.
خلاصہ:
فقہ حنفی میں احادیث و آثار دلائل کے مطابق بلاعمد گستاخی ہو یا عمداً بلاتکرار بلافساد گستاخی ہو توبہ کرائی جائے گی، توبہ کرلیں تو سزا بھی معاف
مگر
ضدی فسادی گستاخ یا بار بار گستاخی کرنے والے کو بھی اگرچہ توبہ کرائی جائے گی توبہ نہ کرے یا توبہ کرے تو اگرچہ توبہ قبول مگر ضدی فسادی بار بار گستاخی والے کو اب قاضی سزا موت دے یا کوئی عام آدمی معتبر اعلم البلد عالم حکما قاضی سے اجازت لے کر قتل کرے یا بلااجازت ہی قتل کردے تو جائز ہے....
.
گستاخ کی توبہ چونکہ قبول ہے اس لیے اس کے لیے دعاءِ ہدایت کرنی چاہیے عاشق رسول بن جانے کی دعا کرنی چاہیے اور ساتھ میں یہ بھی دعا کی جائے کہ یا اللہ اگر گستاخوں کے مقدر میں توبہ نہیں تو انہیں تباہ و برباد کر، انکے شر و اذیت سے محفوظ فرما
.
تفصیل، دلائل و حوالہ جات:
①*#گستاخ غیرگستاخ سب کے لیے دعاءِ ہدایت:*
ابو جھل کا گستاخ و دشمن اسلام ہونا بچے بچے کو معلوم ہے اور سیدنا عمر مسلمان ہونے سے پہلے دشمنان اسلام میں شمار ہوتے تھے، مسلمان ہونے پے اپنی بہن کو مارا پیٹا اور نبی پاک کے قتل کے ارادے سے نکلے مگر نبی پاک نے ان کے لیے بھی ہدایت کی دعا کی
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اللَّهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ»
ترجمہ:
بے شک رسول کریم نے فرمایا یا اللہ اسلام کو عزت عطا فرما ان دو لوگوں میں سے کسی ایک کو ہدایت دے کر جو تجھے زیادہ محبوب ہو، ابو جھل یا عمر بن خطاب
[سنن الترمذي ت شاكر ,5/617 حديث3681]
.
نبی پاک نے تو تمام امتِ دعوت مسلم غیرمسلم گستاخ غیرگستاخ سب کے لیے ہدایت کی دعا کی ہے...علامہ مولا علی قاری حنفی لکھتے ہیں:
فَدُعَاؤُهُ بِالْهِدَايَةِ لِجَمِيعِ أُمَّتِهِ قَدْ وَقَعَ فِي قَوْلِهِ: «اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ»
ترجمہ:
حدیث پاک میں تمام امت دعوت کے لیے نبی پاک نے دعا فرمائی کہ یا اللہ میری قوم کو ہدایت دے یہ نہین جانتے
[مرقاة شرح مشكاة تحت الحدیث4740]
.
②*#مرتد، اسی طرح گستاخ کی سزا میں اگرچہ تفصیل ہے مگر اس سےتوبہ کرائی جائے گی انکی توبہ قبول ہے*
الحدیث:
كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ أَسْلَمَ، ثُمَّ ارْتَدَّ وَلَحِقَ بِالشِّرْكِ، ثُمَّ تَنَدَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَى قَوْمِهِ : سَلُوا لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ هَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ ؟ فَجَاءَ قَوْمُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا : إِنَّ فُلَانًا قَدْ نَدِمَ، وَإِنَّهُ أَمَرَنَا أَنْ نَسْأَلَكَ هَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ ؟ فَنَزَلَتْ : { كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ } إِلَى قَوْلِهِ : { غَفُورٌ رَحِيمٌ }، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَأَسْلَمَ
ترجمہ:
ایک انصاری مسلمان ہوا پھر مرتد ہوگیا اور مشرکوں کے ساتھ جا ملا پھر وہ نادم ہوا تو اس نے اپنی قوم کی طرف پیغام بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرو کہ کیا میری توبہ قبول ہے تو اسکی قوم رسول کریم کی طرف آئی اور عرض کیا کہ فلاں مرتد ہو چکا ہے اور اس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ سے پوچھیں کہ کیا میری کوئی توبہ قبول ہے تو یہ آیت نازل ہوئی { كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ }إِلَى قَوْلِهِ : { غَفُورٌ رَحِيمٌ } تو قوم نے یہ پیغام اس کی طرف بھیجا اور وہ مرتد مسلمان ہو گیا(اور اس کی توبہ قبول ہوگئ)
(نسائی حدیث4068)
.
