یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

میت کی تدفین میں تاخیر کرنا کیسا ہے؟




میت کی تدفین میں تاخیر کرنا کیسا ہے؟


جب کسی شخص کے فوت ہو جانے کا یقین ہو جائے، توشرعاًحکم ہے کہ اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں جلدی کی جائے،بلا ضرورت تاخیر کرنا مکروہ اور ممنوع ہے،البتہ موت کا یقین ہونے، قبر کی تیاری کرنے اور غسل و کفن وغیرہ کے ضروری انتظامات میں جو دیر لگتی ہے،اس کی اجازت ہے،اس کے علاوہ مزید تاخیر کرنامنع ہے۔اسی  حکم تعجیل(جلدی دفن کرنے والے حکم ) کے پیش نظر فقہاء کرام رحمہم اللہ السلام فرماتے ہیں :اگر جمعہ کے دن میت کی تجہیز و تکفین کے معاملات مکمل ہوں ،تونمازِ جنازہ کی ادائیگی کو جمعہ کی نماز کے بعد تک فقط اس وجہ سے مؤخر کرنا،تاکہ جنازہ میں زیادہ لوگ شامل ہو جائیں،تویہ مکروہ ہے،بلکہ یہاں تک فرما دیا کہ اگر جنازہ تین مکروہ اوقات(طلوعِ آفتاب سے بیس منٹ بعد تک ،استواءِ شمس سے سورج ڈھلنے تک ، جسے عرفِ عام میں زوال کا وقت بھی کہتے ہیں اور غروبِ آفتاب سے پہلے کے بیس منٹ)میں بھی جنازہ گاہ پہنچے،تو اسی وقت ادا کر دیا جائے،حالانکہ ان تین اوقات میں کوئی بھی نماز پڑھناجائز نہیں ہے۔پس جب شریعت کو  تدفین میں اتنی جلدی مطلوب ہے کہ جنازے میں زیادہ لوگ شامل ہونے کی وجہ سے جمعہ کے بعد تک تاخیر کو مکروہ قرار دیا اور مکروہ وقت میں جنازہ لایا گیا،تو اسی وقت اسے  ادا کرنے کی اجازت دے دی،تو فقط کسی رشتہ دار کے آنے کے انتظار کے سبب تدفین میں تاخیر کیسے روا ہو سکتی ہے؟
    میت کی تدفین میں جلدی کرنے کا حکم ہے۔چنانچہ حضرت حصین بن وحوح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں:’’ان طلحۃ بن البراء مرض فاتاہ النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یعودہ،فقال: انی لا اری طلحۃ،الا قد حدث فیہ الموت، فاذنونی بہ و عجلوا، فانہ لا ینبغی لجیفۃ مسلم ان تحبس بین ظھرانی اھلہ‘‘ترجمہ:حضرت طلحہ بن براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار ہوئے، تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے ، پھر ارشاد فرمایا: کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ طلحہ کی موت کا وقت قریب آ گیا ہے، موت کے بعد مجھے اس کی خبر دینا اور تجہیز و تکفین وغیرہ میں جلدی کرنا، کیونکہ کسی مسلمان کی میت کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے درمیان دیر تک رہے۔                                                              
(سنن ابی داؤد،ج 2 ،ص 97،مطبوعہ لاھور)
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، آپ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اسرعوا بالجنازۃ، فان تک صالحۃ فخیر تقدمونھا الیہ وان تک غیر ذٰلک فشر تضعونہ عن رقابکم‘‘ترجمہ:جنازہ کو دفن کرنے میں جلدی کرو، کہ اگر وہ نیک ہے، تو ایک اچھی چیز ہے، جس کی طرف تم اس کو لے کر جا رہے ہو اور اگر وہ نیک نہیں ہے، تو ایک بری چیز ہے، جسے تم اپنی گردن سے اتار رہے ہو۔                                                      
(صحیح مسلم، ج1،ص 306تا307،مطبوعہ کراچی)
    الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:’’و یبادر الی تجھیزہ و لا یؤخر، لقولہ علیہ السلام: عجلوا بموتاکم ،فان یک خیرا قدمتموھم الیہ و ان یک شرا فبعدا لاھل النار‘‘ترجمہ:میت کی تجہیز میں جلدی کی جائے، اس میں تاخیر نہ کی جائے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا قول ہے کہ اپنے مردوں کی تجہیز میں جلدی کرو، کیونکہ اگر وہ نیک ہے، تو اس کو تم جلدی پیش کرو اور اگر وہ برا ہے تو اہل ناریعنی جہنمی کے لیے دوری ہے۔
