دعوت و تبلیغ کا نبوی منہج اور ہماری کوتاہیاں۔
دعوت و تبلیغ کا نبوی منہج اور ہماری کوتاہیاں۔
جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ہم داعی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں تو ہمیں آپ کے دعوتی اسلوب میں تخفیف، نرمی اور خیر خواہی ایسے امور نمایاں نظر آتے ہیں یعنی آپ کی دعوت "الاھم فالاھم" کے اصول پر استوار تھی بلکہ آپ حسب موقع و حال اھم امور میں بھی کمی فرما دیا کرتے تھے جیسے اول مرتبہ میں آنے والوں کو صرف ارکان اسلام کی تعلیم فرماتے تھے مستحبات و آداب کے درپے ہرگز نہ ہوتے یہی وجہ ہے کہ نو واردینِ اسلام دین کو بوجھ محسوس نہیں کرتے تھے پھر جب وہ نفوس اصولی طور پر پختہ حال ہو جاتے تب کہیں انہیں آدابِ دین کے ساتھ ساتھ آدابِ معاشرت کے اسباق پڑھائے جاتے تھے جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں روز اول کی تبلیغ کے ثمرات یوں چاہیے ہوتے ہیں کہ ہمارا مخاطَب آدھے گھنٹے کی کوشش میں امام غزالی بن جائے اور حال یہ ہوتا ہے کہ داعی خود امام غزالی کی خاکِ پا بھی نہیں ہوتا اور ظاہر ہے غزالی بنے بغیر غزالی ساز بننے کو کیکر کے درخت سے آموں کی امید لگانے کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے ومن دونہ خرط القتاد
اس لیے اگر بہترین نتائج اور دینی و اخروی کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں بھی چاہیے کہ دعوت کے لیے نبوی منہج کو اختیار کریں اور نوآموز کو ایک دن میں نماز،روزہ حج، زکوٰۃ، داڑھی، سنن و نوافل وغیرہ کی سختی سے تلقین کرنے کے بجائے یہ دیکھیں کہ اس کے حسبِ حال کیا مناسب ہے یا اس پر زیادہ لازم کیا ہے اس کے حساب سے اولاً فرائض مثلاً نماز کی تلقین کریں، پھر حسبِ موقع اسے دینی تعلیم دیں کوشش یہ ہو کہ دینی لیٹریچر پڑھ کر وہ بندہ خود اپنے اعمال میں اضافہ کرے یہ سب سے مؤثر طریقہ ہے وگرنہ پھر اسے بتدریج دین سکھائیں تاکہ اس کے لیے عمل کرنا آسان ہو یہی (الاھم فالاھم) انسانوں کی اصلاح کا خدائی منہج بھی ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے احکام بھی دفعۃً نہیں اتارے کہ کہیں لوگ اکتا نہ جائیں بلکہ سب سے پہلے توحید و رسالت کے حوالے سے ذہن سازی کی گئی بلکہ اس سے بھی پہلے اپنے نمائندہ خاص کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کے کردار کا چالیس سالہ مشاہدہ کروایا گیا پھر معجزات کے ذریعے اتمامِ حجت کیا گیا بعدہ فرائض لازم کیے پھر مسلسل تربیت کے بعد کہیں جا کر مستحبات کا استحبابی حکم دیا گیا کیونکہ دینی احکام کا مدار تکلیف و تزکیہ پر ہے نفسِ انسانی ہمیشہ ان سے متنفر رہتا ہے ایسے میں ان کو قابلِ عمل بنانے کا یہی معقول طریقہ ہے کہ وہ احکام بتدریج و برموقع و حسبِ حال لاگو کیے جائیں۔
جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم خدائی فوجدار بن کر سرعت نتائج کے ساتھ ساتھ آداب و مستحبات کا اس قدر وسیع پیمانے پر جال بچھا دیتے ہیں کہ دیکھنے والا دور سے دیکھ کر چلا جاتا ہے اور یوں ہم بفحوائے "وھم یحسبون انھم یحسنون صنعا" اپنے تئیں دین کا کام کررہے ہوتے ہیں جبکہ درحقیقت نقصان کر رہے ہوتے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
ابوالحسنات السندی الحنفی