یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

موضوعیت حدیث کیوں کر ثابت ہوتی ہے




*موضوعیت حدیث کیوں کر ثابت ہوتی ہے*


 فتاویٰ رضویہ میں ہے

 کسی حدیث کے موضوع ہونے کا ثبوت 15 طریقوں سے ہوتا ہے کہ
 اس روایت کا مضمون 
*01* قرآن عظیم 
*02* سنت متواترہ 
*03* یا اجماع قطعی قطعیات الدلالۃ
*04* یا عقل صریح 
*05* یا حسن صحیح 
*06* یا تاریخ یقینی کہ ایسا مخالف ہو کے احتمال تاویل و تطبیق نہ رہے 
*07* یا (اس روایت کے معنی) شنیع و قبیح ہوں (ایسے برے ہو کہ) جن کا صدور حضور پرنور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے منقول نہ ہو جیسے معاذاللہ کسی  فساد یا ظلم عبث یا سفہ یا مدح باطل یا ذم حق پر مشتمل ہونا
*08* یا ایک جماعت جس کا عدد حد تواتر کو پہنچے اور ان میں احتمال کذب یا ایک دوسرے کی تقلید کا نہ رہے اس کے کذب و بطلان پر گواہی مستند الی الحس دے

*09*  یہ خبر کسی ایسے امر کی ہوگی کہ اگر واقع ہوتا تو اس کی نقل و خبر مشہور و مستفیض ہو جاتی مگر اس روایت کے سوا اس کا کہیں پتہ نہیں۔

*10* یا کسی حقیر فعل کی مدحت اور  اس پر وعدہ و بشارت یا صغیر امر کی مذمت اور اس پر وعید و تہدید میں ایسے لمبے چوڑے مبالغے ہوں  جنہیں کلام معجز نظام نبوت سے مشابہت نہ رہے

*11* یا یوں حکم وضع کیا جاتا ہے کہ لفظ رکیک و سخیف ہوں جنہیں سمع دفع اور طبع منع کرے اور ناقل مدعی ہو کہ یہ بعینیہا الفاظ کریمہ حضور افصح العرب صلی اللہ علیہ وسلم ہیں  یا وہ محل ہی نقل بالمعنی کا نہ ہو۔
*12* یا ناقل‌رافضی حضرات  اہل بیت کرام علی سیدہم وعلیہم الصلوۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اس کے غیر سے ثابت نہ ہو جیسے حدیث لحمک لحمی و دمک دمی  (تیرا  گوشت میرا گوشت تیرا خون میرا خون)
 یوں ہی وہ مناقب امیر معاویہ و عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہما کے صرف نواصب کی روایت سے آئیں کہ جس طرح روافض نے فضائل امیرالمومنین و اہل بیت طاہرین رضی اللہ تعالی عنہم میں قریب تین لاکھ حدیثوں کے وضع کیں۔ یونہی نواصب نے مناقب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں حدیثیں گھڑی ہیں۔

*13*  یا قرائن حالیہ گواہی دے رہے ہو کہ یہ روایت اس شخص نے کسی طمع سے  یا غضب وغیرھما کے باعث ابھی گڑھ کر پیش کر دی ہے جیسے حدیث سبق میں زیادت جناح اور حدیث ذم معلمین اطفال۔

*14*  یا  تمام کتب و تصانیف اسلامیہ میں استقرائے تام کیا جائے اور اس کا کہیں پتا نہ چلے یہ صرف اجلہ حفاظ آئمہ شان کا کام تھا جس کی لیاقت صدہا سال سے  معدوم۔

*15* یا راوی خود اقرار کردے خواہ صراحۃ خواہ ایسی بات کہے جو بمنزلہ اقرار ہو مثلا ایک شیخ سے بلاواسطہ بدعوی‌ سماع روایت کرے پھر اس کی تاریخ وفات وہ بتائے کہ اس کا اس سے سننا معقول نہ ہو‌۔

*افادہ*

 جو حدیث ان 15 عیوب سے خالی ہو اس پر حکم وضع کی رخصت کس حال میں ہے اس باب میں کلمات علمائے کرام تین طرز پر  ہیں۔

