یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلامی کیلنڈر کی بنیاد کب رکھی ؟





1- امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلامی کیلنڈر کی بنیاد کب رکھی ؟
2- آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنفرم تاریخِ شہادت کونسی ہے ؟ 
3- آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ کس نے پڑھایا اور تدفین کہاں ہوئی ؟ 
بینوا بالکتاب و توجروا عبدالحساب
سائل : اکرام الدین پنجاب پاکستان
بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
1- امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلامی کیلنڈر (ہجری تقویم) کی بنیاد سترہ (17) ہجری میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مشورے سے رکھی۔
چنانچہ علامہ حافظ فقیہ ابو زکریا محی الدین بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"ابتداء التاریخ فی الاسلام من ھجرۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من مکۃ الی المدینۃ و ھذا مجمع علیہ و اول من ارخ بالھجرۃ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سنۃ سبع عشرۃ من الھجرۃ"
یعنی اسلام میں تاریخ کی ابتداء، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمانے سے ہوئی ہے، اور اس پر اجماع (اتفاق) کیا گیا ہے، اور سب سے پہلے جس نے سترہ (17) ہجری میں ہجری تاریخ کی بنیاد رکھی وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔
(تھذیب الاسماء و اللغات، فصل بدء التاریخ الھجری، جلد 1 صفحہ 20 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
امام ابو الفرج عبدالرحمن بن جوزی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"و انما ارخ عمر بعد سبع عشرۃ من مھاجرۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"
یعنی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت سے سترہ (17) ہجری (شروع ہونے) کے بعد (ہجری تقویم) کی بنیاد رکھی۔
(المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، جلد 4 صفحہ 227 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
فیضانِ فاروقِ اعظم میں "سیرتِ سید الانبیاء" اور "تاریخِ طبری" کے حوالے سے ہے کہ :
"بعض علماء کرام نے ہجری تقویم کی وضع کی نسبت عہدِ نبوی کی طرف کی ہے اور بعض علماء نے عہدِ فاروقی کی طرف کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو اوّلاً مقام قباء میں قیام فرمایا۔ ابھی قباء میں قیام فرما تھے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نئی تقویم ہجری کی وضع کا حکم دیا چنانچہ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے اُسے ہجرت سے شروع کیا اور اس سنہ کی ابتداء محرم الحرام سے کی کیونکہ حجاج اسی مہینے اپنے گھروں کو واپس لوٹتے ہیں۔واضح رہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہجری تقویم کی وضع کا حکم دیا تھا جبکہ اسی وضع کی ہوئی ہجری تقویم کا باقاعدہ حساب کتاب مسلمانوں نے امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دور سے رکھنا شروع کیا۔ لہٰذا دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں۔"
(فیضانِ فاروقِ اعظم جلد اول صفحہ 723، 724 مکتبۃ المدینہ کراچی)
2- حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی تاریخ شہادت میں اختلاف ہے، جمہور آئمہ کرام رحمۃ اللہ علیھم کے نزدیک جب بدھ دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا گیا تو ذوالحجہ کی چار راتیں باقی تھیں یعنی 26 ذوالحجہ تھی، جبکہ بعض کا مؤقف یہ ہے کہ جب بدھ دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا گیا تو ذوالحجہ کی تین راتیں باقی تھیں یعنی 27 ذوالحجہ تھی۔
