یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

آزادی نحوالہ تاریخِ اسلام




"آزادی بحوالہ تاریخِ اسلام"

  

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

 

آزادی،جس کو انسانی سماج کی بنیادی اور اہم ترین اقدار میں شمار کیا جاتا ہے،جس کے نام ہی میں ایک فطری کشش پائی جاتی ہے، تمام مکاتب فکر اور فلسفہ نے اسے سراہا ہے۔آزادی کا تصور  بدیہی ہوتے ہوئے بھی متنازع اور مختلف فیہ رہا ہے۔ مختلف معاشروں میں اس کی مختلف تشریحات کی گئی ہیں۔ اس تصور کے مبہم اور غیر واضح رہنے کی وجہ سے افراد اور اقوام کے رویے میں بھی افراط اور تفریط کی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔دین اسلام جو کہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور جس نے ہر مقام پر انسانیت کی راہنمائی کی ہے اور بشریت کو درپیش مسائل کا خوب صورت حل پیش کیا ہے‘ آزادی کے حوالے سے بھی ایک خاص نقطۂ نظر رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو بلا کسی تشدد اور ظلم وزیادتی کے اپنے حقوق کی حصول یابی اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے تصرف کی جوقدرت عطا کی ہے،اس کو حریت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نیز

       اسلام میں آزادی کو کتنا بلند مقام حاصل ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی عقیدے کو اختیار کرنے کے معاملے میں بھی اسلام نے انسان کو مجبور نہیں کیا ہے جیساکہ نصِ قرآنی ہے: اِنّا ھَدَینَاہُ السَّبِیلَ اِمّا شَاکِراً وَ اِمَّا کَفُوراً (سورہ الدھر:3) ترجمہ کنز الایمان: بیشک ہم نے اسے راہ بتائی یا حق مانتا یا ناشکری کرتا۔

یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایمان،عقیدہ اور توحید سے متعلق معاملات میں،جو کہ سب سے زیادہ اہم معاملات ہیں،انسان کو اختیار اور آزادی عطا کی ہے۔

 اسلام کے عطا کردہ حقِّ حریت کا اطلاق ہر قسم کی آزادی پر ہوتا ہے اوریہ بہت سارے انسانی حقوق کی بنیاد ہے، مثلاً ایمان و عقیدے کی آزادی،مذہب کی آزادی،غور وفکر کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی،کام کی آزادی،رہائش کی آزادی، ملکیت کی آزادی، فائدہ اٹھانے کی آزادی،سیاسی آزادی، شہریت کی آزادی، حتی کہ انسان کی انسانیت بھی اس کی آزادی کی مرہون منت ہے۔

جبکہ مغرب میں آزادی کا مفہوم ہر قید وبند سے آزاد ی اور ہر ضابطہ سے چھٹکارا اورہر طرح کی نگرانی سے (خواہ اس کا سرچشمہ خود انسان کی ذات ہو) نجات پانے کا نام مغرب میں آزادی ہے۔چنانچہ اہل مغرب کے نزدیک آزادی کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو چاہیں کریں،جو چاہیں کھا ئیں، جو چاہیں پہنیں اور جیسا چاہیں عقیدہ رکھیں۔ کسی انسانی سماج میں اس قسم کی بے مہار آزادی کیا گل کھلائے گی، اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ اس آزادی کا بھیانک نتیجہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ آج جو ملک اور قوم جتنی زیادہ اس آزادی کی پروردہ ہے وہ اتنی ہی زیادہ بڑے بڑے جرائم جیسے،چوری،قتل وغارت گری، عصمت دری، جنسی بے راہ روی،خیانت اور بد اخلاقی کی آماج گا ہ ہے۔         

آزادی کا لغوی و اصطلاحی مفہوم:

