"وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا۪-"
کیا اس آیتِ مبارکہ میں تمام فرقے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ الگ الگ فرقے نہ بنائیں ؟
سائل : راشد خان عطاری
بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :
"وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا۪"
ترجمہ : اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (یعنی فرقوں میں نہ بٹ جانا)۔
(پارہ 4، سورۃ آل عمران: 103)
اس آیتِ مبارکہ میں ان تمام فرقوں کو تنبیہہ کی گئی ہے، جنہوں نے اہلِ سنت و جماعت سے الگ ہو کر اپنے علیحدہ فرقے بنا لیے تو گویا ان سے فرمایا گیا کہ اہلِ سنت و جماعت سے الگ ہو کر علیحدہ فرقے مت بناؤ بلکہ سب اہلِ سنت و جماعت کے ساتھ مل کر متحد ہو جاؤ اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ کی رسی سے مراد جماعت یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ ہے جسے اہل سنت و جماعت کہا جاتا ہے، اسی طرح حدیثِ مبارکہ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسے گروہ کے ناجی (نجات پانے والا) ہونے کی خبر دی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے طریقے پر ہو اور وہ صرف اہلِ سنت و جماعت ہی ہے، اس سے پتہ چلا کہ سب کلمہ گو گروہ (فرقے) حق پر نہیں بلکہ صرف اہلِ سنت و جماعت ہی وہ واحد گروہ ہے جو حق اور ہدایت پر ہے۔
چنانچہ اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے :
{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا : اور تم سب مل کراللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو}
اس آیت میں اُن افعال و حرکات کی مُمانَعت کی گئی ہے، جو مسلمانوں کے درمیان تفریق کا سبب ہوں۔
چنانچہ ارشاد فرمایا کہ :
’’تم سب مل کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں فرقوں میں تقسیم نہ ہو جاؤ، جیسے یہود و نصاریٰ نے فرقے بنالئے۔
صلح کلیت کا رد :
یاد رہے کہ اصل راستہ اور طریقہ مذہبِ اہل سنت ہے، اس کے سوا کوئی راہ اختیار کرنا دین میں تفریق کرنا ہے اور یہ ممنوع ہے۔
بعض لوگ یہ آیت لے کر اہلسنّت سمیت سب کو غلط قرار دیتے ہیں۔
یہ سراسر غلط ہے کیونکہ حکم یہ ہے کہ جس طریقے پر مسلمان چلتے آرہے ہیں، جو صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے جاری ہے اور سنت سے ثابت ہے اس سے نہ ہٹو۔
اہلِ سنت و جماعت تو سنتِ رسول اور جماعتِ صحابہ کے طریقے پر چلتے آ رہے ہیں تو سمجھایا تو ان لوگوں کو جائے گا جو اس سے ہٹے، نہ کہ اصل طریقے پر چلنے والوں کو کہا جائے کہ تم اپنا طریقہ چھوڑ دو۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک خاندان اتفاق و اتحاد کے ساتھ صحیح اصولوں پر زندگی گزار رہا ہو، ان میں سے ایک فرد غلط راہ اختیار کرکے اِنتشار پیدا کرے تو اُس جدا ہونے والے کو سمجھایا جائے گا نہ کہ خاندان والوں کو بھی اتحاد ختم کرکے غلط راہ چلنے کا کہنا شروع کردیا جائے۔ بِعَیْنِہٖ یہی صورتِ حال اہلسنّت اور دوسرے فرقوں کی ہے۔ اصل حقیقت کو سمجھے بغیر صلح کُلِّیَّت کی رٹ لگانا اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا سراسر جہالت ہے۔
’’حَبْلِ اللّٰهِ‘‘ کی تفسیر :
’’حَبْلِ اللّٰهِ‘‘ کی تفسیر میں مفسرین کے چند اقوال ہیں :
بعض کہتے ہیں کہ اس سے قرآن مراد ہے۔
چنانچہ مسلم شریف میں ہے کہ :
"قرآنِ پاک حَبْلُ اللہ ہے، جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت پر ہے اور جس نے اُسے چھوڑا وہ گمراہی پر ہے۔"
(صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالٰی عنھم، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، صفحہ 1313، رقم الحدیث: 37، 2407 دار ابنِ حزم بیروت)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ :
"حَبْلُ اللہ سے جماعت مراد ہے."
(معجم الکبیر، جلد 9، صفحہ 212، رقم الحدیث : 9033 دار احیاء التراث العربی بیروت)
اور فرمایا کہ :
"تم جماعت کو لازم کر لو کہ وہ حَبْلُ اللہ ہے، جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیا۔"
(معجم الکبیر، جلد 9 صفحہ 199، رقم الحدیث : 8973 دار احیاء التراث العربی بیروت)
جماعت سے کیا مراد ہے ؟
یہ یاد رہے کہ جماعت سے مراد مسلمانوں کی اکثریت ہے، یہ نہیں کہ تین آدمی مل کر ’’جماعتُ المسلمین‘‘ نام رکھ لیں اور بولیں کہ قرآن نے ہماری ٹولی میں داخل ہونے کا کہا ہے، اگر ایسا ہی حکم ہے تو پھر کل کوئی اپنا نام ’’رسول‘‘ رکھ کر بولے گا کہ قرآن نے جہاں بھی رسول کی اطاعت کا حکم دیا اس سے مراد میری ذات ہے لہٰذا میری اطاعت کرو۔
اَعُوذُ بِاللہِ مِنْ جَہْلِ الْجَاھِلِینْ
(میں جاہلوں کی جہالت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں)۔
(تفسیرصراط الجنان جلد دوم پارہ 4، تحت سورۃ ال عمران آیت : 103 صفحہ 21، 22 مکتبۃ المدینہ کراچی)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
"و إن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين و سبعين ملةً و تفترق أمتي على ثلاث و سبعين ملةً، كلهم في النار إلا ملة واحدة،
قالوا : ومن هي يا رسول الله ؟
قال : ما أنا عليه وأصحابي"
یعنی اور بے شک بنی اسرائیل بہتر گروہوں (فرقوں) میں تقسیم ہوگئی تھی اور میری امت تہتر گروہوں میں تقسیم ہو جائے گی، سب کے سب جہنم میں ہوں گے سوائے ایک گروہ کے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی :
اے اللہ پاک کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! وہ نجات پانے والا گروہ کونسا ہوگا ؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
جس طریقے پر میں اور میرے صحابہ ہیں (اس پر چلنے والا گروہ، نجات پانے والا اور جنتی ہوگا)۔
(جامع ترمذی، باب افتراق الأمة، جلد 5، صفحہ 26، دار إحیاء التراث العربي)
اس حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سب کلمہ گو گروہ (فرقے) حق پر نہیں ہیں بلکہ صرف وہی گروہ حق پر ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقہ پر چلنے والا ہو، اور اس نجات پانے والے اور حق، پر چلنے والے فرقے کا مصداق فرقہ ’’اہل سنت و جماعت‘‘ ہے، جس میں حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی سب شامل ہیں اور اس کے علاوہ باقی تمام کلمہ گو فرقے جہمنی ہیں، اگر ان کے عقائد حدِ کفر تک پہنچے ہوئے ہیں تو ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں سڑیں گے اور اگر ان کے عقائد حدِ کفر تک پہنچے ہوئے نہیں ہیں بلکہ گمراہی کی حد تک ہیں تو جہنم میں اپنی گمراہی کی سزا بھگت کر جنت میں داخل ہوں گے۔
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ
ابواسیدعبیدرضامدنی
05/11/2019
03068209672
تصدیق و تصحیح :
الجواب صحيح والمجيب نجيح
فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی