نور کسے کہتے ہیں ؟
1- نور کسے کہتے ہیں ؟
2- نورانیتِ مصطفٰی کے بارے میں اہلسنت و جماعت کا کیا عقیدہ ہے ؟
3- نورانیت کے عقیدے پر قرآنِ کریم و احادیثِ مبارکہ سے دلائل بیان کریں ؟
4- نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت کا انکار کرنا کیسا ہے ؟
سائل : عبداللہ قادری
بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
1- نور کے لغوی معنی ہیں : روشنی، چمک دمک، اجالا۔
اور نور کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ جو خود ظاہر ہو اور دوسروں کو ظاہر کر دے.
فائدہ :
نور کی دو قسمیں ہیں :
1- نورِ حسی :
وہ نور جو حواسِ خمسہ کے ذریعے سے جانا جائے جیسے سورج، چاند، بجلی وغیرہ
2- نورِ معنوی :
وہ نور جس کے ذریعے جہالت و گمراہی کی تاریکیوں کو دور کیا جائے جیسے علم، قرآن، دینِ اسلام، اس کو نورِ عقلی بھی کہا جاتا ہے حضور علیہ السلام نور حسی بھی ہیں اور نور عقلی بھی.
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"نُور عرفِ عامہ میں ایک کیفیت ہے کہ نگاہ پہلے اسے ادراک کرتی ہے اور اس کے واسطے سے دوسری اشیائے دیدنی کو۔
قال السید فی تعریفاتہ النور کیفیۃ تدرکھا الباصرۃ اولا و بواسطتھا سائر المبصرات.
علامہ سید شریف جرجانی نے فرمایا :
نور ایک ایسی کیفیت ہے جس کا ادراک قوت باصرہ پہلے کرتی ہے پھر اس کے واسطے سے تمام مبصرات کا ادراک کرتی ہے.
(التعریفات للجرجانی، تحت اللفظ ''النور'' 1577، صفحہ 195، دارالکتاب العربی بیروت)
اور حق یہ کہ نور اس سے اجلی ہے کہ اس کی تعریف کی جائے۔یہ جو بیان ہوا تعریف الجلی بالخفی ہے کما نبہ علیہ فی المواقف و شرحھا (جیسا کہ مواقف اور اس کی شرح میں اس پر تنبیہ کی گئی ہے۔ ت) نور بایں معنی ایک عرض و حادث ہے اور رب عزوجل اس سے منزہ۔ محققین کے نزدیک نور وہ کہ خود ظاہر ہو اور دوسروں کا مظہر، کما ذکرہ الامام حجۃ الاسلام الغزالی الی ثم العلامۃ الزرقانی فی شرح المواھب الشریفۃ (جیسا کہ حجۃ الاسلام امام غزالی نے پھر شرح مواہب شریف میں علامہ زرقانی نے ذکر فرمایا ہے۔ ت) بایں معنی اللہ عزوجل نور حقیقی ہے بلکہ حقیقۃ وہی نور ہے اور آیہ کریمہ اللہ نور السموت و الارض (اللہ تعالی نور ہے آسمانوں اور زمین کا۔ ت) بلاتکلف و بلادلیل اپنے معنی حقیقی پر ہے۔
(القرآن الکریم 24/ 35)
فان اللہ عزوجل ھو الظاھر بنفسہ المظھر لغیرہ من السموت و الارض و من فیھن و سائر المخلوقات۔
کیونکہ اللہ عزوجل بلاشبہ خود ظاہر ہے اور اپنے غیر یعنی آسمانوں، زمینوں، ان کے اندر پائی جانے والی تمام اشیاء اور دیگر مخلوقات کو ظاہر کرنے والا ہے.
