تہجد کیا ہے،کتنی رکعت ہے،فضائل و دعائیں.......؟؟
تہجد کیا ہے،کتنی رکعت ہے،فضائل و دعائیں.......؟؟
سوال:
حضرت تہجد کے بارے میں تفصیل سے بتائیں، کتنی رکعت ہے، وقت کیا ہے، سونا شرط ہے یا نہیں، دعائیں کونسی پڑہیں وغیرہ وغیرہ تفصیل سے لکھیں..
.
جواب:
تہجد کیا ہے،شرائط..................؟؟
عشاء کی نماز پڑھا اور پھر سونا پھر اٹھ کر نماز نفل پڑھنا تہجد کہلاتا ہے....گویا تہجد کی دو شرطیں ہیں نمبر ایک عشاء پڑھنا، نمبر دو عشاء پڑھنے کے بعد سو کر اٹھنا پھر نفل پڑھنا
.
فَإِنَّ التَّهَجُّدَ: مَا كَانَ بَعْدَ نَوْمٍ....وَغَيْرُ وَاحِدٍ وَهُوَ الْمَعْرُوفُ فِي لُغَةِ الْعَرَبِ. وَكَذَلِكَ ثَبَتَتِ الْأَحَادِيثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ كَانَ يَتَهَجَّدُ بَعْدَ نَوْمِهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ،
بےشمار علماء کرام نے یہ فرمایا ہے کہ تہجد نماز سونے کے بعد ہوتی ہے اور یہی معروف ہے لغت عرب میں...اور رسول کریم سے بھی یہی ثابت ہے کہ آپ (عشاء نماز پڑھ کر)سو جاتے پھر اٹھ کر نفل تہجد کے ادا فرماتے یہی ثابت ہے سیدنا ابن عباس و سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما اور کئ صحابہ کرام علیھم الرضوان سے
[تفسير ابن كثير ت سلامة ,5/103]
.
وَقِيَامُ اللَّيْل قَدْ يَسْبِقُهُ نَوْمٌ بَعْدَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ وَقَدْ لاَ يَسْبِقُهُ أَمَّا التَّهَجُّدُ فَلاَ يَكُونُ إلاَّ بَعْدَ نَوْمٍ
نماز عشاء کے بعد سو کر اٹھے اور نماز نفل پڑھے تو اسے تہجد کہتے ہیں صلاۃ اللیل بھی کہتے ہیں اور نماز عشاء کے بعد بغیر سوئے نفل ادا کییے جائیں تو انہیں صلاۃ اللیل کہیں گے ، تہجد نا کہیں گے
(الموسوعة الفقهية الكويتية14/86)
.
فَالتَّهَجُّدُ الْقِيَامُ إِلَى الصَّلَاةِ مِنَ النَّوْمِ
تہجد کہتے ہیں کہ(نماز عشاء پڑھنے کے بعد)نیند سے اٹھ کر نفل ادا کییے جائیں
[تفسير القرطبي ,10/308]
.
وقال المفسرون لا يكون التهجد إلا بعد النوم
مفسرین نے فرمایا ہے کہ تہجد کے لیے سونا شرط ہے
[تفسير الثعلبي = الكشف والبيان,16/428]
.
والتهجد: التيقظ والسهر بعد نومة من الليل.
تہجد کا معنی ہی یہی ہے کہ رات کو سو کر اٹھے(نوافل پڑھے)
[تفسير الطبري = جامع البيان ت شاكر ,17/523]
علقمة والأسود أنهما قالا التهجد بعد نومة.
سیدنا علقمہ اور سیدنا اسود علیھما الرحمۃ نےفرمایا کہ تہجد نماز (عشاء پڑھ کر)سونے کے بعد ہوتی ہے
[تفسير الطبري = جامع البيان ت شاكر ,17/524]
.
الحجاج بن عمرو، قال: إنما التهجد بعد رقدة
سیدنا حجاج بن عمرو فرماتے ہیں کہ تہجد نماز سونے کے بعد ہی ہوسکتی ہے
[تفسير الطبري = جامع البيان ت شاكر ,17/524]
.
وهو الصلاة بالليل بعد النوم ويكره ترك تهجد اعتاده
تہجد نماز رات کے ان نوافل کو کہتے ہیں جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑہے جائیں....جسکو تہجد کی عادت ہو اسے تہجد چھوڑ دینا مکروہ ہے
[فيض القدير ,4/350]
.
نوٹ
وَالرَّكْعَتَانِ قَبْلَهُ نَافِلَةٌ قَائِمَةٌ مَقَامَ التَّهَجُّدِ وَقِيَامِ اللَّيْلِ لِقَوْلِهِ: (فَإِنْ قَامَ مِنَ اللَّيْلِ) : وَصَلَّى فِيهِ فَبِهَا، أَيْ أَتَى بِالْخَصْلَةِ الْحَمِيدَةِ، وَيَكُونُ نُورًا عَلَى نُورٍ. (وَإِلَّا) ، أَيْ: وَإِنْ لَمْ يَقُمْ، أَيْ مِنَ اللَّيْلِ لِغَلَبَةِ النَّوْمِ لَهُ النَّاشِئَةِ عَنْ سَهَرِهِ فِي طَاعَةِ رَبِّهِ (كَانَتَا) ، أَيْ: الرَّكْعَتَانِ (لَهُ) ، أَيْ: كَافِيَتَيْنِ لَهُ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ. (رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ) .