الحدیث:
أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ ارْتَدَّ عَنِ الْإِسْلَامِ، وَلَحِقَ بِالْمُشْرِكِينَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى : { كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ } إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَبَعَثَ بِهَا قَوْمُهُ، فَرَجَعَ تَائِبًا، فَقَبِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ مِنْهُ
ترجمہ:
بے شک ایک انصاری مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا ملا تو یہ آیت نازل ہوئی{ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ } إِلَى آخِرِ الْآيَةِ،تو قوم نے یہ آیت اس کی طرف بھیجی اور وہ واپس توبہ کرتے ہوئے مسلمان ہو گیا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی توبہ قبول فرما لی
(مسند احمد حدیث2218)
وَإِنِّي مَرَرْتُ بِمَسْجِدٍ لِبَنِي حَنِيفَةَ، فَإِذَا هُمْ يُؤْمِنُونَ بِمُسَيْلِمَةَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ عَبْدُ اللَّهِ ، فَجِيءَ بِهِمْ، فَاسْتَتَابَهُمْ
ترجمہ:
راوی کہتا ہے کہ میں مسجد بنی حنیفہ کے پاس سے گزرا تو وہ لوگ مسیلمہ کذاب پر ایمان لاتے تھے تو سیدنا عبداللہ نے ان مرتدین کی طرف بھیجا اور مرتدین کو لایا گیا تو سیدنا عبداللہ نے ان سے توبہ کرائی
(ابوداود روایت2762)
.
مذکورہ حدیث و روایات میں توبہ کرانے اور توبہ قبول کرنے کی بات اگرچہ مرتد کے متعلق ہے مگر علماء نے استدلال کرتے ہوءے عام گستاخ کو مرتد کے زمرے میں رکھا ہے
وأما من قال بقبول توبته فظاهر كلامهم أنهم يقولون باستتابته كما يستتاب المرتد،..فذهب الجمهور من أهل العلم إلى أن المرتد يستتاب، وحكى ابن القصار أنه إجماع من الصحابة على تصويب قول عمر في الاستتابة، ولم ينكره أحد منهم، وهو قول عثمان وعلي وابن مسعود، وبه قال عطاء بن أبي رباح والنخعي والثوري ومالك وأصحابه، والأوزاعي والشافعي وأحمد وإسحاق وأصحاب الرأي
ترجمہ:
جو(صحابہ تابعین فقہاء)اس چیز کے قائل ہیں کہ گستاخ کی توبہ قبول ہے تو ان کے کلام کا ظاہر یہ ہے کہ گستاخ سے توبہ کرائی جائے گی جیسے کہ مرتد سے توبہ کرائی جاتی ہے.....تو جمہور اور اکثریت اہل علم کی اس طرف گئی ہے کہ مرتد سے توبہ کرائی جائے گی۔۔ابن القصار نے فرمایا کہ اس بات پر اجماع صحابہ ہو چکا ہے کہ سیدنا عمر نے مرتد سے توبہ کرائی اور صحابہ نے آپ کو صحیح قرار دیا اور کسی نے بھی اختلاف نہ کیا تو یہ اجماع صحابہ ہو گیا اور یہی قول ہےسیدنا عثمان کا, یہی قول ہےسیدنا علی کا , یہی قول ہے سیدنا ابن مسعود کا اور ایسا ہی کہا ہے سیدنا عطاء بن أبي رباح نے اور سیدنا النخعي و الثوري نے اور امام مالك وأصحابه نے، اور امام الأوزاعي و الشافعي نے، اور امام أحمد و إسحاق اور أصحاب الرأي(یعنی یہی کہا ہے احناف نے)
رضی اللہ تعالیٰ عنھم و رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین
[السيف المسلول ,page 215بحذف یسیر]
.
