یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

اہم سوالات




اہم سوالات

ایک شخص جو کہ امام ہے،
1- اس کی بیوی چند نوجوان لڑکیوں کو لے کر محفلِ میلاد پر اونچی اونچی آواز میں تلاوت، نعت اور بیان کرتی ہے، آواز اس قدر بلند ہوتی ہے کہ پورے محلے میں سنائی دیتی ہے، اور پردے کا بھی خاص انتظام نہیں ہوتا، منع کرنے پر کہتے ہیں کہ یہ ہمارا کاروبار ہے۔
2- رمضان میں صلاةالتسبیح  اور جمعہ کی نماز کے نام پر عورتوں کو مسجد میں جمع کرکے جماعت کرواتے ہیں۔
3- وہ امام نہ حافظ ہے، نہ عالم لیکن اپنے آپ کو حافظ کہلواتا  ہے۔
4- مسجد کے احاطے میں بیٹھ کر سگریٹ پیتا ہے، منع کرنے پر قرآن و حدیث سے منع کا ثبوت مانگتا ہے۔
5- اگر کوئی مسجد میں دین کا کام شروع کرے تو بھرپور مخالفت کرتا ہے، کام حد سے بڑھ جائے تو بدمعاش لڑکوں کے ذریعے لڑائی اور فتنہ و فساد کرواتا ہے۔
6- جب امام رکوع سے کھڑا ہوتا ہے تو دونوں ہاتھوں سے قیمض درست کرتا ہے۔
7- سجدے میں جائے تو شلوار اوپر کو دونوں ہاتھوں سے کھچیتا ہے۔
8- اس کے نائب امام کا ذہنی توازن درست نہیں ہے، وہ دو کے بجائے چار اور چار کی بجائے تین رکعات نماز پڑھا دیتا ہے لیکن اس کے باوجود امام نے اسے نائب امام کے طور پر مقرر کیا ہوا ہے۔
9- وہ امام مسجد کے صحن میں سبزی لگا کر پانی مسجد کے پمپ سے لگاتا ہے اور استعمال خود کرتا ہے۔
ایسے امام کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ 
سائل : ڈاکٹر امجد اور محمد رفاقت

*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
1- عورتوں کا میلاد کی محافل و مجالس میں نعتیں، بیانات، قرآنِ پاک پڑھنا اور دیگر ذکر و اذکار کرنا جائز اور اجر و ثواب کا باعث ہیں لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ عورت کی خوش الحانی (یعنی ترنم والی آواز) نامحرم مردوں تک نہ جائے کیونکہ اگر عورت کی ترنم والی آواز اتنی بلند ہو کہ غیر محرموں تک اس کی آواز پہنچے گی تو اس کا اتنی بلند آواز سے پڑھنا ناجائز و گناہ ہوگا اس لیے کہ عورت کی خوش الحانی کو غیر محرم مرد (اجنبی مرد) کا سننا، محلِ فتنہ ہے جس کی وجہ سے اسے ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :
”ناجائز ہے کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے اور عورت کی خوش الحانی کہ اجنبی سنے محلِ فتنہ ہے۔“
*(فتاوی رضویہ جلد 22 صفحہ 240 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
مزید ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں :
”عورت کا خوش الحانی سے بآواز ایسا پڑھنا کہ نامحرموں کو اس کے نغمہ کی آواز جائے، حرام ہے۔
نوازل امام فقیہ ابو اللیث میں ہے :
*’’نغمۃ المرأۃ عورۃ‘‘*
یعنی عورت کا خوش آواز کرکے کچھ پڑھنا عورت یعنی محلِ ستر ہے۔
کافی امام ابو البرکات نسفی میں ہے :
*’’لاتلبی جھراً لان صوتھا عورۃ‘‘*
یعنی عورت بلند آواز سے تلبیہ نہ پڑھے، اس لیے کہ اس کی آواز قابلِ ستر ہے۔
*(فتاوی رضویہ جلد 22 صفحہ 242 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*

لہذا مذکورہ امام پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اتنی آواز میں میلاد پڑھنے سے روکے کہ جس سے اس کی آواز غیرمحرم مردوں تک جائے اور اگر قدرت کے باوجود امام نہیں روکتا تو یہ خود فاسقِ معلن ہے، جس کی بناء پر اس کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز وگناہ، مکروہِ تحریمی اور واجب الاعادہ ہوگی (یعنی جتنی نمازیں اس کے پیچھے اس فسق کی حالت کے دوران ادا کی ہیں، ان کو دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا)۔
*نوٹ :*
اس کے ساتھ ساتھ پردے کا مکمل انتظام کرنا ضروری ہے، جہاں پردے کا انتظام نہ وہاں عورتوں کا جانا، جمع ہونا ہی جائز نہ ہوگا۔
2- عورتیں مسجد میں مردوں کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے نہیں جاسکتیں کیونکہ وہاں پر مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط (ملاپ) ہوگا جو کہ جائز نہیں ہے البتہ اگر درج ذیل شرائط کا لحاظ کرکے جائیں تو پھر ان کے لئے جانا جائز ہوگا لیکن پھر بھی عورتوں کے لئے افضل یہی ہوگا کہ وہ مسجد کے بجائے گھر پر ہی نماز ادا کریں :
1- مسجد میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا اِخْتِلاَط (ملاپ) نہ ہو. 
2- عورتوں کیلیے نماز کے لیے علیحدہ باپردہ جگہ موجود ہو . 
3- عورتوں کی جگہ پر غیر مردوں کا گزر نہ ہو.
4- عورتیں باپردہ ہو کر جائیں.
5- شادی شدہ عورتیں اپنے شوہر سے اجازت لے کر جائیں. 
6- کنواری عورتیں اپنے والدین سے اجازت لے کر جائیں. 
7- عورتیں غیر مردوں پر اپنی زیب و زینت ظاہر نہ کریں. 
8- عورتوں پر کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور نہ عورتوں کی وجہ سے کسی اور پر فتنے کا اندیشہ ہو. 
9- ایسی خوشبو لگا کر نہ جائیں جو غیر مردوں تک پہنچے.
*ٹوٹ:* 
چونکہ ان شرائط کا لحاظ رکھنا بہت مشکل ہے لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ عورتیں کسی بھی قسم کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد نہ جائیں.
3- غیر حافظ کا اپنے آپ کو حافظ کہلوانا درست نہیں بلکہ یہ جھوٹ اور دھوکے کے زمرے میں آتا ہے بالخصوص اس وقت کہ اس کے اس طرح کہلوانے سے واقعی لوگ اسے حافظِ قرآن سمجھتے ہوں، لہٰذا مذکورہ امام پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو حافظ کہلوانے سے باز رہے۔
چنانچہ فقیہِ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"مسلم شریف کی حدیث ہے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
*"ان الکذب فجور"*
یعنی جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے.
*(صحیح مسلم)*
اور جو شخص علانیہ فسق و فجور کرتا ہو، اس کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں۔"
*(فتاوی فیض الرسول جلد 1 صفحہ 285 شبیر برادرز لاہور)*
مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"جس امام کا جھوٹ بولنا ثابت ہوگیا وہ فاسق ہے۔ اور فاسق کو امام بنانا گناہ ہے۔
فقہاء نے لکھا ہے :
*"فی تقدیمہ تعظیمہ وقد وجبت اھانتہ شرعاً"*
یعنی اس کو امامت کے لئے آگے بڑھانے میں اس کی تعظیم ہے. جبکہ شریعت میں اس کی توہین کرنا واجب ہے.
اس کے پیچھے جو نمازیں پڑھی جائیں گی، انہیں دوبارہ پڑھنا واجب ہے.
