یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

*حضر ت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور ختم نبوت*




*حضر ت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور ختم نبوت*


امام احمد مسند اور بخاری و مسلم و ترمذی ونسائی وابن ماجہ صحاح، ابن ابی شیبہ سنن، ابن جریر تہذیب الآثار میں بطریق عدیدہ کثیرہ
سیدنا سعد بن ابی وقاص،اور 
حضرت ام المؤمنین ام سلمہ،
زوجہ امیر المؤمنین علی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین سے راوی،
حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کو تشریف لیجاتے وقت
امیر المؤمنین مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کو مدینے میں چھوڑا امیر المؤمنین نے عرض کی یارسول اﷲ! 
حضور مجھے عورتوں اور بچّوں میں چھوڑے جاتے ہیں، فرمایا:
*اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسٰی غیر انہ لا نبی بعدی*

یعنی کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم یہاں میری نیابت میں ایسے رہو جیسے موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام جب اپنے رب سے کلام کے لئے حاضر ہوئے ہارون علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی نیابت میں چھوڑ گئے تھے ہاں یہ فرق ہے کہ ہارون نبی تھے میں جب سے نبی ہوا دوسرے کے لئے نبوت نہیں۔

(صحیح البخاری، مناقب علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہ، قدیمی کتب خانہ، کراچی، ۱/ ۵۲۶)
(جامع الترمذی،مناقب علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہ،امین کمپنی کتب خانہ،رشیدیہ، دہلی،۲/ ۱۱۴)
(صحیح مسلم کتاب الفضائل، مناقب علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہ،قدیمی کتب خانہ ،کراچی۔۲/ ۲۷۸)
(مسند احمد بن حنبل، حدیث حضرت سعد ابن وقاص، دارالفکر بیروت، ۱/ ۱۸۲)

مسند و مستدرک میں حدیث ابن عباس یوں ہے:
*الا ترضی ان تکون بمنزلۃ ھارون من موسٰی الا انک لست بنبی*

کیا تم راضی نہیں کہ بمنزلہ ہارون کے ہو موسٰی سے مگر یہ کہ تم نبی نہیں۔

( المجمع الزوائد بحوالہ احمد وغیرہ عن ابن عباس باب جامع مناقب علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ، دارالکتاب بیروت، ۹/ ۱۲۰)
(المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، دارالفکر،بیروت، ۳/ ۱۰۹)

حضرت اسماء کی حدیث اس طرح ہے:

*قالت ھبط جبریل علی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقال یا محمد ان ربک یقرأک السلام ویقول لک علیّ منک بمنزلۃ ھارون من موسٰی لٰکن لا نبی بعدک*

جبریل امین علیہ الصلوٰہ والسلام نے حاضر ہو کر حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے عرض کی حضور کا رب حضور کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے علی (رضی اﷲ تعالٰی عنہ) تمہاری نیابت میں ایسا ہے جیسا موسٰی کے لئے ہارون،مگر تمہارے بعد کوئی نبی نہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔

( المعجم الکبیر، حدیث ۳۸۴ تا ۳۸۹، المکتبۃ الفیصلیۃ،بیروت، ۲۴/ ۱۴۶ و ۱۴۷)

فضائل صحابہ امام احمد میں حدیث امیر معاویہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ یوں ہے کسی نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا فرمایا:
*سل عنھا علی ابن ابی طالب فھو اعلم*
مولا علی سے پوچھیو وہ اعلم ہیں، سائل نے کہا: یا امیر المؤمنین! مجھے آپ کا جواب ان کے جواب سے زیادہ محبوب ہے، فرمایا:
*بئسما قلت لقد کرھت رجلا کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یغرہ بالعلم غرا ولقد قال لہ انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی وکان عمر اذا اشکل علیہ شیئ یاخذ منہ*