حدیث پاک کے مطابق جو اپنےرب تعالیٰ کی طاعت و فرمانبرداری میں مصروف رہنے کی وجہ سے تہجد نہ پڑھ سکے تو نماز عشاء کے بعد والے دو نوافل تہجد کے قائم مقام ہوجائیں گے لیکن اگر مصروفیت کے باوجود وقت نکال کر تہجد ادا کرےتو نور علی نور ہے
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,3/957]
.
نماز تہجد کا طریقہ
عام نوافل کی طرح تہجد کے نوافل ادا کییے جائیں تو بھی تہجد ادا ہوگئے...مگر ایک حدیث پاک میں خاص طریقہ بھی آیا ہے
تہجد پڑھنے کا خاص طریقہ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ كَبَّرَ، ثُمَّ يَقُولُ : " سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ ". ثُمَّ يَقُولُ : " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ". ثَلَاثًا. ثُمَّ يَقُولُ : " اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا - ثَلَاثًا - أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ؛ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ ". ثُمَّ يَقْرَأُ.
رسول کریم جب تہجد پڑھتے تو تکبیر تحریمہ کہتے پھر سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ "پڑھتے
پھر
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ تین دفعہ پڑھتے
پھر
اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا تین دفعہ پڑھتے
پھر
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ؛ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ پڑھتے
پھر بسم اللہ (پھر سورہ فاتحہ) اور قرآن میں سے پڑہتے
(ابوداود حدیث775)
.
.
تہجد کی کچھ دعائیں وظائف………!!
دعا نمبر ایک:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَتَهَجَّدُ قَالَ: "
ترجمہ
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت اٹھ کر تہجد نماز پڑہتے تو یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ لَكَ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ "
راوی نے کہا کہ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ ہے یا پھر لَا إِلَهَ غَيْرُكَ ہے
اور
ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے
وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ
(بخاری حدیث1120)
.
دعا نمبر دو:
اللَّهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ ؛ إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ".
(مسلم حدیث770)
.
دعا نمبر تین:
" اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِكَ تَهْدِي بِهَا قَلْبِي، وَتَجْمَعُ بِهَا أَمْرِي، وَتَلُمُّ بِهَا شَعَثِي ، وَتُصْلِحُ بِهَا غَائِبِي، وَتَرْفَعُ بِهَا شَاهِدِي، وَتُزَكِّي بِهَا عَمَلِي، وَتُلْهِمُنِي بِهَا رُشْدِي، وَتَرُدُّ بِهَا أُلْفَتِي، وَتَعْصِمُنِي بِهَا مِنْ كُلِّ سُوءٍ، اللَّهُمَّ أَعْطِنِي إِيمَانًا وَيَقِينًا لَيْسَ بَعْدَهُ كُفْرٌ، وَرَحْمَةً أَنَالُ بِهَا شَرَفَ كَرَامَتِكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْفَوْزَ فِي الْقَضَاءِ، وَنُزُلَ الشُّهَدَاءِ، وَعَيْشَ السُّعَدَاءِ، وَالنَّصْرَ عَلَى الْأَعْدَاءِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أُنْزِلُ بِكَ حَاجَتِي، وَإِنْ قَصُرَ رَأْيِي وَضَعُفَ عَمَلِي افْتَقَرْتُ إِلَى رَحْمَتِكَ ؛ فَأَسْأَلُكَ يَا قَاضِيَ الْأُمُورِ، وَيَا شَافِيَ الصُّدُورِ كَمَا تُجِيرُ بَيْنَ الْبُحُورِ أَنْ تُجِيرَنِي مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ، وَمِنْ دَعْوَةِ الثُّبُورِ ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْقُبُورِ، اللَّهُمَّ مَا قَصُرَ عَنْهُ رَأْيِي، وَلَمْ تَبْلُغْهُ نِيَّتِي، وَلَمْ تَبْلُغْهُ مَسْأَلَتِي مِنْ خَيْرٍ وَعَدْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ خَيْرٍ أَنْتَ مُعْطِيهِ أَحَدًا مِنْ عِبَادِكَ ؛ فَإِنِّي أَرْغَبُ إِلَيْكَ فِيهِ، وَأَسْأَلُكَهُ بِرَحْمَتِكَ رَبَّ الْعَالَمِينَ، اللَّهُمَّ ذَا الْحَبْلِ الشَّدِيدِ وَالْأَمْرِ الرَّشِيدِ أَسْأَلُكَ الْأَمْنَ يَوْمَ الْوَعِيدِ، وَالْجَنَّةَ يَوْمَ الْخُلُودِ مَعَ الْمُقَرَّبِينَ الشُّهُودِ الرُّكَّعِ السُّجُودِ الْمُوفِينَ بِالْعُهُودِ ؛ إِنَّكَ رَحِيمٌ وَدُودٌ، وَإِنَّكَ تَفْعَلُ مَا تُرِيدُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا هَادِينَ مُهْتَدِينَ غَيْرَ ضَالِّينَ وَلَا مُضِلِّينَ، سِلْمًا لِأَوْلِيَائِكَ وَعَدُوًّا لِأَعْدَائِكَ، نُحِبُّ بِحُبِّكَ مَنْ أَحَبَّكَ، وَنُعَادِي بِعَدَاوَتِكَ مَنْ خَالَفَكَ، اللَّهُمَّ هَذَا الدُّعَاءُ، وَعَلَيْكَ الْإِجَابَةُ، وَهَذَا الْجُهْدُ، وَعَلَيْكَ التُّكْلَانُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي نُورًا فِي قَلْبِي، وَنُورًا فِي قَبْرِي، وَنُورًا مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ، وَنُورًا مِنْ خَلْفِي، وَنُورًا عَنْ يَمِينِي، وَنُورًا عَنْ شِمَالِي، وَنُورًا مِنْ فَوْقِي، وَنُورًا مِنْ تَحْتِي، وَنُورًا فِي سَمْعِي، وَنُورًا فِي بَصَرِي، وَنُورًا فِي شَعْرِي، وَنُورًا فِي بَشَرِي، وَنُورًا فِي لَحْمِي، وَنُورًا فِي دَمِي، وَنُورًا فِي عِظَامِي، اللَّهُمَّ أَعْظِمْ لِي نُورًا، وَأَعْطِنِي نُورًا، وَاجْعَلْ لِي نُورًا، سُبْحَانَ الَّذِي تَعَطَّفَ الْعِزَّ وَقَالَ بِهِ، سُبْحَانَ الَّذِي لَبِسَ الْمَجْدَ وَتَكَرَّمَ بِهِ، سُبْحَانَ الَّذِي لَا يَنْبَغِي التَّسْبِيحُ إِلَّا لَهُ، سُبْحَانَ ذِي الْفَضْلِ وَالنِّعَمِ، سُبْحَانَ ذِي الْمَجْدِ وَالْكَرَمِ، سُبْحَانَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ
(ترمذی حدیث3419)
.
دعا نمبر چار اور وظیفہ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ عَشْرًا، وَيَحْمَدُ عَشْرًا، وَيُسَبِّحُ عَشْرًا، وَيُهَلِّلُ عَشْرًا، وَيَسْتَغْفِرُ عَشْرًا، وَيَقُولُ : " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاهْدِنِي، وَارْزُقْنِي وَعَافِنِي، أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ضِيقِ الْمَقَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
نبی پاک( تہجد کے بعد) دس مرتبہ اللہ اکبر کا ورد فرماتے پھر الحمد للہ کا دس بار ورد فرماتے پھر سبحان اللہ کا دس بار ورد فرماتے پھر دس بار استغفار فرماتے پھر یہ دعا پڑھتےاللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاهْدِنِي، وَارْزُقْنِي وَعَافِنِي، أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ضِيقِ الْمَقَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
(نسائی حدیث1617)
.
استغفار توبہ کا نام ہے مگر سیدالاستغفار پڑھے تو بہتر...سیدالاستغفار یہ دعا ہے:
اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ
یہ دعا یقین کے دن میں پڑھی جائے اور اس دن وفات پا جائے تو جنتی....رات کو پڑہے اس رات انتقال ہوجائے تو جنتی
(بخاری حدیث6306، مسلم حدیث2702)
.
وَقِيَامُ اللَّيْل قَدْ يَسْبِقُهُ نَوْمٌ بَعْدَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ وَقَدْ لاَ يَسْبِقُهُ أَمَّا التَّهَجُّدُ فَلاَ يَكُونُ إلاَّ بَعْدَ نَوْمٍ
نماز عشاء کے بعد سو کر اٹھے اور نماز نفل پڑھے تو اسے تہجد کہتے ہیں صلاۃ اللیل بھی کہتے ہیں اور نماز عشاء کے بعد بغیر سوئے نفل ادا کییے جائیں تو انہیں صلاۃ اللیل کہیں گے ، تہجد نا کہیں گے
(كتاب الموسوعة الفقهية الكويتية14/86)
لیھذا صلاۃ اللیل کے متعلق جو فضائل ہیں وہ تہجد ادا کرنے سے بھی مل جائیں گے تو لیجیے تہجد و صلاۃ اللیل کے فضائل پڑہیے
======================
تفسیر صرالجنان میں ہے کہ:
تہجد کے فضائل:
اس ایت میں تہجد کا بطور خاص ذکر فرمایا گیا ہے، اس مناسبت سے نماز تہجد کی فضیلت پر مشتمل5احادیث درج ذیل ہیں ۔