*(وقار الفتاوی، کتاب الصلوٰۃ، امامت، جلد 2 صفحہ 184 بزم ناشر وقارالدین)*
*نوٹ :*
فی زمانہ ہمارے لوگوں کا عرف ہے کہ دینی حلیے والے یا امام صاحب کو حافظ کہہ دیتے ہیں اور اس سے وہ مذہبی آدمی مراد لیتے ہیں اور یہ ارادہ نہیں کرتے کہ اس نے قرآن یاد کیا ہوا ہے تو اس عرف کی بنیاد پر غیرحافظ کو حافظ کہنے میں کوئی حرج نہیں۔
4- اگر امام فنائے مسجد میں اس طرح سگریٹ پیتا ہے کہ سگریٹ کا بدبودار دھواں عینِ مسجد (یعنی مسجد کے ہال اور صحن وغیرہ) تک نہیں پہنچتا اور مسجد میں داخل ہونے سے پہلے منہ کو اچھی طرح صاف کر لیتا ہے تو پھر اس کے لئے سگریٹ پینا جائز ہے، اور اس پر اعتراض کرنا بے جا ہے۔
لیکن اگر امام عینِ مسجد میں سگریٹ پیتا ہے یا پیتا تو فنائے مسجد میں ہے لیکن وہاں سے سگریٹ کا دھواں مسجد تک پہنچتا ہے یا پیتا تو فنائے مسجد میں ہے کہ جہاں سے سگریٹ کا دھواں مسجد تک نہیں پہنچتا لیکن منہ میں سگریٹ کی بو باقی ہوتی ہے اور اسی حالت میں مسجد میں داخل ہوجاتا ہے تو ان تینوں صورتوں میں امام گناہگار ہوگا اور اس پر اس سے بچنا ضروری ہوگا، لہذا وہ اس سے نہ بچے اور بار بار اعلانیہ یہ فعل کرے تو پھر اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، اگر پڑھیں گے گناہگار ہوں گے اور ان تمام نمازوں کو دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا۔
چنانچہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کچا پیاز اور لہس کھانے سے منع کیا اور فرمایا :
*’’من اکلھما فلایقربن مسجدنا‘‘*
یعنی جس نے پیاز اور لہسن کھائی تو وہ ہماری مسجِد کے قریب ہرگز نہ آئے۔
*(مشکوۃ المصابیح صفحہ  70، صحیح مُسلِم صفحہ 282 رقم الحدیث : 564)*
اور فرمایا : 
’’اگر کھانا ہی چاہتے ہو تو پکا کر اس کی بُو دُور کر لو۔‘‘
*(مشکوۃ المصابیح صفحہ  70، سنن ابوداوٗد جلد 3 صفحہ 506 رقم الحدیث : 3827)*
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"ھر چہ بوئے ناخوش دارد از ماکولات و غیر ماکولات دریں حکم داخل ست"*
یعنی ہر وہ چیز کہ جس کی بو ناپسند ہو، اس حکم میں داخل ہے خواہ وہ کھانے والی چیزوں سے ہو یا نہ ہو۔
*(اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد 1، صفحہ 328)*
غمز عیون البصائر میں ہے :
*”لأن تنظیف المسجد واجب“*
یعنی اس لئے کہ مسجد کو صاف ستھرا رکھنا واجب ہے۔
*(غمز عیون البصائر، الفن الثانی، القول فی احکام المسجد، جلد 4 صفحہ 53، 54، 55 دارالکتب العلمیۃ بیروت)*
البحرالرائق میں ہے :
*”إنما الحرمۃ للمسجد و لکون المسجد یصان عن القاذورات و لو کانت طاهرۃ“*
یعنی بیشک یہ مسجد کی حرمت کی وجہ سے ہے تاکہ مسجد کو ہر قسم کی گندی چیزوں سے بچایا جائے اگرچہ وہ چیزیں پاک ہی کیوں نہ ہوں۔                                                                                                                                                                                                                                      *(البحرالرائق، کتاب الصلوۃ، جلد 2 صفحہ 61 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"مُنہ میں بدبُو ہونے کی حالت میں (گھر میں پڑھی جانے والی) نَماز بھی مکروہ ہے اور ایسی حالت میں مسجِد جانا حرام ہے جب تک مُنہ صاف نہ کرلے۔ اور دوسرے نَمازی کو اِیذا پہنچنی حرام ہے، اور دوسرا نَمازی نہ بھی ہو تو بھی بدبُو سے ملائکہ کو اِیذا پہنچتی ہے۔" حدیث میں ہے :
