یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

اذان سےپہلےاور اذان کےبعد دعا.و.صلواۃ و سلام پڑھنے کی تحقیق اور بدعت کی تحقیق............!!




اذان سےپہلےاور اذان کےبعد دعا.و.صلواۃ و سلام پڑھنے کی تحقیق اور بدعت کی تحقیق............!!
.
سوال:
علامہ صاحب ایک شخص کہتا ہے کہ اذان کے بعد جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ ثابت نہیں اسے ہرگز نہیں پڑھنا چاہیے...اس دعا میں ہے کہ اے اللہ نبی پاک ﷺ کو مقام محمود عطا فرما،  مقام محمود تو نبی پاکﷺکو عطا کر دیا گیا ہے، وعدہ کر دیا گیا ہے تو ہماری دعا کا فائدہ....؟؟ اس سے اندازہ ہوتا ہے یہ دعا من گھڑت ہے...نیز یہ بھی بتائیں کہ اذان سے قبل درود و سلام کیوں بدعت نہیں......؟؟
.
الجواب:
#اذانکےبعد_دعا من گھڑت نہیں،احادیث مبارکہ سے ثابت ہے دعا چونکہ فضیلت کی بات ہے اس میں اگر ضعیف احادیث بھی آجائیں تو بھی مقبول...اذان کے بعد دعا کے مختلف الفاظ آئے ہیں تو اکثر الفاظ کو جمع کرکے یہ دعا مشھور ہوگئ
اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، والدرجة الرفیعة،وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ وارزقنا شفاعتہ یوم القیامۃ إنَّكَ لا تُخلِفُ الميعادَ
.
پہلا حصہ بخاری مسلم وغیرہ سے ثابت ہے
اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ
(بخاری حدیث614)
.
والدرجة الرفیعة کی اصل یہ ہے
وَاجْعَلْ فِي الْأَعْلَيْنَ دَرَجَتَهُ
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد1/333,)
.
وارزقنا شفاعتہ یوم القیامۃ کی اصل یہ ہے
وَاجْعَلْنَا فِي شَفَاعَتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ 
(المعجم الكبير للطبراني ,12/85،حدیث12554)
.
إنَّكَ لا تُخلِفُ الميعادَ یہاں سے لیا گیا
إنَّكَ لا تُخلِفُ الميعادَ.
(السنن الكبرى للبيهقي ت التركي ,3/155حدیث1954)
.
معترض نے جو کہا کہ مقام محمود تو نبی پاکﷺ کو ملا ہوا ہے تو اسکی دعا کا کیا فائدہ....لیھذا دعا من گھڑت ہے، یہ اٹکل بچو ناقص عقل سے نتیجے نکالنا گمراہی کا راستہ ہے....خدارا ایسے انداز سے بچییے، سوال کرنے ، پوچھنے کی عادت ڈالیے
.
علماء نے لکھا ہے کہ جب مقام محمود نبی پاکﷺکو حاصل ہے تو اس کی دعا میں حکمت یہ ہے کہ نبی پاکﷺکی شان و منزلت کا تذکرہ و اظہار ہے اور ہمارے لیے باعثِ اجر ہے
.
وَالْحِكْمَةُ فِي سُؤَالِ ذَلِكَ مَعَ كَوْنِهِ وَاجِبَ الْوُقُوعِ بِوَعْدِ اللَّهِ، وَعَسَى فِي الْآيَةِ لِلتَّحْقِيقِ إِظْهَارًا لِشَرَفِهِ وَعِظَمِ مَنْزِلَتِهِ وَتَلَذُّذًا بِحُصُولِ مَرْتَبَتِهِ وَرَجَاءً لِشَفَاعَتِهِ.
ترجمہ:
عسی تحقیق کےلیے ہیں یعنی مقام محمود اللہ کے وعدے کے مطابق واجب الوقوع ہے تو مقام محممود کی دعا کرنے میں حکمت یہ ہے کہ اس سے نبی پاکﷺکے شرف و عظیم منزلت کا اظہار ہے اور مرتبے کے حصول سے تلذذ بھی ہے اور آپﷺ
کی شفاعت کی امید بھی
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,2/561)

.
