یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

لیکوریا کے بعض مسائل




سوالات:
1- لیکوریا پاک ہے یا ناپاک ؟
2- کیا لیکوریا سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟ 
3- جس کو مسلسل لیکوریا جاری ہو اس کی نمازوں اور کپڑوں کی پاکی کا کیا حکم ہو گا ؟

*جواب:*
طبی تحقیق اور ریسرچ کے مطابق عموماً عورتوں کو دو طرح کا لیکوریا آتا ہے :
1- لیکوریا کا پانی بالکل سفید پتلا اور بے بو ہوتا ہے.
اس قسم کا لیکوریا پاک ہے, اس سے نا تو وضو ٹوٹتا ہے اور نہ ہی جسم اور کپڑے ناپاک ہوتے ہیں اور اس طرح کے لیکوریا کے مسلسل جاری رہنے سے نمازوں اور کپڑوں کی پاکی کا کوئی مسئلہ نہیں بنے گا کیونکہ یہ وہ رطوبت ہے جو طبعی طور پر پیدا ہوتی ہے جو پاک ہے اور  اس میں کوئی ناپاک چیز (مثلاً خون , پیپ ,منی ,مذی وغیرہ) شامل نہیں ہوتی جیسے انسان کے منہ سے تھوک طبعی طور پر پیدا ہوتی ہے اور پاک ہوتی ہے
2- لیکوریا کا پانی گاڑھا, بدبودار اور سفید یا گاڑھا مٹیالا یا گاڑھا پیلا ہوتا ہے. 
 اس قسم کے لیکوریا کو احتیاطاً ناپاک اور وضو  توڑنے والا قرار دیا جائے گا, اور کپڑوں اور جسم پر لگنے سے کپڑے اور جسم دونوں ناپاک ہو جائیں گے.
کیونکہ یہ انفیکشن کی وجہ سے سے بدبودار  اور گاڑھا ہوتا ہے تو اس میں اس بات کا احتمال اور ظن موجود ہے کہ اس میں انفیکشن کی وجہ سے زخم کا خون یا پیپ یا پانی وغیرہ اس لیکوریا کے ساتھ مل گیا ہو اور اس قسم کے لیکوریا کا بدبودار, گاڑھا, مٹیالا اور پیلا وغیرہ ہونا اس بات کے احتمال و گمان کیلئے کافی ہے کہ اس میں زخم کا خون یا پیپ یا پانی وغیرہ شامل ہوگیا ہوگا, جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں درج کی گئی فقہی کتب کی عبارات سے واضح ہو جائے گا. 
لہذا اس قسم کے لیکوریا کو احتیاطی طور پر ناپاک قرار دیا جائے گا اور وضو ٹوٹنے کا حکم دیا جائے گا, 