تونے سخت بُری بات کہی ایسے کو ناپسند کیا جس کے علم کی نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عزت فرماتے تھے اور بیشک حضور نے ان سے کہا تجھے مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسٰی علیہما الصلوٰۃوالسلام سے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، امیر المؤمنین عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو جب کسی بات میں شبہ پڑتا ان سے حاصل کرتے رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین۔

(فضائل الصحابۃ لامام احمد بن حنبل ،حدیث ۱۱۵۳، فضائل علی علیہ السلام، موسسۃ الرسالہ،بیروت، ۶۷۵)

ابو نعیم حلیۃ الاولیاء میں حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:

*یا علی أخصمک بالنبوۃ ولا نبوۃ بعدی*

اے علی! میں مناصب جلیلہ و خصائص کثیرہ جزیلہ نبوت میں تجھ پر غالب ہوں اور میر ے بعد نبوّت اصلاً نہیں۔

( حلیۃ الاولیاء، المسندۃ فی مناقبہم وفضائلم نمبر۴ علی ابن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہ،دارالکتاب العربی، بیروت،۱/ ۶۵ )


*حضرت علی کی عیادت:*

ابن ابی عاصم اور ابن جریر با فادہ تصحیح اور طبرانی اوسط اور ابن شاہین کتاب السنہ میں امیر المؤمنین مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم سے راوی، 
میں بیمار تھا خدمت اقدس حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں حاضر ہوا حضور نے مجھے اپنی جگہ کھڑا کیا اور خود نماز میں مشغول ہوئے، چادر  مبارک کا آنچل مجھ پر ڈال لیا، پھر بعد نماز فرمایا:

*برئت یا ابن ابی طالب فلا بأس علیک ما سألت اﷲ لی شیئا الا سألت لک مثلہ ولا سألت اﷲ شیئا الا اعطانیہ غیرانہ قیل لی انہ لا نبی بعدک۔*

اے ابن ابی طالب!تم اچھے ہوگئے تم پر کچھ تکلیف نہیں، 
میں نے اﷲ عزوجل سے جو کچھ اپنے لئے مانگا تمہارے لئے بھی اس کی مانند سوال کیا اور میں نے جو کچھ چاہا رب عزوجل نے مجھے عطا فرمایا مگر مجھ سے یہ فرمایا گیا کہ تمہارے بعد کوئی نبی نہیں۔ 
مولا علی کرم اﷲ وجہہ الکریم فرماتے ہیں میں اسی وقت ایسا تندرست ہوگیا گویا بیمار ہی نہ تھا

(کنزالعمال بحوالہ ابن ابی عاصم وابن جریر وطس وابن شاہین فی السنۃ حدیث ۳۶۵۱۳ موسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۳/ ۱۷۰)

*تنبیہ:*

اقول وباﷲ التوفیق(میں کہتا ہوں اور توفیق اﷲ تعالٰی سے ہے) 
یہ حدیث حضرت امیر المؤمنین کے لئے مرتبہ صدیقیت کا حصول بتاتی ہے، صدیقیت ایک مرتبہ تلو نبوت ہے کہ اس کے اور نبوت کے بیچ میں کوئی مرتبہ نہیں مگر ایک مقام ادق واخفی کہ نصیبہ حضرت صدیق اکبر اکرم واتقی رضی اﷲ تعالٰی عنہ ہے تو اجناس وانواع واصناف فضائل وکمالات وبلندی درجات میں خصائص و ملزومات نبوت کے سوا صدیقین ہر عطیہ بہیہ کے لائق واہل ہیں اگرچہ باہم ان میں تفاوت و تفاضل کثیرو وافر ہو۔

آخر نہ دیکھا کہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ابن جمیل ونائب جلیل حضور پر نور سید الاسیاد فرد الافراد غوث اعظم غیث اکرم غیاث عالم محبوب سبحانی مطلوب ربانی سیدنا ومولانا ابو محمد محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی ا ﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:

*کل ولی علٰی قدم نبی وانا علٰی قدم جدی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وما رفع المصطفٰی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قد ما الاوضعت انا قدمی فی الموضع الذی رفع قدمہ منہ، الا ان یکون قد ما من اقدام النبوۃ فانہ لا سبیل ان ینالہ غیر نبی*