 لفظ ِآزادی، عربی زبان  کے لفظ حرّیت (Freedom) کا ترجمہ ہے۔ لسان العرب کے مطابق ہر قابل فخر اور عمدہ چیز کو’حُرّ‘کہتے ہیں اور افعال میں ہراچھے کام پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور انسانوں میں اَحرار ان کو کہتے ہیں جو ان میں سب سے بہتر اور افضل ہوں۔ آزادی کا کوئی متعین،منضبط اصطلاحی مفہوم ایسا نہیں ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ہر مکتب فکر وفلسفہ نے اپنے اپنے  مفروضات کے مطابق اس کی تعبیر وتفسیر کی ہے۔1789ء میں حقوق انسانی کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ”آزادی یہ ہے کہ فردکو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے کرے بشر ط یہ کہ اس کے عمل سے دوسروں کو کوئی ضرر لاحق نہ ہو۔

(1)حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی ہجرت:

موسٰی علیہ السلام نے سالہا سال تک اللہ تعالیٰ کی آیات باہرہ دکھلا کر ہر طرح حجت تمام کر دی۔ اس پر بھی فرعون حق کو قبول کرنے اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے پر آمادہ نہ ہوا۔اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید کلی سورت طہ آیت 47تا 48میں اس طرچ بیان  کیا گیا ہے:

فَاْتِیٰهُ فَقُوْلَاۤ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ وَ لَا تُعَذِّبْهُمْؕ-قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكَؕ-وَ السَّلٰمُ عَلٰى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى٭ اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَاۤ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰى مَنْ كَذَّبَ وَ تَوَلّٰى ٭

ترجمہ کنز الایمان: تو اُس کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں تو اولاد یعقوب کو ہمارے ساتھ چھوڑ دے اور انہیں تکلیف نہ دے بےشک ہم تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے نشانی لائے ہیں اور سلامتی اُسے جو ہدایت کی پیروی کرے بےشک ہماری طرف وحی ہوئی ہے کہ عذاب اس پرہے جو جھٹلائےاورمنہ پھیرے۔

 یعنی تم ڈرو نہیں  اور فرعون کے پاس جاکر کہو : ہم تیرے رب عَزَّوَجَلَّکے بھیجے ہوئے ہیں  ،لہٰذا اے فرعون ، تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انہیں بندگی و اَسیری سے رہا کر دے اور ان سے محنت و مشقت کے سخت کام لے کر انہیں  تکلیف نہ دے۔ بیشک ہم تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے معجزات لے کر آئے ہیں  جو ہماری نبوت کی صداقت کی دلیل ہیں ۔ فرعون نے کہا: وہ معجزات کیا ہیں ؟ تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ہاتھ روشن ہونے کا معجزہ دکھایا (اور فرمایاجو ہدایت کی پیروی کرے اس کے لئے دونوں  جہان میں  سلامتی ہے اور وہ عذاب سے محفوظ رہے گا ۔بیشک ہماری طرف وحی ہوتی ہے کہ عذاب اس پر ہے جو ہماری نبوت کو اور ان اَحکام کو جھٹلائے جو ہم لائے ہیں  اور ہماری ہدایت سے منہ پھیرے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ۴۷-۴۸، ص۶۹۲، جلالین، طہ، تحت الآیۃ۴۷-۴۸، ص۲۶۳، ملتقطاً)

اس کے بعد حق تعالیٰ نے حکم دیا کہ سب بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر رات کے وقت مصر سے ہجرت کر جاؤ تا اس طرح بنی اسرائیل کی مظلومیت اور غلامی کا خاتمہ ہو۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرمایا ہے:

وَ لَقَدْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى ﳔ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًاۙ-لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّ لَا تَخْشٰى(سورۃ طہ :77)

