غیرِ نبی کے نام کے ساتھ *"علیہ السلام"* پڑھنا یا لکھنا کیسا ہے ؟
غیرِ نبی کے نام کے ساتھ *"علیہ السلام"* پڑھنا یا لکھنا کیسا ہے ؟
سائل : عبدالرحمٰن عیسیٰ خیل میانوالی پنجاب پاکستان
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
انبیائے کرام علیھم السلام اور فرشتوں کے علاوہ کسی اور کے نام کیساتھ اِسْتِقْلَالاً (یعنی اِبْتدَاءً) *"علیہ السلام"* پڑھنا یا لکھنا شرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ ایک تو اسلاف علمائے کرام نے *"علیہ السلام"* کو انبیاء کرام علیھم السلام اور فرشتوں کے ساتھ خاص کیا ہے اور دوسرا انبیائے کرام علیھم السلام اور فرشتوں کے علاوہ کے ساتھ ابتداءً علیہ السلام کہنا اہلِ بدعت کا شعار (یعنی ان کی علامت) ہے، البتہ انبیائے کرام علیھم السلام اور فرشتوں کی تَبْعِیَّت میں *"علیہ السلام"* پڑھنا یا لکھنا جائز ہے (یعنی پہلے کسی نبی علیہ السلام یا کسی فرشتے کا ذکر ہوا تو اس کے بعد غیر نبی و غیر فرشتے کیساتھ *"علیہ السلام"* پڑھنا یا لکھنا جائز ہے.)
جیسے *"حضرت ابوبکر عَلیٰ نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ السَّلَام"* (یعنی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سلام ہو) کہنا جائز ہے اور کسی نبی یا فرشتے کا پہلے ذکر کیے بغیر ڈائریکٹ *"ابوبکر علیہ السلام"* کہنا جائز نہیں ہے۔
چنانچہ علامہ شمس الدین تمرتاشی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"ولایصلیٰ علی غیر الانبیاء و لا علی غیر الملائکۃ الا بطریق التبع"*
یعنی انبیائے کرام علیھم السلام اور فرشتوں کے علاوہ پر درود نہیں بھیجا جائے گا مگر بطورِ تَبْعِیَّت کے۔
اس کے تحت عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین دمشقی شامی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"و أما السلام فنقل اللقاني فی شرح جوھرۃ التوحید عن الامام الجویني أنہ في معنی الصلاة، فلا یستعمل في الغائب و لایفرد بہ غیر الأنبیاء، فلا یقال علي علیہ السلام و سواء في ہذا الأحیاء والأموات․․․*
*و الظاہر أن العلة في منع السلام ما قالہ النووي في علة منع الصلاة أن ذلک شعار أہل البدع و لأن ذلک مخصوص في لسان السلف بالأنبیاء علیہم السلام"*
یعنی اور بہرحال سلام تو امام لقانی نے امام *"شرح جوھرۃ التوحید"* میں امام جوینی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ بے شک سلام درود کے معنی میں ہے، پس اسے غائب میں استعمال نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس کے انبیائے کرام علیھم السلام کے علاوہ کو الگ کیا جائے گا، پس *"علی علیہ السلام"* نہیں کہا جائے گا، اور اس حکم میں زندہ اور وفات پانے والے سب برابر ہیں۔۔۔۔
اور ظاہر ہے کہ سلام کے منع ہونے کی علت وہ ہے جسے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے صلوۃ کے منع ہونے کی علت میں نقل کیا ہے کہ بے شک یہ اہلِ بدعت کا شعار ہے، اور اس لیے کہ یہ سلف کی زبان میں انبیائے کرام علیھم الصلوۃ و السلام کے ساتھ خاص ہے۔
*(رد المحتار علی الدرالمختار، کتاب الخنثی، فصل في مسائل شتی، جلد 10 صفحہ 518 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت *"لان ذلک"* کے تحت تحریر فرماتے ہیں :
*"اقول : ھکذا نص علی التعلیل بہ فی "الغنیۃ" عند شرح خطبۃ "المنیۃ" و صرح ان افراد غیر الانبیاء بالسلام ابتداع واجب الاجتناب و صرح علی القاری فی "شرح الفقہ الاکبر" : (ان قول علیہ السلام لسیدنا علی کرم اللہ وجھہ من شعار الروافض (اھل البدعۃ)۔*
