یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

اگر جاہل لوگوں سے بحث و مباحثہ ہو تو ان کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے ؟




اگر جاہل لوگوں سے بحث و مباحثہ ہو تو ان کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے ؟

سائل : عبداللہ
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
جاہل لوگوں سے بحث ہرگز نہیں کرنی چاہئے بلکہ قرآنی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے یا تو ان سے جھگڑا کرنے سے اعراض کریں یا ان سے ایسی بات کہیں جو درست ہو اور اس میں تکلیف اور گناہ سے محفوظ رہیں۔
چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
*"وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا"*
ترجمہ : اور رحمٰن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام۔
*(پارہ 19 سورۃ الفرقان : 63)*
*"وَاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْن"* کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے :
یہاں یہ بیان ہوا کہ کامل ایمان والے دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں  اور کوئی ناگوار کلمہ یا بے ہودہ یا ادب و تہذیب کے خلاف بات کہتے ہیں تو کہتے ہیں :
*’’بس سلام‘‘*
اس سے مراد مُتارَکَت کا سلام ہے اور معنی یہ ہے کہ جاہلوں  کے ساتھ جھگڑا کرنے سے اِعراض کرتے ہیں یا اس کے یہ معنی ہیں  کہ ایسی بات کہتے ہیں جو درست ہو اور اس میں ایذا اور گناہ سے سالم رہیں۔
*(تفسیر ابو سعود جلد 4 صفحہ 148)*
*جاہلانہ گفتگو کرنے والے سے سلوک :*
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب کسی معاملے میں کوئی جاہل جھگڑا کرنا شروع کرے تو اس سے اعراض کرنے کی کوشش ہی کرنی چاہئے اور اس کی جاہلانہ گفتگو کے جواب میں اگر کوئی بات کریں تو وہ ایسی ہو، جس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو اور وہ اس جاہل کے لئے اَذِیَّت کا باعث بھی نہ ہو، ترغیب اور تربیت کے لئے یہاں ایک واقعہ ملاحظہ ہو. 

چنانچہ حضرت نعمان بن مقرن رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : حضورِ اقدس صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  ایک شخص نے دوسرے شخص کو برا بھلا کہا تو جسے برا بھلا کہا گیا، 
اس نے یہ کہنا شروع کر دیا: 
تم پر سلام ہو۔
اس پر رسولِ کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : 
’’سنو! تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو (اے برا بھلا کہے گئے شخص!) تمہاری طرف سے دفاع کرتا ہے، جب یہ تمہیں برا بھلا کہتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے : نہیں، بلکہ تم ایسے ہو اور تم اس کے زیادہ حق دار ہو، 
اور جب تم اس سے کہتے ہو :
’’تم پر سلام ہو‘‘ 
تو فرشتہ کہتا ہے : 
نہیں، بلکہ تمہارے لئے سلامتی ہو اور تم ا س کے زیادہ حق دار ہو۔
*(مسند امام احمد، حدیث النعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ، جلد 9، صفحہ 191، رقم الحدیث : 23806)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
20/05/2020
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحيح، 
*فقط محمد عطاء الله النعيمي غفرله خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (باكستان) كراتشي*