ترجمہ کنز الایمان:اور بےشک ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے چل اور ان کے لیے دریا میں سوکھا راستہ نکال دے تجھے ڈر نہ ہوگا کہ فرعون آلے اور نہ خطرہ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ مصر نے رات کے وقت نکل گئے راستہ میں سمندر (بحر قلزم) حائل ہو گا  تو  اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی بھیجی کہ اپنا عصا دریا پر مارو، چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دریا پر عصا مارا تو اچانک وہ دریابارہ راستوں  میں  تقسیم ہوکر پھٹ گیا، ہر راستہ بڑے پہاڑ جیسا ہوگیا اور ان کے درمیان خشک راستے بن گئے جن پر چل کر بنی اسرائیل دریا سے پار ہو گئے۔(جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ۶۳، ص۳۱۲)

پیچھے سے فرعون اپنے عظیم الشان لشکر کو لئے تعاقب کرتا آ رہا تھا ۔ خشک راستہ دیکھ کر ادھر ہی گھس پڑا۔ جس وقت بنی اسرائیل عبور کر گئے اور فرعونی لشکر راستہ کے بیچوں بیچ پہنچا خدا تعالیٰ نےسمندر کو ہر طرف سے حکم دیا کہ ان سب کو اپنی آغوش میں لے لے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے: فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِهٖ فَغَشِیَهُمْ مِّنَ الْیَمِّ مَا غَشِیَهُمْؕ(سورۃ طہ : 78)

ترجمہ کنز الایمان: تو ان کے پیچھے فرعون پڑا اپنے لشکر لے کر تو انہیں دریا نے ڈھانپ لیا جیسا ڈھانپ لیا۔

(2) نبی کریم ﷺ کی ہجرتِ مدینہ:

مشرکینِ مکّہ کاظلم وستم  بڑھا تو اہلِ ایمان بارگاہِ رسالت سے اجازت پاکر مکّہ شریف سے مدینۂ منوّرہ ہجرت کرگئے،پھر جب کفّار نے غلبۂ اسلام سے خوف زدہ  ہو کر حضور ﷺ کےقتل کاناپاک منصوبہ بنایا توبحکمِ الٰہی آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی سیّدنا صدیقِ اکبر﷜ کے ساتھ ہجرت فرمائی۔(سبل الہدیٰ والرشاد،ج3،ص224- 231) 

کفّار کا سخت پہرا تھا، آپ ﷺ حضرت سیّدناعلی یکَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجہَہُ الْکریم کو اپنے بستر پر لِٹاکر سورہ ٔ یٰسین کی آیات تلاوت کرتے ہوئے اُن کفارکے سروں پر مٹی ڈال کر کاشانۂ اقدس سے نکل گئے،حضرت سیّدُنا ابوبکرصدیق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو ساتھ لیااورمکّۂ مکرمہ کی دائیں جانب 4کلومیٹر پر واقع غارِ ثور میں قیام فرما یا۔(سیرۃ ابن ہشام، ص193)

راستے میں سیّدنا صدیق ِاکبر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کبھی حضور ﷺ کے دائیں بائیں اور کبھی آگے پیچھے چلتے کہ کہیں کوئی گھات لگانے والا نقصان نہ پہنچادے۔ چلنے میں مبارک انگلیاں دُکھنے لگیں تو انہوں نےآپﷺ کو کندھوں پراُٹھالیا اورغارتک لے گئے،پہلے خود داخل ہوئے تاکہ کوئی مُوذی جانور ہو تو مجھے تکلیف پہنچائےاورمیرےآقا ﷺ محفوظ رہیں۔(لبابُ الاحیاء،ص160) 

غارِثور میں حضرت سیّدنا عبداللہ بن ابوبکر، حضرت سیّدتنا اسماء اورحضرت سیّدنا عامر بن فَہِیْرہ ﷢، خبریں پہنچانے،کھانا کھلانے اور دوود ھ پلانے کی خدمت بجا لاتے رہے۔(سیرۃ ابن ہشام، ص194)