(1)…حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’رات میں قیام کو اپنے اوپر لازم کر لو کہ یہ اگلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے رب عزوجل کی طرف قربت کا ذریعہ اور گناہوں کو مٹانے والا اور گناہ سے روکنے والا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۵/۳۲۳ الحدیث: ۳۵۶۰)
(2)…حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ تعالی عنہاسے روایت ہے ،حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ قیامت کے دن لوگ ایک میدان میں جمع کیے جائیں گے، اس وقت منادی پکارے گا، کہاں ہیں وہ جن کی کروٹیں خواب گاہوں سے جدا ہوتی تھیں ؟ وہ لوگ کھڑے ہوں گے اور تھوڑے ہوں گے یہ جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے پھر اور لوگوں کے لیے حساب کا حکم ہوگا۔( شعب الایمان، باب الحادی والعشرون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، تحسین الصلاۃ والاکثار منہا لیلا ونہارا۔۔۔ الخ، ۳/۱۶۹، الحدیث: ۳۲۴۴)
(3)…حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہماسے روایت ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جنت میں ایک بالا خانہ ہے کہ باہر کا اندر سے دکھائی دیتا ہے اور اندر کا باہر سے۔ حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ !صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم، وہ کس کے لیے ہے؟ ارشاد فرمایا ’’اس کے لیے جو اچھی بات کرے اور کھانا کھلائے اور رات میں قیام کرے جب لوگ سوتے ہوں ۔( مستدرک، من کتاب صلاۃ التطوع، صلاۃ الحاجۃ، ۱/۶۳۱، الحدیث: ۱۲۴۰)
(4)…حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جوشخص رات میں بیدار ہواور اپنے اہل خانہ کو جگائے پھر دونوں دو دو رکعت پڑھیں تو کثرت سے یاد کرنے والوں میں لکھے جائیں گے۔(مستدرک، من کتاب صلاۃ التطوع، تودیع المنزل برکعتین، ۱/۶۲۴، الحدیث: ۱۲۳۰)
(5)…حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ’’ میں نے عرض کی :یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم، مجھے کوئی ایسا کام ارشاد فرمائیے جسے میں اختیار کرو ں تو جنت میں داخل ہو جاؤں ۔ ارشاد فرمایا ’’سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو، رات میں نماز پڑھو جب لوگ سوتے ہوں تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔( مستدرک، کتاب الاطعمۃ، فضیلۃ اطعام الطعام، ۵/۱۷۹، الحدیث: ۷۲۵۶)
تہجد سے متعلق چند مسائل:
یہاں نماز تہجد کے بارے میں چند شرعی مسائل یاد رکھیں :
(1)…صلاۃ اللیل کی ایک قسم تہجد ہے کہ عشا کی نماز کے بعد رات میں سو کر اٹھیں اور نوافل پڑھیں ، سونے سے قبل جو کچھ پڑھیں وہ تہجد نہیں ۔
(2)…تہجد نفل کا نام ہے اگر کوئی عشا کے بعد سو گیا پھر اٹھ کر قضا نماز پڑھی تو اس کو تہجد نہ کہیں گے۔
(3)…کم سے کم تہجد کی دو رکعتیں ہیں اور حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے اٹھ تک ثابت ہیں ۔
(4)…جو شخص تہجد کا عادی ہو بلا عذر اسے تہجد چھوڑنا مکروہ ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے، حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما سے ارشاد فرمایا: ’’اے عبداللہ! رضی اللہ تعالی عنہ، تو فلاں کی طرح نہ ہونا کہ رات میں اٹھا کرتا تھا پھر چھوڑ دیا۔( بخاری، کتاب التہجد، باب ما یکرہ من ترک قیام اللیل لمن کان یقومہ، ۱/۳۹۰، الحدیث: ۱۱۵۲)
(تحریر کا یہ حصہ تفسیر صراط الجنان سے لیا گیا ہے)
.
.
========================
بہار شریعت میں ہے کہ:
( نماز تہجد )
مسئلہ ۱: اسی صلاۃ اللیل کی ایک قسم تہجد ہے کہ عشا کے بعد رات میں سو کر اٹھیں اور نوافل پڑھیں، سونے سے قبل جو کچھ پڑھیں وہ تہجد نہیں۔(ردالمحتار )
ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، مطلب في صلاۃ الليل، ج۲، ص۵۶۶.
.
مسئلہ ۲: تہجد نفل کا نام ہے اگر کوئی عشا کے بعد سو رہا پھر اٹھ کر قضاپڑھی تو اس کو تہجد نہ کہیں گے.(ردالمحتار)
''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، مطلب في صلاۃ الليل، ج۲، ص۵۶۷.
.
