محافلِ میلاد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم
*محافلِ میلاد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم*
*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*
یقیناً اللہ پاک کے آخری نبی ، نبیِّ مُکَرَّم ، محمدِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جہاں میں تشریف نہ لاتے تو کوئی عید ، عید ہوتی ، نہ کوئی رات ، شبِ بَراءَت یعنی چھٹکارے کی رات ہوتی۔ بلکہ کون و مکاں کی تمام تَر رونق اور شان نبیِّ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قدموں کی دُھول کا صَدقہ ہے۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں
عاشقانِ رسول اپنی حیثیت کے مطابق محافلِ میلاد سجاتے اور اللہ کریم کی رحمتوں سے حصہ پاتے ہیں۔
*رحمتِ الٰہی کے اَنوار*
حضرت شاہ وَلِیُّ اللہ مُحَدِّث دِہْلَوِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں ایک مرتبہ اُس محفلِ میلاد میں حاضر ہوا ، جو مکے شریف میں رَبِیْعُ الاَوَّل کی بارہویں تاریخ کو مَوْلِدُ النَّبِی (یعنی سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ولادت گاہ) میں ہوئی تھی ، جس وقت ولادت کا ذِکْر پڑھا جا رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ اچانک اُس محفل سے کچھ انوار بلند ہوئے ، میں نے اُن انوار پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ رحمتِ الٰہی اور اُن فرشتوں کے اَنوار تھے جو ایسی محفلوں میں حاضر ہوا کرتے ہیں۔
(📗سیرتِ مصطفٰے ، ص ۷۲ ، ۷۳)
عیدِ میلادُ النبی کی محفل میں ربِّ کریم کی رحمتیں اُترتی ہیں ، اَنوارِ الٰہی چھما چھم برستے ہیں ، رَحمت کے فرشتے میلاد شریف کی محفلوں میں شریک ہوتے اور میلاد منانے والوں کو اپنے نورانی پَروں سے ڈھانپ لیتے ہیں۔ میلاد شریف منانے والوں سے ربِّ کریم خوش ہوتا ہے اور اُن پر اپنے انعامات و اِکرامات کی بارشیں بھی فرماتا ہے۔ یقیناً میلاد شریف منانا ، ماہِ میلاد میں اپنے گھروں ، گلی محلوں بلکہ اپنی گاڑیوں کو مَدَنی پرچموں ، جگمگاتے بلبوں ، رنگ برنگی لائٹوں سے سجانا ، رَبِیْعُ الْاَوَّل کا چاند نظر آتے ہی نیک اَعمال اور دُرودِ پاک کی کثرت کرنا ، میلاد شریف کی محافل سجانا اور اُن میں شرکت کرنا اجرو ثواب کا سبب اور مغفرت کے حُصول کا ذریعہ ہے۔
*میلاد النبی اور حکم قرآن*
ربِّ کریم کی سب سے بڑی رحمت ہم گناہگاروں کو نصیب ہوئی اور اپنا محبوب ہمیں عطا فرمایا ، لہٰذا ہمیں چاہئیے کہ اِس رحمت ملنے پر اللہ پاک کا شکر ادا کریں ، اُس کی رَحمت پر خوشیاں منائیں ، کیونکہ رَحمتِ الٰہی ملنے پر خوشی منانے کا حکم تو اللہ کریم نے خود اِرشاد فرمایا ہے ، چنانچہ
پارہ 11 سورۂ یونس کی آیت نمبر 58 میں اِرشاد ہوتا ہے :
*قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ(۵۸)*
(پ۱۱ ، یونس : ۵۸)
ترجَمۂ کنز العرفان : تم فرماؤ : اللہ کے فضل اور اُس کی رَحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے ، یہ اُس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
مشہور مُفَسِّرِ قرآن حضرت مفتی اَحمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ اِس آیتِ مبارَکہ کے تحت اِرشاد فرماتے ہیں : اے محبوب !لوگوں کو یہ خوشخبری دے کر یہ حکم بھی دوکہ اللہ (پاک) کے فَضْل اور اُس کی رَحمت ملنے پر خوب خوشیاں مناؤ۔ عُمومی خوشی تو ہر وقْت مناؤ اور خُصوصی خوشی اُن تاریخوں میں جن میں یہ نعمت آئی یعنی رَمَضَان میں کہ اللہ (پاک) کا فضل *“ قرآن “* آیا ، رَبِیْعُ الْاَوَّل میں خُصوصاً بارہویں تاریخ کو رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن یعنی محمدِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پیدا ہوئے۔ یہ فضل و رَحمت یا اُن کی خوشی منانا تمہارے دُنْیوی جمع کیے ہوئے مال و مَتاع ، رُوپیہ ، مکان ، جائیداد ، جانور ، کھیتی باڑی بلکہ اَولاد وغیرہ سب سے بہتر ہےکہ اِس خوشی کا نفع (فائدہ) شخصی نہیں بلکہ قَومی ہے۔ وقتی نہیں بلکہ دائمی (ہمیشہ کے لئے) ہے۔ صِرْف دنیا میں نہیں بلکہ دین و دنیا دونوں میں ہے۔ جسمانی نہیں بلکہ دِلی اور روحانی ہے۔ برباد نہیں بلکہ اِس پر ثواب ہے۔