اور اس بات میں بعض آئمہ کرام رحمۃ اللہ علیھم، جمہور آئمہ کرام رحمۃ اللہ علیھم کے ساتھ متفق ہیں کہ زخمی ہونے کے بعد تین راتیں حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ زندہ رہے اور چوتھی رات سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہو گئی، تو چونکہ ذوالحجہ کا یہ مہینہ انتیس (29) کا تھا اسلیے جمہور آئمہ کرام رحمۃ اللہ علیھم کے نزدیک یکم محرم الحرام اتوار کو بنتی ہے اور ان کے نزدیک آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت محرم الحرام کی چاند رات میں ہوئی ہے جبکہ بعض آئمہ کرام رحمۃ اللہ علیھم کے نزدیک یکم محرم الحرام ہفتے کے دن بنتی ہے تو ان کے نزدیک آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت یکم محرم الحرام ہفتے کے دن میں ہوئی ہے، بہرحال جمہور آئمہ کرام اور یہ بعض آئمہ کرام رحمۃ اللہ علیھم یکم محرم الحرام میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے قائل ہیں۔
چنانچہ تاریخ الخمیس میں ہے :
"طعن عمر یوم الاربعاء لاربع لیال بقین من ذی الحجۃ سنۃ ثلاث و عشرین من الھجرۃ کذا فی التذنیب و دفن یوم الاحد صبیحۃ ھلال المحرم و قیل ان وفاتہ کانت غرۃ المحرم من سنۃ اربع و عشرین کما مر"
یعنی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدھ کے دن زخمی کیے گئے تو سن 23 ہجری کے ماہِ ذی الحجہ میں سے چار راتیں باقی تھیں اور ایسے ہی "التذنیب" میں ہے اور اتوار والے دن یکم محرم الحرام کو دفن کیے گئے۔ اور کہا گیا ہے کہ بیشک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات سن 24 ہجری یکم محرم الحرام کے چاند رات میں ہوئی ہے، جیسا کہ گزر چکا۔
(تاریخ الخميس جلد 2 صفحہ 250 ناشر دار صادر بیروت)
امام ابوالولید سلیمان بن خلف باجی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"طعن یوم الاربعاء لثلاث بقین من ذی الحجۃ و مات بعد ذلک بثلاث یوم السبت غرۃ المحرم سنۃ اربع و عشرین"
یعنی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدھ کے دن زخمی کیے گئے تو ذی الحجہ میں سے تین راتیں باقی تھیں اور اس واقعہ کے تین راتوں کے بعد ہفتے والے دن یکم محرم الحرام سن 24 ہجری کو آپ رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے۔
(التعدیل و التخریج جلد3 صفحہ 935)
امام حافظ الحدیث ابوحفص عمرو بن علی فلاس رحمۃ اللہ علیہ نے فرماتے ہیں :
"انہ مات یوم السبت غرۃ المحرم سنۃ اربع و عشرین"
یعنی بیشک حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہفتے کے دن یکم محرم الحرام سن 24 ہجری کو فوت ہوئے۔
(شرح التبصرۃ و التذکرۃ جلد 2 صفحہ 303)
عظیم محدث و مفسر امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"و قد قیل ان وفاتہ کانت فی غرۃ المحرم سنۃ اربع و عشرین"
یعنی اور تحقیق کہا گیا ہے کہ بیشک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات سن 24 ہجری یکم محرم الحرام کے چاند رات میں ہوئی ہے۔
(تاریخ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، جلد 4 صفحہ 193 دارالمعارف بمصر)
پھر امام ابو جعفر طبری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یکم محرم کی چاند رات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے قائل حضرات اپنے مؤقف کی تائید میں اسماعیل بن محمد بن سعد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں :
"طعن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ يوم الاربعاء لاربع لیال بقین من ذي الحجہ سنۃ ثلاث و عشرین و دفن يوم الاحد صباح هلال المحرم سنۃ اربع و عشرین"