ثابت ہوا عام مرتد کی توبہ قبول ہے اور فقہ حنفی مالکی شافعی کے مطابق عام گستاخ بھی مرتد کے حکم میں ہے لیھذا اس سے توبہ کرائی جائے گی، اسکی توبہ قبول کی جائے گی......البتہ بار بار گستاخی یا سرعام گستاخی کے ذریعے فساد پھیلانے والے کی توبہ اگرچہ قبول ہے مگر اسے قتل کیا جائے گا بلکہ بلا اجازت قاضی عام ادمی قتل کرسکتا ہے جسکی تفصیل نیچے آرہی ہے
③*#فقہ حنفی کے مطابق گستاخ و مرتد کا ایک ہی حکم کہ انہیں سمجھایا جائے توبہ کا کہاجائے توبہ کرلیں تو قتل نہ کیے جائیں سوائے اس کے کہ ضدی فسادی گستاخ یا بار بار گستاخی کرنے والے کو قتل ہی کیا جائے گا چاہے توبہ ہی کیوں نہ کر لے*
قلت: أرأيت الرجل المسلم إذا ارتد عن الإسلام كيف الحكم فيه؟ قال: يعرض عليه الإسلام، فإن أسلم وإلا قتل
ترجمہ:
امام محمد نےامام ابو حنیفہ علیھما الرحمۃ سے پوچھا کہ ایک شخص مرتد ہوگیا تو اس کا کیا حکم ہے تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ اس پر اسلام پیش کیا جائے گا(اسکے اعتراضات و خدشات کا رد کیا جاءے گا سمجھایا جائے گا)اگر اسلام کو قبول کرلے تو ٹھیک ورنہ قتل کر دیا جائے گا
[الأصل للشيباني ط قطر ,7/492]
.
یہ تو تھا مرتد کا حکم اور فقہ حنفی و شافعی میں عام گستاخ کا ھکم بھی مرتد کی طرح ہے
أَنَّ مَذْهَبَ أَبِي حَنِيفَةَ وَالشَّافِعِيِّ حُكْمُهُ حُكْمُ الْمُرْتَدِّ، وَقَدْ عُلِمَ أَنَّ الْمُرْتَدَّ تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ كَمَا نَقَلَهُ هُنَا عَنْ النُّتَفِ وَغَيْرِهِ، فَإِذَا كَانَ هَذَا فِي سَابِّ الرَّسُولِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَفِي سَابِّ الشَّيْخَيْنِ أَوْ أَحَدِهِمَا بِالْأَوْلَى
ترجمہ:
بے شک امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ عام گستاخ کا حکم مرتد والا حکم ہے۔۔۔اور بے شک اس سے پتہ چلا کہ مرتد کی توبہ قبول ہے جیسے کہ یہاں پر نقل ہے نتف وغیرہ سے۔۔جب عام گستاخ رسول کی توبہ قبول ہے تو سیدنا ابو بکر اور عمر کے گستاخ کی توبہ بھی بدرجہ اولی قبول ہے
[(رد المحتار) ,4/234]
.
امام اہلسنت مجدد دین و ملت سیدی احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:
ہمارے ائمہ مذہب رضی الله تعالٰی عنہم کے نزدیك ساب(عام گستاخ رسول) مرتد ہےاور اس کے سب احکام مثل مرتد، مرتداگر توبہ کرے تقبل ولا یقتل(قبول کریں گے اور قتل نہ کریں گے)
(فتاوی رضویہ15/152)
.
⑤*#گستاخ.و.مرتد کو سمجھایا جائیگا اور بار بار گستاخی کرنے والے یا ضدی فسادی گستاخ کو بلاحکم قاضی قتل کرنا جائز ہے*
.
الحدیث:
ایک عورت صحابی کے سامنے گستاخی کیا کرتی تھی، اسے صحابی نے بہت سمجھایا مگر وہ نا مانی، ایک رات حسبِ عادت گستاخی کر رہی تھی تو صحابی نے اسے قتل کر دیا اور معاملہ رسول کریم تک پہنچا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فیصلہ فرمایا کہ:
«ألا اشهدوا أن دمها هدر
ترجمہ: خبردار سب سن لو......!! بے شک اس (گستاخِ رسول)کا خون رائیگاں ہے
(ابو داؤد حدیث4361)
.
اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابی نے بار بار سمجھایا تاکہ توبہ کرے اور قتل سے بچے، مگر وہ بار بار گستاخی کرتی رہی تو صحابی نے بار بار گستاخی کرنے والے کو قاضی کے حکم کے بغیر قتل کر ڈالا اور پھر قاضی اعظم یعنی رسول کریم کےپاس پہنچے تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے بار بار گستاخی کرنے والے گستاخ کا خون راءیگاں قرار دیا....یہی حکم فقہ حنفی میں بیان کیا گیا ہے
.
جس طرح چور کو سزا قاضی دیگا مگر جسکا چور ہونا معروف ہو اور چوری کر رہا ہو تو اسے بلاحکم قاضی عام آدمی بھی قتل کرسکتا ہے اسی طرح بدرجہ اولی گستاخ جسکی گستاخی مشھور ہو فسادی ہو گستاخی الحاد فساد پھیلا رہا ہو تو اسے بلااجازت قاضی و عدلیہ کوئی بھی عام ادمی قتل کرسکتا ہے....مسلۂ
رأى رجلا يسرق ماله فصاح به أو ينقب حائطه أو حائط غيره وهو معروف بالسرقة فصاح به ولم يهرب حل قتله ولا قصاص عليه
ترجمہ:
(خلیفہ اعلی حضرت مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ اسکا تفسیری ترجمہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
مکان میں چور گھسا اور ابھی مال لے کر نکلا نہیں اس نے شور و غل کیا مگر وہ بھاگا نہیں یا اس کے مکان میں یا دوسرے کے مکان میں نقب لگا رہا ہے اور شور کرنے سے بھاگتا نہیں، اس کو قتل کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ چور ہونا اس کا مشہور ومعروف ہو۔
[النهر الفائق شرح كنز الدقائق ,3/165]
[(رد المحتار) ,6/546]
[بہارِ شریعت حصہ 17 صفحہ761]
.
بار بار گستاخی کرنے یا فساد پھیلانے یا مشھور و معروف گستاخ ہونے کی شرط اوپر حدیث اور دیگر احادیث اور کتب فقہ سے ثابت ہے
.
وَلِهَذَا أَفْتَى أَكْثَرُهُمْ بِقَتْلِ مَنْ أَكْثَرَ مِنْ سَبِّ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ وَإِنْ أَسْلَمَ بَعْدَ أَخْذِهِ...فَقَدْ أَفَادَ أَنَّهُ يَجُوزُ عِنْدَنَا قَتْلُهُ إذَا تَكَرَّرَ مِنْهُ ذَلِكَ وَأَظْهَرَه..قَوْلُهُ وَبِهِ أَفْتَى شَيْخُنَا) أَيْ بِالْقَتْلِ لَكِنْ تَعْزِيرًا كَمَا قَدَّمْنَاهُ عَنْهُ وَيَنْبَغِي تَقْيِيدُهُ بِمَا إذَا ظَهَرَ أَنَّهُ مُعْتَادُهُ كَمَا قَيَّدَهُ بِهِ فِي الْمَعْرُوضَاتِ أَوْ بِمَا إذَا أَعْلَنَ بِهِ...بَلْ أَفْتَى بِهِ أَكْثَرُ الْحَنَفِيَّةِ إذَا أَكْثَرَ السَّبَّ...جَوَازِ قَتْلِ الْمَرْأَةِ إذَا أَعْلَنَتْ بِالشَّتْمِ فَهُوَ مَخْصُوصٌ مِنْ عُمُومِ النَّهْيِ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ...فَيَدُلُّ عَلَى جَوَازِ قَتْلِ الذِّمِّيِّ الْمَنْهِيّ عَنْ قَتْلِهِ بِعَقْدِ الذِّمَّةِ، إذَا أَعْلَنَ بِالشَّتْمِ أَيْضًا
ترجمہ ملخصا:
اسی وجہ سے اکثر فقہاء احناف نے فتوی دیا ہے کہ جو بار بار نبی پاک کی گستاخی کرے اسے قتل کیا جائے گا چاہے وہ بظاہر مسلمان ہو یا ذمی کافر اگرچہ مسلمان ہوجائے (حربی گستاخ کافر تو بدرجہ اولیٰ قتل کیا جائے گا)
اس عبارت سے یہ فائدہ نکلتا ہے کہ ہم احناف کے نزدیک جب گستاخی بار بار ہو تو اس کو قتل کرنا جائز ہے۔۔۔اور مصنف نے جو کہا ہے کہ اسی پر ہمارے استاد نے فتوی دیا ہے تو یہ فتوی تعزیرا قتل کرنا جائز ہے اور یہ قتل کرنا اس وقت جائز ہے جب وہ عادی گستاخ ہو یا بار بار گستاخی کرے یا سرعام گستاخی کرکے فساد پھیلائےتو ایسے گستاخ کو قتل کرنا جائز ہے۔۔۔یہ تو ایک امام کا نہیں بلکہ اکثر احناف کا فتویٰ ہے۔۔۔اسی طرح عورت اگر بار بار گستاخی کرے یا سرعام گستاخی کرکے فساد پھیلائے تو اسے قتل کرنا جائز ہے اسی طرح ذمی کافر کا بھی حکم یہی ہے
[(رد المحتار)216 ,4/215ملتقطا]
.