(فتاوی رضویہ جلد 30 صفحہ 664، 665 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
2- نورانیت کے متعلق اہلسنّت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ ﷲ پاک نورِ حقیقی ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ پاک نے اپنے نورِ ذاتی سے پیدا فرمایا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے تمام جہان کو پیدا فرمایا۔
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم بلاشبہ اللہ عزوجل کے نورِ ذاتی سے پیدا ہیں۔
حدیث شریف میں وارد ہے :
ان اللہ تعالی قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ۔ رواہ عبدالرزاق و نحوہ عندالبیھقی۔
اے جابر! بیشک اللہ تعالی نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔(اس کو عبدالرزاق نے روایت کیا اور بیہقی کے نزدیک اس کے ہم معنی ہے۔ ت)
(المواہب اللدنی بحوالہ عبدالرزاق، المقصد الاول، جلد 1 صفحہ 71 المکتب الاسلامی بیروت)
حدیث میں ''نورہ'' فرمایا جس کی ضمیر اللہ کی طرف ہے کہ اسم ذات ہے من نور جمالہ یا نور علمہ یا نور رحمتہ (اپنے جمال کے نور سے یا اپنے علم کے نور سے یا اپنی رحمت کے نور سے۔ ت) وغیرہ نہ فرمایا کہ نور صفات سے تخلیق ہو۔
علامہ زرقانی رحمہ اللہ تعالی اسی حدیث کے تحت میں فرماتے ہیں :
(من نورہ) ای من نور ھو ذاتہ
یعنی اللہ عزوجل نے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جو اس نور سے پیدا کیا جو عین ذات الہی ہے ، یعنی اپنی ذات سے بلاواسطہ پیدا فرمایا، کما سیأتی تقریرہ (جیسا کہ اس کی تقریر عنقریب آرہی ہے۔ ت)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ، المقصد الاول، جلد 1 صفحہ 46 دارالمعرفہ بیروت)
امام احمد قسطلانی مواہب شریف میں فرماتے ہیں :
لما تعلقت ارادۃ الحق تعالی بایجاد خلقہ ابرز الحقیقۃ المحمدیۃ من الانوار الصمدیۃ فی الحضرۃ الاحدیۃ ثم سلخ منہا العوالم کلھا علوھا وسفلھا
یعنی جب اللہ عزوجل نے مخلوقات کو پیدا کرنا چاہا صمدی نوروں سے مرتبہ ذات صرف میں حقیقت محمدیہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ظاہر فرمایا، پھر اس سے تمام علوی و سفلی نکالے۔
(المواہب اللدنیۃ، المقصد الاول، جلد 1 صفحہ 55 المکتب الاسلامی بیروت)
شرح علامہ میں ہے :
و الحضرۃ الاحدیۃ ھی اول تعینات الذات و اول رتبھا الذی لا اعتبار فیہ لغیر الذات کما ھو المشار الیہ بقولہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کان اللہ و لا شیئ معہ ذکرہ الکاشی
یعنی مرتبہ احدیت ذات کا پہلا تعین اور پہلا مرتبہ ہے جس میں غیر ذات کا اصلا لحاظ نہیں جس کی طرف نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اس ارشاد میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالی تھا اوراس کے ساتھ کچھ نہ تھا، اسے سیدی کاشی قدس سرہ، نے ذکر فرمایا ۔
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ، المقصد الاول، جلد 1 صفحہ 27 دارالمعرفۃ بیروت)
(فتاویٰ رضویہ جلد 30 صفحہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
3- حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ﷲ پاک کا نور ہیں اور تمام مخلوق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے بنی ہے، اس پر آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ مبارکہ گواہ ہیں، چنانچہ اللہ پاک قرآنِ کریم میں فرماتا ہے :
"قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ"
ترجمہ : بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔
(پارہ 6، سورۃ المائدہ : 15)
جمہور مفسرين کے نزدیک اس آیت میں نور سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مراد ہے۔
چنانچہ تفسیر جلالین میں اس آیت کے تحت یہ فرمایا :
"ھو نور النبی"
یعنی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور ہے.
(تفسیر جلالین، صفحہ 97، مطبوعہ اصح المطابع دہلی)
تفسیر بیضاوی میں ہے :
"و قیل یرید باالنور محمد علیہ السلام"
یعنی اور کہا گیا ہے کہ نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
(حاشیۃ بیضاوی، جلد 2، صفحہ 307، مطبوعہ دارالفکر بیروت)
تفسير مدارک میں اسی آیت کے ما تحت فرمایا :
"او النور محمد علیہ السلام لانہ یھتدی بہ کما سمی سراجا"
یعنی یا نور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اس لئے کہ حضور سے ہدایت ملتی ہے جیسا کہ رب عزوجل نے انہیں سورج فرمایا.
(تفسیر مدارک التنزیل، جلد 1، صفحہ 276، مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت)
تفسیر ابن عباس میں اس آیت کے ماتحت یہ فرمایا :
"(قد جاءکم من الله نور) رسول یعنی محمدا"
یعنی تحقیق تمہارے پاس ﷲ پاک کی طرف سے نور یعنی رسول محمد آئے ہیں.