رواہ الامام الاجل ابوالحسن علی الشطنوفی قدس سرہ فی بہجۃ الاسرار فقال اخبرنا ابو محمد سالم بن علی بن عبداﷲ بن سنان الدمیاطی المصری المولد بالقاھرۃ ۶۷۱سنۃ احدی وسبعین وستمائۃ، 
قال اخبرنا الشیخ القدوۃ شہاب الدین ابو حفص عمر بن عبداﷲ السھروردی ببغداد ۶۲۴ سنۃ اربع و عشرین وستمائۃ 
قال سمعت الشیخ محی الدین عبدالقادر رضی اﷲ تعالٰی عنہ یقول علی الکرسی بمدرستہ (فذکرہ)

ہر ولی ایک نبی کے قدم پر ہوتا ہے اور میں اپنے جد اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے قدم پاک پر ہوں مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جہاں سے قدم اٹھایا میں نے اسی جگہ قدم رکھا مگر نبوت کے قدم کہ ان کی طرف غیر نبی کو اصلاً راہ نہیں 
(اس کو امام ابوالحسن علی شطنوفی قدس سرہ نے بہجۃ الاسرار میں روایت کیا، تو کہا ابو محمد سالم بن علی بن عبداﷲ بن سنان الدمیاطی المصری جو قاھرہ میں ۶۷۱ھ میں پیدا ہوئے، انہوں نے کہا مجھے شیخ شہاب الدین ابو حفص عمر بن عبداﷲ سہروردی نے ۶۲۴ھ کو بغداد میں بیان کیا کہ میں نے شیخ محی الدین عبدالقادر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو مدرسہ میں کرسی پر تشریف فرما، کہتے ہوئے سنا تو وہ ذکر فرمایا جو گزرا۔

( بہجۃ الاسرار، ذکر کلمات اخبر بہا عن نفسہ الخ، مطبع مصطفی البابی،الحلبی،مصر ص ۲۲)
( بہجۃ الاسرار، ذکر کلمات اخبر بہا عن نفسہ الخ، مطبع مصطفی البابی،الحلبی،مصر ص ۲۲)

بالجملہ ما دون نبوت پر فائز ہونا نہ تفرد کی دلیل نہ حجت تفضیل کہ وہ صدہا میں مشترک اور فی نفسہٖ مشکک، ہر غوث و صدیق اس میں شریک اور ان پر بشدّت مقول با لتشکیک، بلکہ خود حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

*من اتاہ ملک الموت وھو یطلب العلم کان بینہ وبین الانبیاء درجۃ واحدۃ درجۃ النبوۃ*

جس کے پاس ملک الموت آئیں اور وہ طلب علم میں ہو اس میں اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام میں صرف ایک درجے کا فر ق ہے کہ درجہ نبوت ہے

( کنزالعمال، بحوالہ ابن النجار عن انس حدیث ۲۸۸۲۹، موسسۃ الرسالۃ،بیروت،۱۰ /۱۶۰)

دوسری حدیث میں ہے:

*کادحملۃ القراٰن ان یکونوا انبیاء الا انہ لا یوحٰی الیھم*

قریب ہے حاملان قرآن انبیا ء ہوں مگر یہ کہ ان کی طرف وحی نہیں آتی

( الفردوس بمأ ثور الخطاب،حدیث ۲۲۱، دارالکتب العلمیہ بیروت، ۱/ ۷۵)

تو اس کے امثال سے حضرات خلفائے ثلٰثہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم پر امیر المؤمنین مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کی تفضیل کا وہم نہیں ہوسکتا۔

