حمل اگر ٹھہر جائے تو اس کو کسی مجبوری کی وجہ سے ضائع کروانا جائز ہے یا نہیں
*حمل اگر ٹھہر جائے تو اس کو کسی مجبوری کی وجہ سے ضائع کروانا جائز ہے یا نہیں ؟*
جواب: شرعاً حکم یہ ہے کہ شدید عذرثابت ہوجانے پرچارماہ سے قبل اسقاطِ حمل جائزہے چنانچہ فقہاء کرام نے عذر کی متعدد صورتیں بیان فرمائی ہیں مثلاً عورت بہت کمزور ہے کہ بچہ جننا اس کے لئے جان لیوا ہے۔ یا پہلے بچے پر دودھ کے بند ہوجانے کی وجہ سے ہلاکت کا خوف ہے وغیرہا تو حمل ٹھہر جانے کے بعد اس میںجان پڑنے سے پہلے پہلے ضرورتاً اسے ساقط کرنا جائز ہے جس کی مدت ایک سو بیس( 120)دن بیان کی گئی ہے جبکہ جان پڑ جانے کے بعد ساقط کرنا ناجائز و گناہ ہے۔ محض معمولی کمزوری ،بچہ جننے میں دشواری ، پہلے بچے کا دودھ پینایا یہ کہنا کہ مالی حالت اچھی نہیں ہر گز ہر گز اسقاطِ حمل کے لیے عذر نہیں بن سکتا اور نہ ان وجوہ سے اسقاطِ حمل جائز کہ ہرچیز کارزق اللّٰہ تعالیٰ کے ذمہ ہے جوخَیْرُالرَّازِقِیْن ہے۔اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے :{ وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا) ترجمۂ کنزالایمان:اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ذمۂ کرم پر نہ ہو۔
(پ۱۲،ھود:۶)علامہ ابن عابدین شامی عَلَیْہِ الرَّحْمَہاس حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:’’قَالُوْا:یُبَاحُ لَھَااَنْ تُعَالِجَ فِیْ اِسْتِنْزَالِ الدَّمِ مَادَامَ الْحَمْلُ مُضْغَۃً اَوْعَلَقَۃً وَلَمْ یُخْلَقْ لَہٗ عُضْوٌوَقَدَّرُوْاتِلْکَ الْمُدَّۃَ بِمِائَۃٍ وَعِشْرِیْنَ یَوْمًا وَجَازَلِاَنَّہٗ لَیْسَ بِاٰدَمِیٍّ فقہائے کرام نے ارشاد فرمایا ہے کہ عورت کے لیے جائز ہے کہ علاج کے طور پر اسقاطِ حمل کروائے جب تک کہ حمل مضعہ یا علقہ رہے اور اس کے اعضاء نہ بنے ہوں اور فقہائے کرام نے اس کی مقدار 120 دن مقرر کی ہے۔ اور یہ اس لیے جائز ہے کہ ابھی وہ حمل (خلقتاً) آدمی نہیں۔‘‘لیکن یاد رہے کہ یہ رخصت صرف عذر کی حالت میں ہے جیسا کہ درمختار میں ہے:’’وَجَازَ لِعُذْرٍیہ عذر کی صورت میں ہی جائز ہے۔‘‘(درمختارمع ردالمحتار، کتاب الحظروالاباحۃ، باب الاستبراء،۹/ ۶۱۵، مطبوعہ ملتان پاکستان)
سیّدی اعلیٰ حضرت مجد د دین وملت شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ارشاد فرماتے ہیں :جان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ارشاد فرماتے ہیں :جان پڑجانے کے بعد اسقاطِ حمل حرام ہے اور ایسا کرنے والا گویا قاتل ہے اور جان پڑنے سے پہلے اگر کوئی ضرورت ہے تو حرج نہیں(فتاوی رضویہ،۲۴/ ۲۰۷، مکتبہ رضویہ کراچی )۔
(ازدار الافتا اہلسنّت پاکستان دعوتِ اسلامی)