اگر متعین امام مسجد، حافظ ہو مگر اس کی تجوید درست نہ ہو، ع اور الف میں فرق نہ کرتا ہو، ح اور ھ میں فرق نہ کرتا ہو اور ق اور ک میں فرق نہ کرتا ہو تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
اگر متعین امام مسجد، حافظ ہو مگر اس کی تجوید درست نہ ہو، ع اور الف میں فرق نہ کرتا ہو، ح اور ھ میں فرق نہ کرتا ہو اور ق اور ک میں فرق نہ کرتا ہو تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
سائل : محمد طلحہ شاہ عیسیٰ خیل ضلع میانوالی
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
غیر معذور مردوں کی امامت کروانے کا اہل ہر وہ شخص ہے جو مسلمان ہو، مرد ہو، عاقل ہو، بالغ ہو، صحیح القراءۃ ہو اور شرعی اعذار مثلاً ریح و قطرہ وغیرہ کے امراض سے سلامت ہو، لہٰذا جس شخص کے اندر یہ چھ شرائط پائی جائیں وہ بالغ مردوں کی امامت کروانے کا اہل ہے اور جس کے اندر ان شرائط میں سے کوئی ایک بھی نہ پائی جائے وہ امامت کروانے کا اہل نہیں ہے، تو صورتِ مسؤلہ (یعنی پوچھی گئی صورت) میں اگر مذکورہ امام ا ء ع، ہ ح اور ق ک وغیرہ حروف کی درست ادائیگی کے لئے دن رات کوشش کرتا ہے اور ابھی تک کوشش جاری رکھے ہوئے ہے تو خود اس پر فرض ہے کہ ایسے امام کی پیچھے نماز ادا کرے جو ان حروف کی درست ادائیگی کرنے والا ہو یا ایسی آیتیں و ذکر و اذکار اور تسبیحات پڑھے جن کے حروف صحیح ادا کرسکتا ہو اور اگر وہ ایسی آیتیں اور ذکر و تسبیحات نہ پڑھ سکتا ہو جن میں حروف کی ادائیگی درست ہو اور وہ درست پڑھنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنے پر بھی قادر ہو لیکن علیحدہ نماز پڑھے یا دوسروں کی امامت کرے تو نہ اس کی اپنی نماز ہوگی اور نہ اس کے پیچھے کسی اور کی نماز ہوگی، اور اگر درست پڑھنے والے امام کے پیچھے نماز ادا نہ کرسکتا ہو اور نہ ہی وہ ایسی آیتیں اور ذکر و تسبیحات پڑھ سکتا ہو کہ جن میں حروف کی ادائیگی درست ہو تو ایسی صورت میں اس کی اپنی نماز بھی ہو جائے گی
اور اگر امامت کروائے گا تو اس کے پیچھے ان لوگوں کی نماز ہوجائے گی جو لوگ بھی انہیں حروف کو درست ادا نہ کر سکتے ہوں، جن کو یہ درست ادا نہیں کرسکتا، لیکن ایسی صورت میں بھی دیگر درست پڑھنے والوں کی اس امام کے پیچھے نماز نہ ہوگی اور اگر وہ امام ایسے حروف کہ جن کی درست ادائیگی پر قادر نہیں ہے وہ انہیں سیکھنے کے لئے دن رات کوشش نہیں کرتا تو پھر نہ تو اس کی اپنی نماز ہوگی اور نہ ہی اس کے پیچھے کسی اور کی نماز ہوگی، ایسی صورت میں چونکہ اس امام میں صحیح القراءۃ ہونے والی شرط نہیں پائی جا رہی لہٰذا ایسا شخص امامت کے قابل نہیں ہے اور نہ اسے امام بنانا جائز ہے۔
چنانچہ علامہ حسن بن عمار بن علی شرنبلالی دحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*”و شروط صحۃ الامامۃ للرجال الاصحاء ستۃ اشیاء الاسلام و البلوغ و العقل و الذکورۃ و القراءۃ و السلامۃ من الاعذار“*
