یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

موت کی تمنا کرنے کرنا کیسا۔۔؟




موت کی تمنا کرنے کرنا کیسا۔۔؟

محرر:عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057

اَحادیث میں موت کی تمنا کرنے سے منع کیا گیا ہے ،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی موت کی آرزو نہ کرے نیک شخص تو اس لئے کہ شاید وہ مزید نیکیاں کرلے اور گناہگار اس لئے کہ شاید وہ توبہ کرلے۔  

( بخاری، کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت،   ۴   /   ۱۳  ، الحدیث:   ۵۶۷۳  )  

 اورحضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تم میں    سے کوئی نہ موت کی آرزو کرے، نہ اس کے آنے سے پہلے اس کی دعا کرے کیونکہ جب وہ مرجائے گا تو اس کا عمل ختم ہوجائے گا اور مومن کی عمر بھلائی ہی بڑھاتی ہے ۔ 

 ( مسلم، کتاب الذکر والدعائ۔۔۔ الخ، باب کراہۃ تمنّی الموت لضر نزل بہ، ص  ۱۴۴۱  ، الحدیث:   ۱۳(۲۶۸۲)  )  
  البتہ اگر مجبوری میں موت کی آرزو کرنی ہی پڑے تو حدیث ِپاک میں اس کا طریقہ بھی ارشاد فرمایا گیا ہے ،چنانچہ   حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ تم میں    سے کوئی آئی ہوئی مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے، پھر اگر کرنی ہی پڑ جائے تو یوں    کہے:اےاللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، جب تک   میرے لئے زندگی بہتر ہو تو مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لئے موت بہتر ہو تو مجھے موت دے ۔  
( بخاری، کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت،   ۴   /   ۱۳  ، الحدیث:   ۵۶۷۱  )  

مفتی احمد یار خان نعیمی     رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہ حدیث گزشتہ  (دونوں ) اَحادیث کی شرح ہے کہ بیماری و آزاری سے گھبراکرموت نہ مانگے اورجس طریقہ سے دعا کی اجازت دی گئی ہے نہایت ہی پیارا طریقہ ہے کیونکہ اس خیروشرمیں دین و دنیا کی خیروشرشامل ہے گویا موت کی تمنا کہہ بھی لی مگر قاعدے سے۔  
( مراٰۃ المناجیح، جنازوں کا باب، باب موت کی آرزو اور اس کا ذکر، پہلی فصل،   ۲   /   ۴۲۱، تحت الحدیث: ۱۵۱۳  ) 

 یعنی مقصد بھی پورا ہوگیا اور ممانعت کے حکم پر بھی عمل ہوگیا۔  
 مزید فرماتے ہیں:موت کی آرزو اچھی بھی ہے اور بری بھی،اگر حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ     کے دیدار کے لیے یا دنیاوی فتنوں سے بچنے کے لیے موت کی تمناکرناہے تو اچھاہے اور اگر دُنْیَوی تکالیف سے گھبرا کرتمنائے موت کرے تو برا  (ہے)  ۔ 
 ( مراٰۃ المناجیح، جنازوں کا باب، باب موت کی آرزو اور اس کا ذکر، پہلی فصل،   ۲   /   ۴۲۰  )