④طاہر الکادری کہتا ہے کہ غیرمسلم ممالک کے گستاخ اور گستاخانہ کارٹونز بنانے والوں پر اسلامی حکم یعنی سزاء موت لاگو نہین ہوگی...
.
جواب:
یہ فتوی اس کے ایجنٹ منافق گمراہ ہونے کی واضح دلائل و شواہد میں سے ایک ہے کیونکہ ضدی عادی فسادی گستاخ کہیں بھی ہو، کسی بھی اسلامی غیراسلامی ملک ریاست میں ہو اسے قتل کیاجائے گا....اوپر بیان کردہ دلائل کے علاوہ بطور نمونہ دو واقعات، احادیث پیش ہیں
.
¹:مکہ جب الگ غیر اسلامی ریاست، الگ ملک کا درجہ رکھتا تھا وہاں مشھور گستاخ رہتے تھے جو اللہ رسول مسلمانوں کی توہین و گستاخیاں کرتے ، اشعار کہتے تھے... فتح مکہ کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہ فرمایا کہ یہ لوگ چونکہ غیراسلامی ملک کے گستاخ تھے اس لیے سزا نہیں...ایسا نبی پاک نے نہ فرمایا....بلکہ ان غیراسلامی ریاست ملک کے چند ضدی فسادی گستاخ باشندوں کے لیےحکم تھا کہ قتل کییے جائیں حتی کہ اتنا تک فرمایا کہ اگر کعبے کے پردوں میں لپٹا ہو تب بھی قتل کر دو
الحدیث:
جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ ابْنَ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الكَعْبَةِ فَقَالَ «اقْتُلُوهُ
ترجمہ:
ایک شخص نے نبی پاک سے عرض کی کہ ابن خطل(ضدی فسادی گستاخ) کعبے کے پردوں میں لپٹا ہوا ہے آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا اسے ہرحال میں قتل کر دو
[صحيح البخاري ,3/17حدیث1846]
.
²:اسی طرح خیبر یا حجاز الگ غیراسلامی ریاست و ملک کا درجہ رکھتا تھا وہاں بھی ایک یہودی ضدی فسادی گستاخ ابو رافع رہتا تھا...نبی پاک نے یہ نہ فرمایا کہ وہاں اسلامی شریعت نافز نہیں لیھذا گستاخ پے سزا نہیں، ایسا نہیں فرمایا بلکہ چند صحابہ کرام بھیجے تاکہ اسے چوری چھپے یا علی الاعلان یا کسی حیلے بہانے سے کسی بھی طرح قتل کر دیں
الحدیث:
البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي رَافِعٍ اليَهُودِيِّ رِجَالًا مِنَ الأَنْصَارِ، فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيكٍ، وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ ملخصا:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند انصار صحابہ کو خیبر بھیجا یہودی ابو رافع کو قتل کرنے کے لیے کیونکہ ابو رافع گستاخ رسول تھا، رسول کریم کو(زبان و کلام وغیرہ سے) اذیت پہنچاتا تھا
[صحيح البخاري ,5/91حدیث4039]
.
⑥*#قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے گستاخِ رسول کو اسی وقت، اسی جگہ پھڑکا دو.........؟؟*
.