”جس چیز سے انسان تکلیف مَحسوس کرتے ہیں فِرشتے بھی ان سے تکلیف مَحسوس کرتے ہیں۔"
(صحیح مسلم صفحہ 282 رقم الحدیث : 564)
*(فتاویٰ رضویہ جلد 7 صَفَحَہ 384 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ علیہ مزید ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں :

’’جس کے بدن میں بدبو ہو کہ اُس سے نَمازیوں کو اِیذا ہو مَثَلاً مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ گندہ دَہَن (یعنی جس کو مُنہ سے بدبو آنے کی بیماری ہو)، گندہ بَغَل (یعنی جس کے بغل سے بدبو آنے کا مرض ہو) یا جس نے خارِش وغیرہ کے باعِث گندھک ملی (یا کوئی سا بدبودار مرہم یا لوشن لگایا) ہو اُسے بھی مسجِد میں نہ آنے دیا جائے۔‘‘
*(فتاوٰی رضویہ جلد 8 صفحہ  72 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
صَدرُالشَّریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"مسجِد میں کچّا لہسن اور کچّی پیاز کھانا یا کھا کر جانا جائز نہیں جب تک کہ بو باقی ہو اور یہی حکم ہر اُس چیز کا ہے جس میں بُو ہو جیسے گِندَنا (یہ لہسن سے ملتی جُلتی ترکاری ہے) مُولی، کچا گوشْتْ اور مِٹّی کا تیل، وہ دِیا سَلائی جس کے رگڑنے میں بُو اُڑتی ہو،  رِیاح خارِج کرنا وغیرہ وغیرہ۔جس کو گندہ دَہنی کا عارِضہ (یعنی منہ سے بدبو آنے کی بیماری) یا کوئی بدبودار زَخم ہو یا کوئی بدبودار دوا لگائی ہو تو جب تک بُو مُنقَطِع (یعنی ختم)  نہ ہو اُس کو مسجِد میں آنے کی مُمانَعت ہے۔
*(بہارِ شریعت جلد 1 صفحہ  648 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
فقیہِ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"معتکف بیڑی، سگریٹ، حقہ پینے کے لیے فنائے مسجد میں نکل سکتا ہے، اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔
حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان تحریر فرماتے ہیں :
"فنائے مسجد میں جو جگہ مسجد سے باہر اس سے ملحق ضروریات مسجد کے لئے مثلاً جوتا اتارنے کی جگہ اور غسل خانہ وغیرہ، ان میں جانے سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ 
*(فتاوی امجدیہ صفحہ 399 جلد 1)* 
لیکن خوب منہ صاف کرنے کے بعد مسجد میں داخل ہو اس لئے کہ بیڑی اور سگریٹ وغیرہ کی بو جب تک باقی ہو مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں۔
*(فتاوی فیض رسول جلد اول صفحہ 535 شبیربرادرز لاہور)*
5- امام کا مسجد میں اجازتِ شرعیہ کے بغیر دین کے کام کی مخالفت کرنا اور اس سے روکنے کی کوشش کرنا اور لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد پیدا کرنا سخت ناجائز و گناہ ہے، امام پر لازم ہے کہ اس توبہ کرے اور اگر وہ اپنی اسی روش پر باقی رہے اور توبہ نہ کرے تو اہلِ محلہ کے لئے اس کا ساتھ دینا اور اس کے پیچھے نمازیں پڑھنا جائز نہیں ہے۔
چنانچہ فقیہِ ملت مفتی محمد جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"جو شخص کہ کسی مسجد کو برباد کرنے کی کوشش کرے اور ازراہِ نفسانیت مصلیوں میں تفرقہ (پھوٹ) ڈالے، (تو) اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں اور جو لوگ ایسے شخص کا ساتھ دیں، (تو) وہ گناہگار ہیں۔
قال اللہ تعالیٰ : 
(یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے)
*"وَاِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْن"*
(ترجمہ : اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔)
َ(پارہ 7، رکوع 14، سورۃ الانعام : 68)
 *(فتاویٰ فیض الرسول جلد 1 صفحہ 327 شبیر برادرز لاہور)*
6- رکوع سے اٹھنے کے بعد کبھی کبھار کپڑا جسم سے چپک جاتا ہے تو عملِ قلیل کے ساتھ اسے چھڑانے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ عمل مفید ہے اور ایک ہاتھ سے بآسانی ہوسکتا ہے، اس لیے اس میں دونوں ہاتھوں کا استعمال نہ کیا جائے لہذا اس موقع پر امام کا دوسرے ہاتھ کو استعمال کرنا بے فائدہ ہونے کی وجہ سے مکروہِ تنزیہی (یعنی شرعاً ناپسندیدہ) ہے لیکن امام گناہگار نہیں ہوگا اور اس کی نماز بھی ہوجائے گی۔
*نوٹ :*
البتہ اگر دونوں ہاتھوں کا استعمال اس طرح کیا کہ دور سے دیکھنے والے کا ظنِ غالب یہی ہو کہ یہ امام نماز میں نہیں ہے تو پھر امام کا یہ عملِ کثیر ہوگا اور اس کی نماز ٹوٹ ہوجائے گی۔
چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
*”و لاباس بان ینفض ثوبہ کیلا یلتف بجسدہ فی الرکوع“*
یعنی اور (نمازی کے لئے) اپنا کپڑا جھاڑنا تاکہ رکوع میں جسم سے نہ چپکے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
*(فتاویٰ عالمگیری جلد 1 صفحہ 105 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین شامی دمشقی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*”قال فی النھایۃ و حاصلہ ان کل عمل ھو مفید للمصلی فلا باس بہ، اصلہ ماروی ان  النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عرق فی صلاتہ فسلت العرق عن جبینہ ای مسحہ لانہ کان یوذیہ فکان مفیدا و فی زمن الصیف کان اذا قام من السجود نفض ثوبہ یمنۃ او  یسرۃ لانہ کان مفیدا کی لاتبقی صورۃ۔ فاما ما لیس بمفید فھو عبث“* 
یعنی نہایہ میں فرمایا : ”خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر وہ عمل کہ جو نمازی کے لیے مفید ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس کی اصل وہ ہے جو روایت کیا گیا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز میں پسینہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پسینہ پونچھ لیا یعنی اسے صاف کر دیا، کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکلیف دے رہا تھا تو یہ (پسینہ صاف کرنا) مفید عمل تھا اور گرمی کے زمانے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سجدہ سے قیام فرماتے تو دائیں یا بائیں طرف سے کپڑا چھڑا لیتے کہ یہ بھی مفید عمل تھا تاکہ جسم کی ہیئت ظاہر نہ ہو، رہا وہ عمل کہ جو مفید نہ ہو تو وہ عبث (فضول) ہے۔

*(ردالمحتار علی الدرالمختار، جلد 2 صفحہ 490 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ *"بہار شریعت"* میں نماز کے *"مکروہاتِ تنزیہی"*  بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
”ہر وہ عملِ قلیل کہ مصلی (نمازی) کے لئے مفید ہو، جائز ہے اور جو مفید نہ ہو، مکروہ ہے۔“
*(بہارِ شریعت جلد 1 حصہ 3 صفحہ 631 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