*ابوبکر صدیق صدیق اکبر ہیں:*

علماء فرماتے ہیں، ابوبکر صدیق صدیق اکبر ہیں اور 
علی مرتضی صدیق اصغر،
صدیق اکبر کا مقام اعلٰی صدیقیت سے بلند و بالا ہے، 
نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں ہے:
*اما تخصیص ابی بکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ فلانہ الصدیق الاکبر الذی سبق الناس کلھم لتصدیقہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ولم یصدر منہ غیرہ قط وکذا علی کرم اﷲ تعالٰی وجھہ فانہ یسمی الصدیق الاصغر الذی لم یتلبس بکفر قط ولم یسجد لغیر اﷲمع صغرہٖ وکون ابیہ علٰی غیر الملۃ ولذا خصّ بقول علی کرم اﷲ تعالٰی وجھہ*

لیکن ابو بکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی تخصیص اس لئے کہ وہ صدیق اکبر ہیں جو تمام لوگوں میں آگے ہیں کیونکہ انہوں نے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصدیق کی وہ کسی کو حاصل نہیں اور یونہی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ کا نام صدیق اصغر ہے جو ہرگز کفر سے ملتبس نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے غیر اﷲ کو سجدہ کیا باوجود یکہ وہ نابالغ تھے اور ان کے والد ملت اسلامیہ پر نہ تھے، اسی وجہ سے انہوں نے علی کرم اﷲ وجہہ کے قول کو خاص طور پر لیا۔

( نسیم الریاض شرح شفاء امام عیاض، الباب الاول، الفصل الاول، دارالفکر بیروت، ۱/ ۱۴۲)

حضر ت خاتم الولایۃ المحمدیۃ فی زمانہ بحر الحقائق ولسان القوم بجنانہ وبیانہ سیدی شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نفعنا اﷲ فی الدارین بفیضانہ فتوحات مکیہ شریفہ میں فرماتے ہیں:
*فلو فقد النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی ذٰلک الوطن وحضرہ ابوبکر لقام فی ذٰلک المقام الذی اقیم فیہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لانہ لیس ثم اعلٰی منہ یحجبہ عن ذٰلک فھو صادق ذٰلک الوقت وحکمہ وماسواہ تحت حکمہ (ثم قال) وھذا المقام الذی اثبتناہ بین الصدیقیۃ ونبوۃ التشریع الذی ھو مقام القربۃ وھو للافراد ھودون نبوۃ التشریع۔ وفوق الصدیقیۃ فی المنزلۃ عند اﷲ والمشار الیہ بالسرالذی وقرفی صدر ابی بکر ففضل بہ الصدیقین اذحصل لہ مالیس فی شرط الصدیقیۃ ولا من لوازمھا فلیس بین ابی بکر وبین رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم رجل لانہ صاحب الصدیقیۃ وصاحب سر*

یعنی اگر حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس موطن میں تشریف نہ رکھتے ہوں اور صدیق اکبر حاضر ہوں تو حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے مقام پر صدیق قیام کریں گے کہ وہاں صدیق سے اعلٰی کوئی نہیں جو انہیں اس سے روکے وہ اس وقت کے صادق و حکیم ہیں، اور جو ان کے سوا ہیں سب ان کے زیر حکم، یہ مقام جو ہم نے ثابت کیا صدیقیت اور نبوت شریعت کے بیچ میں ہے، یہ مقام قربت فردوں کے لئے ہے، اﷲ کے نزدیک نبوت شریعت سے نیچا اور صدیقیت سے مرتبے میں بالا ہے اسی کی طرف اس راز سے اشارہ ہے جو سینہ صدیق میں متمکن ہوا جس کے باعث وہ تمام صدیقوں سے افضل قرار پائے کہ ان کے قلوب میں وہ رازِ الٰہی حاصل ہوا جو نہ صدیقیت کی شرط ہے نہ اس کے لوازم سے، تو ابوبکر صدیق اور رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے درمیان کوئی شخص نہیں کہ وہ توصدیقیت والے بھی ہیں اور صاحبِ راز بھی،رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

( الفتوحات المکیۃ،الباب الثالث والسبعون، داراحیائ،التراث العربی،بیروت، ۲/ ۲۵)

(فتاوی رضویہ ج١٥ ص١٣٧)

*✍محمد ساجد مدنی*