الحكمة في سؤال ذلك إظهار شرفه، وعظم منزلته، والعبادة بالدعاء، ونيل الأجر عليه
ترجمہ:
مقام محمود کی دعا کرنے میں حکمت یہ ہے کہ اس سے نبی پاکﷺکے شرف و عظیم منزلت کا اظہار ہے اور دعا خود ایک عبادت ہے دعا کرکے ہمارے لیے اجر کمانا بھی مقصود ہے
(فتح المنعم شرح صحيح مسلم ,2/459)

.=========================
#اذانسےقبل دعاء اور درود و سلام کی اصل یہ روایت ہے
قَالَتْ: كَانَ بَيْتِي مِنْ أَطْوَلِ بَيْتٍ حَوْلَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ عَلَيْهِ الْفَجْرَ فَيَأْتِي بِسَحَرٍ فَيَجْلِسُ عَلَى الْبَيْتِ يَنْظُرُ إِلَى الْفَجْرِ، فَإِذَا رَآهُ تَمَطَّى، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَحْمَدُكَ وَأَسْتَعِينُكَ عَلَى قُرَيْشٍ أَنْ يُقِيمُوا دِينَكَ» قَالَتْ: ثُمَّ يُؤَذِّنُ، قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُهُ كَانَ تَرَكَهَا لَيْلَةً وَاحِدَةً تَعْنِي هَذِهِ الْكَلِمَاتِ
یعنی
راویہ کہتی ہیں کہ میرا گھر سب سے بلند تھا سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے گھر کی چھت پے فجر کی اذان سے قبل ہمیشہ یہ دعا پڑھتے تھےاللَّهُمَّ إِنِّي أَحْمَدُكَ وَأَسْتَعِينُكَ عَلَى قُرَيْشٍ أَنْ يُقِيمُوا دِينَكَ پھر اذان دیتے تھے
(سنن أبي داود ,1/143روایت519)
.
اذان سے قبل سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ دعا پڑھنا بہت کم آواز میں نہ تھا بلکہ کچھ نا کچھ آواز سے تھا کہ گھر میں موجود راویہ یہ دعا سنتی تھیں...سیدنا بلال کا آواز سے دعا پڑھنا اذان میں اضافہ و بدعت قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس دعا کو اذان کا حصہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کہ نبی پاکﷺسے منقول نہیں او بقیہ اذانون سے قبل پڑھنا منقول نہیں....لیھذا کہا جائے گا کہ اذان سے قبل اذان کی طرز کے بغیر اس طرح دعا و درود و سلام پڑھنا جائز و ثواب ہے کہ یوں نہ لگے کہ یہ اذان کا حصہ ہے
.
ہمارے زمانے یعنی لاؤڈ اسپیکر کے زمانے میں دعا و صلاۃ و سلام اذان کا حصہ نہ لگے اس کے لیے ایک طریقہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ اذان اور دعا و درود و سلام میں تھوڑا وقفہ لازمی کیا جائے....ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ موذن دعا صلواۃ و سلام پڑھے پھر اعلان کرے کہ اب اذان ہوگی توجہ سے سنیے اور اذان کا جواب دیجیے ثواب کماءیے
دعا صلواۃ و سلام اذان سے قبل یا بعد الگ طرز سے پڑھے جاتے ہیں جو کہ دلیل ہے کہ اذان کا حصہ نہیں لیکن پھر بھی احتیاط بہتر ہے کہ اذان اور دعا و درود و سلام میں وقفہ کرے یا اعلان کرے…
.
سوال:
اذان سے پہلے اور بعد میں دعا تو صحابی سے ثابت کردی آپ نے ، ہم نے مان لیا لیھذا بدعت نہیں مگر اذان سے قبل صلواۃ و سلام کسی صحابی تابعی سے ثابت نہیں لیھذا بدعت ہوئی
.
جواب:
میلاد فاتحہ چہلم عرس دعا بعد جنازہ ، اذان سے قبل صلواۃ و سلام وغیرہ وہ کام جو اہلسنت کرتے ہیں یہ سب مروجہ صورت میں جائز و ثواب ہیں مگر انکی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے، یہ کام مروجہ صورت کے ساتھ سنت نہیں بلکہ جائز و ثواب ہیں... سنت کے علاوہ جائز و ثواب بھی اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہیں.. یہ تمام امور شرائط و حدود کے ساتھ بدعت و گناہ نہیں..