کفّار آپ کی تلاش میں غارِ ثَور پر بھی پہنچے مگراللہ کریم نے محفوظ رکھاجس کا بیان  سورۂ توبہ میں ہے: ترجمہ کنزالایمان:بیشک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہواصرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بیشک اللہ  ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ (اطمینان) اتارا۔ (پ10،التوبہ:40)غارِ ثور میں تین دن قیام کے بعد سوئے مدینہ روانہ ہوئے۔ 

 یکم ربیعُ الاوّل بروز پیر سفرِہجرت کا آغازہوا اور12 ربیعُ الاوّل کو قُبا میں  پہنچے،حضرت کلثوم بن ھِدْم ﷜کے یہاں چند دن قیام  فرمایا(السیرۃ الحلبیہ،ج2،ص72)

اسی  دوران مسجدِ قبُا تعمیر فرمائی  جس کی شان و عظمت  پرسورۂ توبہ  کی آیت 108 گواہ ہے۔  قبیلۂ بنوسالم میں پہلا جمعہ ادا فرمایا۔ (فتاویٰ رضویہ،ج8،ص313) ؎

بُرَیْدہ اَسلمی پکڑنے آئے مگر محبتِ رسول کے اسیر ہوگئے اور عرض کییَارَسُوْلَ اللہ!مدینہ میں آپ کا داخلہ جھنڈے کے ساتھ ہوگا، پھرانہوں نے اپنے عمامہ کو جھنڈابنالیا۔(السیرۃ الحلبیہ،ج2،ص71)

 اہلِ مدینہ روزانہ راستوں پر بیٹھ کرتاجدارِ دوجہاںﷺکاانتظارکیاکرتےتھے،جب آپ نے سرزمینِ مدینہ کو شرفِ قدم بوسی بخشا تو اہلِ مدینہ دیکھتے ہی  پکاراٹھےاَللہُ اَکْبَر ُ، جَاءَنَا رَسُوْلُاللہِ جَاءَ مُحَمَّدٌ یعنی رسول ِ کریم حضرت محمد  ہمارے پاس تشریف لے آئے۔ عورتوں، بچّوں اور کنیزوں نے یوں نعت پڑھی:طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ۔وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعٍ یعنی وداع کی گھاٹیوں سے ہم پرچاند طلوع کرآیا،دعا کرنے والے جب تک دعا کریں ہم پر شکر واجب ہے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد،ج3،ص271)

نیز مرد،عورتیں چھتوں پر چڑھ گئے جبکہ  بچّے اورغلام گلیوں میں یوں نعرے لگانے لگےیَا مُحَمَّدُ یَارَسُوْلَ اللہ،یَا مُحَمَّدُ  یَا رَسُوْلَ اللہ۔( مسلم،ص1228،حدیث:7522)

(3)ہجرتِ حبشہ:

پہلی ہجرت :پہلی ہجرت میں، حبشہ جانے والوں میں مردوں کی تعداد 11 اور عورتوں کی تعداد 4تھی مشرکین نے انکا پیچھا کیا لیکن ان تک رسائی حاصل نہ کر سکے. مسلمان ابھی حبشہ میں تھے کہ انکو اطلاع دی گئی کہ قریش کے مشرکین نے اسلام قبول کر لیا ہے لہذا مسلمان مکہ واپس لوٹ آئے. جب مکہ کے نزدیک پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی ہے(تاریخ الطبری /ترجمہ،ج۳،ص:۸۸۲) لیکن چونکہ مسلمان اب واپس نہیں لوٹ سکتے تھے اس لئے ایک ایک ہو کر مختلف لوگوں سے مدد لیتے ہوئے شہر میں داخل ہو گئے.( آفرینش وتاریخ/ترجمہ،ج۲،ص:۶۵۴) ان مہاجرین میں سے ایک عثمان بن مظعون تھے جنھوں نے ایک مشرک کے گھر پناہ لی ہوئی تھی لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ دوسرے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور آزار و اذیت دی جا رہی ہے تو انھوں نے بھی اپنی پناہ کو ترک کر دیا. عثمان کو اذیت وآزار برداشت کرنے کے بعد خوشی کا احساس ہو رہا تھا( دلائل النبوة/ترجمہ،ج۲،ص:۴۹)

