یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

چین والی گھڑی




چین والی گھڑی

*سوال نمبر 67:*
کیا مرد کے لئے چین والی گھڑی باندھنا جائز ہے اور چین والی گھڑی باندھ کر نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
سائل : محسن مدنی فیصل آباد
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
فی زمانہ عمومِ بَلْویٰ کی وجہ سے چین والی گھڑی مردوں کے لئے باندھنا جائز ہے اور ان کی خرید و فروخت بھی جائز ہے اور ان کو باندھ کر نماز پڑھنا بھی جائز ہے البتہ بہتر ہے کہ ان کو اتار کر نماز پڑھی جائے کیونکہ بعض علمائے کرام اب بھی اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور وہ اس حدیثِ مبارکہ سے دلیل پکڑتے ہیں جس حدیث مبارکہ  میں یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد سے جس نے پیتل کی انگوٹھی باندھ رکھی تھی، فرمایا :
*"مالی اجد منک ریح الاصنام فطرحہ ثم جاء وعلیہ خاتم من حدید فقال مالی اری علیک حلیۃ اھل النار فطرحہ فقال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم من ای شئی اتخذہ ؟ قال من ورق ولا تتمہ مثقالا "*
 کہ کیا بات ہے کہ میں تجھ سے بتوں کی بو پاتا ہوں اس نے وہ انگوٹھی اتار دی پھر آیا تو لوہے کی انگوٹھی باندھ رکھی تھی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کیا بات ہے کہ میں تجھ پر جہنمیوں کا زیور دیکھ رہا ہوں اس نے وہ بھی اتار دی اور عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کس چیز کی انگوٹھی بناؤں تو فرمایا چاندی کی انگوٹھی بناؤ اور ایک مثقال یعنی ساڑھے چار ماشے پورے نہ کرنا".
*(مشکاۃ المصابیح صفحہ 391 مکتبہ رحمانیہ)*
لیکن فی زمانہ عمومِ بَلْویٰ  ہوچکا ہے کہ ہر عام وخاص، امیر و غریب، عوام اور علماءِ کرام چین والی گھڑی استعمال کرتے ہیں لہذا عمومِ بلویٰ کا اعتبار کرتے ہوئے مشکوٰۃ شریف کی حدیث مبارکہ کو چین والی گھڑی کے علاوہ دیگر دھاتوں کے زیورات کیلئے خاص کر دیا جائے گا کہ مرد ان کو سوائے چاندی کی مخصوص انگوٹھی کے نہیں پہن سکتا اور چین والی گھڑی کو اس حدیثِ مبارکہ سے مستثنیٰ کرکے اس کے لئے جائز ہونے کا حکم دیا جائے گا.
جیسا کہ الاشباہ والنظائر میں ہے :
*"ذَکَرَ بَعْضُھُمْ اَنَّ الْاَمْرَ اِذَا ضَاقَ اِتَّسَعَ"*
 یعنی بعض علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب کوئی معاملہ سختی کا باعث ہو تو اس میں وسعت آجاتی ہے.
*(الاشباہ والنظائر القاعدۃ الرابعہ صفحہ 84 میر محمد کتب خانہ کراچی)*
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