.
فرقہ واریت یا اختلاف کی ایک بڑی وجہ وہ سوچ ہے جو معاشرے میں پھیلا دی گئ ہے اور مسلسل پھیلائی جا رہی ہے کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اور جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے... جو کام سنت نہیں وہ بدعت ہے کہہ دیا جاتا ہے..پھر اسے دلیل بنا کر کہہ دیا جاتا ہے کہ اذان سے پہلے درود و سلام، دعا بعد نماز جنازہ، میلاد فاتحہ وغیرہ وغیرہ سب بدعت ہیں..پھر یہ بدعت وہ بدعت ایک لمبی لسٹ شروع کردی جاتی ہے...جو امت میں تفرقہ کا کلیدی کردار ادا کرتی ہے.. لیھذا ان مسائل میں اتفاق کیا جائے تو کافی حد تک اختلاف ختم کیا جاسکتا ہے
.
حدیث پاک میں ہے کہ:
وما سكت عنه فهو مما عفا عنه
ترجمہ:
جس چیز کے متعلق(قرآن و احادیث میں)خاموشی ہو(مطلب دوٹوک حلال یا دوٹوک حرام نہ کہا گیا ہو تو)وہ معاف ہے، جائز ہے... (ابن ماجہ حدیث3368)
یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ بہت کتابوں میں ہے
.
حدیث پاک میں ہے:
من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء
ترجمہ:
جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد
جو جو  اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اس نئے طریقے کو جاری کرنے والے کو ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی
(مسلم حدیث نمبر1017)
یہ حدیث پاک ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے
.
ان دونوں احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ:
①جو کام سنت نہ ہو اور دوٹوک ممانعت بھی نہ ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا...لیھذا یہ کہنا کہ فلان کام سنت نہیں اس لیے بدعت ہے، یہ کہنا غلط ہے کیونکہ حدیث پاک کی روشنی سے واضح ہے کہ جو سنت نہ ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا... ہاں اگر سنت نہ ہو اور جائز بھی نہ ہو بلکہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہو تب بدعت و گناہ کہلائے گا
.
②اگر کوئی آپ سے کہے کہ فلاں کام سنت نہیں بدعت ہے تو آپ فورا جواب دیں کہ ٹھیک ہے سنت نہیں تو کیا جائز بھی نہیں...؟؟
.
③بے شک سنت کی عظمت ہے مگر قرآن و حدیث نے ہمیں سکھایا ہے کہ سنت کے علاوہ جائز بھی کوئی چیز ہے... لیھذا سنت سنت کی رٹ لگانے کے ساتھ ساتھ جائز جائز کی رٹ لگانا بھی ضروری ہے
.
④ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ عبادت وہ نیک کام جسکا کوئی ایک طریقہ مقرر نہ ہو تو اس کے نئے طریقے بدعت نہیں بلکہ اس کے نئے پرانے سب طریقے جائز و ثواب ہیں... ہاں جس کام جس عبادت کے طریقے اسلام نے متعین و مخصوص کر دیے ان میں نیا طریقہ نکالنا ٹھیک نہیں... جیسے نماز روزے کے نئے طریقے نکالنا ٹھیک نہیں مگر صدقہ خیرات ذکر اذکار درود میلاد فاتحہ ایصال ثواب وغیرہ کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں بشرطیکہ اسلام کے کسی اصول کے خلاف نہ ہوں..
.=====================
جب نئےطریقےبدعت نہیں تو #پھرآخربدعتہےکیا...؟؟
.
جواب اور #چیلنج:
دراصل بدعت کی تعریف واضح الفاظ میں کسی آیت ، کسی حدیث میں نہیں آئی، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا یا اولین ادوار میں نہ تھا وہ بدعت ہے ہم انہیں چیلنج کرتے ہیں کہ کسی آیت یا حدیث میں یہ دکھا دیں کہ بدعت وہ ہے جو کام صحابہ نے نہ کیا ہو... چیلنج چیلنج... چیلنج...