مسئلہ ۳: کم سے کم تہجد کی دو رکعتیں ہیں اور حدیث ۳: حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے آٹھ تک ثابت۔ حدیث ۴: نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص رات میں بیدار ہواور اپنے اہل کو جگائے پھر دونوں دو دو رکعت پڑھیں تو کثرت سے یاد کرنے والوں میں لکھے جائیں گے۔'' اس حدیث کو نسائی و ابن ماجہ اپنی سنن میں اور ابن حبان اپنی صحیح میں اورحاکم نے مستدرک میں روایت کیا اور منذری نے کہا یہ حدیث بر شرط شیخین صحیح ہے۔ (1) (ردالمحتار) مسئلہ ۴: جو شخص دو تہائی رات سونا چاہے اور ایک تہائی عبادت کرنا، اسے افضل یہ ہے کہ پہلی اور پچھلی تہائی میں سوئے اور بیچ کی تہائی میں عبادت کرے اور اگر نصف شب میں سونا چاہتا ہے اور نصف جاگنا تو پچھلی نصف میں عبادت افضل ہے کہ حدیث ۵: صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی، حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: کہ رب عزوجل ہر رات میں جب پچھلی تہائی باقی رہتی ہے آسمان دنیا پر تجلی خاص فرماتا ہے اور فرماتا ہے: ''ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کروں، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے دوں، ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ اس کی بخشش کر دوں۔'' (2) اور سب سے بڑھ کر تو نماز داود ہے۔ کہ حدیث ۶: بخاری و مسلم عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی، کہ حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) نے فرمایا: سب نمازوں میں اللہ عزوجل کو زیادہ محبوب نماز داود ہے کہ آدھی رات سوتے اور تہائی رات عبادت کرتے پھر چھٹے حصہ میں سوتے۔ (3) مسئلہ ۵: جو شخص تہجد کا عادی ہو بلا عذر اسے چھوڑنا مکروہ ہے۔ کہ حدیث ۷: صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے ارشاد فرمایا: ''اے عبداللہ! تو فلاں کی طرح نہ ہونا کہ رات میں اٹھا کرتا تھا پھر چھوڑ دیا۔'' (4) نیز حدیث ۸: بخاری و مسلم وغیرہما میں ہے فرمایا: کہ ''اعمال میں زیادہ پسند اللہ عزوجل کو وہ ہے جو ہمیشہ ہو، اگرچہ تھوڑا ہو۔'' (5)
1۔۔۔۔۔۔ ''المستدرک'' للحاکم، کتاب صلاۃ التطوع، باب تودیع المنزل برکعتین، الحدیث: ۱۲۳۰، ج۱، ص۶۲۴. ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاۃ اللیل، ج۲، ص۵۶۷. 2۔۔۔۔۔۔ ''صحيح مسلم''، کتاب صلاۃ المسافرین، باب الترغيب في الدعاء... إلخ، الحدیث: ۷۵۸، ص۳۸۱. 3۔۔۔۔۔۔ ''صحيح البخاري''، کتاب احادیث الانبیاء، باب احب الصلاۃ إلی اللہ صلاۃ داود... إلخ، الحدیث: ۳۴۲۰، ج۲، ص۴۴۸. 4۔۔۔۔۔۔ ''صحيح البخاري''، کتاب التہجد، باب ما یکرہ من ترک قیام اللیل لمن کان یقومہ، الحدیث: ۱۱۵۲، ج۱، ص۳۹۰. 5۔۔۔۔۔۔ ''صحيح مسلم''، کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضیلۃ العمل الدائم... إلخ، الحدیث: ۲۱۸۔(۷۸۳)، ص۳۹۴.
.
فضائل کی بعض حدیثیں اور سنيے۔ حدیث ۹: ترمذی و ابن ماجہ و حاکم برشرط شیخین عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی، کہتے ہیں: ''رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے۔'' تو کثرت سے لوگ حاضر خدمت ہوئے، میں بھی حاضر ہوا، جب میں نے حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) کے چہرہ کو غور سے دیکھا پہچان لیا کہ يہ مونھ جھوٹوں کا مونھ نہیں۔ کہتے ہیں پہلی بات جو میں نے حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) سے سنی یہ ہے فرمایا: ''اے لوگو! سلام شائع کرو اور کھانا کھلاؤ اور رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو اور رات میں نماز پڑھو جب لوگ سوتے ہوں، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوگے۔'' (4) حدیث ۱۰: حاکم نے بافادۂ تصحیح روایت کی، کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سوال کیا تھا کوئی ایسی چیز ارشاد ہو کہ اس پر عمل کروں تو جنت میں داخل ہوں؟ اس پر بھی وہی جواب ارشاد ہوا۔ (5)
1۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، ج۲، ص۵۶۸. 2۔۔۔۔۔۔ ''صحيح مسلم''، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب فضل الصلاۃ العشاء... إلخ، الحديث: ۶۵۶، ص۳۲۹. 3۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، مطلب في إحياء ليالی العيدين... إلخ، ج۲، ص۵۶۹. 4۔۔۔۔۔۔ ''المستدرک'' للحاکم، کتاب البروالصلۃ، باب إرحموا أھل الارض... إلخ، الحدیث: ۷۳۵۹، ج۵، ص۲۲۱. و ''الترغيب و الترھيب''، کتاب النوافل، الترغيب في قیام اللیل، الحدیث: ۴، ج۱، ص۲۳۹. 5۔۔۔۔۔۔ ''المستدرک'' للحاکم، کتاب البروالصلۃ، باب إرحموا أھل الارض... إلخ، الحدیث: ۷۳۶۰، ج۵، ص۲۲۱.
.