*"اقول : و لسنا نعنی بھذا ان عامۃ المسلمین اذا ابتلوا بحرام حل بل الامران عموم البلوٰی من موجبات التخفیف شرعا و ما ضاق امر الا اتسع فاذا وقع ذٰلک فی مسئلۃ مختلف فیھا ترجح جانب الیسر صونا للمسلمین عن العسر و لایخفی علی خادم الفقۃ ان ھذا کما ھو جار فی باب الطھارۃ و النجاسۃ کذٰلک فی باب الاباحۃ و الحرمۃ"*
یعنی (میں کہتا ہوں کہ) اور ہماری اس سے مراد یہ نہیں کہ عام مسلمان اگر کسی حرام میں مبتلا ہو جائیں تو وہ حلال ہو جاتا ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ عمومِ بلوٰی شرعی طور پر اسبابِ تخفیف میں سے ہے، کوئی تنگی نہیں جس میں وسعت نہ پیدا ہو، جب یہ معاملہ ایک اختلافی مسئلہ میں واقع ہوا تو مسلمانوں کو تنگی سے بچانے کے لئے آسانی کی جانب کو ترجیح ہوگی۔ خادمِ فقہ پر پوشیدہ نہیں کہ جیسے یہ ضابطہ طہارت و نجاست میں جاری ہے۔ ایسے ہی حرمت و اباحت میں بھی جاری ہے۔
*(فتاوی رضویہ جلد25 صفحہ 89رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
مزید ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں :
*"و الحرج مدفوع بالنص و عموم البلوی من موجبات التخفیف لاسیما فی مسائل الطھارۃ و النجاسۃ"*
نص سے ثابت ہے کہ حرج دور کیا گیا اور عموم بلوی اسباب تخفیف سے ہے خصوصا مسائل طہارت اور نجاست میں۔
*(فتاوی رضویہ جلد 4 صفحہ 391 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
لہذا عمومِ بلویٰ کی وجہ سے مردوں کے لیے چین والی گھڑی کا باندھنا جائز ہے.
*فائدہ:* عمومِ بلویٰ سے مراد وہ امر ہے کہ بلادِ کثیرہ (یعنی کثیر شہروں) میں کثرت کے ساتھ رائج ہو، عوام و خواص سبھی اس میں مبتلا ہوں اور اس سے بچنا دشوار اور باعثِ حرج ہو.
*(ہمارے مسائل اور ان کاحل جلد2 صفحہ 140 بحوالہ صحیفہ فقہ اسلامی)*
شارحِ بخاری فقیہِ اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ نے تو چین کی گھڑی میں عمومِ بلویٰ کا اعتبار کیے بغیر اس جائز قرار دیا ہے اور اسے باندھ کر نماز کے بلاکراہت درست ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ 
چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں :
دھات کی چین گھڑی کے ساتھ باندھنا علماء کے مابین مختلف فیہ ہے بہت سے علماے کرام اس کو ناجائز و حرام کہتے ہیں ایسی صورت میں اسے پہن کر نماز مکروہ تحریمی، واجب الاعادہ ہوگی۔
لیکن اس خادم نے بہت غور و فکر کیا اور کافی تلاش کیا، مگر اب تک اس کے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی اور اصل اشیاء میں اباحت ہے اس لیے خادم یہ حکم دیتا ہے کہ اسے باندھنا جائز ہے اور اسے باندھ کر نماز پڑھنی بلا کراہت درست ہے۔
بعض لوگ اس سلسلے میں اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کا حوالہ دیتے ہیں کہ انہوں نے اسے ناجائز فرمایا ہے جیسا کہ الملفوظ اور احکامِ شریعت میں ہے۔ 
لیکن *"الطیب الوجیز"* میں اعلی حضرت نے یہ فرمایا :
"پس بچنا ہی بہتر ہے." او کما قال۔ 
الملفوظ کا جو حال ہے وہ اہلِ علم پر مخفی نہیں، اس میں سینکڑوں غلطیاں اب تک مل چکی ہیں، احکامِ شریعت ایک میلاد خواں کی جمع کردہ ہے، یہ دونوں کتابیں اعلی حضرت کے وصال کے بعد چھپی ہیں، اس لئے اس میں غلطی کا امکان بعید نہیں ہے، اسی وجہ سے خادم اسی پر فتویٰ دیتا ہے۔ 
علاوہ ازیں اسٹیل کی چین جو اب کلائی پر باندھی جاتی ہے، اعلی حضرت کے زمانے میں نہیں تھی، اعلی حضرت کے زمانے میں جیبی گھڑیوں میں چین لگائی جاتی تھی، اسی کے بارے میں ان تینوں کتابوں میں حکم ہے، اسی کے بارے میں احکامِ شریعت میں بھی ہے۔ اس لیے اس کے ناجائز ہونے پر اعلیٰ حضرت کی کسی کتاب کا حوالہ دینا بے محل ہے۔
اب بات وہی پہونچی کہ اصل اشیاء میں اباحت اور اس چین کے ناجائز ہونے پر کوئی دلیلِ شرعی نہیں، اس لئے یہ جائز ہے مگر چوں کہ اختلافِ علماء سے بچنا اولیٰ (بہتر) ہے اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ اسے نہ استعمال کیا جائے۔
(قلمی فتاویٰ شارح بخاری) 
*(فتاوی شارح بخاری جلد اول صفحہ 36 مکتبہ برکات المدینہ کراچی)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم 
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
18/08/2019
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
سوال نمبر 67 کا جواب بھی بمطابق فقہ حنفی درست اور صحیح ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور آپ کے ذریعے سے اہلسنت و جماعت کو مستفیض فرمائے.
*ابوالحسنین مفتی محمد عارف محمود خان معطر القادری*