(الجوھرۃ النیرۃ، ج1، ص123،مطبوعہ کراچی)
    زیادہ لوگوں کے شامل ہونے کی وجہ سے نمازِ جمعہ کے بعد تک جنازہ میں تاخیر مکروہ ہے۔چنانچہ حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:’’ولو جهز الميت صبيحة يوم الجمعة يكره تاخير الصلاة ودفنه ليصلي عليه الجمع العظيم بعد صلاة الجمعة‘‘ترجمہ:اگر جمعہ کے دن صبح  میت کی تجہیز و تکفین کر دی،تو نماز جنازہ اورتدفین کو اس وجہ سے مؤخر کرنا ،تاکہ نمازِ جمعہ کے بعد زیادہ لوگ جنازہ پڑھیں گے ،تو یہ مکروہ ہے۔
(حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح،ص604،مطبوعہ کراچی)
    اوراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ نماز جنازہ میں تعجیل شرعاً نہایت درجہ مطلوب۔امام احمد و ترمذی و ابن ماجہ و حاکم و ابن حبان وغیرہم امیری المؤمنین مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے راوی حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’ثلاث لا تؤخرھن، الصلوٰۃ اذا اٰتت و الجنازۃ اذا احضرت و الایم اذا وجدت لھا کفوا‘‘ترجمہ:تین چیزوں میں دیر نہ کرو، نمازمیں جب اس کا وقت آ جائے اور جنازہ میں جس وقت حاضر ہو، اورغیر شادی شدہ لڑکی کے(نکاح کے) بارے میں جب اس کا کفو ملے۔۔
    طبرانی بہ سند حسن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا’’:اذا مات احدکم فلا تحبسوہ و اسرعوا بہ الی قبرہ‘‘ترجمہ:جب تم میں سے کوئی مرے ،تو اسے نہ روکو،بلکہ جلد دفن کےلئے لے جاؤ۔
    ولہٰذا علماء فرماتے ہیں:’’اگر روز جمعہ پیش از جمعہ جنازہ تیار ہو گیا، جماعتِ کثیرہ کے انتظار میں دیر نہ کریں، پہلے ہی دفن کر دیں، اس مسئلہ کا بہت لحاظ رکھنا چاہیے کہ آج کل عوام میں اس کے خلاف رائج ہے۔“
(فتاوی رضویہ، ج 9ص 309تا310،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
    مکروہ وقت میں نماز کے بارے میں حضرت عبد اللہ صنابحی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ان الشمس تطلع ومعھا قرن الشیطان، فاذا ارتفعت فارقھا، ثم اذا استوت قارنھا، فاذا زالت فارقھا، فاذا دنت للغروب قارنھا، فاذا غربت فارقھا ونھی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم عن الصلوٰۃ فی تلک الساعات‘‘ترجمہ: آفتاب شیطان کے سینگ کے ساتھ طلوع کرتا ہے،پس  جب سورج بلند ہو تا ہے، تو وہ جدا ہو جاتا ہے، پھر جب سر کی سیدھ پر آتا ہے، تو شیطان اس سے قریب ہو جاتا ہے، جب ڈھل جاتا ہے توشیطان  ہٹ جاتا ہے، پھر جب غروب ہونا چاہتا ہے،توشیطان اس سے قریب ہو جاتا ہے، جب ڈوب جاتا ہے،تو شیطان جُدا ہو جاتا ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
 (مؤطا امام مالک،ج2،ص306،مطبوعہ،امارات)
    مکروہ وقت میں نماز جنازہ کے بارے میں صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں:’’جنازہ اگر اوقات ممنوعہ میں لایا گیا، تو اسی وقت پڑھیں ، کوئی کراہت نہیں ۔ کراہت اس صورت میں ہے کہ پیشتر سے تیار موجود ہے اور تاخیر کی یہاں تک کہ وقت کراہت آ گیا۔“
(بہار شریعت، ج1،ص454تا455،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

نوٹ: تحریر کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنا نام رکھ رہا ہوں

عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057