جس طرح کسی بیماری اور انفیکشن کی وجہ سے آنکھ سے پانی نکلے تو فقہاء کرام علیہم الرحمہ نے اسے ناپاک اور وضو توڑنے والا قرار دیا ہے.
دوسری قسم کا بدبودار لیکوریا چونکہ ناپاک ہے، لہذا اگر کپڑے پر لگ جائے  تو کپڑے کے اس حصہ کو پاک کرنا ضروری ہوگا، اگر اس کی مقدار ایک درہم سے زیادہ ہے تو کپڑے کو پاک کرنا فرض ہے اگر کپڑے کو پاک کیے بغیر اس میں نماز ادا کرلی تو  اس میں نماز درست نہیں ہوگی، اور اگر اس لیکوریا کی مقدار ایک درہم کے برابر ہے تو اس کو پاک کرنا واجب ہے اگر پاک کیے بغیر نماز ادا کر لی تو نماز واجبُ الاعادہ ہو گی اور اگر ایک درہم سے کم ہے تو کپڑا دھونا سنت ہے اگر بغیر دھوئے نماز ادا کر لی تو نماز ہوجائے گی لیکن خلافِ سنت اور مکروہِ تنزیہی ہوگی۔
تاہم  اگر یہ دوسری قسم والا لیکوریا کسی کو اتنا زیادہ ہو کہ کسی نماز کے مکمل وقت میں اسے اتنا وقفہ بھی نہ ملے جس میں وہ وضو کرکے پاکی کی حالت میں  اس وقت کی فرض نماز ادا کرسکے تو وہ معذور کے حکم میں ہوگی، اور معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر نماز کے وقت میں ایک مرتبہ وضو کرلے اور پھر اس وضو سے  جتنی چاہے نمازیں پڑھے ، اگر وضو کے بعد  لیکوریا  کی رطوبت کے  علاوہ کوئی اور وضو توڑنے والی چیز پائی گئی تو دوبارہ وضو کرے ورنہ دوبارہ  وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
باقی  کپڑا پاک کرنے کے حکم میں یہ تفصیل  ہے کہ اگر اتنا وقفہ ملتا ہو کہ کپڑا دھو کر نماز پڑھے تو نماز کے درمیان میں وہ دوبارہ ناپاک نہ ہوتا ہو تب تو اس کے ذمے دھونا واجب ہی ہوگا ، اور اگر یہ حالت ہو کہ کپڑا دھو کر نماز پڑھنے کے درمیان وہ پھر ناپاک ہوجاتا ہو تو دھونا واجب نہیں ہوگا۔
چنانچہ درمختار میں ہے :
*"رطوبۃ الفرج طاھرۃ خلافا لھما"*
یعنی فرج کی رطوبت پاک ہے صاحبین علیھما الرحمہ کے برخلاف. 
اسی کے تحت ردالمحتار میں ہے :
*"(رطوبۃ الفرج طاھرۃ) ولذا نقل فی "التاترخانیہ" ان رطوبۃ الولد عند الولادۃ طاھرۃ وکذا السخلۃ اذا خرجت من امھا وکذا البیضۃ فلا یتنجس بھا الثوب ولا الماء اذا وقعت فیہ لکن یکرہ التوضئ بہ للاختلاف و کذا الانفخۃ ھو المختار وعندھما یتنجس وھو الاحتیاط.*
*قلت وھذا اذا لم یکن معہ دم ولم یخالط رطوبۃ الفرج مذی او منی  من الرجل او المرأۃ"*