(تفسیر ابن عباس، فی تفسیر سورۃ المائدۃ، سورۃ 5، آیت : 15، صفحہ 90، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
تفسیر روح البیان میں اسی آیت کے ماتحت یہ فرمایا ہے :
"و قیل المراد بالاول ھو رسول ﷲ علیہ السلام بالثانی القرآن"
یعنی اور کہا گیا ہے کہ اول (نور) سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور ثانی (کتاب) سے مراد قرآنِ پاک ہے.
(تفسیر روح البیان، جلد 2، صفحہ 447، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)
تفسیر بغوی میں اسی آیت کے ماتحت یہ تحریر فرمایا :
"یعنی نور محمد علیہ سلام"
یعنی نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
(تفسیر بغوی، جلد 2، صفحہ 22، مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت)
تفسیر صاوی میں اسی آیت کے تحت یہ تحریر فرمایا :
"قول ھو النبی ای سمی نور لانہ بنورالبصائر ویھدیھا الرشاد ولانہ اصل کل نور حسمی و معنوی"
یعنی صاحبِ تفسیر جلالین کا کہنا کہ نور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں یعنی اللہ پاک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس لئے نور فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بصارتوں کو نورانی کرتے ہیں اور کامیابی کی طرف ہدایت دیتے ہیں اور اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر حسی اور معنوی نور کی اصل ہیں۔
(حاشیۃ الصاوی علی الجلالین المعروف تفسیرِ صاوی، جلد 1، صفحہ 268، مطبوعہ مصطفیٰ البابی مصر)
محمد بن جریر ابو جعفر طبری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"یعنی بالنور محمد صلی اللہ علیہ وسلم"
یعنی نور سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مراد ہیں۔
(تفسیر طبری، جلد 10، صفحہ 143، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)
وہابیوں کا امام شوکانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے :
"قال الزجاج : النور محمد صلی اللہ علیہ وسلم"
ترجمہ : زجاج نے کہا : نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
(فتح القدیر، جلد 2، صفحہ 28، دار ابن کثیر بیروت)
نوٹ :
تفسیر خازن، تفسیر واحدی، الجواھرالحسان فی تفسیر القرآن المعروف تفسیر ثعلبی، تفسیر ابو سعود، نراد المسیر وغیرہ میں اسی آیت کے ماتحت نور سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس مراد لی گئی ہے.
ایک اور مقام پر اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :
"یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ، وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا"
ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی)! بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔ اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکا دینے والا آفتاب۔
(پارہ 22، سورۃ الاحزاب : 45 ،46)
اس آیتِ کریمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سراجاً منیراً (یعنی چمکا دینے والا سورج) فرمایا گیا کہ جس طرح سورج اپنی روشنی سے پوری دنیا کو روشن کر رہا ہے، اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے نور سے تمام جہانواں کو روشن فرما رہے ہیں اور جس طرح چاند اور تارے، سورج سے روشنی حاصل کر رہے ہیں، اسی طرح تمام جہان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے فیض لے کر اپنے آپ کو روشن و منور کئے ہوئے ہیں۔
احادیث مبارکہ سے ثبوت :
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی :
"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بابی انت و امتی اخبرنی عن اول شییء خلقہ اللہ قبل الاشیاء، قال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا جابر! ان اللہ خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ فجعل ذالک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء اللہ تعالی و لم یکن فی ذالک الوقت لوح و لا قلم و لا جنۃ و لا نار و لا ملک و لا سماء و لا شمس و لا قمر و لا جن و لا انس فلما اراد اللہ تعالیٰ ان یخلق الخلق قسم ذالک النور اربعۃ اجزاء فخلق من أجزاء الاول القلم، و من الثانی اللوح و من الثالث العرش ثم قسم اجزاء الرابع اربعۃ اجزاء"
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے خبر دیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے سب اشیاء سے پہلے کس شئی کو پیدا فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اے جابر! اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں سے پہلے تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا فرمایا، پھر یہ نور قدرت الٰہی سی جہاں اللہ پاک کو منظور ہوا سیر کرتا رہا، اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت نہ دوزخ، نہ فرشتے تھے، نہ آسمان (و زمین)، نہ چاند تھا نہ انسان پھر جب اللہ تعالیٰ نے اور مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے کئے ایک حصے سے قلم، دوسرے حصے سے لوح، تیسرے حصے سے عرش کو پیدا فرمایا اور چوتھے حصے کو پھر چار حصوں میں تقسیم کیا۔