حدیث ۱۱،۱۲: طبرانی کبیر میں باسناد حسن و حاکم بافادۂ تصحیح برشرط شیخین عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی، حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) فرماتے ہیں: ''جنت میں ایک بالا خانہ ہے کہ باہر کا اندر سے دکھائی دیتا ہے اور اندر کا باہر سے۔'' ابو مالک
اشعری نے عرض کی، یا رسول اللہ (عزوجل و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) ! وہ کس کے ليے ہے؟ فرمایا: ''اس کے ليے کہ اچھی بات کرے اور کھانا کھلائے اور رات میں قیام کرے جب لوگ سوتے ہوں۔'' (1) اور اسی کے مثل ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی مروی ہے۔ حدیث ۱۳: بیہقی کی ایک روایت اسماء بنت یزید رضی اللہ تعالی عنہا سے ہے کہ فرماتے ہیں: قیامت کے دن لوگ ایک میدان میں جمع کيے جائیں گے، اس وقت منادی پکارے گا، کہاں ہیں وہ جن کی کروٹیں خواب گاہوں سے جدا ہوتی تھیں؟ وہ لوگ کھڑے ہوں گے اور تھوڑے ہوں گے یہ جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے پھر اور لوگوں کے ليے حساب کا حکم ہوگا۔ (2) حدیث ۱۴: صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی، کہ حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں: ''رات ميں ایک ایسی ساعت ہے کہ مرد مسلمان اس ساعت میں اللہ تعالی سے دنیا و آخرت کی جوبھلائی مانگے، وہ اسے دے گا اور یہ ہر رات میں ہے۔'' (3) حدیث ۱۵،۱۶: ترمذی ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں: ''قیام اللیل کو اپنے اوپر لازم کر لو کہ یہ اگلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمھارے رب (عزوجل) کی طرف قربت کا ذریعہ اور سیآت کا مٹانے والا اور گناہ سے روکنے والا۔'' (4) اور سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں یہ بھی ہے، کہ ''بدن سے بیماری دفع کرنے والا ہے۔'' (5)
1۔۔۔۔۔۔ ''المستدرک'' للحاکم، کتاب صلاۃ التطوع، باب صلاۃ الحاجۃ، الحدیث: ۱۲۴۰، ج۱، ص۶۳۱، عن عبد اللہ بن عمرو. 2۔۔۔۔۔۔ ''شعب الإيمان''، باب في الصلوات، الحديث: ۳۲۴۴، ج۳، ص۱۶۹. 3۔۔۔۔۔۔ ''صحيح مسلم''، کتاب صلاۃ المسافرین، باب في اللیل ساعۃ مستجاب فیھا الدعاء، الحدیث: ۷۵۷، ص۳۸۰. 4۔۔۔۔۔۔ ''جامع الترمذي''، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، الحدیث: ۳۵۶۰، ج۵، ص۳۲۲. 5۔۔۔۔۔۔ ''المعجم الکبير''، باب السین، الحدیث: ۶۱۵۴، ج ۶، ص۲۵۸
.
حدیث ۱۷: صحیح بخاری میں عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی، فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم : ''جو رات میں اٹھے اور یہ دعا پڑھے۔
لا الہ الا اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیئ قدیر و سبحن اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ رب اغفرلی .
پھر جو دعا کرے مقبول ہوگی اور اگر وضو کر کے نماز پڑھے تو اس کی نماز مقبول ہوگی۔''
۔۔۔۔۔۔ ''صحيح البخاري''، کتاب التھجد، باب فضل من تعار من اللیل فصلی، الحدیث: ۱۱۵۴، ج۱، ص۳۹۱. و ''مرقاۃ المفاتیح''، کتاب الصلوۃ، باب ما یقول إذا قام من اللیل، تحت الحدیث: ۱۲۱۳، ج۳، ص۲۸۸.
(تحریر کا یہ حصہ بہار شریعت سے لیا گیا ہے)
.
==========================
تفسیر تبیان القرآن میں ہے کہ:
قیام اللیل اور تہجد کی نماز کی فضیلت میں بھی بہ کثرت احادیث ہیں :-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم کے روزے ہیں ‘ جو اللہ کا مہینہ ہے اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١٦٣‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٤٢٩‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٧٤٠ )-
حضرت عبداللہ بن سلام (رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے لوگو ! سلام پھیلائو اور کھانا کھلائو ‘ اور رشتہداروں سے مل جل کر رہو اور رات کو اٹھ کر نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جائو گے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٨٥‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٢٥١‘ المستدرک ج ٣ ص ١٣)-
حضرت عائشہ )رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اس قدر زیادہ قیام کرتے تھے کہ آپ کے پیر سورج گئے یا پھٹ گئے ‘ میں نے آپ سے عرض کیا آپ اس قدر مشقت کیوں کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اگلے اور پچھے ذنب (بہ ظاہر خلاف اولی کام) بخش دیئے گئے ہیں ‘ آپ نے فرمایا کیا مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میں اللہ کا بہت زیادہ شکر گزار بندہ ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٣٠‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٢٠۔ ١٨١٩)-
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص سویا ہوا ہوتا ہے تو شیطان اس کی گدی کے اوپر تین گرہیں لگا دیتا ہے ہر گرہ پر یہ پھونک ماردیتا ہے رات بہت لمبی ہے تم سو جائو ‘ پس اگر وہ بیدار ہوجائے اور اللہ کا ذکر کرے تو اس کی ایک گرہ بھی کھل جاتی ہے اور وہ صبح کو ترو تازہ ہوتا ہے ورنہ صبح کو سستی کا مارا ہوا نحوست کے ساتھ اٹھتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٢‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٧٦‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٠٧)-
حضرت ابوہریرہ ()رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہمارا رب تبارک و تعالی ہر رات کو آسمان دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے ‘ جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے ‘ تو فرماتا ہے جو مجھ سے دعا کرے تو میں اس کی دعا قبول کرلوں ! کوئی ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو عطا کروں ! کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت چاہے تو میں اس کی مغفرت کردوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٨‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٣١٤‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٦٦ )-
.
