"صحابہ سے بضض رکھنے کا انجام"
وَ
الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ
لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ
قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ
رَّحِیْمٌ۠ )سورۃ
الحشر :10( |
ترجمہ
کنز العرفان:اوران کے بعد آنے والے عرض
کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمیں اورہمارے ان بھائیوں کوبخش دے جو ہم سے پہلے ایمان
لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کیلئے کوئی کینہ نہ رکھ، اے ہمارے رب! بیشک
تو نہایت مہربان، بہت رحمت والا ہے۔ |
صحابہ
ٔکرام وہ مبارک ہستیاں ہیں جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کی
صحبت اختیار کرنے کے لئے منتخب فرمایا اور ان کی عظمت و شان کاذکر قرآنِ مجید میں
کیا ،صحابہ کرام کی شان رفیعہ تو خود رب ذوالجلال کے پیارے حبیب
ﷺ نے بیان فرمائی ہےاللہ تعالیٰ نے ان
مقدس ہستوں سے جنت کا وعدہ فر مایا اور انہیں اپنی رضا کا مژدہ سنایاچنانچہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں ارشاد فرمایا رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ ترجمہ: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ
سے راضی (پ28 المجادلہ22) اس کے باوجود ان مقدس لوگوں پر طعن و
تشنیع کرنا کہاں کی جرأت مندی ہےاہلسنت و جماعت
کامتفقہ فیصلہ ہے کہ تمام امت مسلمہ پر واجب ہے کہ تمام صحابہ کرام کو
عادل و پاک کہیں اور ان کی مدح کریں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی مدح فرمائی
ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: كُنْتُـمْ خَيْـرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ
لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ
وَتُؤْمِنُـوْنَ بِاللّـٰهِ ۗ
(پ5
اٰل عمران 110)
اسی طرح بہت ساری احادیث مبارکہ ہیں جن میں سرکار
دو عالم ﷺ نے صحابہ کرام پر طعن و تشنیع کرنے سے منع فرمایا ان احادیثِ مبارکہ
میں سے ہم چنداحادیث پیش کرتے ہوں تاکہ صحابہ کرام کی عظمت ہمارے دلوں میں
بیٹھ جائے اور ان پر طعن و تشنیع کرنے
والے اس فعل ِ بد سے گریز کریں۔ چنانچہ
(1) عن ابی ھریرۃ قال : قال رسول اللہ ﷺ" لا
تَسُبُّوا أصحابی فوَ الَّذی نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَو اَنَّ اَحَدَکُمْ اَنْفَقَ
مِثْلَ أُحُدٍ ذَھَباً، مَا اَدْرَکَ مُدَّ اَحَدِھم ولا نَصِیْفَہٗ۔ (صحیح مسلم باب تحریم سَبِّ الصحابۃ حدیث 2540
صفحہ 985 دار الکتب العلمیہ)
حضرت ابو ہریرہ ﷺ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے
اصحاب کو گالی نہ دو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے
کوئی احد کی مثل سونا خرچ کرے وہ صحابہ
کرام کے ایک مُد یا نصف مد کو بھی نہیں پہنچتا۔
(2) یا ایھا النّاسُ! احفظونی فی اختانی و أصھاری ، لا یطلُبنّکم
اللہ بمظلمۃ احد منھم فانھا لیست مماتوھبُ، یا ایھا النّاسُ! ارفعوا السنتکم عن المسلمین و اذا مات أحدٌ من المسلمین فلا