یعنی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدھ کے دن زخمی ہوئے تو سن 23 ہجری کے ذو الحجہ میں سے چار راتیں باقی تھیں اور آپ رضی اللہ عنہ کو اتوار کے دن سن 24 ہجری کے محرم الحرام کی صبح کو دفن کیا گیا۔
(تاریخ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، جلد 4 صفحہ 193 دارالمعارف بمصر)
نوٹ :
امام طبری رحمۃ اللہ علیہ کی اس تصریح سے ان آئمہ کرام رحمۃ اللہ علیھم کے مؤقف کی بھی وضاحت ہوگئی کہ جنہوں نے یکم محرم الحرام کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تدفین بیان کی ہے کہ ان سب کے نزدیک بھی یکم محرم الحرام میں آپ رضی اللہ عنہ کی ہوئی ہے۔
اب ہم ان آئمہ کرام رحمۃ اللہ علیھم میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :
"طعن عمر يوم الاربعاء لثلاث بقین من ذي الحجۃ ثم بقی ثلاثۃ ايام ثم مات رحمه الله"
یعنی جب بدھ کے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تو ذوالحجہ میں سے تین دن باقی تھے پھر آپ تین روز تک زندہ رہے پھر آپ کا وصال (انتقال) ہوگیا، اللہ پاک کی آپ پر رحمت ہو۔
(کتاب المحن صفحہ 66 دارالغرب الاسلامی)
حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
"طعن عمر يوم الاربعاء لاربع لیال بقين من ذي الحجۃ سنۃ ثلاث و عشرین ودفن يوم الاحد صبيحۃ هلال المحرم"
یعنی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سن 23 ہجری، بدھ کے دن زخمی ہوئے تو ذو الحجہ میں سے چار راتیں باقی تھیں اور آپ رضی اللہ عنہ کو اتوار کے دن یکم محرم الحرام کی صبح کو دفن کیا گیا۔
(تلقیح فھوم اھل الاثر فی عیون التاریخ و السیر لابن الجوزی صفحہ 51 مطبوعہ دہلی)
اسماعیل بن محمد بن سعد رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں :
"طعن عمر يوم الاربعاء لاربع لیال بقین من ذي الحجہ سنۃ 23 و دفن يوم الاحد صباح هلال المحرم سنۃ 24"
یعنی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدھ کے دن زخمی ہوئے تو سن 23 ہجری کے ذو الحجہ میں سے چار راتیں باقی تھیں اور آپ رضی اللہ عنہ کو اتوار کے دن سن 24 ہجری کے محرم الحرام کی صبح کو دفن کیا گیا۔
(المنتخب من ذیل المذیل لابن جریرالطبری صفحہ 11)
ابو بکر بن اسمعیل بن محمد بن سعد اپنے والد سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :
"طعن عمر یوم الاربعاء لاربع لیال بقین من ذی الحجۃ، سنۃ ثلاث و عشرین، ودفن یوم الاحد صباح ھلال المحرم سنۃ اربع و عشرین وکانت خلافتہ عشر سنین و خمسۃ اشھر و احد و عشرین یوما"
یعنی (جب) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بدھ کے دن زخمی کیا گیا تو 23 سن ہجری کے ذی الحجہ میں سے چار راتیں باقی تھیں اور ان کو 24 سن ہجری کے یکم محرم الحرام کی صبح کو دفن کیا گیا اور ان کی خلافت دس (10) سال، پانچ (5) ماہ اور اکیس (21) دن تھی. 
(اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابہ جلد 3 صفحہ 676 دارالفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع)
ابو بکر بن اسمعیل بن محمد بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں :
"طعن عمر یوم الاربعاء لاربع لیال بقین من ذی الحجۃ، سنۃ ثلاث و عشرین، ودفن یوم الاحد صباح ھلال المحرم سنۃ اربع و عشرین فکانت ولایتہ عشر سنین و خمسۃ اشھر و احدی و عشرین"
یعنی (جب) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بدھ کے دن زخمی کیا گیا تو 23 سن ہجری کے ذی الحجہ میں سے چار راتیں باقی تھیں اور ان کو 24 سن ہجری کے یکم محرم الحرام کی صبح کو دفن کیا گیا، پس ان کی ولایت (خلافت) دس (10) سال، پانچ (5) ماہ اور اکیس (21) دن تھی.
