امیرِاہلسنّت اور فکرِ رضا
*امیرِاہلسنّت اور فکرِ رضا*
از قلم! ابوالایمن حامد رضا مصطفائی عطاری
زیر نظر موضوع "فکر رضا اور امیرِ اہلسنت" پر کچھ لکھنا اگرچہ میری دیرینہ خواہش تھی لیکن ایک طرف موضوع کی وسعت و گہرائی
تو دوسری جانب اپنی کم علمی وکم ہمتی! ایسے میں موضوع کے ساتھ انصاف کر پانا!
ایں خیال است ومحال است. اب چونکہ بعض احباب کی طرف سے بھی اس موضوع پر لکھنے کو کہا گیا بالخصوص میرے ہم درجہ پیارے دوست..........
مولانا سجاد مدنی (فیصل آباد) کا حکم تھا کہ
چھبیس (26) رمضان المبارک
(جو کہ امیرِ اہلسنت کا یومِ ولادت ہے)سے پہلے لکھا جائے ولھذا...... چند باتیں آپ کے سامنے پیش کرنے کی
سعادت حاصل کر رہا ہوں.............
اعلی حضرت امام احمد رضا خاں کی فکر اور تعلیمات کو عام کرنے کی جو تڑپ اور جذبہ
شیخِ شریعت وطریقت،رہنمائےحقیقت ومعرفت،
آفتابِ قادریت، ماہتابِ رضویت، امیرِ اہلسنت مولانامحمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی کی ذات میں موجود ہے
وہ اپنی مثال آپ ہے.
فکر رضا اور تعلیماتِ رضا کی خوشبو سے دنیا بھر کو معطّر کرنا ان کے ہاں اس لیے بھی ضروری ہے کہ فکرِرضا فکرِ مستقیم ہے اور تعلیماتِ رضا در حقیقت تعلیماتِ قرآن وسنت ہیں. امام احمد رضا کی فکر اور سوچ کے بے شمار گوشے اور پہلو جن کو عام کرنے کے لیے امیرِ اہلسنت نے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ وقف کیا ہوا ہے. ان کی تفصیلات بیان کرنے پر میں قطعاً قدرت نہیں رکھتا. تاہم اسلام وسنیت کی ترویج واشاعت اور فروغ کے حوالے سے سیّدی اعلی حضرت امام احمد رضا خاں( علیہ الرحمہ) کی عطا کردہ مختلف تجاویز وتدابیر اور ان پر عملی اقدامات کے لیے
عاشقِ اعلی حضرت، امیرِ اہلسنت کی زبردست اور کامیاب کوشش کی چند مثالیں سینۂ قرطاس پر منتقل کرنے کی سعادت پا رہا ہوں .
امامِ اہلسنت سے حنفیوں کا ایک مجموعی مرکز قائم کرنے اور اسے مضبوط کرنے کی ضرورت ہونے نہ ہونے کے متعلق سوال کیا گیا..........
جواب میں آپ نے فرمایا! خالص اہل سنت کی قوتِ اجتماعی کی ضرور ضرورت ہے. ساتھ ہی آپ نےاس قوتِ اجتماعی کے اجزائے تشکیلی (بنیادی عناصر) بھی بیان فرمائے. چنانچہ ارشاد فرمایا....... اس کے لیے تین چیزوں کی سخت حاجت ہے.(1) علماء کا اتفاق. (2)تحملِ شاق قدر بالطاق( یعنی دین کی راہ میں آنے والی مشکلات کو بقدر طاقت برداشت کرنا)
(3)اُمراء کا اِنفاق لوجہ الخلّاق (یعنی مالداروں کا رضائے الہی کی خاطر خرچ کرنا)
( ملخّص از فتاوی رضویہ جلد29 صفحہ597)
اعلی حضرت نے اپنے زمانے میں ان تینوں چیزوں کے فقدان پر گہرے دکھ درد کا اظہار فرمایا ہے.
البتہ خدادادصلاحیتوں سے آپ (علیہ الرحمہ) نے
مسلکِ اعتدال،مسلکِ اسلاف اہل سنت وجماعت کی تقویت کے لیے تن تنہا وہ کام کر دکھایا کہ ایک ادارہ تو کیا دس ادارے مل کر بھی شاید اتنا کام نہیں کر سکتے.
(ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء)
محترم قارئین.... مذکورہ بالا تینوں چیزیں جن کا اہل سنت کی قوت اجتماعی کے لیے ہونا ضروری ہے اگرچہ ممکن ہیں لیکن انتہائی مشکل ہیں. بات اگر علماء کے اتفاق کی کریں تو بار بار کے انتہائی تلخ تجربات سے ثابت ہے کہ قریب قریب نا ممکن. اسی طرح دوسری اور تیسری چیز کا ہونا بھی فی زمانہ انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے.