تقولوا فیھم الا خیر۔
(کنز االعمال حدیث 32536 ص 541)
اے لوگوں! میری وجہ سے
میرے دامادوں اور سسرال کا خیال رکھو اللہ تعالیٰ تم سے ان میں سے کسی پر ظلم کے
انتقام کا مطالبہ نہ کرے کیوں کہ یہ نا قابل معافی جرم ہے ، اے لوگوں اپنی زبانوں
کی مسلمانوں کی عیب جوئی سے حفاظت کرو جب کسی کا انتقال ہو جائے تو خیر کے سوا اس
کا تذکرہ مت کرو۔
مگر افسوس! شیعہ(اہل تشیع) خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں اوران کے سینے صحابہ ٔکرام خصوصاً حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ِ اعظم ، حضرت امیر معاویہ ، حضرت بی بی عائشہ صدیقہ کے بغض سے بھرے ہوئے ہیں ،انہیں صحابہ ٔکرام کے لئے اِستغفار (دعا)کرنے کاحکم دیا گیا لیکن یہ انہیں گالیاں دیتے ہیں جیساکہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ عابدہ زاہدہ نے فرمایا : لوگوں کو حکم تو یہ دیا گیا کہ صحابہ ٔکرام کیلئے اِستغفار(دعا) کریں اور کرتے یہ ہیں کہ انہیں گالیاں دیتے ہیں ۔( مسلم، کتاب التفسیر، )
صحابہ ٔکرام سے بغض رکھنے والے ایمان والے نہیں:
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے
ہیں :جس کے دِل میں کسی صحابی کی طرف سے بغض یا کدورت ہو اور وہ
اُن کے لیے دعائے رحمت و اِستغفار نہ کرے، وہ مؤمنین کی اَقسام سے
خارج ہے کیونکہ یہاں مومنین کی تین قسمیں فرمائی گئیں ۔
مہاجرین، انصاراور ان کے بعد والے جواُن کے تابع ہوں اور ان کی طرف سے
دل میں کوئی کدورت نہ رکھیں اور ان کے لئے دعائے مغفرت
کریں تو جو صحابہ سے کدورت رکھے رافضی ہو یا خارجی وہ
مسلمانوں کی ان تینوں قسموں سے خارج ہے۔( خزائن العرفان، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۰۱۱)
جس نے صحابہ سے بغض رکھا اس نے نبی ﷺ نے بغض رکھا:
حضرت عبد اللّٰہ بن مغفل سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد
فرمایا’’ میرے صحابہ کے متعلق اللّٰہ سے ڈرو اللّٰہ سے ڈرو ،میرے صحابہ کے بارے میں اللّٰہ سے ڈرو اللّٰہ سے ڈرو، میرے بعد انہیں نشانہ نہ بناؤ
کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور
جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے
انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللّٰہ کو ایذا دی اور جس نے اللّٰہ کو ایذا دی تو قریب ہے
کہ اللّٰہ اسے پکڑے۔( ترمذی ، ابواب
المناقب ، باب فیمن سبّ اصحاب النبی صلی اللّٰہ
علیہ وسلم ، ۵ / ۳۰۲ ، الحدیث : ۳۸۶۴ ، دار ابن کثیر، بیروت)
صحابہ ٔکرام کوسب و شتم (گالیاں دینا)کرنے والے
کی سزا:
(1) امام قاضی عیاس مالکی الشفاء میں
فرماتے ہیں:
وسبُّ آل بیتہ و ازواجہٖ واصحابہٖ ﷺ و تنقصھم حرامٌ
مَلَعُوْنٌ فاعلہٗ۔(الشفاء للقاضی عیاض
فی فصل من سب آل بیتہ و ازواجہ و اصحابہ ۔۔۔۔الخ ص550 دار الکتب العلمیہ)
نبی کریمﷺ کے اہل بیت،آپﷺ کی ازواج
مطہرات اور آپ ﷺ کے اصحاب کو سب و شتم کرنا اور ان کی تفقیص کرنا حرام ہے ایسا
کرنے ولا ملعون ہے۔
(2)امام قاضی عیاض امام مالک کا ایک
قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قال مالک رحمۃ اللہ علیہ من شَتَمَ النَبِیَّ
قُتِلَ و َ مَنْ شَتَمَ اَصْحَابَہٗ اُدِّبَ وَ قَالَ ایضا مَن شَتَمَ احداً مِنْ
اَصْحَابِ النَبِیِّ ﷺ أبا بکر أو عمر أو عثمان أو مُعَاوِیَۃَ اَو عَمْرَو بْنَ
الْعَاصِ فان قال کانوا علی ضَلالٍ و کفر قُتِلَ و ان شتمھم بغیر ھذا من مشاتَمَۃِ
النَّاسِ نُکِّلَ نَکَالاً شَدِیْداً۔ (الشفاء
للقاضی عیاص فی فصل من سب آل بیتہ و ازواجہ و اصحابہ ۔۔۔۔الخ ص550 دار الکتب
العلمیہ)
امام مالک نے
فرمایا کہ جو نبی کریمﷺ کو بُرا بھلا کہے اسے قتل کیا جائے گا اور یہ بھی فرما یا
کہ جو اصحاب نبی ﷺ میں سے کسی ایک کوابو بکر، یا عمر ،یا عثمان، یا امیر معاویہ
،یا عمر بن عاص کو بُرا بھلا کہے تو اگر اس نے کہا کہ وہ گمراہی یا کفر پر تھے اسے
قتل کیا جائے گا اور اگر اس کے علاوہ سب وشتم
کرے تو اسے سخت ترین سزا دی جائے گی۔
(3)امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی اپنے
رسالہ " رَدُّ
الرِّفضۃ" میں
فرماتے ہیں:
تحقیق مقام و تفصیل مرام یہ ہے کہ
رافضی تبرائی جو حضرت شیخین صدیق اکبر و فاروق اعظم خواہ اُن میں سے ایک کی شان
پاک میں گستاخی کرے اگر چہ صرف اس قدر کہ انہیں خلیفہ بر حق نہ مانے کتب
معتمدہ فقہ حنفی کی تصریحات اور عامہ آئمہ ترجیح و فتویٰ کی تصحیحات پر مطلقاً
کافر ہے کہ درمختار میں ہے " ان انکر بعض ماعلم من الدین ضرورۃ کفر
بھا کقولہ اِن اللہ جسم کاالاجسام و انکارہ صحبۃ الصدیق "(فتاویٰ رضویہ رسالہ ردُّ الرِّفضہ جلد 14 ص 250
مطبوعی رضا فاؤنڈیشن)
یعنی اگر
ضررویات دین میں سے کسی چیز کا منکر ہوتو
کافر ہے مثلاً یہ کہنا کہ اللہ اجسام کی مانند جسم ہے یا صدیق اکبر کی صحابیت کا منکر
ہو نا ، حاشیہ در میں ہے کذا خلافتہٖ یعنی ایسے ہی آپ کی خلافت کا انکار کرنا بھی کفر ہے۔
صحابہ ٔکرام کے
بارے میں امام طحاوی و عقیدہِ اہلسنت:
امام طحاوی
" عقیدہ الطحاویۃ" میں عقیدہ
اہلسنت کی ترجمانی کرتے ہو ئے فرماتے ہیں:
وَنُحِبُّ اَصْحَابَ رُسُوْلِ اللہِﷺ
وَلاَ نُفَرِّطُ فِی حُبِّ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَلاَ نَتَبَرَّأُ مِنْ اَحَدٍ
مِّنْھُمْ وَ نُبْعِضُ مَنْ یُّبْعِضُھُمْ وَ بِغَیْرِ الخَیْرِ یَذْکَرُھُمْ
وَلَا نَذْکُرُھُمْ اِلّاَ بِخَیْرٍ وَ حُبُّھُمْ دِیْنٌ وَّ اِیْمَانٌ وَّاِحْسَانٌ
وَ بُغْضُھُمْ کُفْرٌ وَّ نِفَاقٌ وَّ طُغْیَانٌ۔ ( شرح عقیدہ الطحاویۃ( مترجم) عقیدہ نمبر 118 ص 220 مکتبۃ
المصطفیٰ)
او ر ہم رسول اللہ ﷺ کے سب صحابہ کرام سےمحبت
کرتے ہیں اور کسی کی محبت میں زیادتی نہیں کرتے اور نہ ہی ان میں سے کسی سے بیزاری
کرتے ہیں اور ہم ان سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ کرام سے بغض رکھتے ہیں اور ان کا
برائی سے ذکر کرتے ہیں اور ہم ان صحابہ کا ذکر سوائے نیکی کے نہیں کرتے اور ان سے محبت
دین، ایمان، اور احسان کی علامت ہے اور ان سے بغض کفر و نفاق اور سرکشی کی نشانی
ہے۔
محرر: عبداللہ
ہاشم عطاری مدنی 03313654057 |