(تہذیب الاسماء و اللغات، جلد اول، صفحہ 278، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)
تاریخ خلیفہ بن خیاط میں ہے :
"طعن لثلاث بقين من ذي الحجۃ فعاش ثلاثۃ ايام"
یعنی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تو ذوالحجہ میں سے تین دن باقی تھے پس آپ رضی اللہ عنہ تین دن زندہ رہے۔
(تاریخ خلیفہ بن خیاط، مقتل عمر و عمرہ، و مدۃ خلافتہ، صفحہ 152، دار الطیبۃ للنشر و التوزیع الریاض)
امام ابو الفرج عبدالرحمن بن جوزی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"جرحہ ابو لؤلؤۃ۔ واسمہ فیروز :- فبقی ثلاثا یصلی گی ثیابہ التی جرح فیھا و توفی فصلی علیہ صہیب"
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ابو لؤلؤه نے زخمی کیا جس کا نام فیروز تھا، پس آپ رضی اللہ عنہ تین دن زندہ رہے، جن کپڑوں میں آپ رضی اللہ عنہ زخمی کیے گئے، انہیں میں آپ رضی اللہ عنہ نماز ادا کرتے رہے، اور آپ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔
(المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، جلد 4، صفحہ 329، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)
امام بن جوزی رحمۃ اللہ علیہ اپنی ایک اور کتاب میں تحریر فرماتے ہیں :
"محمد بن سعد سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو 26 ذی الحجہ 23 ہجری بروز بدھ کو زخمی کیا گیا۔
24 ھ بروز ہفتہ کے دن یکم محرم الحرام کی چاند رات کو سپردِ خاک کیا گیا۔"
(مناقب امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب مترجم، صفحہ 366، شاکر پبلیکیشنز لاہور)
امام جلال الدین عبدالرحمن سيوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"اصيب عمر يوم الاربعاء ودفن يوم الاحد مستهل المحرم الحرام"
یعنی حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بدھ کے دن زخمی کیا گیا اور یکم محرم الحرام کو اتوار والے دن آپ رضی اللہ عنہ کو دفن کیا گیا۔
(تاریخ الخلفاء، صفحہ 110، دار ابن حرم)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"آپ 26 چھبیس ذی الحجہ بدھ کے دن ۲۳ھ؁ زخمی کیے گئے اور یکم محرم اتوار کے دن دفن کیے گئے، تریسٹھ (63) سال عمر پائی۔"
(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد 8، صفحہ 303، قادری پبلشرز اردو بازار لاہور)
علامہ غلام رسول سعیدی صاحب تحریر فرماتے ہیں :
"محمد بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھبیس (26) ذوالحجہ سن 23 ھ بدھ کے دن زخمی کیا گیا اور اتوار کے دن یکم محرم الحرام سن 24 ھ کو آپ وصال ہو گیا، اسی دن آپ کو دفن کیا گیا، دس سال، پانچ ماہ اور اکیس (21) دن آپ کی خلافت رہی، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں آپ کو دفن کیا۔"
(شرح صحیح مسلم، جلد 6، صفحہ 922، فرید بک سٹال لاہور)
شیخِ طریقت امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا ابوبلال میں الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتھم العالیہ تحریر فرماتے ہیں :
"نَمازِ فَجْر میں ایک بدبخت ابو لؤلؤ فیروز نامی (مجوسی یعنی آگ پوجنے والے) کافِر نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پر خنجر سے وار کیا اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ زَخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے تیسرے دن شرفِ شہادَت سے مُشرَّف ہوگئے۔ بوقتِ شہادت عُمْر شریف 63  برس تھی۔ حضرتِ سیِّدُنا صُُہَیْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے نَمازِ جنازہ پڑھائی اور گوہرِ نایاب، فیضانِ نُبُوَّت سے فَیضیاب خلیفۂ رسالت مآب حضرتِ سیِّدُنا عمر بن خطّاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روضۂ مُبارَکہ کے اندر یکم مُحَرَّمُ الْحرام 24 ہجری اتوار کے دن حضرتِ سیِّدُنا  صِدِّیقِ اَکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پہلوئے اَنور میں مَدفون ہوئے جو کہ سرکارِ انام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلوئے پاک میں آرام فرما ہیں۔"
(کراماتِ فاروقِ اعظم، صفحہ 6، مکتبۃ المدینہ کراچی)
نوٹ 1:
جن بعض آئمہ کرام نے حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تاریخ شہادت 26 یا 27 ذوالحجہ لکھی ہے، اس میں شہادت سے مراد سببِ شہادت (یعنی زخمی ہونا) ہے. 