(یہ حدیث بہت طویل ہے، اختصارا لکھ دی گئی ہے۔)
(الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف صفحہ 63، 64، رقم الحدیث : 18، مطبوعہ بیروت، مواھب اللدنیہ، جلد 1، صفحہ 71، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت، شرح زرقانی، جلد 1، صفحہ 89، 90، 91، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، السیرہ الحلبیہ جلد 1، صفحہ 50، مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت، نشرالطیب، صفحہ 13، مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی لاہور، تفسیر روح المعانی، جلد 8، صفحہ 71، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، فتاویٰ رضویہ، جلد 30، صفحہ 658، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :
"کنت اخیط فی السحر فسقطت منی الابرۃ فطلبتھا فلم اقدر علیھا فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتبینت الابرۃ بشعاع نور وجھہ"
یعنی سحری کے وقت (گھر) میں کپڑے سی رہی تھی کہ اچانک سوئی مجھ سے گر گئی (اور ساتھ ہی ہوا کے جھونکے سے چراغ بھی بجھ گیا تو) میں نے اس سوئی کو ڈھونڈھا لیکن وہ مجھے نہ ملی، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں داخل ہوئے تو آپکے چہرے انور کے نور کی شعاع سے وہ گمشدہ سوئی واضح ہو گئی (مل گئی).
(الخصائص الکبری،ٰ باب الایۃ فی وجھہ الشریف، جلد 1، صفحہ 107، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، حجۃ اللہ علی العلمین صفحہ 681 مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ لائلپور، القول البدیع صفحہ 302 مؤسسۃ الریان بیروت)
حضرت عبداللہ ان عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں :
"کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افلج الثنتین اذا تکلم رئی کالانور یخرج من بین الثنایاہ"
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اگلے دندان مبارک کے درمیان کھڑکی (خلا) تھی، جب گفتگو فرماتے تو دیکھا جاتا کہ گویا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اگلے مبارک دانتوں کی مقدس کھڑکیوں سے نور نکل رہا ہے.
(سنن دارمی، جلد 1، صفحہ 44، رقم الحدیث : 58، دار الکتب العربی بیروت، طبرانی کبیر، جلد 1، صفحہ 416، رقم 12181، مکتبہ العلوم و الحکم الموصل، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، جلد 8، صفحہ 279، مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت، دلائل النبوۃ للبقھی، جلد 1، صفحہ 215، دارالکتب العلمیہ بیروت)
حضرت سیدنا اسید بن ابی اناس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مدینے کے تاجدار نے ایک بار میرے چہرے اور سینے پر اپنا دست پر انور پھیر دیا اس کی برکت یہ ظاہر ہوئی کہ میں جب بھی کسی اندھیرے گھر میں داخل ہوتا تو وہ روشن ہو جاتا.
(الخصائص الکبریٰ، جلد 2، صفحہ 142، دارالکتب العلمیہ بیروت، تاریخ دمشق جلد 20، صفحہ 21)
شفاء شریف میں ہے :
"جب رحمت عالم علیہ صلی اللہ علیہ وآلہ مسکراتے تھے تو در و دیوار روشن ہو جاتے."
(الشفاء، صفحہ 61، مرکز اہل سنت برکات رضا ہند)
4- بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت نور ہے مگر بشریت کے انکار کی اجازت نہیں کیونکہ مطلقاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت کا مطلقاً انکار کرنا کفر ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت عام انسانوں کی طرح نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سَیِّدُ البشر، اَفْضَلُ البشر اور خَیْرُ البشر ہیں.
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت کا مطلقاََ انکار کفر ہے."
(فتویٰ رضویہ جلد 14 صفحہ 358 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
نوٹ :
نور کے مسئلہ پر تفصیلی معلومات حاصل کے لیے حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمة الله عليه کا "رسالہ نور" کا مطالعہ فرمائیں.
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ
ابواسیدعبیدرضامدنی رئیس مرکزی دارالافتاء اہلسنّت عیسیٰ خیل ضلع میانوالی
09/11/2020
03068209672
تصدیق و تصحیح :
الجواب صحیح و محقق و الحق احق ان یتبع۔
مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری، مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی۔