*: نحوی غزل:*
*: نحوی غزل:*
سُن میری *نَحو* میں کچھ، تُجھ سے یہ گُفتگو ہے
ڈُوبا ہُوں بحرِ غم میں، جِس کا کِنارہ تُو ہے
تیرا سِتَم ہے *مصدر*، ہر زخم تجھ سے *مُشتَق*
چَھلنی ہُوا ہے سینہ، *جامِد* مگر لَہُو ہے
ہے زُلف تیری *سالِم*، یہ دِل مِرا *مُکسَّر*
کر *جمع* دونوں کو تُو، مُحتاجیِ رَفُو ہے
تُو *معرِفہ* سراپا، پہچان میری *نکرہ*
لُوں نام گَر میں اپنا، کہتا کہ کون تُو ہے
ہر دن نیا تعلّق، *مُعرَب* ہو جیسے کوئی
رنجِش ہے مجھ سے *مَبنی*، ایسا تُو تُند خُو ہے
رکھتا ہوں میں ہمیشہ سر زیر تیرے آگے
تیرا *مُضاف اِلَیہ* میں، میرا *مُضاف* تُو ہے
ہوں کیوں نہ پھر برابر *اعراب* دونوں ہی کے
*موصُوف* تیرا پیکر، اور *صِفت* تیری خُو ہے
تُو *جُملہ اِسمِیہ* ہے ، تیری خبر مُقدَّم
تُو *مُبتدا، خبر* کا، آغازِ گفتگُو ہے
میں *ظرفِ مُستَقَر* ہوں، تُو *فِعلِ حَذف* میرا
تیرے بَجُز نہیں کچھ، تیری ہی جُستجُو ہے
کیا *غیرِ مُنصرف* ہوں، جو یوں تُو مِثلِ تنوین
رہتا ہے دُور مجھ سے، جیسے مِرا عَدُو ہے
ہر ہر خبر تِری میں، *اِنشائیہ* سمجھ کر
یوں پی گیا ہوں جیسے، چَھکتا ہُوا سَبُو ہے
بدلے سُوال لاکھوں، پر ہر جواب اُلٹا
*لائے نفی* کے جیسے، ہر وقت دُو بَدُو ہے
دیوانہ ہوں اگرچہ، پر تیرے حُسن ہی کے باعِث
مذکور فعل میں ہوں، *مفعول تُو لَہُ* ہے
*معطوف* میری گردن، *متبوع* تیرا خنجر
یُوں خُود بَخُود پلٹتا، تلوار پر گُلُو ہے
*اِسمِ مُبالَغہ* ہے، یا اِسم تیرا *تفضیل*
ہاں دونوں ہی بجا ہیں، اس میں کہاں غُلُو ہے
حُسن و جمال تیرا، *صفتِ مُشبّہ* ٹھہرا
سب دائمی غضب کا، انداز رنگ و بُو ہے
سُنتا نہیں مِری اِک، کرتا ہوں سو نِدائیں
کیسا ہے تُو *مُنادٰی*، کیسا تُو چارہ جُو ہے
کہنے کو تُو ہے *مَرجع*، لیتا نہیں خبر بھی
میرا *ضمیر* کرتا، کتنی ہی ہاؤ ہُو ہے
سترہ *حروفِ جارہ*، ستّر ادائیں تیری
کرتی ہیں زیر دونوں، جاتا جو پیش رُو ہے
تیرا وُجود *مَصدَر*، ہر باب تجھ سے قائِم
تیرے بغیر میرا، ہر فِعل فالتو ہے
حافِظؔ جو ہوتا نحوی، *ترکیبِ* زِیست کرتا
زیر و زبر پرکھتا، بس یہ ہی آرزو ہے۔۔
Copied