قربانی کی حقیقت کیا ہے؟
🍁 قربانی کی حقیقت کیا ہے؟ 🍁
بارگاہِ نبوت میں ہونے والا اھم سوال
محرر : غلام نبی انجم رضا عطاری
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ ذیشان میں صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول الله ماهٰذه الاضاحي یا رسول اللہ! صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہ قربانیاں کیا ہیں؟ یعنی قربانی کی حقیقت کیا ہے ؟ تو حضورِ اقدس صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سنة ابیکم ابراهيم عليه السلام یعنی تمھارے باپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
صحابہ کرام نے عرض کیا: فما لنا فيها یا رسول الله. ان میں ہمیں کیا ملے گا یعنی ان قربانیوں سے ھم کو کتنا ثواب ملے گا تو حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بكل شعرة حسنة. یعنی قربانی کے جانور کے ہر ہر بال کے بدلے میں ایک ایک نیکی ملے گی۔ پھر صحابہ کرام نے عرض کیا: فالصوف یارسول الله. یعنی اے اللہ کے رسول اُون کا کیا حکم ہے؟ تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بكل شعرة من الصوف حسنة
یعنی اُون کے ہر ہر بال کے عوض میں نیکی ملے گی
تشریح: صحابہ کرام کو سخت تعجب ہوا کہ قربانی کے جانور کے جسم پر بال تو بہت ہوتے ہیں اتنی نیکیاں ایک جانور کے قربانی کرنے میں قربانی کرنے والے کو کیسے مل جائے گی تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: ہر ہر بال کے عوض میں ایک ایک نیکی ملے گی۔ جس کا خلاصہ یہ کہ اجر دینے والا الله عزوجل بڑا کریم اور بڑا داتا ہے وہ اپنے کرم سے اس سے بھی زیادہ دے تو کون روک سکتا ہے۔ اس حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کے بجائے قیمت یا بازار سے گوشت خرید کر خیرات نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ ثواب کے لیے بال کہاں سے آئیں گے؟
(سنن ابن ماجه، ص: ۵۳۵ ، داراحياء التراث العرنی، بيروت)