن میں مشکوة شریف کی فارسی زبان میں شرح "اشعۃ اللمعات فی شرح المشکوۃ" اور عربی زبان میں شرح "لمعات التنقیح فی شرح مشکوۃ المصابیح" قابل ذکر ہیں۔ اشعۃ اللمعات کا سات جلدوں میں اردو ترجمہ مولانا سعید احمد نقشبندی اور علامہ عبد الحکیم شرف قادری علیہما الرحمه وغیرہ کر دیا ہے۔ 


تصانیف: شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف، عقائد، اخلاق، اعمال و اوراد، منطق و فلسفہ، سیرت، تاریخ، نحو و ادب وغیرہ کے تعلق سے کئی درجن کتابیں لکھیں، جن میں سے چند کے نام یہ ہیں۔


اشعۃ اللمعات فی شرح المشکوۃ، لمعات التنقیح فی شرح مشکوۃ المصابیح، ترجمة الاحادیث الاربعین فی نصیحة الملوک والسلاطین، جامع البرکات منتخب شرح المشکوۃ، رسالة اقسام الحدیث، اخبار الاخیار، زبدۃ الآثار، مطلع الانوار، جواب بعض کلمات شیخ سرہندی، شرح فتوح الغیب، تحصیل و التعرف فی معرفة الفقہ و التصوف، رسالة شب برأت، فتح المنان فی تائید النعمان، تعلیق الحاوی علی تفسیر البیضاوی، آداب الصالحین، رسالہ عقائد انامل، شرح شمسیہ، حاشیة الفوائد الضائیة، ترجمة غنیة الطالبین، مدارج النبوة۔


وصال: عشق رسول ﷺ اور خدمت حدیث میں اپنی زندگی گزارنے کے بعد آخر کار یہ آفتاب علم و ہدایت ٩۴ سال کی عمر میں ٢١ ربیع الاول سنہ ١٠۵٢ھ کو ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ شیخ نور الدین دہلوی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور وصیت کے مطابق محدث دہلوی دہلی میں حوض شمسی کے قریب مقبرہ میں دفن ہوئے۔


(مدارج النبوت/ص:٩-١١، محدثین عظام کی حیات و خدمات/ص:٦٢١-٦٣۵، شرح مشکوة/[مقدمہ]،  شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور عقائد و معلومات اہلسنت/ص:٣٠-۴٦ ، بابائے فارسی منشی سیف الدین شمسی__حیات و افکار/ص:۴٢)