ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا کیسا ہے؟
ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا کیسا ہے؟
*جواب :*
ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا جائز ہے البتہ برتن کی جو جگہ ٹوٹی ہوئی ہے اس جگہ منہ رکھ کر کھانا پینا منع ہے اور اس کو فقہاءِ کرام نے مکروہ قرار دیا ہے اس ممانعت اور کراہت کی درج ذیل وجوہات ہوسکتی ہیں :
1- اس برتن کی جو جگہ ٹوٹی ہوئی ہے وہاں پر اچھی طرح ہونٹوں کی گرفت نہیں ہوگی اور وہ جو پانی وغیرہ ہے وہ بدن پر یا منہ پر گرے گا۔
2- وہاں پر صحیح طرح سے پاکیزگی حاصل نہیں ہو سکے گی اور پھر اس جگہ سے پینا کھانا مضرِصحت ہو سکتا ہے۔
3- اس لیے کہ ٹوٹی ہوئی جگہ سے کھانے کی وجہ سے ہونٹ اور زبان وغیرہ زخمی ہو سکتے ہیں۔
لیکن اگر اس جگہ کے علاوہ منہ رکھ کر استعمال کرتے ہیں تو بالکل جائز ہے اور اس میں کسی قسم کی بھی کراہت (ناپسندیدگی) نہیں ہے۔
البتہ طبی لحاظ سے اس کا استعمال مضرِ صحت ہو سکتا ہے کیونکہ جب برتن کے اندر دراڑ پڑ جائے یا تھوڑا سا ٹوٹ جائے تو اس کو کامل طور پر صاف کرنا مشکل ہوتا ہے اور کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے تو اس وجہ سے جب اس کو استعمال کیا جائے گا، کھانا وغیرہ کھایا جائے گا یا کوئی پانی وغیرہ پیا جائے گا تو اس کے اندر وہ گندگی وغیرہ کے ذرات شامل ہو کر پیٹ میں جا کر بیماری کا باعث بن سکتے ہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ٹوٹے ہوئے یا دراڑ والے برتنوں کو کھانے پینے کے علاوہ کسی اور استعمال میں لایا جائے.
چنانچہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
*"نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم عن الشرب من ثلمۃ القدح و ان ینفخ فی الشراب"*
"یعنی اللہ پاک کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پیالے میں جو جگہ ٹوٹی ہوئی ہے، وہاں سے پینے کی اور پینے کی چیز میں پھونک مارنے کی ممانعت فرمائی ہے۔"
*(مرقاۃ المفاتیح جلد 8 صفحہ 174 اسلامی کتب خانہ لاہور)*
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارکہ کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
*"قال الخطابی : انما نھی عن الشرب من ثلمۃ القدح لانھا لاتماسک علیھا شفۃ الشارب فانہ اذا شرب منھا ینصب الماء ویسیل علی وجھہ و ثوبہ زاد ابن المالک : او لان موضعھا لاینال التنظیف التام عند غسل الاناء"*
"یعنی امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالے کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے سے اس لئے منع کیا ہے کہ اس جگہ پر پینے والے کے ہونٹ اچھی طرح گرفت نہیں پکڑتے تو جب وہ اس جگہ سے پانی پیے گا تو پانی نکل کر اس کے چہرے اور کپڑوں پر بہے گا، ابن مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کی زیادتی کی ہے کہ یا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لئے منع کیا ہے کہ ٹوٹی ہوئی جگہ کو برتن دھوتے وقت کامل پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی۔"
*(مرقاۃ المفاتیح جلد 8 صفحہ 174 اسلامی کتب خانہ لاہور)*
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
*"ان قدح النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم انکسر فاتخد مکان الشعب سلسلۃ من فضۃ، قال عاصم رایت القدح و شربت فیہ"*
یعنی بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لکڑی کا پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ علیہ السلام نے ٹوٹی ہوئی جگہ کو چاندی کے تار سے بنایا، حضرت عاصم رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے وہ لکڑی کا پیالہ دیکھا ہے اور اس میں پیا ہے
*(صحیح البخاری، کتاب فرض الخمس، باب ما ذکر من درع النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم، رقم الحدیث :3109 جلد 2 صفحہ 344 دارالکتب العلمیہ بیروت)*
اس حدیثِ مبارکہ کو بہارِشریعت میں تحریر فرمانے سے پہلے صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"ٹوٹے ہوئے برتن کو چاندی یا سونے کے تار سے جوڑنا جائز ہے اور اس کا استعمال بھی جائز ہے جبکہ اس جگہ سے استعمال نہ کرے."
*(بہار شریعت جلد 3 حصہ 16 صفحہ 398 مکتبہ المدینہ کراچی)*
اور مزید بخاری شریف میں ہے کہ :
"وہ لکڑی کا پیالہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھا۔"
*(صحیح البخاری، کتاب الاشربہ، باب الشرب، رقم الحدیث : 5638، جلد 3 صفحہ 595 دارالکتب العلمیہ بیروت)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
31/03/2019
03068209672