دوسری ہجرت: دوسری بار دوبارہ پیغمبر اسلامﷺ کے حکم سے مسلمانوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی اس بار مسلمانوں کی سرپرستی جعفربن ابی طالب کے ذمہ تھی اس میں مہاجرین کی تعداد 83 افراد تھی۔( آفرینش وتاریخ /ترجمہ،ج۲،ص:۶۵۵)

ہجرت حبشہ کے واقعہ میں مسلمانوں کا ایک گروہ مکہ کے مشرکین کے ظلم وستم کی وجہ سے حبشہ کی جانب روانہ ہوا. یہ ہجرت بعثت کے پہلے سالوں میں رسول اللہ ﷺ کے حکم سے کی گئی، قریش نے ان مسلمانوں کو مکہ واپس لانے کے لئے عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کو حبشہ روانہ کیا لیکن نجاشی مسلمان مہاجرین کے سرپرست جعفر بن ابی طالب کی گفتگو سے متاثر ہوئےاس لئے قریش کی طرف سے آئے ہوئے افراد خالی ہاتھ لوٹ گئے۔ 

(4)ہندستان سے پاکستان ہجرت:

 

 

 

 

 

 


دنیائے عالم میں بعض اوقات ایسے واقعات رونماہوتے ہیں جو خودبخود تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اور عوام صدیوں تک ان واقعات کو فراموش نہیں کرتے ہیں ایسے واقعات کے اندر ماضی حال اور مستقبل کے لئے درس  کا شدت سے احسا س ہوتاہے ، برصغیر کی تاریخ میں بھی ایک ایسا عظیم واقع رونماہوا ہے ، جس کو تقسیم ہند کی ہجرت کے نام سے یاد کیا جاتاہے ، اگر چہ ہجرت کا مطلب ہے کہ بعض وجوہات سے ایک جگہ چھوڑکر دوسری جگہ میں آباد ہو نا اور جب سے دنیاکا وجود ہوا ہے ہجرت کے مختلف واقعات اور حالات رونماہوئے ہیں ، برصغیر میں ہندو اور مسلمان صدیوں سے آباد تھے اور برصغیر کے مختلف صوبوں اور علاقوں میں مسلم اور غیر مسلم کی ملی جلی بستیاں تھی ، مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت کے بعد 1857 ء کی جنگ آزادی انگر یزوں کے خلاف بھی دونوں اقوام نے مل کر لڑی تھی ، لیکن ہندواکثریت کی بناپر برصغیر میں قا بض ہونا چاہتے تھے ، جس کی وجہ سے اس زمانے کے دس کروڈ مسلمانوں  کا مفاد اس میں تھا ، کہ وہ اپنے لئے علیحدہ وطن کا قیام عمل میں لائے جس کے لئے مسلم لیگ کا قیام اور تحریک پاکستان کا آغاز ہوا جس کا نتیجہ1940 کی قراداد پاکستان 1945کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کی تاریخی کا میابی اور 14 اگست میں قیام پاکستان کی شکل میں سامنے آگیا ، ان حالات کی وجہ سے ایک ہی خطے میں صدیوں سے رہنے والے ہندومسلم عوام ایک دوسرے کے مخالف صف میں کھڑے ہوئے ، اور بڑی تعداد میں برصغیر میں فسادات کا آغاز ہوگیا، برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے والے برصغیر کو پاکستان اور ہندستان میں تقسیم کیے جانے کے بعد دونوں اطراف میں مذہبی بنیادوں پر فسادات اتنے بڑے پیمانے پر شروع ہوگئے تھے کہ جس پر قابو پانا پولیس اور فوج کے بھی بس کی بات نہیں تھی ، ان حالات میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں ، تقسیم ہند کے وقت دونوں اقوام کے درمیان خونزیز فسادات ہوئے ایسے ہندو جو کئی نسلوں سے ان علاقوں میں رہ رہے تھے جو پاکستان کا حصہ بن گئے ، انہیں راتوں رات اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھارت جانا پڑا جبکہ کئی میلین مسلمانوں کو سرحد پار کر کے پاکستان ہجرت کرنا پڑی ۔