آئیے
اب میں آپ کو امیرِ اہل سنت کی چوکھٹ پر لے چلتا ہوں. کہ اس مردِ میداں، دور اندیش، ناصحِ امت شخصیت نے اپنے فہم وتدبّر، حکمت وبصیرت اور ایمانی فراست سے کام لیتے ناممکن نظر آنے والی ان تینوں چیزوں کو نا صرف ممکن بنایا بلکہ مرتبہ وجود میں لا کر اعلی حضرت کے حسین خواب کو شرمندۂ تعبیر کر دکھایا اورخالص اہل سنت کی قوت اجتماعی کا پلیٹ فارم یوں مہیا کیا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز اب آپ کی دعوتِ اسلامی ہے. اتفاقِ علماء کی بات ہو، راہ حق میں مشکلات برداشت کرنے کی بات ہو یا مالداروں کے راہ خدا میں خرچ کرنے کی بات ہو تینوں چیزیں ہی
پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہیں. یقیناً اس کے پیچھے قوتِ اخلاص کے ساتھ ساتھ انتھک محنت موجود ہے.
اس مقام پر پہنچ کر آپ سوچ تو رہے ہوں گے علماء کا اتفاق کیسا؟ تو آئیے جناب اتفاقِ علماء کا حسین نظارہ دیکھنے کے لیے آپ کو دعوتِ اسلامی کے قائم کردہ ایک دو نہیں سینکڑوں جامعات المدینہ (جو وطنِ عزیز پاکستان کے علاوہ دیگر بہت سے ممالک میں بھی ہیں) میں پڑھانے والے سینکڑوں اساتذہ، دارالافتاء اہل سنت میں فتوی نویسی کی صورت میں قرآن وسنت کی خدمت میں مصروف درجنوں متخصّصین و مفتیانِ کرام، المدینۃالعلمیہ میں تصنیف وتالیف، تحقیق وتدقیق میں مستغرق بیسیوں محققین،اور دیگر مختلف شعبہ جات میں خدمتِ دین متین میں مگن بے شمار علماء کرام کی زیارت کرنا ہو گی جن کی مجموعی تعداد اب سال بسال ہونے والے خوبصورت اضافے کے ساتھ ہزاروں تک پہنچ رہی ہے. اتحاد واتفاق کا یہ عالَم کہ سب کے سب ایک ہی فکر و سوچ کے تابعدار و پیروکار اور وہ فکر ہے فکرِ رضا. اور اس مدنی تحریک سے وابستہ تمام افراد تعلیماتِ رضا کے ہی داعی ومبلّغ ہیں. یہاں آپ امیرِ اہل سنت کو جس قدر خراجِ تحسین پیش کریں کم ہے اتفاقِ علماء جیسا انتہائی مشکل معاملہ بنیادی سطح سے شروع کر کے رفتہ رفتہ ایک ایسی جان دار اور بقدرِ طاقت مشکلات کا سامنا کرنے والی نوجوان اور باکردار علماء کی خوبصورت فصل تیار کی جو اب ایسا لذیذ پھل دے رہی ہے کہ بس سبحان اللہ، ماشاء اللہ........
