حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عشق رسول
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عشق رسول
حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں روایت ہے کہ جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے حدیبیہ کے موقع پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو قریش کے پاس بھیجا توقریش نے حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو طواف کعبہ کی اجازت دے دی لیکن حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ : مَاکُنْتُ لِاَفْعَلَ حَتّٰی یَطُوْفَ بِہِ رَسُوْلُ اللہِ صَلّٰی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
میں اس وقت تک طواف نہیں کرسکتا جب تک کہ رسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمطواف نہیں کرتے۔
(الشفاء ، الباب الثالث ، ج۲ ، ص۷۰
ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی ضیافت کی اور عرض کیا : یا رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم! میرے غریب خانہ پر اپنے دوستوں سمیت تشریف لائیں اور ماحضر تناول فرمائیں۔
حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے یہ دعوت قبول فرمالی اور وقت پر مع صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر تشریف لے چلے ، حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے پیچھے چلنے لگے اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکا ایک ایک قدم مبارک جو ان کے گھر کی طرف چلتے ہوئے زمین پر پڑرہا تھا گننے لگے ، حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے دریافت فرمایا : اے عثمان! یہ میرے قدم کیوں گن رہے ہو؟ حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا :
یا رسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، میں چاہتا ہوں کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے ایک ایک قدم کے عوض میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی تعظیم و توقیر کی خاطرایک ایک غلام آزاد کروں چنانچہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے گھر تک حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے جس قدر قدم پڑے اسی قدر غلام حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آزاد کئے۔
(جامع المجزات ، ص۲۵۷)