یعنی ( فرج کی رطوبت پاک ہے) اسی لیے تاترخانیہ میں نقل کیا گیا کہ ولادت کے وقت بچے (کے جسم پر شرمگاہ) کی رطوبت پاک ہے اور ایسے ہی بکری یا گائے کا بچہ, جب وہ اپنے ماں (کے شکم) سے باہر آئے (پاک ہے) اور ایسے ہی انڈہ, پس ان کے (مثلا گود میں اٹھا لینے کے) سبب سے کپڑا ناپاک نہیں ہوگا اور جب (ان میں سے) کوئی پانی میں گر پڑے تو پانی نجس نہیں ہوگا لیکن اختلاف کی وجہ سے اس پانی سے وضوء کرنا مکروہ ہے اور یہی حکم انفخہ کا ہے اور یہی مسلک مختار ہے (انفخہ بکری کا جو بچہ ابھی صرف دودھ پیتا ہو اس کے پیٹ سے دودھ جیسی ایک چیز نکالتے ہیں اور کپڑے میں لت پت کر لیتے ہیں پھر وہ پتھر کی مانند گاڑھا ہو جاتا ہے عوام اس کو مجتبنہ کہتے ہیں) اور صاحبان کے نزدیک (کپڑا اور پانی) ناپاک ہوجائے گا اور یہ محتاط مذہب ہے
میں (علامہ شامی علیہ الرحمۃ) کہتا ہوں اور یہ اس وقت ہے جب اس (رطوبت) کے ساتھ  خون نہ ہو اور نہ فرج کی رطوبت کے ساتھ مذی ملے یا مرد یا عورت کی منی (بھی نہ ملے).
*(درمختار مع ردالمحتار جلد اول صفحہ 621 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
تنویر الابصار مع درمختار میں ہے :
*"(و) ینقضہ (دم) من جوف او فم (غلب علی بزاق) حکماً للغالب (او ساواہ) احتیاطاً"* 
یعنی اور وضو کو توڑ دیتا ہے پیٹ کا یا منہ کا (پتلا) خون جو تھوک پر غالب آجائے غالب کے حکم کی وجہ سے یا (خون) تھوک کے برابر ہو تب بھی احتیاطاً (وضو کو توڑ دے گا).
عمدۃ المحققین محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین دمشقی شامی رحمۃ اللہ علیہ *"احتیاطا"* کے تحت تحریر فرماتے ہیں :
*"قولہ (احتیاطاً) ای : لاحتمال السیلان وعدمہ فرجع الوجود احتیاطا بخلاف مااذا شک فی الحدث لانہ لم یوجد الا مجرد الشک ولا عبرۃ لہ مع الیقین"* 
یعنی علامہ حصکفی علیہ الرحمہ کا قول *"احتیاطا"*ً  یعنی سیلان اور عدمِ سیلان کے احتمال کی وجہ سے (سیلان ک) وجود کو احتیاطاً ترجیح دی گئی ہے بخلاف اس کے کہ جب 
حدث میں شک ہو کیونکہ صرف شک ہی پایا گیا اور شک کا یقین کے ساتھ کوئی اعتبار نہیں ہوتا.
*(ردالمحتار علی درمختار جلد اول صفحہ 291' 292 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں :
*"ان رطوبۃ الرحم ایضاً طاھرۃ عند الامام وان الفرج فی قولھم رطوبۃ الفرج طاھرۃ عندہ بالمعنی الشامل للفرج الخارج والفرج الداخل والرحم وان مایُری من بعض الفروع القاضیۃ بنجاسۃ رطوبۃ الرحم فانھا تتفرع علی قولھما بنجاسۃ رطوبۃ الفرج والفروع القاضیۃ بطھارۃ رطوبۃ الرحم ماشیۃ علی قولہ"*
یعنی بیشک رحم کی رطوبت بھی امام اعظم رحمۃ اللہ تعالی کے نزدیک پاک ہے فقہاء کے قول رطوبۃ الفرج طاھرۃ عندہ میں جو فرج ہے وہ اس معنی کے ساتھ  ہے جو فرجِ خارج, فرجِ داخل اور رحم کو شامل ہے اور بے شک بعض فروع جن میں رحم کی رطوبت کے ناپاک ہونے کا حکم لگایا گیا وہ فروع صاحبین کے قول "فرج کی رطوبت کی نجاست" کے ساتھ متفرع ہوتی ہیں اور وہ فروع جن میں رحم کی رطوبت کی پاکی کا حکم لگایا گیا وہ فروع امام اعظم علیہ الرحمہ کے قول پر جاری ہوتی ہیں.
*(جدالممتار علی ردالمحتار جلد اول صفحہ 407 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
ایک اور مقام پر *"جدالممتار"* میں تحریر فرماتے ہیں :