*(۱)*   *انکار محقق* یعنی بے امور مذکورہ کے اصلا حکم وضع کی راہ نہیں اگرچہ راوی وضاع، کذاب ہی پر اس کا مدار ہو امام سخاوی نے فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث میں اسی پر جزم فرمایا۔ فرماتے ہیں: : اگر  کوئی حافظ جلیل القدر کہ علم حدیث میں دریا اور اس کی تلاش کامل و محیط ہو تفتیش حدیث میں استقصائے تام کرے اور بایں‌ہمہ حدیث کا پتہ ایک راوی کذاب بلکہ وضاع کی روایت سے جدا کہیں نہ ملے تاہم اس سے حدیث کی موضوعیت لازم نہیں آتی جب تک امور مذکورہ سے کوئی امر اس میں موجود نہ ہو۔

(فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث الموضوع، جلد 1، صفحہ 297، دارالامام الطبری، بیروت)

https://chat.whatsapp.com/DNPrd0I2X6qBlh0xwWjdY5

*(۲)*  *کذاب وضاع*  جس سے عمدا نبی‌کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر معاذ اللہ بہتان و افترا کرنا ثابت ہو صرف ایسے کی حدیث کو موضوع کہیں گے وہ بھی بطریق ظن نہ بروجہ یقین کہ بڑا جھوٹا بھی کبھی سچ بولتا ہے اور اگر قصدا افترا اس سے ثابت نہیں تو اس کی حدیث موضوع نہیں اگرچہ مہتم بالکذب و وضع ہو یہ مسلک امام الشان وغیرہ علماء کا ہے، نخبہ و نزہہ‌ میں فرماتے ہیں:
 طعن یا تو کذب راوی کی وجہ سے ہوگا مثلا اس نے عمدا اپنی بات روایت کی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں فرمائی تھی یا اس پر ایسی تہمت ہو۔  پہلی صورت میں روایت کو موضوع کہیں گے اور اس پر وضع کا حکم یقینی نہیں بلکہ بطور ظن ہے کیونکہ بعض اوقات بڑا جھوٹا بھی سچ بولتا ہے اور دوسری صورت میں روایت کو متروک کہتے ہیں۔

 (شرح نخبۃ الفکر معہ نزہۃ النظر بحث الطعن، صفحہ 54،57 مطبوعہ علیمی لاہور)

 حضرت علامہ ابو عبداللہ  محمد بن عبدالباقی زرقانی المالکی شرح‌الزرقانی علی المواہب میں فرماتے ہیں
 مدار سند حدیث پر ہے اگر اس سے روایت کرنے والا کذاب یا وضاع متفرد ہو تو وہ روایت موضوع ہوگی اور اگر ضعیف ہے تو روایت صرف ضعیف ہوگی

 
 (شرح الزرقانی علی المواہب الفصل الاول من المقصد الثامن فی طبہ صلی اللہ علیہ وسلم ج9 صفحہ 337 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)



 حضرت علامہ ملا علی قاری فرماتے ہیں: موضوع اس روایت کو کہا جاتا ہے جس کے راوی پر کذب کا طعن ہو

 (شرح نخبۃ الفکر فی مصطلحات اہل الاثر  جلد1 صفحہ 435 دار الارقم لبنان بیروت)

*(۳)*  ‌ بہت علماء جہاں حدیث پر سے حکم وضع اٹھاتے ہیں وجہ رد میں کذب کے ساتھ تہمت کذب بھی شامل فرماتے ہیں کہ یہ کیوں کر موضوع ہو سکتی ہے حالانکہ اسکا  کوئی راوی نہ‌کذاب ہے نہ مہتم‌بالکذب۔ کبھی فرماتے ہیں موضوع تو جب ہوتی کہ اس کا راوی مہتم بالکذب ہوتا یہاں ایسا نہیں تو موضوع نہیں اس سے متبادر‌ ہوتا ہے کہ اگر راوی متہم بالکذب ہو تو موضوع ہونے کا حکم لگایا جاسکتا ہے۔ 
جو حدیث عن 18 عیوب سے پاک ہو اس کے بارے میں اجماع ہے کہ وہ موضوع نہیں ہے۔

 (ملخصا فتاوی رضویہ ص 460  تا 466 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

*#ابوالحسن الحنفی القادری*