چنانچہ فتح المغیث بشرح الفیۃ الحدیث میں ہے :
"و اما قول المزی و تبعہ الذھبی -: انہ قتل لاربع او ثلاث بقین من ذی الحجۃ فارادا بذلک حین طعن ابی لؤلؤۃ لہ فانہ کان عند صلوۃ الصبح من یوم الاربعاء، لاربع۔ و قیل : لثلاث بقین منہ، و عاش بعد ذلک ثلاثۃ ایام"
یعنی اور بہرحال امام مزی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا اور امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا ان کی (اس بات میں) اتباع کرنا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب شہید کیے گئے تو ذوالحجہ میں سے چار یا تین راتیں باقی تھیں، پس ان دونوں حضرات نے اس (شہادت) سے ابولؤلؤہ کا آپ رضی اللہ عنہ کو زخمی کرنا مراد لیا ہے، پس بیشک بدھ والے دن صبح کی نماز کے وقت جب  آپ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تو ذو الحجہ میں سے چار راتیں باقی تھیں اور بعض نے کہا ہے کہ تین راتیں باقی تھیں، اور اس واقعہ کے بعد آپ رضی اللہ عنہ تین دن زندہ رہے۔
(فتح المغیث بشرح الفیۃ الحدیث، جلد 4، صفحہ 321، مکتبۃ دار المنھاج للنشر و التوزیع الریاض)
اسی طرح امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی کتاب کے اسی مقام پر ابن ابی الدنیا کی روایت کردہ سھل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث کی بھی اسی طرح تاویل فرمائی ہے کہ 26 ذوالحجہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات سے مراد آپ رضی اللہ عنہ کا زخمی ہونا مراد ہے۔
اور ان حضرات کے قول کی امام زین الدین ابو الفضل عبدالرحیم بن حسین عراقی رحمۃ اللہ علیہ نے "شرح التبصرۃ و التذکرۃ جلد 2 صفحہ 303" پر بالکل یہی تاویل بیان فرمائی ہے۔
اور اگر 26 یا 27 ذوالحجہ میں شہادت والے قول سے شہادت ہی مراد لیا جائے اور سببِ شہادت (یعنی زخمی ہونا) مراد نہ لیا جائے (جبکہ جہمور آئمہ کرام رحمۃ اللہ علیھم کے نزدیک یکم محرم الحرام میں آپ رضی اللہ عنہ کی تدفین ہوئی) تو یہ بات عقلِ سلیم کے خلاف ہوگی کہ بھلا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم شرعی عذر کے بغیر تدفین میں چار یا پانچ دن کی تاخیر کیوں کریں گے ؟
نوٹ 2:
اسی طرح یہ قول کہ آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ذوالحجہ کے آخر میں ہوئی، یہ قول بھی اکابر آئمہ کرام رحمۃ اللہ علیھم اور مؤرخین کی ایک جماعت کا ہے لیکن اس کے مقابلے میں یکم محرم الحرام کو شہادت والا قول ہمارے نزدیک راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس قول پر یہ اشکال (اعتراض) وارد ہوتا ہے کہ اگر ذوالحجہ کی آخری تاریخ میں شہادت واقع ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تدفین کو یکم محرم الحرام تک مؤخر نہ فرماتے کیونکہ شرعی طور پر جلدی دفن کرنے کا حکم ہے اور یہاں تاخیر کا کوئی عذر نہیں تھا، پس اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت سن 24 ہجری کے محرم الحرام کی چاند رات میں ہوئی اور آپ رضی اللہ عنہ کی تدفین بروز اتوار یکم محرم الحرام کی صبح میں ہوئی۔
3- امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا نمازِ جنازہ آپ کی وصیت کے مطابق حضرت سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ نے چار تکبیروں کے ساتھ پڑھایا اور آپ رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں اس طرح دفن کیا گیا کہ آپ کا سرِ مبارک امیرالمؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کندھے کے برابر اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک کوکھ (ازار باندھنے کی جگہ) کے برابر تھا اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سرِ مبارک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھے کے برابر تھا۔
چنانچہ چنانچہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنھما میں سے ہر ایک نے فرمایا :
"قم یا ابا یحیٰ فصل علیہ، فصلی علیہ صہیب"
اے ابو یحییٰ اٹھیے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر جنازہ پڑھیے، پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھی (پڑھائی)۔
(تہذیب الاسماء و اللغات، جلد اول، صفحہ 280، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)
حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے پوچھا :
"من صلی علی عمر ؟ "
حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر نمازِ جنازہ کس نے پڑھائی ؟ 
تو فرمایا :