*"وبہ یظھر حکم ما اذا خرجت من فرج المرأۃ الخارج او الیہ رطوبۃ فرجھا الداخل فانھا طاھرۃ عند الامام رضی اللہ عنہ فلا ینقض وضوئھا وان سالت "*
یعنی اور اس کے ساتھ اس (رطوبت کا) حکم ظاہر ہوگیا جب وہ (رطوبت) عورت کی فرجِ خارج سے نکلے یا فرجِ خارج تک عورت کی فرجِ داخل کی رطوبت پہنچے پس بیشک وہ رطوبت امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک پاک ہے پس عورت کا وضو نہیں ٹوٹے گا اگرچہ وہ رطوبت بہہ پڑے.
*(جدالممتار علی ردالمحتار جلد اول صفحہ 406 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
عمدۃ المحققین محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین دمشقی شامی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"اذا کان فی عینہ رمد و تسیل الدموع منھا امرہ بالوضوء لوقت کل صلوۃ لانی اخاف ان یکون مایسیل منھا صدیدا فیکون صاحب العذر"*
یعنی جب آشوبِ چشم ہو اور اس سے آنسو بہہ رہے ہوں تو اس کو ہر نماز کے وقت کے لئے وضو کا حکم دیا جائے گا اس لیے کہ مجھے خدشہ ہے کہ آنکھوں سے بہنے والا یہ پانی (زخم کا پانی ہو پس وہ صاحبِ عذر قرار پائے گا.
*(ردالمحتار علی درمختار, جلد اول, نواقض وضو, )*
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ *"فتاویٰ رضویہ"* میں تحریر فرماتے ہیں :
بالجملہ مجرد رطوبت کہ مرض سے سائل ہو مطلقاً فی نفسہا ہرگز ناقض نہیں بلکہ احتمال خون و ریم کے سبب.
ولہذا امام ابن الہمام (رضی اللہُ عنہ) کی رائے اس طرف گئی کہ مسائل مذکورہ میں امام محمد (رضی اللہُ عنہ) کا حکمِ وضو استحبابی ہے اسلئے کہ خون وغیرہ ہونا محتمل ہے اور احتمال سے وضو نہیں جاتا مگر یہ کہ خبرِ اطباء یا علامات سے ظنِ غالب ہو کہ یہ خون یا ریم ہے تو ضرور وجوب ہوگا۔
فتح میں قبیل فصل فی النفاس فرمایا:
*"فی عینہ رمد یسیل دمعھا یؤمر بالوضوء لکل وقت لاحتمال کونہ صدیدا و اقول ھذا التعلیل یقتضی انہ امر استحباب فان الشک و الاحتمال فی کونہ ناقضا لا یوجب الحکم بالنقض اذا لیقین لایزول بالشک واللہ اعلم نعم اذا علم من طریق غلبۃ الظن باخبار الاطباء او علامات تغلب ظن المبتلی یجب"*
ایسا آشوبِ چشم ہو کہ برابر آنسو بہتا رہتا ہو تو ہر وقت کے لئے وضو کا حکم ہو گا اس لئے کہ صدید (زخم کا پانی) ہونے کا احتمال ہے، میں کہتا ہوں اس تعلیل کا تقاضا یہ ہے کہ یہ حکم استحبابی ہو اس لئے کہ اس کے ناقض ہونے میں شک و احتمال حکمِ نقض کا موجب نہیں اس لئے کہ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا. 
واللہ تعالی اعلم 
ہاں وجوب اس وقت ہو گا جب غلبہ ظن کے طور پر علم ہو جائے اطبا ء کے بتانے یا ایسی علامات کے ذریعہ جن سے مبتلا کو غلبہ ظن حاصل ہو ۔ (ت)
اسی طرف ان کے تلمیذ ارشد امام ابن امیر الحاج نے میل کیا اور اس کی تائید میں فرمایا :
*"یشھد لھذا ما فی شرح الزاھدی عقب ھذہ المسئلۃ و عن ھشام فی جامعہ ان کان قیحا فکالمستحاضۃ و الا فکالصحیح"*
اس پر شاہد وہ ہے جو شرح زاہدی میں ا س مسئلہ کے بعد ہے اور ہشام سے ان کی جامع میں روایت ہے کہ اگر پیپ ہو تو مستحاضہ کی طرح ورنہ تندرست کی طرح ہے ۔ (ت)
