قیام پاکستان میں علمائے اہلسنت کا کردار
قیام پاکستان میں علمائے اہلسنت کا کردار
قیام پاکستان میں علمائے کرام و مشائخِ عظام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس کی گواہی قیام پاکستان سے ایک سال پہلے 1946ء میں بنارس میں منعقد کانفرس سے ملتی ہے جس میں پانچ ہزار علماء و مشائخ نے شرکت کی ، بقول بعض کے کہ پانچ سو مشائخ اور سات ہزار علماء کرام نے شرکت کی اور عزم کیا کہ سلطنت خداداد پاکستان کے لئے رات دن ایک کر دیں گے اور اس کو عملی جامہ بھی پہنایا ۔
آئیے چندجید علماء کرام و مشائخ عظام کے نام و خدمات ذکر کرتے ہیں:
1: علامہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ
آپ کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلامی ممالک کی نمائندگی کا فریضہ سونپا آپ نے تن تنہا بین الاقوامی سطح پر اور بالخصوص اسلامی ممالک کا دورہ کیا اور اغراض پاکستان پر طویل لیکچر دیکر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ، آپ کی اس اسلامی و ملی خدمات کے پیشِ نظر قائد اعظم محمد علی جناح نے "سفیر اسلام" کا لقب دیا۔
(ضیائے حرم،لاہور، اگست 1997ء)
2: امیر ملت حضرت علامہ مولانا پیر سید جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
3: حضرت علامہ سید محمد محدث کچھوچھوی علیہ الرحمہ
4: ابو البرکات سید احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ
تحریک پاکستان میں آپ کی گراں قدر خدمات ہیں ، آپ نے دو قومی نظریہ اور مطالبہ پاکستان کی زبردست تائید کی ، آپ نے دار العلوم کے تمام جلسے تحریک پاکستان کے لئے وقف کردئیے اور مطالبہ پاکستان کے سلسلے میں اسلامی حکومت کا خاکہ مرتب کرنے کے لئے جن علماء کو نامزد کیا گیا ان میں آپ کا نام بھی شامل ہے۔
5: حضرت علامہ ابو الحسنات سید محمد احمد قادری علیہ الرحمہ
1940 ء میں منٹو پارک(اقبال پارک)میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی آپ اس کے سرگرم کارکنان میں سے تھے اور اس کے بعد حج کے لیے تشریف لے گئے تو وہاں علماء کے عظیم اجتماع میں تحریکِ پاکستان پر روشنی ڈالی اور انہیں اپنا ہمنوا بنا لیا اور واپس آ کر قائد اعظم سے ملاقات کرکے نظریہ پاکستان کی حمایت میں قلمی میدان سنبھالا، جب مسلم لیگ نے ایجی ٹیشن شروع کیا تو آپ نے وفود لے کر ہر ضلع کا دورہ کیا اور مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا۔
(تخلیق پاکستان میں علمائے اہلسنت کا کردار ، ص 1158)
6: حضرت علامہ خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ
آپ بھی تحریک پاکستان کے مجاہد ہیں، آپ نے جان و مال ہر طرح سے حمایت کی اور اس تحریک کا زور و شور سے چرچا بھی کیا۔
آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
پاکستان کی جنگ اسلام کی بقاء اور عظمت کی جنگ ہے میں اس جنگ سے کنارہ کش نہیں رہ سکتا بلکہ اپنی جان و مال اس راہ میں قربان کرنا فرض سمجھتا ہوں پاکستان کے جھنڈے کو رکھ دوں یہ ناممکن ہے ، میں آپ لوگوں کو چھوڑ سکتا ہوں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو سرنگوں نہیں کر سکتا اور آپ نے اپنی گدی سے وابستہ تمام گدی نشینوں کو پاکستان کی حمایت کا حکم صادر فرمایا آپ کی ان خدمات سے متاثر ہو کر قائد اعظم محمد علی جناح نے آپ کو خط لکھا اور آپ کی خدمات کو سراہا۔
( ضیائے حرم، ج 25 ، شمارہ 10 ،ص 86تا 88)
7: علامہ عبد الحامد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ
8: صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ
آپ رحمۃ اللہ علیہ احقاق حق اور ابطال باطل جیسی محمود صفت سے متصف تھے اسی وجہ سے بعض جگہوں پر سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اپنا وکیل بھی مقرر کیا تھا ، آپ نے تحریک پاکستان کی زبردست تائید فرمائی جب علامہ اقبال نے 1930 میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اکیسویں اجلاس میں تقسیم ہند کی تجویز پیش کی اور پھر 1931میں دوسری میز گول کانفرنس کے موقع پر حکومت برطانیہ کے سامنے یہ تقسیم ہند کا مطالبہ پیش کیا تو آپ پہلے عالم دین ہیں جنھوں نے اس نظریہ کی تائید کی ۔ اور آل انڈیاسنی کانفرنس کی بنیاد آپ ہی نے رکھی اور ایک موقع پر فرمایا:
اگر مسلم لیگ تقسیم ہند سے دستبردار بھی ہو جائے تو ہم پھر بھی اس مطالبے سے دست کش نہیں ہوں گے ، آپ نے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس کے بعد پورے ہندوستان میں علمائے کرام کے وفود کے ساتھ طوفانی دورے کیے ، اور پاکستان بننے کے بعد پاکستان تشریف لائے اور قائد اعظم محمد علی جناح اور نواب لیاقت علی خان سے دستور پاکستان سے متعلق گفتگو فرمائی اور پاکستان کے دستور اسلامی کو تیار کرنے کی حامی بھری ،آپ نے مختلف اسلامی ممالک سے دساتیر اور قانونی مسودے حاصل کیے اور پاکستان کے دستور اسلامی کے گیارہ دفعات لکھے تھے کہ پیام اجل آ پہنچا اور آپ خالق حقیقی کو جا ملے۔
8: حجة الاسلام مولانا حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ
تحریکِ پاکستان کو تقویت پہنچانے میں آپ کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں،آپ نے 1925ء کو آل انڈیا سنی کانفرنس میں بحیثیت صدر مجلس خطبہ صدارت کے وقت ہندو مسلم اتحاد کے بجائے مسلمانوں کو متحد ہونے پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
بے شک دو گھوڑوں کو ایک ساتھ جوت کر زیادہ وزن اٹھایا جا سکتا ہے لیکن بکری اور بھیڑیے کو ایک ساتھ جمع کرکے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔
(تخلیق پاکستان میں علمائے اہلسنت کا کردار،ص119)
9: مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
آپ نے تحریک پاکستان میں بھر پور حمایت فرمائی ، آپ نے آل انڈیا سنی کانفرنس کے ہر اجلاس میں شرکت کی، 1946ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس جو مشائخ و علماء کرام کی کمیٹی دستور مرتب کرنے کے لیے منتخب کی گئی اس میں آپ کا نام سر فہرست ہے ، تحریک پاکستان کی حمایت میں مشاہیر علماء کرام کا متفقہ فیصلہ اخبار"دبدبہ سکندری" رامپور میں شائع ہوا اس میں بھی آپ کا نام سر فہرست تھاآپ نے آل انڈیاستی کانفرنس کے ہر اجلاس میں باقاعدگی سے شرکت فرمائی ، 1946ء میں آل انڈیاسنی کانفرنس بنارس میں مشائخ و علماء کی جو کمیٹی دستور مرتب کرنے کے لئے منتخب کی گئی آپ کو
اس میں سرفہرست رکھا گیا، نیز مرکزی دارالافتاء کے سر پرست بھی تجویز کئے گئے ۔
تحریک پاکستان کی حمایت میں آل انڈیا سنی کانفرنس کے مشاہیر علماء و مشائخ کا متفقہ فیصلہ
اخبار و بد بہ سکندری رامپور شائع ہوا، جس میں مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خان علیہ الرحمہ کا نام سر فہرست تھا اس تاریخی فیصلہ کا متن ملاحظہ کیجئے
آل انڈیاسنی کانفرنس مسلم لیگ کے اس طریق عمل کی تائید کر
سکتی ہے جو شریعت مطہرہ کے خلاف نہ ہو، جیسے کہ الیکشن کے معاملہ میں کانگریس کو ناکام کرنے کی کوشش۔
اس میں مسلم لیگ جس سنی مسلمان کو بھی اٹھائے سنی کانفرنس کے اراکین و ممبران اس کی تائید کر سکتے ہیں
ووٹ دے سکتے ہیں دوسروں کو اس کے ووٹ دینے کی ترغیب دے سکتے ہیں مسئلہ پاکستان یعنی ہندوستان کے کسی حصہ میں آئین شریعت کے مطابق فقہی اصول پر حکومت قائم کرنا سنی کانفرنس کے
نزدیک محمود و تحسین ہے۔
مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے وائسرائے ہند کے نام ایک ٹیلی گرام میں تار بھیجا اس میں بھی اس بات پر زور دیا کہ
صرف مسلم لیگ کی ہندوستان کی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے مسلم لیگ کے موقف کی حمایت میں مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی تار کی خبر اور دیگر علماء بریلی کا بیان "الفقيه" امرتسر میں ہی منظر عام پر آیا۔
1946ء کے فیصلہ کن الیکشن میں مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان علیہ الرحمہ نے بریلی میں
مسلم لیگ کے امیدوار کے حق میں سب ووٹ ڈالا لیگی رضا کار جلوس کی شکل میں مفتی اعظم پاکستان کے نعرے لگاتے ہوئے واپس آستانہ رضویہ تک لائے، اس تاریخی واقعہ کو مولانا تقدس علی
خان بریلوی علیہ الرحمہ نے مولانا عبد الحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ کے نام ایک خط میں یوں رقم فرمایا ہے
"حضرت مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز غالبا 1946ء کے الیکشن میں جس میں کانگریس اور مسلم لیگ کا سخت مقابلہ تھا اور یہ فیصلہ ہونا تھا کہ پاکستان ہے یا نہیں؟ اس میں اول ووٹ حضرت کا ہوا، امید وارعزیز احمد خان ایڈوو کیٹ تھے، عزیز احمد خان مسلم لیگ کی طرف سے تھے اور ووٹ ڈالنے کے بعد
حضرت کو جلوس کی شکل میں مسلم لیگ کے رضا کار مفتی اعظم پاکستان‘‘ کے نعروں کے ساتھ آستانہ
شریف پر واپس لانے۔
(ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور، اگست 1997 ربیع الثانی1418، جلدنمبر 27،شمارہ10 ص 68,67)
یہ چند مقتدر علماء کرام کا ذکر خیر ہوا ان شاءاللہ اگلی قسط میں کچھ اور علماء کرام کا ذکر کیا جائے گا
تحریر:
محمد ساجد مدنی