کچھ لوگ کہتے ہیں جو سنت نہیں وہ بدعت ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر احادیث کی زبانی بتایا جا چکا ہے کہ جو کام سنت نہ ہو وہ جائز بھی کہلا سکتا ہے، سنت کے بعد جائز بھی ایک قیمتی چیز ہے، جائز بھی دین کی تعلیمات میں سے ہے..
.
پھر آخر بدعت ہے کیا.....؟؟
ایات احادیث و آثار میں غور کرکے بدعت کی تعریف اخذ کی گئ ہے جسے علماء کرام نے جامع انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ:
المراد بھا ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع،،ویسمی فی عرف الشرع بدعۃ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعۃ
فالبدعۃ فی عرف الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ
ترجمہ:
بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو،،شریعت میں اسی کو بدعت کہا جاتا ہے
اور
جس نئے کام کی اصل ہو کہ اس پر شریعت رہنمائی کرے وہ تو بدعت نہیں، بدعت شریعت میں مذموم ہی ہوتی ہے"با خلاف لغت کے"
(فتح الباری 13/253
 حاشیہ اصول الایمان ص126
اصول الرشاد ص64
مرعاۃ،عمدۃ القاری، مجمع بحار الانوار
فتح المبین،وغیرہ بہت کتابوں میں بھی یہی تعریف ہے
جن تین کتابوں کا مکمل حوالہ لکھا ہے وہ اس لیے کہ پہلی کتاب تمام کے ہاں معتبر ہے خاص کر اہل حدیث کے لیے
اور دوسری کتاب وہابیوں کی ہے سعودی عرب کی حکومت نے چھاپی ہے اور تیسری کتاب سیدی امام احمد رضا کے والد صاحب کی کتاب ہے)
.
صحابہ کرام کا فتویٰ:
یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے
(بخاری جلد2 صفحہ707)
یہ فتوی دیگر بہت کتابوں میں بھی ہے
سنی وہابی نجدی شیعہ اہل ھدیث وغیرہ تمام کی کتابوں میں "موضوع حدیث" لفظ بولا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں کوئ "حدیث" موضوع نہیں ہوتی ..اسکو فقط ظاہر کے لحاظ سے اور لغت و معنی مجاز کے لحاظ سے "حدیث" کہا جاتا ہے
اسی طرح "اچھی بدعت" حقیقت میں بدعت نہیں اسے فقط ظاہر کے لحاظ سے لغت و مجاز کے لحاظ سے بدعت کہا جاتا ہے... اوپر صحابہ کرام کے فتوے میں جو اچھی بدعت فرمایا گیا وہ بھی حقیقت میں بدعت نہیں...اسے ظاہر و لغت کے لحاظ سے بدعت فرمایا گیا ہے... بدعت کی جو پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں وہ بھی دراصل ظاہر و لغت کے لحاظ سے ہیں ورنہ بدعت حسنہ حقیقتا بدعت ہی نہیں، بدعت کی تعریف میں"بخلاف لغت کے" الفاظوں میں اسی چیز کو بیان کیاگیا ہے
.======================
خلاصہ یہ ہے کہ
①سنت کے علاوہ جائز بھی اسلام کا ایک اہم ستون ہے... جائز کو بھلانا گمراہی اختلاف و انتشار تفرقہ کا باعث ہے
②ہر نئ چیز بدعت نہیں ہوتی...جو سنت نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ جائز کہلائے گی بشرطیکہ کہ اسلامی اصول کے خلاف نہ ہو...بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی اصل اسلام میں موجود نہ ہو
③میلاد ، فاتحہ ، اذان سے پہلے درود، دعا بعد نماز جنازہ ، سوئم چہلم عرس وغیرہ جو کام اہلسنت کرتے ہیں وہ بدعت نہیں کیونکہ انکی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے... ہمارے بات پے ذرا غور کیجیے کہ مذکورہ کام جس طریقے سے آج کیے جاتے ہیں بالکل اسی طریقے سے پہلے نہیں کیے جاتے تھے مگر ان امور کی اصل قرآن وسنت میں موجود ہے لیھذا یہ موجودہ مروجہ طریقوں کے ساتھ مذکوہ کام سنت نہیں بلکہ جائز و ثواب ہیں کیونکہ انکی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے..
.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whatsApp nmbr
00923468392475
03468392475