یونہی محققِ بحر نے بحر الرائق میں کلامِ فتح باب وضو میں بلا عز و ذکر کیا اور مقرر رکھا اور باب الحیض میں *"ھو حسن"* فرمایا, اور تحقیق یہی ہے کہ حکمِ استحبابی نہیں بلکہ بوجہ احتیاط ایجابی ہے ، مشائخ مذہب سے تصریحِ وجوب منقول ہے, خود فتح القدیر فصل نواقض الوضوء میں فرمایا :
*"ثم الجرح و النفطۃ و ماء الثدی و السرۃ و الاذن اذا کان لعلۃ سواء علی الاصح و علی ھذا قالوا من رمدت عینہ و سال الماء منھا وجب علیہ الوضوء فان استمر فلوقت کل صلاۃ و فی التجنیس الغرب فی العین اذا سال منہ ماء نقض لانہ کالجرح و لیس بدمع الخ۔"*
پھر زخم و آبلہ اور پستان ، ناف اور کان کا پانی جب کسی بیماری کی وجہ سے ہو تو بر قولِ اصح سب برابر ہیں ، 
اسی بنیاد پر علماء نے فرمایا : 
جسے آشوبِ چشم ہو اور آنکھ سے پانی بہے تو اس پر وضو واجب ہے اگر برابر بہے تو ہر نماز کے وقت کے لئے واجب ہے 
اور تجنیس میں ہے :
 آنکھ کی پھنسی سے جب پانی بہے تو وضو جاتا رہے گا اس لئے کہ وہ زخم کی طرح ہے آنسو نہیں ہے ۔ الخ(ت)
اور تقریر محقق علی الاطلاق کا جواب ان عباراتِ جلیلہ سے واضح, جو ابھی خلاصہ و بزازیہ سے منقول ہوئیں کہ جس طرح احتلام یاد ہو نے کی حالت میں صریح مذی کے دیکھنے سے بھی غسل بالاجماع واجب ہے حالانکہ مذی سے بالاجماع غسل واجب نہیں مگر احتیاطاً حکم وجوب ہوا ۔
خود محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں نقل فرمایا:
*"النوم مظنۃ الاحتلام فیحال بہ علیہ ثم یحتمل انہ کان منیا فرق بواسطۃ الھواء"*
نیند گمانِ احتلام کی جگہ ہے تو اس تری کو اس کے حوالہ کیا جائے گا پھر یہ احتمال بھی ہے کہ وہ منی تھی جو ہوا کی وجہ سے رقیق ہو گئی۔(ت)
اسی طرح یہاں وجودِ مرضِ مظنہ خروجِ خون و ریم ہے تو امر عبادات میں احتیاطاً حکمِ وجوب ہوا ۔
منحۃ الخالق میں ہے :
*"قولہ وھذا التعلیل یقتضی انہ امر استحباب الخ ردہ فی النھر بان الامر للو جوب حقیقۃ و ھذا الاحتمال راجح و بان فی فتح القدیر صرح بالوجوب و کذا فی المجتبی قال یجب علیہ الوضوء و الناس عنہ غافلون اھ مافی المنحۃ۔"*
قول محقق *''اس تعلیل کا تقاضا یہ ہے کہ یہ حکم استحبابی ہو''* اسے نہر میں یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ امر حقیقۃً وجوب کے لئے ہے اور یہ احتمال راجح ہے اور یہ کہ خود فتح القدیر میں وجوب کی تصریح ہے اسی طرح مجتبی میں ہے کہ اس پر وضو واجب ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں اھ منحہ کی عبارت ختم ہوئی۔ (ت)
*اقول:*
 *"والاولی ان یقول ان الوجوب منصوص علیہ کما نقلہ فی فتح القدیر و ذلک لما علمت ان المحقق انما نقلہ فی النواقض بلفظۃ قالوا و بحث بنفسہ فی الحیض ان لا وجوب ما لم یغلب علی الظن بامارۃ او اخبار طبیب۔"*
*اقول:* اولی یہ کہنا ہے کہ وجوب پر نص موجود ہے جیسا کہ اسے فتح القدیر میں نقل کیا ہے اس لئے کہ ناظر کو معلوم ہے کہ حضرت محقق نے تصریحِ وجوب بلفظ قالوا ( مشائخ نے فرمایا ) نقل کی ہے اور بابِ حیض میں خود بحث کی ہے کہ جب تک کسی علامت یا طبیب کے بتانے سے غلبہ ظن نہ حاصل ہو ، وجوب نہیں ۔ (ت)
اخیر میں صاحب بحر نے بھی کلام فتح پر استدراک فرما کر مان لیا کہ یہ حکم وجوب کے لئے ہے ۔ 
باب الحیض میں فرمایا: 
*"و ھو حسن لکن صرح فی السراج الوھاج بانہ صاحب عذر فکان الامر للایجاب۔"*