تہجد کی رکعات کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :-
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان میں کیسی (یعنی کتنی رکعت) نماز پڑھتے تھے ؟ حضرت عائشہ نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے ‘ آپ چار رکعت نماز پڑھتے ان کے حسن اور طول سے نہ پوچھو ‘ آپ پھر چار رکعات نماز پڑھتے ان کے حسن اور طول سے نہ پوچھو ‘ پھر آپ تین رکعت نماز (وتر) پڑھتے ‘ حضرت عائشہ نے بیان کیا میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوجاتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اے عائشہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔ (صحیح البخا ری رقم الحدیث : ١١٤٧‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٣٨‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٣٩‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٣٤١‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٩٧)-
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو تیرہ رکعت نماز پڑھتے تھے ‘ ان میں وتر اور صبح کی دو سنتیں بھی تھیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٣٨‘ الرقم المسلسل : ١٦٩٦‘ صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٠‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣٣٤)-
مسروق بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تہجد کی رکعات کے متعلق سوال کیا انہوں نے کہا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فجر کی دوسنتوں کے سواسات رکعات ‘ نورکعات اور گیارہ رکعات پڑھی ہیں ( ان میں تین رکعات وتر شامل ہیں ‘ خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے آٹھ رکعات سے زیادہ تہجد کی نماز نہیں پڑھی اور کم از کم چار رکعات پڑھی ہیں)-
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٩‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣٤٠‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٣٩‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٩٧)-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص رات کو اٹھے تو دو رکعت نماز تخفیف سے پڑھے دوسری روایت میں ہے ‘ پھر اس کے بعد جتنی چاہے لمبی نماز پڑھے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٣٢٤۔ ١٣٢٣ )
.
تہجد کی نماز کے فضائل -
الزمر : ٩ میں فرمایا : ” بیشک جو رات کے اوقات سجدہ اور قیام میں گزارتا ہے “۔ اس آیت میں ” قانت “ کا لفظ ہے، قانت کا معنی ہے : جس شخص پر جو اطاعت اور عبادت واجب ہے وہ اس کے لیے قیام کرے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : القنوت کا معنی ہے : اللہ تعالی کی اطاعت کرنا، قرآن مجید میں ہے : کل لہ قنتون “ (البقرہ : ١١٦) نیز اس آیت میں ہے ” اناء اللیل “ اس کا معنی ہے : رات کے اوقات، خواہ وہ رات کا اول وقت ہو، اوسط وقت ہو یا آخر وقت ہو۔ حدیث میں ہے : حضرت جابر )رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : افضل الصلوۃ طول القنوت۔ سب سے افضل نماز وہ ہے جس میں لمبا قیام ہو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٢١، جامع المسانید والسنن مسند جابر بن عبداللہ رقم الحدیث : ٢٠٢) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کی نماز میں قیام کرنا دن کی نماز میں قیام کرنے سے افضل ہے، اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں۔-
(١) رات کو عبادت کرنا عام لوگوں کی نماز سے مخفی ہوتا ہے، اس لیے رات کی عبادت ریاکاری سے زیادہ دور ہے۔-
(٢) اندھیرا لوگوں کو دیکھنے سے مانع ہے اور لوگوں کا محو خواب ہونا اس کے سننے سے مانع ہے اور جب انسان کا دل باہر کے عوارض سے فارغ ہو تو وہ یک سوئی کے ساتھ عبادت میں مشغول ہوتا ہے۔-
(٣) رات کا وقت نیند اور آرام کے لیے ہوتا ہے، انسان طبعی طور پر رات کو سونا چاہتا ہے اور طبعی تقاضوں کو ترک کرکے اللہ کی عبادت کرنا نفس پر زیادہ شاق اور مشکل ہے۔-
تہجد کی نماز کے فضائل میں احادیث :-
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو نماز میں اتنا قیام کرتے تھے کہ آپ کے دونوں پیر سوج گئے تھے، تو حضرت عائشہ نے کہا : یارسول اللہ ! آپ اس قدر مشقت کیوں کرتے ہیں، حالانکہ اللہ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے ذنب (بہ ظاہر خلاف اولی کام) معاف فرمادیئے ہیں، آپ نے فرمایا : کیا میں اس کو پسند نہ کروں کہ میں اللہ کا شکرگزار بندہ ہوجائوں، پھر جب آپ کا جسم بھاری ہوگیا تو آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہوجاتے، پھر رکوع کرتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٣٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٧٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٤٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١١٨، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ١٠٤٠) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نماز، حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نماز ہے اور سب سے پسندیدہ روزے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے روزے ہیں، وہ نصف رات سوتے تھے، پھر تہائی رات نماز میں قیام کرتے تھے، پھر رات کے چھٹے حصہ میں سوتے تھے (مثلا اگر چھ گھنٹے کی رات ہو تو تین گھنٹے سوتے تھے، پھر دو گھنٹے نماز پڑھتے تھے، پھر ایک گھنٹہ سوتے تھے۔ عل ہذا القیاس) اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٣١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١٥٩، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٤٤٨، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٢٤٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧١٢، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص رقم الحدیث : ٦٥٣) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو تیرہ رکعت نماز پڑھتے تھے، ان رکعات میں وتر اور سنت فجر شامل ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٣٨، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣٣٤)-
اسود بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات میں کس طرح نماز پڑھتے تھے ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے، آپ چار رکعات نماز پڑھتے، تم ان کے حسن اور طول کو نہ پوچھو، پھر چار رکعات نماز پڑھتے، تم ان کے حسن اور طول کو نہ پوچھو، پھر تین رکعات (نماز وتر) پڑھتے تھے، حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں، آپ نے فرمایا : اے عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔-
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٣٨، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣٤١، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٣٩، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٩٧، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٣٩٣، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ٣١٥٣) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ
بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص جب سوتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر یہ پڑھ کر تین گرہیں لگا دیتا ہے : ” تمہاری رات بہت لمبی ہے سو جائو “ جب وہ بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ ایک گرہ کھل جاتی ہے اور جب وہ وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور جب وہ نماز پڑھتا ہے تو تیسری گرہ کھل جاتی ہے، پھر صبح کو وہ تروتازہ اور خوش گوار حال میں اٹھتا ہے ورنہ سستی کا مارا ہوا نحوست کے ساتھ اٹھتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٧٦، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٠٧ (حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک شخص کا ذکر کیا گیا جو صبح تک سوتا رہتا ہے اور نماز کے لیے نہیں اٹھتا، آپ نے فرمایا : شیطان اس کے کان میں پیشاب کردیتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٧٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٠٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٣٠، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ١٨٧)-
حضرت ابوہریرہ )رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارا رب تبارک وتعالی ہر رات کو جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو فرماتا ہے : کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے تو میں اس کی دعا قبول کرلوں، کوئی ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو عطا کروں، کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اس کو بخش دوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٨، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣١٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٦٦) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاض (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : اے عبداللہ ! تم فلاں شخص کی مثل نہ ہوجانا، وہ پہلے رات کو نماز میں قیام کرتا تھا، پھر اس نے رات کے قیام کو ترک کردیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٥٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٤٤٨، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٢٤٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧١٢، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص رقم الحدیث : ٨٤١) حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رات میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جس بندہ کو مل جائے وہ اس گھڑی میں دنیا اور آخرت کی جس چیز کا بھی سوال کرے تو اللہ تعالی اس کو عطا کردیتا ہے اور یہ گھڑی ہر رات میں آتی ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٧، جامع المسانید والسنن مسند جابر بن عبداللہ رقم الحدیث : ١٥٤٧) حضرت بلال (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم رات کی نماز کے قیام کو لازم رکھو، کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور رات کے قیام سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور رات کے قیام گناہوں کو روکتا ہے اور گناہوں کا کفارہ ہے اور جسمانی بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٤٨، سنن کبری للبیہقی ج ٢ ص ٥٠٢) حضرت ابو امامہ (رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر و بن عبسہ نے کہا : انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصہ میں ہوتا ہے، اگر تم اس وقت میں اللہ کو یاد کرسکتے ہو تو یاد کرو۔-
(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٧٩، مسند احمد ج ٤ ص ١١١، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٢٧٧، صحیح ابن خزیمہ، رقم الحدیث : ١١٤٧) حضرت ابوامامہ (رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا : یارسول اللہ ! کس وقت کی دعا سب سے زیادہ مقبول ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : آدھی رات کو اور فرض نمازوں کے بعد۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٩، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی رقم الحدیث : ١٠٨)-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو نماز کے لیے اٹھا اور اس نے اپنی بیوی کو جگایا، سھر اس نے نماز پڑھی، اگر وہ اٹھنے سے انکار کرے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اللہ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو جگائے، پھر وہ بھی نماز پڑھے اور اگر وہ اٹھنے سے منع کرے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے ڈالے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٣٦، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣٠٨، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦١٠، مسند احمد ج ٢ ص ٢٥٠، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١١٤٨، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٥٦٧، المستدرک ج ١ ص ٣٠٩، سنن کبری للبیہقی ج ٢ ص ٥٠١)-
(تحریر کا یہ حصہ تفسیر تبیان القرآن سے مع الحذف لیا گیا ہے)
.
تالیف و تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475