(📗تفسیرِ نعیمی ، پ۱۱ ، یونس ، تحت الآیۃ : ۵۸ ، ۱۱ / ۳۷۸ملخصاً)
*عاشقِ میلاد بادشاہ*
اِرْبِل کے بادشاہ جن کا نام ابُو سعںد مُظَفَّر ہے ، جو عظیم فاتح سلطان صلاحُ الدِّین ایّوبی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بہنوئی تھے ، بہت سخی ، نیک اور عادل ہونے کے ساتھ عالِم ، بڑے بہادر اور ذہین بھی تھے۔ اُنہوں نے اپنے بعد کئی اچھی یادگاریں چھوڑیں۔ ہر سال رَبِیْعُ الْاَوَّل کے مبارَک مہینے کا بڑا ہی ادب و اِحترام کرتے ، بالخصوص اِس مہینے مىں میلاد شرىف بڑے ہی اہتمام سے مناتے اور بہت بڑى محفل کا اہتمام کرتے۔
(📗البدایۃ والنہایۃ ، ۹ / ۱۸ ملخصاً)
اِن مَحافل میں شرکت کرنے والوں کا بیان ہے : اُنہوں نے محفلِ میلاد مىں بُھنى ہوئى بکریوں کے پانچ ہزار (5000) سَر دیکھے ، 10 ہزار مُرغیاں ، فیرنى کے ایک لاکھ پیالے اور حلوے کے 30 ہزار تھال دیکھے۔ بہت سے عُلَما اور صُوفیا محفلِ میلاد مىں شرکت کرتے تھے۔ بادشاہ (ابُو سعىد مُظَفَّر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ) اُنہیں قیمتی لباس پہناتے اور اِنعامات سے نوازتے۔ وہ ہر سال محفلِ میلاد پر تین(3) لاکھ دینار خرچ کرتے تھے۔ مہمانوں کے لیے مہمان خانہ ہوتا تھا ، وہ ہر سال اِس مىں سالانہ ایک لاکھ دینار خرچ کرتے تھے۔ تیس(30) ہزار دینار خرچ کر کے حَرَمَیْن شَرِىْفَیْن کے راستے دُرست کرواتے۔ یہ صدقات اُن صدقات کے علاوہ تھے جنہیں پوشیدہ طور پر کیا جاتا تھا۔
(📗سبل الہدی والرشاد ، ۱ / ۳۶۲ بتغیر قلیل)
حضرت امام عبد الرّحمٰن ابنِ جَوزی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : جشن ولادت پر خوشی کرنے والے کے لیے یہ خوشی دوزخ سے رُکاوٹ بنے گی۔ اے اُمَّت محبوب تمہارے لیے خوشخبری ہو! تم دنیا و آخرت میں بہت زیادہ بھلائی کے حق دار قرار پائے ۔رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جشنِ ولادت منانے والے کو برکت ، عزت ، بھلائی اور فخر ملے گا ، موتیوں کا عمامہ اور ہرے رنگ کا جنتی لباس پہن کر وہ داخل جنت ہوگا ، بے شمار محلات اُسے عطا کیے جائیں گے اور ہر محل میں حُور ہوگی۔ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر خوب دُرود پڑھیے اور جشنِ ولادت مناکر اِسے خوب عام کیا جائے۔
(📗مجموع لطیف النبی … الخ ، مولد العروس ، ص۲۸۱ ، ملتقطاً)
*جشنِ ولادت منانے کا ثواب*
حضرت شیخ عبدُالحق مُحَدِّث دِہْلَوِی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ولادت کی رات خوشی منانے والوں کو اِس نیکی کا بدلہ یہ ملے گا کہ اللہ کریم اُنہیں فضل و کرم سے جَنَّتُ النَّعِیم میں داخل فرمائے گا۔ مسلمان ہمیشہ سے محفلِ میلاد کا اہتمام کرتے ، وِلادت کی خوشی میں دعوتیں دیتے ، کھانے پکواتے اور خوب صَدَقہ و خیرات کرتے آئے ہیں۔ خوب خوشی کا اِظہار کرتے اور دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی وِلادتِ با سعادت کے ذِکْر کا اِہتمام کرتے ہیں اور اِن تمام نیک اور اچھے اعمال کی برکت سے اُن لوگوں پر اللہ کریم کی رَحمتیں اُترتی ہیں ۔
(📗مَا ثَبَتَ با السُّنَّۃ ، ص۱۵۵ ملتقطًا)
لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے خُصوصیت کے ساتھ خوشی خوشی اِس مبارَک مہینے کو نیکیوں میں گزاریں ، اِس میں اجتماعِ میلاد کا اہتمام کریں ، ہاتھوں میں مَدَنی پرچم اُٹھائیں ، جلوسِ میلاد میں جائیں ، اِس دن خوب صدقہ و خیرات کی عادت بنائیں ، اِنْ شَآءَ اللہ! اِس کی خوب خوب برکتیں پائیں گے ۔