یعنی صحیح مردوں کی امامت کے صحیح ہونے کی چھ شرطیں ہیں : اسلام، بلوغ ، عقل، مرد ہونا، قراءت کا صحیح ہونا اور اعذار سے سلامت ہونا۔
*(نورالایضاح، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، صفحہ 155، 156، مکتبۃ المدینہ کراچی)*
سیدی اعلی ٰحضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
”پنجگانہ میں ہر شخص صحیح الایمان، صحیح القرأۃ، صحیح الطہارۃ، مرد عاقل، بالغ، غیر معذور امامت کر سکتا ہے یعنی اس کے پیچھے نماز ہو جائے گی اگرچہ بوجہ فسق وغیرہ مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہو۔“
*(فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 515، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ :
ایک شخص جسے لوگوں نے مسجد جامع کا امام معین کیا جمعہ و جماعات میں گروہ مسلمین کی امامت کرتا ہے اور سورہ فاتحہ شریف میں بجائے الحمد و الرحمن و الرحیم کے الھمد و الرہمن و الرہیم بہ ہائے ہوز پڑھتا ہے، ایسے شخص کو امام بنانا جائز ہے یا نہیں اور اس کے پیچھے نماز درست ہوگی یا نہیں ؟
تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً تحریر فرمایا :
"اسے امام بنانا ہرگز جائز نہیں اور نماز اس کے پیچھے نادرست ہے کہ اگر وہ شخص ح کے ادا پر بالفعل قادر ہے اور باوجود اس کے اپنی بےخیالی یا بےپروائی سے کلمات مذکورہ میں ھ پڑھتا ہے۔ تو خود اس کی نماز فاسد وبباطل، اوروں کی اس کے پیچھے کیا ہو سکے، اور اگر بالفعل ح پر قادر نہیں اور سیکھنے پر جان لڑا کر کوشش نہ کی تو بھی خود اس کی نماز محض اکارت، اور اس کے پیچھے ہر شخص کی باطل، اور اگر ایک ناکافی زمانہ تک کوشش کر چکا پھر چھوڑ دی جب بھی خود اس کی نماز پڑھی بےپڑھی سب ایک سی، اور اس کے صدقے میں سب کی گئی اور برابر حد درجہ کی کوشش کئے جاتا ہے مگر کسی طرح ح نہیں نکلتی تو اس کاحکم مثل امی کے ہے کہ اگر کسی صحیح پڑھنے والے کے پیچھے نماز مل سکے اور اقتداء نہ کرے بلکہ تنہا پڑھے تو بھی اس کی نماز باطل، پھر امام ہونا تو دوسرا درجہ ہے اور پر ظاہر ہے کہ اگر بالفرض عام جماعتوں میں کوئی درست خواں نہ ملے تو جمعہ میں تو قطعاََ ہر طرح کے بندگان خدا موجود ہوتے ہیں پھر اس کا ان کی اقتدا نہ کرنا اور آپ امام ہونا خود اس کی نماز کا مبطل ہوا، اور جب اس کی گئی سب کی گئی۔ بہرحال ثابت ہوا کہ نہ اس شخص کی اپنی نماز ہوتی ہے نہ اس کے پیچھے کسی اور کی تو ایسے کو امام بنانا حرام ہے، اور ان سب مسلمانوں کی نماز کا وبال اپنے سر لیتا ہے والعیاذ باللہ تعالی البتہ اگر ایسا ہو کہ تاحد ادنیٰ امید کہ یہ شخص ہمیشہ برابر رات دن تصحیح حرف میں کوشش بلیغ کئے جائے اور باوصف بقائے امید واقعی محض طول مدت سے گبھرا کر نہ چھوڑے اور واجب الحمد شریف کے سوا اول نماز سے آخر تک کوئی آیت یا سورۃ یا ذکر وغیرہ اصلا ایسی چیز نام کو نہ پڑھے جس میں ح آتی اور اسے ھ پڑھنے سے نماز