یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

نماز کے دوران ہاتھوں کو چادر میں چھپانا کیسا ہے ؟




نماز کے دوران ہاتھوں کو چادر میں چھپانا کیسا ہے ؟


سائلہ : مدنیہ عطاریہ پنجاب پاکستان 
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
نماز میں اس طرح ہاتھوں کو چادر کے نیچے چھپانا کہ ان کو بآسانی باہر نکالا جا سکتا ہو تو یہ بغیر کسی کراہت کے جائز ہے اور اگر اس طرح کپڑا لپیٹ کر ہاتھوں کو چادر کے اندر چھپا لیا کہ بآسانی ہاتھ باہر نہ نکل سکتے ہوں تو یہ مکروہِ تنزیہی اور شرعاً ناپسندیدہ ہے بلکہ نماز کے علاوہ بھی اس سے بچنا چاہیے کیونکہ اس سے دشمن سے بچاؤ مشکل ہوتا ہے اور نماز میں ہاتھ چھپانے کی جس صورت کو بعض فقہاءکرام رحمۃ اللہ علیھم نے جیسے عمدۃ المحققین علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ اور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے مکروہِ تحریمی قرار دیا ہے، وہ ایک خاص صورت پر محمول ہے اور وہ صورت اشتمالِ صَمَّاء کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک کپڑے کو جسم پر تہبند باندھے بغیر اس طرح لپیٹ لینا کہ جس سے ہاتھ بآسانی باہر نہ نکل سکتے ہوں 
یہ وہ صورت ہے جس سے حدیثِ مبارکہ میں منع کیا گیا ہے اور اس کو یہودیوں کا طریقہ قرار دیا گیا ہے مگر اس خاص صورت کے مکروہِ تحریمی ہونے کا سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے رد فرمایا ہے، لہٰذا یہ خاص صورت مکروہِ تنزیہی اور شرعاً ناپسندیدہ ہوگی.
چنانچہ نورالایضاح مع مراقی الفلاح میں ہے :
*(اندراج فیہ) ای الثوب (بحیث لا) یدع منفذا (یخرج یدیہ) ای منہ و ھی الاشتمالۃ الصماء، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :*

*"اذا کان لاحدکم ثوبان فلیصل فیھما فان لم یکن لہ الا ثوب فلیتزر بہ و لایشتمل اشتمالۃ الیھود"* 
یعنی کپڑے میں داخل ہونا اس حیثیت سے کہ وہ کوئی جگہ نہ چھوڑے جس سے وہ اپنے ہاتھوں کو باہر نکال سکے اور یہی اشتمال صمّاء ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم فرماتے ہیں :
"جب تم میں سے کسی ایک کے پاس دو کپڑے ہوں تو وہ ان میں نماز ادا کرے پس اگر کسی کے لیے صرف ایک کپڑا ہو تو وہ اس کا تہبند بنا لے اور اشتمالِ یہود اختیار نہ کرے۔
*(نورالایضاح مع مراقی الفلاح، صفحہ 180، مکتبۃ المدینہ کراچی)*
عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین شامی دمشقی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"(یکرہ اشتمال الصماء) لنھیہ علیہ الصلوۃ و السلام عنھا و ھی ان یاخذ بثوبہ فیخللَ بہ جسدہ کلہ من رأسہ الی قدمہ و لایرفع جانبا یخرج یدہ منہ سمی بہ لعدم منفذ یخرج منہ یدہ کالصخرۃ الصماء و قیل ان یشتمل بثوب واحد لیس علیہ ازار و ھو اشتمال الیھود. زیلعی. و ظاھر التعلیل بالنھی ان الکراھۃ تحریمیۃ کما مر فی نظائرہ"* 
یعنی اشتمال صماء مکروہ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور اشتمال صماء یہ ہے کہ وہ ایک کپڑے کو لے پس اس کے ساتھ اپنے پورے جسم کو سر سے پاؤں تک لپیٹ لے اور کوئی ایسی جانب نہ چھوڑے کہ جس سے اس کا ہاتھ باہر نکل سکے. اس کو اشتمال صماء اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ کوئی ایسی جگہ باقی نہیں رہتی جس سے اس کا ہاتھ باہر نکل سکے جیسے سخت چٹان ہوتی ہے اور بعض علما نے کہا کہ اشتمال صماء یہ ہے کہ وہ ایک کپڑے کے ساتھ اشتمال کرے یعنی اس کو لپیٹ لے جس میں تہبند نہ ہو اور یہی یہود کا اشتمال ہے (زیلعی) نہی کے ساتھ علت بیان کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ مکروہِ تحریمی ہے جیسا کہ اس کے نظائر میں گزر چکا. 
*(ردالمحتار علی الدر المختار جلد 2 صفحہ 511 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ )*
سیدی اعلحضرت امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ ردالمحتار کی عبارت وظاھر التعلیل...... الخ کے تحت جدالممتار میں فرماتے ہیں :
*اقول : "الظاھر ان النھی ارشادی حذرا عن عدو من الانسان او الحیوان فلایفید التحریم"*
یعنی میں (امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ ) کہتا ہوں کہ بیشک نہی انسان یا حیوان میں سے دشمنوں سے بچانے کے لئے ارشادی ہے پس یہ مکروہِ تحریمی کا فائدہ نہ دے گی. 
*(جدالممتار علی ردالمحتار، المجلد الثالث، صفحہ 418، مکتبہ المدینہ کراچی)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم 
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
05/03/2019
03068209672
*الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد عطاء الله النعيمي غفرله خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت  اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*