*قلت : واذ قد انعقد الاجماع علی منعہ فلا معنی لارتکابہ"*
یعنی میں (امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ) کہتا ہوں : اس کی تعلیل پر ایسے ہی صراحت ہے *"المنیہ"* کے خطبے کی شرح کرتے وقت *"الغنیہ"* میں، اور انہوں نے صراحت فرمائی ہے کہ انبیائے کرام علیھم السلام کے علاوہ کو سلام کے ساتھ الگ ذکر کرنا بدعت اور اس سے بچنا واجب ہے اور ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے *"شرح الفقہ الاکبر"* میں صراحت کی ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجھہ کے لئے *"علیہ السلام"* کہنا روافض (اہلِ بدعت) کے شعار میں ہے۔
میں (امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ) کہتا ہوں :
اور جب تحقیق اس کی ممانعت پر اجماع منعقد ہوچکا تواس کے ارتکاب کی کوئی علت نہیں ہے۔
*(جِدُّالممتار علی ردالمحتار جلد 7 صفحہ 241 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
شرح فقہِ اکبر میں ہے :
*"أنہ قولہ علي علیہ السلام من شعار أہل البدعة"*
یعنی بے شک اس کا *"علی علیہ السلام"* کہنا اہل بدعت کے شعار میں سے ہے۔
*(شرح الفقہ الأکبر 167 قدیمی کتب خانہ کراچی)*
علامہ بدرالدین عینی حنفی رحمۃ اللّٰہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"و قال ابوحنیفة و اصحابہ و مالک و الشافعی و الاکثرون انہ لایصلی علی غیر الانبیاء علیہم الصلوة و السلام استقلالا، فلایقال اللھم صل علی ال ابی بکر او علی ال عمر او غیرھما و لکن یصلی علیھم تبعا"*
یعنی امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، امام مالک، امام شافعی اور اکثر علماء رحمۃ اللّٰہ علیہم نے فرمایا :
انبیائے کرام علیھم السلام کے غیر پر استقلالاً درود نہیں بھیجا جا سکتا، پس یہ نہیں کہا جا سکتا :
*"اللھم صل علی ال ابی بکر"*
یا
*"اللھم صل علی ال عمر"*
وغیرہ، لیکن ان پر (انبیائے کرام علیھم السلام کے) تابع کرکے درود بھیجا جا سکتا ہےـ
*(عمدةالقاری شرح صحیح بخاری، کتاب الزکوة، جلد 6 صفحہ 556 بیروت)*
*2-* سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"صلوة و سلام بالاستقلال انبیاء و ملائکہ علیھم السلام کے سوا کسی کے لیے روا (جائز) نہیں، ہاں بہ تبعیت جائز جیسے اللھم صل و سلم علی سیدنا و مَولیٰنا محمد و علی ال سیدنا و مولیٰنا محمد اور صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم کیلیے رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کہا جائے، اولیاء و علماء کو رحمۃ اللّٰہ تعالی علیہم یا قُدِّسَتْ اَسْرَارُھُمْ اور اگر (اولیاء و علماء کے ناموں کے ساتھ) رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم کہے، جب بھی کوئی مضائقہ (حرج) نہیں۔"
*(فتاوی رضویہ جلد23صفحہ 390 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
*3-* صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"کسی کے نام کیساتھ *"علیہ السلام"* کہنا، یہ انبیاء و ملائکہ علیھم السلام کے ساتھ خاص ہے۔ مثلا موسیٰ علیہ السلام، جبریل علیہ السلام۔ نبی اور فرشتہ کے سوا کسی دوسرے کے نام کے ساتھ یوں نہ کہا جائے۔"
*(بہارِشریعت جلد 3 صفحہ 465 مکتبة المدینہ کراچی)*