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے۔
(پھر) پوچھا :
"کم کبر علیہ؟ "
انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر کتنی تکبیریں کہیں؟ 
تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
"اربعا" 
یعنی انہوں نے چار تکبیریں کہیں۔
(تہذیب الاسماء و اللغات، جلد اول، صفحہ 280، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)
اسدالغابہ میں ہے :
"ولما قضی عمر رضی اللہ عنہ، صلی علیہ صھیب، وکبر علیہ اربعا"
یعنی اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وصال فرمایا تو حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے آپ پر جنازہ پڑھایا اور آپ پر چار تکبیریں کہیں۔
(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، جلد 3، صفحہ 676، دارالفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع)
تاریخ الخلفاء میں ہے :
"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جنازے کی نماز حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی۔"
(تاریخ الخلفاء مترجم، صفحہ 310، پروگریسو بکس)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"حضرت صہیب نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ گنبدِ خضریٰ میں پہلوئے مصطفیٰ میں دفن ہوئے۔"
(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد 1، صفحہ 40، قادری پبلشرز اردو بازار لاہور)
فیضانِ فاروق اعظم میں ہے :
"امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی نمازِ جنازہ حضرت سیِّدُنا صہیب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے پڑھائی، آپ قدیم الاسلام اور مہاجرین اَوّلین صحابہ میں   سے تھے، تمام غزوات میں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپ کے نماز جنازہ پڑھانے کی وجہ یہ تھی کہ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے انتقال سے قبل نیا خلیفہ منتخب ہونے تک آپ ہی کو نمازیں پڑھانے کی وصیت فرمائی تھی یہی وجہ ہے کہ جب سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے جسد مبارک کو غسل وکفن دینے کے بعد نماز جنازہ کے لیے چارپائی پر رکھا گیا تو حضرت سیِّدُنا عثمان غنی و سیِّدُنا مولا علی شیر خدا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس سعادت کو حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھے لیکن حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے دونوں کو منع فرما دیا کیونکہ ابھی نئے خلیفہ کا انتخاب نہ ہوا تھا، اگر ان دونوں میں سے کوئی نماز جنازہ پڑھاتا تو ہوسکتا تھا کہ لوگ اسی کو خلیفہ سمجھتے اسی لیے سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی وصیت کے مطابق سیِّدُنا صہیب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو نماز جنازہ پڑھانے کا حکم دیا۔"
(فیضانِ فاروق اعظم، جلد اول، صفحہ 775، 776، مکتبۃ المدینہ کراچی)
خالد بن ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
"دفن عمر فی بیت النبی، وجعل راس ابی بکر عند کتفی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، وجعل راس عمر عند حقوی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان میں دفن کیے گئے، اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مبارک سر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھے کے برابر رکھا گیا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مبارک سر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک کوکھ (ازار باندھنے کی جگہ) کے برابر رکھا گیا۔
(تہذیب الاسماء و اللغات، جلد اول، صفحہ 281، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
کتبہ
ابواسیدعبیدرضامدنی رئیس مرکزی دارالافتاء اہلسنّت عیسیٰ خیل ضلع میانوالی
29/08/2020
03068209672
تصدیق و تصحیح :
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
آج آپ کا فتویٰ دربارہ امیرالمؤمنین فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ :
انہوں نے اسلامی کیلنڈر کی بنیاد کب رکھی؟ 
ان کی کنفرم تاریخِ شہادت کیا ہے ؟ 
اور ان کا جنازہ کس نے پڑھایا ؟  آپ کا فتویٰ دیکھ کر دل باغ بہار ہوگیا، آپ نے تحقیق کا حق ادا کیا، بندہ ناچیز اس کی تائید و تصویب کرتا ہے، اللہ پاک آپ کی عمر میں، علم میں، فیضان میں برکتیں عطاء فرمائے۔
ابوالحسنین مفتی محمد عارف محمود معطر القادری مرکزی دارالافتاء اہلسنت محلہ نور پورہ میانوالی سٹی