7- سجدے میں جاتے وقت امام کا ایک ساتھ دونوں ہاتھوں سے شلوار اوپر کی طرف کھینچنا مکروہِ تحریمی (یعنی ناجائز و گناہ) ہے کیونکہ یہ کفِ ثوب (کپڑے لپیٹنے) میں داخل ہے، جس سے حدیثِ مبارکہ میں منع کیا گیا ہے اور ایسی نماز کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے، جو امام ایسا کرتا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اور جو ایسی حالت میں اس کی پیچھے نمازیں پڑھیں گے ان کو دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا۔
چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
*”یکرہ للمصلی ان یعبث بثوبہ او لحیتہ او جسدہ و ان یکف ثوبہ بان یرفع ثوبہ من بین یدیہ او من خلفہ اذا اراد السجود کذا فی معراج الدرایۃ“*
یعنی نمازی کے لئے اپنے کپڑے، داڑھی یا جسم کے ساتھ کھیلنا مکروہ ہے اور یوں کپڑا سمیٹنا کہ سجدہ کا ارادہ کرتے وقت اپنے آگے سے یا اپنے پیچھے سے اپنا کپڑا اٹھا لے (یہ بھی مکروہ ہے) ایسے ہی *"معراج الدرایہ"* میں ہے۔
*(فتاویٰ عالمگیری جلد 1 صفحہ 105 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد، علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ *"بہار شریعت"* میں *"مکروہات تحریمی"* کے بیان میں تحریر فرماتے ہیں :
”کپڑا سمیٹنا، مثلا سجدہ میں جاتے وقت آگے یا پیچھے سے اٹھالینا، اگرچہ گرد سے بچانے کے لیے کیا ہو اور اگر بلاوجہ ہو تو اور زیادہ مکروہ ہے۔“
*(بہار شریعت جلد 1 حصہ 3 صفحہ 624 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
فقیہِ ملت مفتی محمد جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
”کپڑا سمیٹنا جیسا کہ ناواقف لوگ سجدہ میں جاتے ہوئے آگے یا پیچھے کے کپڑے کو اٹھاتے ہیں، یہ مفسدِ نماز نہیں بلکہ مکروہِ تحریمی اور ناجائز ہے ۔ جس نماز میں ایسا کیا گیا، اس نماز کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔“
*(فتاویٰ فیض الرسول جلد 1 صفحہ 276 شبیر برادرز لاہور)*
8- اگر واقعی امام کے نائب کا ذہنی توازن درست نہیں ہے اور وہ معتوہ (یعنی خفیف العقل) ہے تو ایسا شخص صحیح العقل مردوں کا امام نہیں بن سکتا، نہ اس کو امامت کے لیے مقرر کرنا جائز ہے اور نہ اس کے پیچھے نماز پڑھنی جائز ہے اور جو نمازیں اس کے پیچھے پڑھیں ہیں ان کو دوبارہ پڑھنی واجب ہو گا۔
چنانچہ علامہ شیخ احمد طحطاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"ولاتصح امامۃ المعتوہ و ھو الذی ینسب الی الخزف"*
یعنی معتوہ کی امامت درست نہیں ہے اور یہ وہ ہوتا ہے جسے عقل کے فساد کی طرف منسوب کیا جاتا ہے (یعنی نیم پاگل)۔
*(حاشیۃ طحطاوی علی مراقی الفلاح، جلد 1 صفحہ 391 المکتبۃ الغوثیہ)*
غنیۃ المستملی میں ہے :
*"وکذا لایجوز اقتداء العاقل بالمعتوہ"*
اور ایسے ہی عاقل کا معتوہ (یعنی خفیف العقل) کی اقتداء کرنا جائز نہیں ہے۔
*(غنیۃ المستملی المعروف بہ کبیری، صفحہ 477 بحوالہ جبیب الفتاوی صفحہ 216 شبیر برادرز لاہور)*
حبیب الفتاوی میں ہے :
ایسا شخص (یعنی خفیف العقل) صحیح العقل مردوں کا امام نہیں ہو سکتا، ایسے امام کی قتداء جائز نہیں۔ لہٰذا امام مذکور کو ہرگز ہرگز امام نہ بنایا جائے، ان کے پیچھے جتنی نمازیں پڑھی گئیں، سب واجب الاعادہ ہیں."