جاتی ہو بلکہ قرآن مجید کی دوسورتیں اختیار کرے جن میں ح نہیں جیسے سورہ کافرون و سورہ ناس اور ثناء اور تسبیحات رکوع و سجود و تشہد و درود وغیرہ کے کلمات میں جن میں ایسی ح آئی ان کے مرادفات مقاربات سے بدل لے مثلا بجائے سبحنک اللھم و بحمدک اقدسک اللھم مثنیا علیک و علی ھذا القیاس اور اسے کوئی شخص صحیح خواں ایسا نہ ملے جس کی اقتدا کرے اور جماعت بھرکے سب لوگ اسی طرح ح کو ھ پڑھنے والے ہوں تو البتہ جب کوشش کرتا رہے گا اس کی بھی صحیح ہوگی اور ان سب اس کے مانندوں کی بھی اس کے پیچھے صحیح ہوگی اور جس دن باوصف تنگ آ کر کوشش چھوڑی یا صحیح القراءۃ کی اقتداء ملتے ہو ئے تنہا پڑھی یا امامت کی اسی دن اس کی بھی باطل، اور اس کے پیچھے سب کی باطل، اور جبکہ معلوم ہے کہ یہ شرائط متحقق نہیں تو حکم وہی ہے کہ جمعہ و غیر جمعہ کسی میں نہ اس کی نماز درست نہ اس کے پیچھے کسی کی درست۔ یہ جو کچھ مذکور ہوا یہی صحیح ہے یہی راجح ہے یہی مختار ہے یہی مفتی بہ ہے اسی پر عمل اسی پر اعتماد۔"
*(فتاوی رضویہ جلد 6 صفحہ 253، 254 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"مرد غیر معذور کے امام کے لیے چھ شرطیں ہیں :
(1)- اسلام۔
(2)- بلوغ۔
(3)- عاقِل ہونا۔
(4)- مرد ہونا۔
(5)- قراء ت۔
(6)- معذور نہ ہونا۔"
*(بہارشریعت جلد 1، حصہ سوم (3)، صفحہ 560، 561، مکتبۃ المدینہ کراچی)*
مزید تحریر فرماتے ہیں :
"جس سے حروف صحیح ادا نہیں ہوتے اس پر واجب ہے کہ تصحیح حروف میں رات دن پوری کوشش کرے اور اگر صحیح خواں کی اقتدا کر سکتا ہو تو جہاں تک ممکن ہو اس کی اقتدا کرے یا وہ آیتیں پڑھے جس کے حروف صحیح ادا کر سکتا ہو اور یہ دونوں صورتیں ناممکن ہوں تو زمانۂ کوشش میں اس کی اپنی نماز ہو جائے گی اور اپنے مثل دوسرے کی اِمامت بھی کر سکتا ہے یعنی اس کی کہ وہ بھی اسی حرف کو صحیح نہ پڑھتا ہو جس کو یہ اور اگر اس سے جو حرف ادا نہیں ہوتا، دوسرا اس کو ادا کر لیتا ہے مگر کوئی دوسرا حرف اس سے ادا نہیں ہوتا، تو ایک دوسرے کی اِمامت نہیں کر سکتا اور اگر کوشش بھی نہیں کرتا تو اس کی خود بھی نہیں ہوتی دوسرے کی اس کے پیچھے کیا ہوگی۔ آج کل عام لوگ اس میں مبتلا ہیں کہ غلط پڑھتے ہیں اور کوشش نہیں کرتے ان کی نمازیں خود باطل ہیں اِمامت درکنار۔ ہکلا جس سے حرف مکرّر ادا ہوتے ہیں، اس کا بھی یہی حکم ہے یعنی اگر صاف پڑھنے والے کے پیچھے پڑھ سکتا ہے تو اس کے پیچھے پڑھنا لازم ہے ورنہ اس کی اپنی ہو جائے گی اور اپنے مثل یا اپنے سے کمتر (جو اس سے زیادہ ہکلاتا ہو) کی اِمامت بھی کر سکتا ہے۔"
*(بہارِشریعت، جلد 1، حصہ 3 صفحہ 570، 571 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
16/11/2020
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحیح والمجیب مصیب۔
*مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری، مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی۔*