عظیم تابعی فقیہ و قاضی حضرت امام لیث بن سعد کہ جن کے بارے میں امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ:
وكان الإمام الشافعي يقول: «اللَّيْثُ أَفْقَهُ مِنْ مَالِكٍ إِلاَّ أَنَّ أَصْحَابَه لَمْ يَقُوْمُوا بِهِ
ترجمہ:
امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت لیث بن سعد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تو امام مالک سے بھی زیادہ فقیہ و عالم تھے مگر افسوس کہ ان کے شاگر ان کے اقوال و قضایا اور فتاوی جات کو مستقل مذہب کی صورت میں جمع نا کرسکے
(حاشیہ تاویل مختلف الحدیث 1/428)
.
ایسے عظیم تابعی کہ جو امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
سے بھی بڑھ کر تھے انکا فتوی و فیصلہ سنیے......!!
عبارت نمبر ایک:
مَنْ شَتَمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِّ الذِّمَّة قَالَ اللَّيْثُ يُقْتَلُ مَكَانَهُ(بالحذف الیسیر)
.
عبارت نمبر دو:
وقال الليث في المسلم يسب النبيﷺ إنه لا يُناظر ولايُستتاب ويُقتل مكانه
.
یعنی:
عظیم فقیہ و قاضی تابعی امام لیث بن سعد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں جو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرے تو کسی فیصلے ، کسی مناظرے و مباحثے کی ضرورت نہیں، گستاخِ رسول کو اسی وقت ، اسی جگہ قتل کر دیا جائے، گستاخ چاہے مسلم ہو یا غیرمسلم
(دیکھیے , احکام القران للجصاص ، التمھید 6/168)
.
ہم جمھور اہلسنت کا یہی موقف ہے کہ گستاخِ رسول کو سمجھایا جائے اسے عدالت سزائے موت دے الا یہ کہ ضدی عادی یا فسادی ہو تو عام آدمی بھی قتل کرسکتا ہے جیسے کہ اوپر تفصیل گذری
مگر
عدلیہ کی نظر اندازی ، چالبازی ، ایجنٹی ، سستی ہوگی تو لوگ خود بخود لازماً حضرت لیث رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے فتوے پر عمل کریں گے اور دارین میں سرخ رو ہو جائیں گے، ثوابِ جزیل پائیں گے... ان شاء اللہ عزوجل
.
نوٹ:
قتل سے پہلے تحقیق کریں ، عالم سے پوچھیں کہ واقعی گستاخ ہے یا نہیں پھر عالم کے ذریعے سمجھوائیں تو بہتر اور اگر ضدی فسادی یا عادی گستاخ ہو تو قتل کرسکتے ہیں مگر اگر ممکن ہو تو اپنے آپ کو سرعام پولیس کے حوالے نہ کریں،کیمرے سے چھپ کر سزا دیں، مار کر عوام میں مکس ہوجائیں، ماسک لگائیں تاکہ کوئی پہچان نہ پائے....الغرض خود کو بچائیں، البتہ چھٹی چھوڑ جائیں کہ اس کو اس لیے قتل کیا ہے کہ یہ ضدی فسادی یا عادی یا سرعام گستاخ تھا....اپنی جان بچا کر قتل کرنا زیادہ عقلمندی و بہتر ہے
.
سوال:
اسلام اور پاکستان رواداری کا سبق دیتا ہے....برداشت امن و تحفظ کا درس دیتا ہے...گستاخی کے نام پے قتل روداری کے خلاف نہیں تو کیا ہے...؟ اظہارِ رائے کی آزادی کے خلاف نہیں تو اور کیا ہے............؟؟
.
جواب:
دیکھیں ایک حکومت زبردست موٹروے بناتی ہے اور اس پر گاڑی چلانے کے مختلف اصول و پابندیاں طے کرتی ہے
مثلا:
①ٹول ٹیکس دینا ہوگا
②موٹروے کو واضح نقصاں نہیں پہنچانا ہوگا
③گاڑی 120 یا 130 فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز نہیں چلانا ہوگا
④گاڑی اپنی سائیڈ پر چلانی ہوگی
⑤کسی اور موٹروے بنانے والوں کو دخل اندازی کی اجازت نہیں ہوگی....کسی اور موٹروے کے اصول یہاں زبردستی لاگو نہیں ہونگے....بلکہ اس موٹروے کے بانی.و.وارثان کے اصول و قوانین چلیں گے
.