*(جبیب الفتاوی صفحہ 215 شبیر برادرز لاہور)*
9- مذکورہ امام کا مسجد میں سبزیاں لگا کر اور مسجد کے پانی سے سیراب کرکے انہیں اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ سبزیاں اب مسجد کی قرار پائیں گی اور انہیں بیچ کر ان کی قیمت کو مسجد پر خرچ کیا جائے گا۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
*"واذا غرس شجراً فی المسجد فالشجر للمسجد"*
یعنی اور جب کسی نے مسجد میں درخت لگائے تو درخت مسجد کے ہیں (درخت لگانے والے کے نہیں)۔
*(فتاوی عالمگیری، کتاب الوقف، الباب الثانی عشر، جلد 2، صفحہ 474 مطبوعہ دارالفکر)*
امام فخرالدین ابو المحاسن حسن بن منصور المعروف قاضیخان اوزجندی فرغانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"ولو غرس فی المسجد یکون للمسجد، لانہ لایغرس لنفسہ فی المسجد"*
یعنی اور اگر کسی نے مسجد میں درخت لگایا تو درخت مسجد کا ہے، اس لیے کہ کوئی اپنے لیے مسجد میں درخت نہیں لگا سکتا۔
*(فتاویٰ قاضیخان، کتاب الوقف، فصل فی الاشجار، جلد 3، صفحہ 118، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)*
امام ضاضیخان رحمۃ اللہ علیہ مزید تحریر فرماتے ہیں :
*"مسجد فیہ شجرۃ التفاح، قال بعضھم یباح للقوم ان یفطروا بھذا التفاح، و الصحیح : انہ لایباح، لان ذلک صار للمسجد یصرف الی عمارۃ المسجد"*
یعنی مسجد میں سیب کا درخت ہو تو بعض نے کہا کہ قوم (نمازیوں) کے لئے اس سیب کو کھانا مباح (جائز) ہے، اور صحیح یہ ہے کہ مباح نہیں ہے، اس لئے یہ مسجد کے لئے ہوگیا ہے، اسے مسجد کی عمارت پر خرچ کیا جائے گا۔
*(فتاویٰ قاضیخان، کتاب الوقف، فصل فی الاشجار، جلد 3، صفحہ 118، دارالکتب)*
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"مسجد میں کسی نے درخت لگائے تو درخت مسجد کا ہے لگانے والے کا نہیں۔۔۔۔
مسجد میں انار یا امرود وغیرہ پھلدار درخت ہے، مصلیوں (نمازیوں) کو اسکے پھل کھانا جائز نہیں بلکہ جس نے بویا ہے وہ بھی نہیں کھا سکتا کہ درخت اُسکا نہیں بلکہ مسجد کا ہے، پھل بیچ کر مسجد پر صرف کیا جائے۔"
*(بہارشریعت جلد 2 حصہ 10 صفحہ 567 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
مذکورہ امام اپنے تمام فسق و فجور سے توبہ کر لیتا ہے تو اسے امامت کے منصب پر برقرار رکھنا جائز ہے اور وہ ان تمام ناجائز باتوں سے باز نہیں آتا تو اسے امامت کے منصب سے معزول کرنا ضروری ہے، اور اگر اہلِ محلہ پھر بھی اسے امامت پر باقی رکھ کر اس کے پیچھے نمازیں ادا کریں گے تو سب گناہگار بھی ہوں گے اور اس کے پیچھے پڑھی گئی نمازوں کو دوبارہ پڑھنا بھی واجب ہوگا۔
لہٰذا اہلِ محلہ اور مسجد کی کمیٹی کو چاہیے کہ اپنی مسجد میں امام ایسے شخص کو بنائیں جو صحیح عقیدے والا سنی ہو، اس کی قراءت درست ہو، نماز اور طہارت کے مسائل کو جاننے والا ہو، فاسق و فاجر نہ ہو، نیک عمل کرنے والا ہو، شرعی معذور نہ ہو اور نہ اس میں ایسا کوئی روحانی و جسمانی عیب ہو کہ جس سے لوگوں کو گھن آئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
*"لایؤم فاجر مؤمناً الا ان یقھرہ بسلطان یخاف سیفہ او سوطہ"*
