*تمام مخلوقات سے پہلے نورِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم*
*تمام مخلوقات سے پہلے نورِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم*
*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*
حافظ الحدیث حضرت امام ابوبکر عبدالرَّزّاق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی کتاب *”المُصَنَّف“* میں حضرتِ سیِّدُنا جابِر بن عبداللہ انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سے روایت کی، وہ کہتے ہیں، میں نے عرض کی: ”یارسولَ اللہ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ! میرے ماں باپ حُضور (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) پر قربان! مجھے بتائيے کہ سب سے پہلے اللہ پاک نے کیا چیز بنائی؟“ فرمایا: *”اے جابِر ! بے شک بِالیقین، اللہ پاک نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔“*
(📗فتاوی رضویہ،۳۰/۶۵۸ ، الجزءُ المفقُود مِن الجزء الاوّل مِنَ المُصَنَّف لِعبدالرّزّاق، ص ۶۳، حدیث:۱۸از سیاہ فام غلام)
حضرت سیدنا کَعْبُ الْاَحبار رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے مروی ہے: جب اللہ پاک نے موجودات کو پیدا فرمانے کا ارادہ کیا اور زمین کو بچھایا اور آسمانوں کو بلند فرمایا تو اپنے فیض ذات سے مٹھی بھر لے کر اس سے ارشاد فرمایا: اے نور! محمد( صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) بن جا۔ اس نور نے ایک نوری ستون کی صورت اختیار کر لی اور اس قدر روشن ہوا کہ عظمت کے پردے تک جا پہنچا اور ربِّ کائنات کو سجدہ کیا اور کہا: *اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ یعنی سب خوبیاں اللہ پاک کے لیے ہیں۔* تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: میں نے تجھے اسی لئے پیدا فرمایا اور تیرا نام محمد( صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) رکھا ہے ، تجھی سے اپنی مخلوق کی ابتدا کروں گا اور تجھی پر اپنی رسالت کا سلسلہ ختم کروں گا۔ پھر اللہ پاک نے اس نور کے چار حصے کر کے ایک حصے سے لوحِ محفوظ اور دوسرے سے قلم کو پیدا فرمایا پھر قلم سے ارشاد فرمایا: لکھ! تو قلم پر ایک ہزار سال تک ہیبتِ الٰہی سے لرزہ طاری رہا۔ اس کے بعد قلم نے عرض کی: اے میرے ربّ! کیا لکھوں؟ ارشاد فرمایا: لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ لکھ۔ پس قلم نے لکھا اور مخلوق کے متعلق علمِ الٰہی پر رسائی پالی۔ پھر اس نے یہ باتیں لکھیں:
(۱)۔۔۔حضرت سیِّدُنا آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پُشت مبارک میں موجود اولاد کی تعداد۔
(۲)۔۔۔ جو اطاعتِ الٰہی بجا لائے گا اللہ پاک اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور جو اس کی نافرمانی کرے گا اُسے دوزخ میں ڈال دے گا۔ اسی طرح
(۳)۔۔۔حضرت سیِّدُنا ابراہیم خلیل اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت سیِّدُنا عیسیٰ روح اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اُمّتوں کے متعلق بھی لکھا، یہاں تک کہ جب حضور نبئ مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ بنی آدم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمّت کے متعلق لکھا کہ جس نے اللہ پاک کی اطاعت کی وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور جس نے اللہ پاک کی نافرمانی کی، قلم یہ جملہ ”وہ اُسے جہنم میں ڈال دے گا“ ابھی لکھنا ہی چاہتا تھا کہ اللہ پاک کی طرف سے نِدا آئی:اے قلم! ذرا ادب سے۔ تو وہ ہیبت و جلالِ الٰہی سے شق ہو گیا،پھر دستِ قدرت سے تراشا گیا۔ تب سے قلم میں یہ بات جاری ہو گئی کہ تراشے بغیر نہیں لکھتا۔ پھر اللہ پاک نے قلم سے ارشاد فرمایا: اس اُمّت کے متعلق لکھ: یہ اُمَّت گنہگار ہے اور رب کریم غفَّار (یعنی بہت بخشنے والا) ہے۔ پھر اللہ پاک نے تیسرے حصے سے عرش کو پیدا کیا۔ پھر چوتھے حصے کے مزید چار حصے کر کے پہلے حصے سے عقل، دوسرے سے معرفت، تیسرے سے سورج، چاند اور آنکھوں کا نور اور دِن کی روشنی پیدا فرمائی اور یہ سب حقیقتاً نبئ مختار، مکی مدنی سرکار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے انوار ہیں۔ پس آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام کائنات کی اصل ہیں۔ اس کے بعد اللہ پاک نے نور کی اس چوتھی قسم کے چوتھے حصے کو بطورِ امانت عرش کے نیچے رکھ دیا۔