ان پابندیوں کو سب برحق و بہتر سمجھتے ہیں، انہیں رواداری و آزادی کے خلاف نہیں سمجھتے.... ان اصول و پابندیوں کے توڑنے والے کو مجرم کہا جاتا ہے، اسے مختلف قسم کی سزائیں دی جاتی ہیں
اب اگر کوئی ٹول ٹیکس نہ دے یا رفتار بڑھا دے یا اپنی ساٹیڈ سے ہٹ کر گاڑی چلائے اور کہے کہ:
میری گاڑی میری مرضی........؟؟
کہے کہ:
میری ازادی میری مرضی....؟؟
کہے کہ:
مجھے اصول و پابندیاں منظور نہیں مگر گاڑی پھر بھی چلاوں گا اور حکومت کی پابندی و سزاوں کو رواداری آزادی کے خلاف کہے تو..........؟؟
اپنا ٹریکٹر موٹروے پر ہل سمیت کھروچتا ہوا نقصان پنچاتا ہوا چلائے اور کہے کہ میرا ٹریکٹر میری مرضی.....؟ میری ازادی رواداری میری مرضی............؟؟
کہے کہ:
موٹروے پر پابندیاں لگانے والے بانی و وارثان کی ایسی تیسی تو.....؟؟
.
ایسا کرنے والے کو حکومت اور معاشرہ کیا کہے گا......؟
اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا....؟
کیا اسے ایسی حرکات کی اجازت ہوگی....؟؟
کیا اسے ایسی ناحق و نقصان دہ آزادی دی جائے گی.......؟؟
کیا اسے موٹروے بنانے والے کی گستاخی کی اجازت دے جائے گی.........؟؟
یقینا نہیں......ہرگز نہیں
.
اسی طرح ملک پاکستان بلکہ پوری دنیا اسلام کے لیے بنا ہے اس میں رہنا ہے تو اسلامی پابندیوں اصولوں پر چلنا ہوگا.......میری مرضی میری آزادی نہیں کہنا ہوگا.... شراب جوا سود فحاشی زنا گستاخی کو فروغ نہیں دینا ہوگا.... بانییان اسلام محافظان اسلام کی گستاخی نہیں کرنی ہوگی.... میرا جسم میری مرضی نہیں کہنا ہوگا....میرا جسم میری مرضی کہہ کر فحاشی پھیلانے اسلامی معاشرہ بگاڑنے کی اجازت نہیں ہوگی
.
میری زبان، میرا دماغ، میری آزادی میری مرضی کہہ کر گستاخی و بدعقیدگی ، جوا زنا فحاشی، سیکیولر ازم، مغربیت و الحاد وغیرہ غیراسلامی تہذیب و افکار پھیلانے، اسلامی معاشرے کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہوگی... یہی رواداری ہے یہی پابند شدہ ازادی برحق ہے
.
یہ اسلامی اصول پابندیاں "رواداری و آزادی" کے خلاف نہیں
بلکہ یہی برحق و بہتر رواداری و مفید آزادی ہے......جس میں معاشری کی بھلائی ہے، انفرادی بھلائی بھی ہے اور خالق و بانیان سے وفاداری و اطاعت بھی ہے
.
اگر ہیں منظور اسلامی پابندیاں تو رہو اس ملک و دنیا میں
اور
اگر پابندیاں نہیں منظور تو اس موٹروے اس اسلامی ملک و دنیا سے آپ کو دور جانا ہوگا........ورنہ اصول و پابندیوں کی خلاف ورزی پر سزاء ہوگی، سختی ہوگی، آپ کو مجرم و غدار کہا جائے گا، اپ کی مذمت کی جائے گی....کسی اور ملک کو اجازت نہیں ہوگی کہ وہ اس موٹروے پر ایسا کراوئے، جراءم کرائے... معاشرہ بگڑوائے اور اسے انسانی حقوق و ازادی کا نام دے.....ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی....یہ غداری و ظلم ہے، دوسروں کی حق تلفی ہے...یہی برحق و لازم ہے
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
00923468392475