یہ بحث اچھی ہے لیکن سراج وہاج میں تصریح ہے کہ وہ صاحبِ عذر ہے تو امر برائے ایجاب ہے۔ (ت)
غرض فریقین تسلیم کئے ہوئے ہیں کہ مدار اس رطوبت کے خون و ریم ہونے پر ہے قولِ تحقیق میں احتیاطاً احتمالِ دم پر ایجاب کیا اور خیالِ محقق و تلمیذِ محقق میں جب تک دم کا غلبہ ظن نہ ہو استحباب رہا ۔
ولہذا اشکِ رمد میں محقق ابنِ امیرِ الحاج نے بحثاً یہ قید بڑھائی کہ اس کا رنگ متغیر ہو جس سے احتمالِ خون ظاہر ہو ۔
حلیہ میں فرمایا :
*"وعلی ھذا فما فیہ (ای فی المجتبی) ان من رمدت عینہ فسال منھا ماء بسبب رمد ینتقض وضوئہ انتھی ینبغی ان یحمل علی ما اذا کان الماء الخارج من العین متغیر بسبب ذلک اھ مختصرا۔"*
اس بنیاد پر کلام مجتبی *''جس کی آنکھ میں آشوب ہو اور اس کی وجہ سے آنکھ سے پانی بہے تو وضو جاتا رہے گا ''* انتہی۔ اس صورت پر محمول ہونا چاہئے جب آنکھ سے نکلنے والا پانی اس کی وجہ سے بدلاا ہوا ہو ۔ اھ مختصرا (ت)
*(فتاوی رضویہ جلد اول صفحہ 359 تا 362 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"عورت کے پیشاب کے مقام سے جو رطوبت نکلے پاک ہے کپڑے یا بدن میں لگے تو دھونا کچھ ضرور نہیں, ہاں بہتر ہے". 
*(بہارِ شریعت جلد اول حصہ دوم صفحہ 395 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں :
"عورت کے آگے سے جو خالص رطوبت بے آمیزش خون نکلتی ہے ناقضِ وضو نہیں, اگر کپڑے میں لگ جائے تو کپڑا پاک ہے ".
*(بہارِ شریعت جلد اول حصہ دوم صفحہ 304 مکتبۃ المدینہہاآا کراچی)*
عمدۃ المحققین محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین دمشقی شامی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"'وإن سال علی ثوبه فوق الدرهم جاز له أن لا یغسله إن کان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها، أی الصلاة، وإلا یتنجس قبل فراغه، فلا یجوز ترک غسله، هو المختار للفتویٰ'۔"*
یعنی اور اگر وہ (ناپاکی وغیرہ) اس کے کپڑے پر درہم سے زائد بہے تو اس کے لئے اسے نہ دھونا جائز ہے اگر وہ اسے دھوئے گا تو نماز سے فارغ ہونے سے پہلے پہلے کپڑا نجس ہو جائے گا, اور اگر اس کے فارغ ہونے سے پہلے کپڑا نجس نہ ہو تو اس کے دھونے کو ترک کرنا جائز نہیں یہی فتوی کے لیے مختار ہے.
*(ردالمحتار علی درمختار جلد اول)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم 
کتبہ
*ابواُسَیْدعبیدرضامدنی*
03/07/2019
03068209672

*علماءِ کرام و مفتیانِ عظام کی تصدیقات:*

1- الجواب صحیح والمجیب نجیح 
*وھذہ الفتویٰ من ذکاوة المفتی و واجب العمل لمن استفتاھا و لکل من طالعھا و ھذہ قرة اعین طلاب الفقہ الحنفی۔*
*اللھم زد فزد ثم زد۔*
آمین بجاہ طہٰ و یٰسین صلی اللہ علیہ وسلم۔
*ابوالحسنین مفتی محمد عارف محمود خان معطر القادری*

2- الجواب صحيح والمجيب نجيح 
*فقط محمد عطاء الله النعيمي غفرله خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*

3- الجواب صحيح ؛
*عبدہ محمد جنید القادری المفتی بدارالافتاء النور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*

4- الجواب صحیح
*ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اختر المدنی*
*رئیس دارالافتاء فیضانِ شریعت, تین ہٹی کراچی*

5- الجواب صحیح 
*مفتی ابوالحسن محمد قاسم ضیاء القادری*