*4-* فقیہِ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللّٰہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے، جمھور علماء کا مذھب یہ کہ استقلالا و ابتداء نہیں جائز اور اتباعا جائز ہے یعنی امام حسین علیہ السلام کہنا جائز نہیں ہے اور امام حسین علی نَبِیِّنَا و علیہ السَّلامُ (یعنی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور امام حسین رضی اللہ عنہ پر سلام ہو، یہ کہنا) جائز ہے۔"
*(فتاوی فیض الرسول جلد 1 صفحہ 267 شبیر برادرز لاہور)*
جب *"فتاوی امجدیہ"* میں صدرُ الشَّریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ سے یہ سُوال ہوا کہ :
یاحُسین عَلَیْہِ السَّلَام کہنا جائز ہے یا نہیں اور ایسا لکھنا بھی کیسا ہے اور پکارنا کیسا ہے ؟
تو آپ نے جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا :
"یہ سلام جو نام کے ساتھ ذِکر کیا جاتا ہے یہ (یعنی یہ عَلَیْہِ السَّلَام کہنا، لکھنا) سلام ِتَحِیَّت (یعنی ملاقات کا سلام) نہیں جو باہم ملاقات کے وَقت کہا جاتا ہے یا کسی ذَرِیعہ سے کہلایا جاتا ہے بلکہ اس (یعنی عَلَیْہِ السَّلَام) سے مقصود صاحِبِ اِسم (یعنی جس کا نام ہے اُس) کی تعظیم ہے۔
عُرفِ اَہلِ اسلام نے اس سلام (یعنی عَلَیْہِ السَّلَام لکھنے بولنے) کو انبِیاء و ملائکہ کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔ مَثَلاً حضرتِ ابراھیم عَلَیْہِ السَّلَام حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام حضرتِ جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام حضرتِ میکائیل عَلَیْہِ السَّلَام۔ لہٰذا غیرِ نبی و مَلَک (یعنی نبی اور فرشتے کے علاوہ) کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلَام نہیں کہنا چاہئے۔"
*(فتاویٰ امجدیہ جلد 4 صفحہ 243، 244، 245 مکتبہ رضویہ کراچی)*
مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین امجدی قادری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوۃ و سلام بھیجنے کے بعد تبعاً دوسرے لوگوں پر بھی درود پڑھنا جائز ہے۔"
*(وقارالفتاویٰ جلد اول صفحہ 134 ناشر بزم وقارالدین)*
*نوٹ :*
غیرِ نبی اور غیرِ فرشتہ پر سلام اور درود کا ایک ہی حکم ہے۔
چنانچہ امام حافظ محی الدین نووی رحمۃ اللّٰہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"قال الشیخ ابو محمد الجوینی من ائمة اصحابنا : السلام فی معنی الصلوة"*
یعنی ہمارے اصحاب میں سے شیخ ابو محمد جوینی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ :
(اس حکم میں) سلام، صلوٰة (درود) کے معنی میں ہےـ
*(شرح صحیح مسلم، باب الدعا لمن اتی بصدقتہ، جلد 4 صفحہ 185، الجزء السابع)*
عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین دمشقی شامی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"و أما السلام فنقل اللقاني فی شرح جوھرۃ التوحید عن الامام الجویني أنہ في معنی الصلاة"*
یعنی اور بہرحال سلام تو امام لقانی نے امام *"شرح جوھرۃ التوحید"* میں امام جوینی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ بے شک سلام درود کے معنی میں ہے۔
*(رد المحتار علی الدرالمختار، کتاب الخنثی، فصل في مسائل شتی، جلد 10 صفحہ 518 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
23/01/2019
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحیح والمجیب مصیب۔
*مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری، مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی۔*