یعنی ہرگز کوئی فاسق کسی مؤمن کی امامت نہ کرے مگر یہ کہ وہ اس کو باشاہ کے زور سے مجبور کردے کہ اس کی تکوار یا کوڑے کا خوف ہو۔
*(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاة و السنۃ فیھا، باب فی فرض الجمعۃ، صفحہ 176 دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)*
ایک اور مقام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
*"اجعلوا ائمتکم خیارکم فانھم وفدکم فیما بینکم و بین ربکم"*
یعنی تم اپنے نیک لوگوں کو اپنا امام مقرر کرو کیونکہ یہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان تمہارے وفد (وسائط) ہیں۔
*(سنن دارقطنی جلد 2 صفحہ 88 مطبوعہ نشر السنۃ ملتان)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"امام اُسے کیا جائے جو سنّی العقیدہ، صحیح الطہارۃ، صحیح القرأۃ، مسائلِ نماز و طہارت کا عالم، غیر فاسق ہو نہ اُس میں کوئی ایسا جسمانی یا روحانی عیب ہو، جس سے لوگوں کو تنفر ہو۔"
*(فتاوی رضویہ جلد 6 صفحہ 626 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
*نوٹ :*
شرعی عذر کی وجہ سے جس شخص کی امامت کو لوگ ناپسند کرتے ہوں تو اس کا امامت کرنا مکروہِ تحریمی اور ناجائز و گناہ ہے۔
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"اگر قوم کی کراہت شرعی عذر کے بغیر ہو جیسا صالح اور عالم کی امامت کو اپنے بعض دنیوی تنازعے کی وجہ سے مکروہ سمجھتے ہوں یا غلام، نابینا وغیرہ کی امامت کو مکروہ سمجھتے ہوں حالانکہ وہ قوم سے افضل ہوں تو ایسی صورت میں قوم کی اپنی ناپسندیدگی کوئی معنی نہیں رکھتی لہذا ان افراد کی امامت میں وہ اثر نہ ہوگی، اگر کراہت کسی شرعی عذر سے ہو مثلاً امام فاسق یا بدعتی ہو یا چار مذکور افراد غلام، اعرابی، ولد الزنا اور نابینا دوسروں سے افضل و اعلم نہ ہوں یا قوم میں کوئی ایسا شخص موجود ہو جس میں شرعی ترجیحات ہوں، مثلاً علم زیادہ رکھتا ہے، تجوید و قرأت کا ماہر ہے تو یہ خود امامت کے زیادہ لائق اور حقدار ہے ایسی صورت میں جس شخص کو امام بنانا قوم مکروہ جانے اس شخص کو امام بننا ممنوع اور مکروہ تحریمی ہے۔"
*(فتاویٰ رضویہ جلد 6 صفحہ 471 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
26/09/2020
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
1- ماشاءاللہ، بارک اللہ، آپ کا فتویٰ جو ایک امام کے مختلف احوال کے متعلق ہے کہ اس کے یہ افعال و احوال خلافِ شرع ہیں تو اس کے بارے میں جو شرعی حکم آپ سے پوچھا گیا تو اس پر آپ نے بہت جاندار اور شاندار، تحقیقی اور تفصیلی فتویٰ رقم فرمایا بر تقدیرِ صدقِ سائلان آپ کا یہ فتویٰ بالکل درست ہے، میں اس کی تائید و توثیق کرتا ہوں، ہاں خاص کسی امام کے نام سے ایسا مسئلہ آئے تو لازم ہے کہ مدعیان کو آپ بلا کر آپ شھادتِ شرعیہ طلب کریں، اور اگر وہ شھادت نہ دے سکیں تو مدعیٰ علیہ پہ حلف رکھا جائے اور پھر فیصلہ کیا جائے۔
*مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری،مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی۔*
2- الجواب صحيح والمجيب نجيح 
*فقط محمد عطاء الله النعيمي غفرله خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (باكستان) كراتشي*