*پشتِ آدم سے دنیا میں تشریف آوری تک*
پھر جب اللہ پاک نے حضرت سیِّدُنا آدم صفی اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا فرمایا تو وہ نور ان کی پُشت مبارک میں رکھا۔ پھر وہ مبارک نور ہمیشہ طیّب و طاہر اور برتر و بالا لوگوں میں منتقل ہوتا رہا۔
حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے بطنِ اَطہَر کی طرف منتقل فرمایا تو اس منتقلی کے ساتھ ہی بڑی بڑی نشانیاں ظاہر ہونے لگیں۔ ساری مخلوق ایک دوسرے کو بشارتیں دینے لگی، زمین و آسمان میں اعلان کر دیا گیا: اے عرش! وقار و سنجیدگی کا نقاب اوڑھ لے۔ اے کُرسی! فخر کی زِرہ پہن لے۔ اے سِدرۃُ المنتہیٰ! خوشی سے جھوم جا۔ اے ہیبت اور رعب و دبدبہ کے انوار! تم بھی خوب روشن ہو جاؤ۔ اے جنّت! خوب آراستہ پیراستہ ہو جا۔اے محلات کی حُورو ! تم بھی بلندی سے دیکھو۔ اے رضوان (باغبانِ جنت) ! جنت کے دروازے کھول دے اور حُور و غِلماں کو سامانِ زینت سے آراستہ پیراستہ کر کے کائنات کو خوشبوؤں سے معطّر کر دے۔ اے مالک(داروغۂ جہنم)! جہنم کے دروازے بند کر دے۔ کیونکہ آج کی رات میری قدرت کے خزانوں میں چھپا ہوا نور اور راز عبداللہ سے جدا ہو کر آمنہ کے بطن میں منتقل ہونے والا ہے اور جس گھڑی یہ نور منتقل ہوگا، اُسی لمحے میں اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مکمل صورت دے دوں گا اور یہ لوگوں کے سامنے انسانِ کامل ظاہر ہو گا۔ منقول ہے کہ نورِ محمدی کی منتقلی کی رات ہر گھر اور مکان میں نور داخل ہو گیا اور ہر چوپایہ محوِ کلام ہو گیا۔ حضرت سیِّدَتُنا آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ارشاد فرماتی ہیں: *”جب تک آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے شکم میں تشریف فرما رہے ،میں نے کبھی درد واَلم، بوجھ یا پیٹ میں مروڑ محسوس نہ کیا۔ کامل نو (9) ماہ بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت باسعادت ہو گئی۔“*
(📗حکایتیں اور نصیحتیں، ص۴۶۸ تا۴۷۳ ملتقطاً)
حضرت بی بی آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا خود فرماتی ہیں:جب سرکارِ نامدار، حبیبِ پروردگار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کائنات میں تشریف لائے تو ایک نُور بر آمد ہوا ،جس سے ہر شے روشن ہو گئی،یہاں تک کہ نُور کے کچھ نظر نہ آتا تھا۔
(📗الخصائص الکبری، باب ما ظہر فی لیلۃ مولدہ من المعجزات و الخصائص،۱/۷۸ )
حضرت سیدتنا آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا مزید فرماتی ہیں: حضورِ انور، مالکِ کوثر صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ولادت کے وقت میں نے ایک نُور دیکھا، جس سے شام کے محلاّت روشن ہو گئے اور میں نے ان محلاّت کو دیکھا۔
(الخصائص الکبری، باب ما ظہر فی لیلۃ مولدہ من المعجزات و الخصائص،۱/۷۹ )
*آمنہ تجھ کو مُبارَک شاہ کا مِیلاد ہو*
*تیرا آنگن نُور، تیرا گھر کا گھر سَب نور ہے*
*قرآن کریم اور نورانیت مصطفیٰ*
*قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)*
(پ ۶، المآئدہ: ۱۵)
تَرْجَمَۂ کنز الایمان: بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔
تفسیر”خزائن العرفان“میں ہے:(اس آیت میں ) سید عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کو نور فرمایا گیا کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ (کے وسیلے) سے تاریکیٔ کفر دُور ہوئی اور راہِ حق واضح ہوئی۔
(📗تفسیر خزائن العرفان،پارہ ۶،المائدۃ:۱۵،ص۲۱۳)
اس آیتِ کریمہ کے تحت امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری، امام ابو محمد حسین بغوی، امام فخرا لدین رازی، امام ناصر الدین عبداللہ بن عمر بیضاوی، علامہ ابوالبرکات عبداللہ نسفی، علامہ ابوالحسن علی بن محمد خازن، امام جلال الدین سیوطی شافعی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہمْ اَجْمَعِیْن سمیت کثیر مفسرین نے فرمایا کہ آیتِ طیبہ میں موجود لفظ *”نور“* سے مراد نبیِ پاک، فخرِ موجودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم َکی ذاتِ بابرکات ہے۔
(📗ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دسمبر۲۰۱۷،ص۸)
*چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے*
*مِرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے*
*تو زندہ ہے وَاللہ تُو زندہ ہے وَاللہ*
*مرے چشمِ عالم سے چھپ جانے والے*
(حدائقِ بخشش، ص۱۵۸)
*نورِ مصطفیٰ کے کمالات*
صدر الافاضل حضرت علامہ مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :
٭نبیِ اکرم، شفیعِ معظم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم َکے نورِ نبوت نے ہزاروں سورجوں (Suns) سے زیادہ روشنی پہنچائی ہے۔
٭کفر اور شرک کے اندھیروں کو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے نورِ حقیقت سے دُور کیا۔
٭معرفت اور توحیدِ الٰہی تک پہنچنے کی راہیں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے نورِ حقیقت سے روشن کر دیں۔
٭گمراہی کی تاریک وادی میں بھٹکنے والوں کو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے انوارِ ہدایت سے راہ یاب فرمایا۔
٭لوگوں کی آنکھوں کو، دلوں کو اور روحوں کو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے نورِ نبوت سے منور کیا۔
٭حقیقت یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وجود مبارک ایسا آفتابِ عالم تاب ہے جس نے ہزارہا آفتاب بنا دیئے۔(یعنی آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مبارک وجود جہان کو روشن کرتا ایسا سورج ہے جس نے ہزاروں آفتاب روشن کئے۔)
(📗تفسیر خزائن العرفان،پارہ ۲۲،الاحزاب:۴۵-۴۶،ص۷۸۴ بتغیر)
امامِ اہلسنت ، سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بڑا پیارا محبت بھرا تخیّل پیش کرتے ہیں:
*بارہویں کے چاند کا مُجرا ہے سجدہ نور کا*
*بارہ بُرجوں سے جھکا ایک اِک ستارہ نور کا*
*تیرے ہی ماتھے رہا اے جان سہرا نور کا*
*بخت جاگا نور کا چمکا ستارا نور کا*
(📗حدائقِ بخشش)
*دستِ مبارک کی برکت*
حضرت عائذ بن سعید جسری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ میرے چہرے پر اپنا مبارک ہاتھ پھیر دیجئے اور دُعائے برکت فرمائیے۔ حضورِ انور، رسولوں کے افسر صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایسا ہی کیا (یعنی اُن کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور دُعائے برکت فرمائی) اُس وقت سے حضرت عائذ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا چہرہ ترو تازہ اور نورانی رہا کرتا تھا۔
(📗سیرتِ رسولِ عربی صفحہ۲۶۵)
*چہرہ چمکتا ہی رھا*
حضرت ابو سِنان عبدی صباحی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے چہرے پر رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا دستِ مبارک پھیرا ان کی عمر 90 سال ہوگئی مگر ان کا چہرہ بجلی کی طرح چمکتا تھا۔
(📗الاصابہ فی تمییز الصحابہ،ابو سنان العبدی ثم الصباحی ،۷/۱۶۴،رقم۱۰۰۶۶)
*میں گدا تُو بادشاہ بھر دے پیالہ نور کا*
*نور دن دُونا ترا دے ڈال صدقہ نور کا*
*تاج والے دیکھ کر تیرا عمامہ نور کا*
*سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور کا*
(حدائق بخشش،ص:۲۴۵)