مسلکِ اعلی حضرت پر مضبوطی سے گامزن رہنے کی ہی برکت ہے آج ہمیں دعوتِ اسلامی کی صورت میں اھل اسلام کی ایک اجتماعی قوت دیکھنا نصیب ہو رہی ہے. خالص اھل سنت کی قوتِ اجتماعی کے لیے درکار دوسری چیز جو اعلی حضرت نے بیان فرمائی وہ ہے تحمل شاق بالطاق( یعنی بقدر طاقت مشکلات برداشت کرنا) پھر اپنے زمانے کے علماء کا حال بیان کرتے ہوے آپ فرماتے ہیں! علماء کی یہ حالت ہے کہ رئیسوں سے بڑھ کر آرام طلب ہیں حمایتِ مذھب کے نام سے گھبراتے ہیں جو بندۂ خدا اپنی جان اس پر وقف کرےاسے احمق بلکہ مفسِد سمجھتے ہیں. زیر بحث نکتے کے تناظر میں ذرا امیرِ اھل سنت کی زندگی پر سرسری نہیں گہری نظر ڈالیں آپ کو اندازہ ہو گا کہ پوری زندگی راہ حق میں آنے والے مصائب وآلام اور مشکلات کا سامنا بڑے تحمل، بردباری اور حوصلے کے ساتھ کیا. کانٹے بچھانے والوں کو پھول پیش کیے پان تھوکنے والوں کے آگے جھولی پھیلا دی. بے علم ہونے کا الزام لگانے والوں سے الجھ کر اسلام و سنیت کا نقصان کرنے کی بجائے چند ہی برسوں میں اپنے حسن تدبیر سے اورحسنِ تدبیر سے بڑھ کر اپنے حسنِ نظر سے سینکڑوں اہل علم و فن تیار کر کے نہ صرف ان کے الزام کو دور کیا بلکہ اپنے علم دوست ہونے کاثبوت بھی فراہم کیا ہر امتحان میں سرخرو ہونے کا فن اور ہر اعتراض کا جواب صرف مدنی کام کی صورت میں دینے کا ہنر تو جیسے گھٹی میں پلایا گیا ہو اِحیائے سنّت کا بے پناہ جذبہ رکھنے والا سنت سے محبت کا درس دینے والا راہِ خدا میں آنے والی مشکلات کا ہنستے مسکراتے مقابلہ کرنے والا سنتِ رسول کا زبانی نہیں عملی نمونہ پیش کرنے کا سلیقہ بھی کیا خوب جانتا ہے. مدینے والے آقا (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مدنی کام کرنے کی دھن ایسی کہ دیکھ کر....... مدینہ، مدینہ کیجیے
چلیں آئیں اب آپ کے سامنےاھل سنت کی اجتماعی قوت کے لیے اعلی حضرت کی بیان کردہ تیسری ضروری چیز (امراء کا انفاق لوجہ الخلّاق) پر امیرِ اہل سنت کے عملی اقدامات کی جھلک پیش کرتے ہیں
دعوتِ اسلامی کے سو سے زائد شعبہ جات کے صرف ماہانہ اخراجات لاکھوں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں میں ہیں.
جملہ اخراجات کی تفصیل جاننے کے لیے
4 رمضان المبارک1439 کو مدنی چینل کے سلسلہ انوارِسحری میں ہونے والا رکنِ شوری مولانا عبدالحبیب عطاری کا بیان سماعت کریں. آپ حیرت کے سمندر میں نہ ڈوب گئے تو بات کرنا. جس زمانے میں چندہ جمع کر کےفقط ایک ادارہ چلانا بھی جوئے شِیر لانے کے مترادف ہو. اس دور میں سو سے زائد شعبہ جات چلانا وہ بھی بحسن وخوبی ایسی کرامت ہے جس پر ہزار کرامتیں قربان
فضولیات ولغویات اور حرام کاموں میں مال برباد کرنے والوں کو راہ حق میں نہ صرف مال بلکہ جان ومال اوراولاد خرچ کرنے کا شعور بخش دینا اگر کسی کے ہاں معمولی بات ہے تو مجھے اس کے ذھنی اعتبار سےصحت مند ہونے پر شک ھے...... محترم قارئین! ابتدائے تحریر میں خیال تھا فتاوی رضویہ جلد انتیس (29) صفحہ599 پر تحریر شدہ
وہ دس تجاویز وتدابیر جو لامذھبوں اور بدمذھبوں کے خلافِ اسلام حملوں کی مدافعت اور فروغِ اسلام وسنیت کے لیے سیدی اعلی حضرت نے بیان فرمائی ہیں ذکر کروں گا مگر آہ..........بخوفِ طوالت ایسا نہ ہو سکا لھذا ممکنہ صورت میں آپ ان تجاویز کا از خود مطالعہ کریں اور پھر اسی تناظر میں امیرِ اہل سنت کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت قائم کردہ ایک سوسے زائد شعبہ جات کا جائزہ لیں یہ جان کر یقیناً آپ کے سینے میں ٹھنڈ پڑ جائے گی کہ اعلی حضرت کی بیان کردہ تجاویز پر زبر دست عملی اقدامات کرنے کے حوالے سے امیرِ اھلسنت کا نام سرِ فہرست ہے ............... بانئ دعوت اسلامی امیرِ اہل سنت کی مدنی کاوششوں کے بارےمیں اب تک جو کچھ عرض کیا گیا اس کو سمندر سے ایک قطرہ سمجھنا چاھیے . دعوتِ اسلامی ایک ایسی کھلی ہوئی کتاب ہے جس کو پڑھنا اورسمجھنا کوئی مشکل نہیں. آئیں اور سنّت کا فیض پائیں.
اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں
اے دعوت اسلامی تیری دھوم مچی ہو