ہجرت کے اعداد و شمار:

دنیا کی تاریخ میں تقسیم ہند کی ہجرت کو سب سے بڑی ہجرت کا نام دیاجاتا ہے جس میں کل ایک اندازے کے مطابق ایک کروڈ 73 لاکھ افرادا نے ہجرت کی جن میں 65 لاکھ مسلمانوں نے مغربی پاکستان  کا رخ کا اور تقریبا 8 لاکھ افراد نے مشرقی  پاکستان کا رخ کیا  اور ان کے علاوہ کچھ لوگوں نے پاکستان کے  کے مختلف علاقوں سے ارض پاک کا رخ کیا ، کچھ افراد کے عرب ممالک کی طرف رخ کرنے کو پسند  کیا ۔ جب کہ  55 لاکھ ہندو مغربی پاکستان اور بنگال سے ہندوستان کا رخ کیا ۔ اس دوران پر تشدت واقعات میں 20 لاکھ افراد ہلاک ہوئے جن میں 15 لاکھ سے زاہد مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا ہجرت کے دوران 50 ہزار خواتین اغوا ہوئی ، اور تقریباًہزاروں شیر خوار بچوں کو تلواروں سے قتل کیا گیا۔ ہزاروں خواتین کی عزتیں پامال ہوئی ، برطانوں حکومت نے ایک سازش کے تحت ہندوں میں اسلحہ تقسیم کیا ، اور ہندوں کی سازش میں آکر پٹیالہ میں سکھ فوج نے مسلمانوں کے اوپر جو ظلم کے پہاڑ ڈالے ان کو تاریخ کیسے فراموش کرے گی،امرستر اور جالندمیں سیکھوں نے سینکڑوں نوجوان مسلم خواتین کو برہنہ کر کے ان سے پریڈکرودیا ،اور زیادتی کے بعد ان کو قتل کردیا گیا بے سروسامان مسلم قافلوں پر ایسے حملے کئے کہ بچھرنے والے پھر کبھی زندگی میں نہ ملے ، مسلم قافلوں کو ٹرینوں کے زد میں لاکر انہیں لہولہان کر دیا ۔

 دنیاکی تاریخ میں ہجرت کے دوران جو مصائب مسلمانوں نے برداشت کیے ان کی مثال کہی نہیں ملتی ، پاکستان کی محبت میں وطن جان مال عزت آبرو اور اولاد تک مسلم قوم نے قربان کر کے پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے اگر تقسیم ہند سے متاثر افراد کے واقعات اور کہانیوں کا مجموعہ جمع کیاجائے تو ان کی تعداد 2000 سے زاہد بنتی ہے ، تاریخ برصغیر کے ان واقعات کا جائزہ لینے سے یہ پتہ چلتاہے کہ اس زمانے کے مسلمانوں نے مملکت خداداد کو بنانے اور محفوظ رکھنے کے لئے کتنی بڑی قربانیاں دی ہے ، جس کا اندازہ لگانابہت مشکل ہے ۔


                                                           
لہذا ضرورت اس امرکی ہے کہ ہمیں 1947 میں رونماہونے والے انقلاب ہجرت کو صرف داستانوں کی حدتک رکھنانہیں چاہیے ۔ بلکہ دنیاکی اس سب سے بڑی ہجرت سے سبق لیتے ہوئے ہمیں اپنے وطن ملک اور قوم کے لئے ہرقسم کی قربانی دینے سے دریخ نہیں کرناچاہیے ۔          

  از: ذیشان علی عطاری مدنی